کیا حکومت معاشی چیلنجز سے نمٹ پائے گی
دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کب اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گا
NEW DELHI:
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ٹیکنیکل سطح کے مذاکرات شروع ہوگئے ہیں، مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط جاری ہوگی ، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس موقعے پر کہا کہ حکومت موجودہ معاشی پریشانیوں کو سمجھتی ہے۔
اس بات پر متفق ہے کہ اسے متوسط طبقے اور کم آمدنی والے افراد پر افراط زر کے اثرات کو کم کرتے ہوئے سخت فیصلے کرنے ہوں گے، اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر صرف 10.3 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو بمشکل چھ ہفتے تک معیشت چلانے کے لیے کافی ہوں گے جب کہ دوسری جانب ذرایع کے مطابق حکومت نے غیر ضروری اور لگژری اشیاء کی درآمد پر مکمل پابندی کا فیصلہ کرلیا ہے ۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مالی معاملات بھی سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملکی معیشت غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوچکی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی سرگرمیوں اور گروہی و ذاتی مفادات کی جنگ نے پاکستان سے معاشی ابتری کا خاتمہ نہیں ہونے دیا۔
موقع پرست حکمران ملک کو خود انحصاری کے بجائے غیر ملکی قرضوں میں پھنساتے چلے گئے ہیں۔آج بھی صورتحال میں کوئی فرق نہیں ہے۔ریاست کے اسٹیک ہولڈرز حالات کی سنگینی اور نزاکت کی پروا کیے بغیر ملک کو سیاسی عدم استحکام کی نذر کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور ملک کا باشعور طبقہ بے بسی کی تصویر بنا سب کچھ دیکھا رہا لیکن اس کے پاس یہ طاقت اور اختیار نہیں کہ ملک کا خون چوسنے والی جونکوں کو انجام تک پہنچا سکے۔
ملک میں معاشی بحران گہرے سے گہرا ہوتا جارہا ہے ، موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے تو عالمی ادارے نے حکومت سے اصرار کیا کہ پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کی جائے تاکہ پٹری سے اترے ہوئے پروگرام کو واپس بحال کیا جا سکے۔پاکستان کی حکومت تاحال سخت فیصلے نہیں لے سکی۔ ادھر ملک میں سیاسی عدم استحکام ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے پورے ملک میں روزانہ کی بنیاد پر احتجاجی جلسوں سے خطاب کررہے ہیں ، وہ جلد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنے والے ہیں ، برسراقتدار قیادت بھی گرما گرما بیانات جاری کررہی ہے جب کہ آئینی و قانونی محاذ پر اقتدار کی جنگ لڑی جارہی ہے ۔
ایک آئینی مقدمے یا ریفرنس کا فیصلہ آتا ہے تو دوسری پیٹیشن دائر ہوجاتی ہے ،اس وقت بھی مختلف قسم کی آئینی و قانونی معاملات پر عدالتی کارروائیاں جاری ہیں، ایسا لگ رہا کہ ملک میں کوئی بھی حکومت نہیں ہے، ریاست کے سارے ستون من مانی کررہے ہیں، ملک میں غیریقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، معاشی بحران بے قابو ہونے کی دیر ہے ، پھر انارکی اور انتشار کو پھیلنے سے روکنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔
نئی حکومت کو ایک عجیب سی صورت حال کا سامنا ہوگا ، اگر حکومت تحریک انصاف کے مظاہروں کے خلاف طاقت استعمال کرتی ہے تو مظاہرے متشدد ہو سکتے ہیں کیونکہ اس وقت پی ٹی آئی کچھ بھی کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے اور اگر حکومت پی ٹی آئی کے احتجاج کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہے، تو پی ٹی آئی سن دو ہزار چودہ کی طرح دھرنے دے کر کاروبار زندگی کو معطل کرسکتی ہے۔ سیاسی مقاصد کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں دھڑا دھڑ آئینی و قانونی درخواستیں دائر ہورہی ہیں،جس کی وجہ سے ملک کا انتظامی ڈھانچہ مفلوج ہوگیا ہے۔
بلاشبہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک قومی ایجنڈا ہونا چاہیے۔ قومی ایجنڈے کے بغیر عدم استحکام بڑھے گا۔ حالیہ دنوں میں وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کیا ہے لیکن کہا جارہا ہے کہ دوست ممالک حتیٰ کہ چین بھی اسی صورت معاشی مسائل سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کریں گے جب آئی ایم ایف پاکستان کے لیے اپنا پروگرام بحال کرے۔ اس وقت ملک میں مہنگائی عروج پر ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مسلسل کم ہورہی ہے۔
ملک پر ایک سو بلین ڈالرز سے زیادہ کا قرضہ پہلے ہی چڑھا ہوا ہے اور روپے کی قدر کم ہونے سے یہ قرضہ مزید بڑھے گا ۔ مہنگائی نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں،معیشت کو ٹریک پر لانے کے لیے کام شروع ہوتا ہے تو حکومت آئینی الجھنوں میں پھنس جاتی ہے، چند سیاسی لیڈر روزانہ کی بنیاد پر گھیراؤ جلاؤکے نعرے بلند کررہے ہیں، پوری دنیا میں جمہوریت کا دم بھرنے والی سیاسی قیادت گھیراؤ جلاؤ جیسے نعرے نہیں لگاتی لیکن پاکستان میں یہ طرز کلام بغیر کسی خوف کے جاری و ساری ہے۔
غربت میں خوف ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ،کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں،ملک میں اناج کی قلت پیدا ہورہی ہے، لیکن ریاست کے اسٹیک ہولڈر قوم کے ٹیکسوں سے تنخوائیں اور مراعات حاصل کررہے ہیں لیکن بدلے میں ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
آخر ایسا کب تک چلے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کب اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گا، کب تک ہم قرض کی مئے پیتے رہیں گے ، کب غریب آدمی بنیادی ضروریات زندگی سے بہرہ ور ہو گا ،ہمیں یہ کب سمجھ آئے گی کہ غربت ایک سائنس ہے اور اس کا خاتمہ بھی سائنٹیفک بنیادوں پر ہی ہوتا ہے۔
اگر تاریخ کے حوالے سے جائزہ لیں تو اس میں دو آرا نہیں ہو گی کہ امریکا اور یورپ کی ترقی و خوشحالی کا راز صنعت کے فروغ میں تھا اور ہے یہ ممالک صنعت سازی کی وجہ سے ہی ویلفیئر اسٹیٹ کہلاتے ہیں جب کہ بدقسمتی سے پاکستانی صنعت سازی کو جن بنیادی عناصر نے مجروح کیا ہے ان کا تدارک نہیں کیا گیا قیادت کی بندش، معاشی حکمت عملی کا قحط، اقتصادی بانجھ پن، افراط زر کا بڑھنا، خریدار کی قلت اور عالمی منڈی سے دوری وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے ہمارا صنعتی نظام روبہ زوال چلا آ رہا ہے اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کو غربت کی ذلت سے نکلنے کے لیے تحقیقی فکر و نظر کی روشنی میں پرکھ نہیں کی گئی۔
اگر ہم پاکستان کو غربت کی ذلت سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو ترقی یافتہ ممالک کے مالیاتی فارمولوں کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے جدید تقاضوں کے تناظر میں افرادی قوت کو استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہو گی جس صنعت کے لیے ضروری ہے المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی کشمکش اور دولت کی ہوس کی وجہ سے بڑی صنعت لگانے کا ماحول ختم ہو گیا ہے۔صنعت سازی میں تین اہم درجات ہوتے ہیں بڑی صنعت، درمیانی صنعت، چھوٹی گھریلو صنعت ہر ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات ہر وقت یکساں نہیں رہتے۔
معاشی بدحالی سے نکلنے کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت درپیش رہتی ہے۔ چین، تائیوان اور ملائیشیا نے غربت سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے ملکوں میں درمیانی اور چھوٹی صنعت سے بڑی صنعت کی راہ ہموار کی ۔
درمیانی اور چھوٹی صنعتوں کو آسان اقساط پر قرضے دیے اور حکومتی سطح پر اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ ان صنعتوں کی معیاری مصنوعات کو عالمی منڈی میں متعارف کروایا جائے گا اسی بنیاد پر چین کی معاشی حکمت عملی نے جاپان کی عالمی منڈی سے اجارہ داری ختم کی۔ یہ چھوٹی صنعتوں کا ہی اعزاز تھا کہ چین نے اپنے عوام کو غربت کی ہزیمت و خواری سے رہائی دلائی۔ باقاعدہ چھوٹی صنعت سازی کے لیے ٹھوس بنیادوں پر لائحہ عمل تیار کیا جس کی وجہ سے چین آج دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے۔
پاکستان ساخت کے لحاظ سے ایک زرخیز اور معدنیات سے مالا مال ملک ہے جس میں غربت سے چھٹکارے کے لیے بے تحاشہ افرادی قوت کا سمندر بھی ٹھاٹھیں مار رہا ہے جس میں دس کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے بھی ہیں صرف لائحہ عمل کی ضرورت ہے ہر گاؤں کی سطح پر کاٹیج انڈسٹری لگانے سے مقامی سطح پر روزگار ملے گا اور نوکری کے لیے شہروں میں جانے میں کمی واقع ہو گی۔
اس سے پہلے کہ یہاں چھوٹی صنعت لگانے میں بھی سرکاری و سیاسی پیچیدگی حائل ہونی شروع ہو جائیں یہاں تائیوان، جنوبی کوریا ، ملائیشیا اور چین کی طرح درمیانی، چھوٹی اور گھریلو صنعت لگانے کے رواج کو فروغ دیا جائے حکومتی سطح پر ان صنعتوں کو بجلی پانی اور گیس میں خصوصی چھوٹ دی جائے آسان شرائط (کم ریٹ) پر قرض دیا جائے اور اس امر کی ماہرین معاشیات، اسمال انڈسٹری ایسوسی ایشنز اور پاکستان کے مختلف چیمبر آف کامرس سے مل کر ایسی حکمت عملی بنائی جائے کہ ان چھوٹی صنعتوں سے بنا ہوا مال یقینی طور پر عالمی منڈی تک پہنچایا جا سکے تاکہ مسابقت کا سفر شروع ہو سکے۔
پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے آدھی آبادی خواتین کو جو گھروں میں بیکار بیٹھی ہیں انھیں غربت کے خاتمے کے لیے قومی دھارے میں شامل کر کے گھریلو صنعتوں کا جال بچھایا جائے اور پورے پاکستان میں ہر چار سو کلومیٹر کے فاصلے پرا سمال انڈسٹری زون بنائے جائیں اس سے کم از کم پچاس ہزار نوکریاں ملیں گی۔ کم از کم دس افراد والی صنعت کو کاٹیج صنعت کا درجہ دیا جائے۔ غربت کے گرداب میں پھنسے ہوئے لوگوں کے وسیع تر مفاد میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
چھوٹی صنعت غربت کو ختم کر سکتی ہے ہمیں ملک میں چھوٹی صنعت لگانے کا کلچر پیدا کرنا ہے ہمارے یہاں آج تک اجتماعی غربت دور کرنے کا کوئی پلان تشکیل نہیں دیا گیا۔ پاکستان میں معاشی زوال پذیری کی وجہ سے چالیس فیصد سے زائد بڑی صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور کچھ ہونے کو تیار ہیں۔ یورپ کی جی ایس پی پلس GENERALIZED SYSTEM PREFER PLUS اسکیم کی وجہ سے پاکستانی صنعت کو تھوڑا بہت سنبھالا ملا ہے۔ معاشیات سے متعلقہ ادارے اور ماہرین اس امر پر نظر رکھیں کہ اگر آبادی اور غربت کی پیمائش کی جائے تو ہمارے یہاں درمیانی، چھوٹی اور گھریلو صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ملک کی اکانومی حیران کن تک پسماندگی کی طرف جا رہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمی اور افراط زر کے اضافے نے پاکستانی معیشت کو تہہ و بالا کر دیا ہے جو لمحہ فکریہ ہے صنعت کسی بھی ملک کے مالیاتی معاملات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جو پاکستان میں عرصہ دراز سے عدم توجہ کا شکار ہے۔
پاکستان میں صنعت کا زوال ناقابل فراموش نقصان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے چھوٹی صنعت کے لگانے سے لے کر، معیاری پروڈکٹ کے بنانے تک کے اجزاء ترکیبی کو تحقیقی فکر و نظر کی روشنی میں پرکھا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ درمیانی، چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کی آبیاری سے ملک و قوم خوشحالی کے مراحل طے کر سکے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ٹیکنیکل سطح کے مذاکرات شروع ہوگئے ہیں، مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط جاری ہوگی ، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس موقعے پر کہا کہ حکومت موجودہ معاشی پریشانیوں کو سمجھتی ہے۔
اس بات پر متفق ہے کہ اسے متوسط طبقے اور کم آمدنی والے افراد پر افراط زر کے اثرات کو کم کرتے ہوئے سخت فیصلے کرنے ہوں گے، اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر صرف 10.3 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو بمشکل چھ ہفتے تک معیشت چلانے کے لیے کافی ہوں گے جب کہ دوسری جانب ذرایع کے مطابق حکومت نے غیر ضروری اور لگژری اشیاء کی درآمد پر مکمل پابندی کا فیصلہ کرلیا ہے ۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مالی معاملات بھی سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملکی معیشت غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوچکی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی سرگرمیوں اور گروہی و ذاتی مفادات کی جنگ نے پاکستان سے معاشی ابتری کا خاتمہ نہیں ہونے دیا۔
موقع پرست حکمران ملک کو خود انحصاری کے بجائے غیر ملکی قرضوں میں پھنساتے چلے گئے ہیں۔آج بھی صورتحال میں کوئی فرق نہیں ہے۔ریاست کے اسٹیک ہولڈرز حالات کی سنگینی اور نزاکت کی پروا کیے بغیر ملک کو سیاسی عدم استحکام کی نذر کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور ملک کا باشعور طبقہ بے بسی کی تصویر بنا سب کچھ دیکھا رہا لیکن اس کے پاس یہ طاقت اور اختیار نہیں کہ ملک کا خون چوسنے والی جونکوں کو انجام تک پہنچا سکے۔
ملک میں معاشی بحران گہرے سے گہرا ہوتا جارہا ہے ، موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے تو عالمی ادارے نے حکومت سے اصرار کیا کہ پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کی جائے تاکہ پٹری سے اترے ہوئے پروگرام کو واپس بحال کیا جا سکے۔پاکستان کی حکومت تاحال سخت فیصلے نہیں لے سکی۔ ادھر ملک میں سیاسی عدم استحکام ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے پورے ملک میں روزانہ کی بنیاد پر احتجاجی جلسوں سے خطاب کررہے ہیں ، وہ جلد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنے والے ہیں ، برسراقتدار قیادت بھی گرما گرما بیانات جاری کررہی ہے جب کہ آئینی و قانونی محاذ پر اقتدار کی جنگ لڑی جارہی ہے ۔
ایک آئینی مقدمے یا ریفرنس کا فیصلہ آتا ہے تو دوسری پیٹیشن دائر ہوجاتی ہے ،اس وقت بھی مختلف قسم کی آئینی و قانونی معاملات پر عدالتی کارروائیاں جاری ہیں، ایسا لگ رہا کہ ملک میں کوئی بھی حکومت نہیں ہے، ریاست کے سارے ستون من مانی کررہے ہیں، ملک میں غیریقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، معاشی بحران بے قابو ہونے کی دیر ہے ، پھر انارکی اور انتشار کو پھیلنے سے روکنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔
نئی حکومت کو ایک عجیب سی صورت حال کا سامنا ہوگا ، اگر حکومت تحریک انصاف کے مظاہروں کے خلاف طاقت استعمال کرتی ہے تو مظاہرے متشدد ہو سکتے ہیں کیونکہ اس وقت پی ٹی آئی کچھ بھی کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے اور اگر حکومت پی ٹی آئی کے احتجاج کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہے، تو پی ٹی آئی سن دو ہزار چودہ کی طرح دھرنے دے کر کاروبار زندگی کو معطل کرسکتی ہے۔ سیاسی مقاصد کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں دھڑا دھڑ آئینی و قانونی درخواستیں دائر ہورہی ہیں،جس کی وجہ سے ملک کا انتظامی ڈھانچہ مفلوج ہوگیا ہے۔
بلاشبہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک قومی ایجنڈا ہونا چاہیے۔ قومی ایجنڈے کے بغیر عدم استحکام بڑھے گا۔ حالیہ دنوں میں وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کیا ہے لیکن کہا جارہا ہے کہ دوست ممالک حتیٰ کہ چین بھی اسی صورت معاشی مسائل سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کریں گے جب آئی ایم ایف پاکستان کے لیے اپنا پروگرام بحال کرے۔ اس وقت ملک میں مہنگائی عروج پر ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مسلسل کم ہورہی ہے۔
ملک پر ایک سو بلین ڈالرز سے زیادہ کا قرضہ پہلے ہی چڑھا ہوا ہے اور روپے کی قدر کم ہونے سے یہ قرضہ مزید بڑھے گا ۔ مہنگائی نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں،معیشت کو ٹریک پر لانے کے لیے کام شروع ہوتا ہے تو حکومت آئینی الجھنوں میں پھنس جاتی ہے، چند سیاسی لیڈر روزانہ کی بنیاد پر گھیراؤ جلاؤکے نعرے بلند کررہے ہیں، پوری دنیا میں جمہوریت کا دم بھرنے والی سیاسی قیادت گھیراؤ جلاؤ جیسے نعرے نہیں لگاتی لیکن پاکستان میں یہ طرز کلام بغیر کسی خوف کے جاری و ساری ہے۔
غربت میں خوف ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے ،کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں،ملک میں اناج کی قلت پیدا ہورہی ہے، لیکن ریاست کے اسٹیک ہولڈر قوم کے ٹیکسوں سے تنخوائیں اور مراعات حاصل کررہے ہیں لیکن بدلے میں ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
آخر ایسا کب تک چلے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کب اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گا، کب تک ہم قرض کی مئے پیتے رہیں گے ، کب غریب آدمی بنیادی ضروریات زندگی سے بہرہ ور ہو گا ،ہمیں یہ کب سمجھ آئے گی کہ غربت ایک سائنس ہے اور اس کا خاتمہ بھی سائنٹیفک بنیادوں پر ہی ہوتا ہے۔
اگر تاریخ کے حوالے سے جائزہ لیں تو اس میں دو آرا نہیں ہو گی کہ امریکا اور یورپ کی ترقی و خوشحالی کا راز صنعت کے فروغ میں تھا اور ہے یہ ممالک صنعت سازی کی وجہ سے ہی ویلفیئر اسٹیٹ کہلاتے ہیں جب کہ بدقسمتی سے پاکستانی صنعت سازی کو جن بنیادی عناصر نے مجروح کیا ہے ان کا تدارک نہیں کیا گیا قیادت کی بندش، معاشی حکمت عملی کا قحط، اقتصادی بانجھ پن، افراط زر کا بڑھنا، خریدار کی قلت اور عالمی منڈی سے دوری وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے ہمارا صنعتی نظام روبہ زوال چلا آ رہا ہے اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کو غربت کی ذلت سے نکلنے کے لیے تحقیقی فکر و نظر کی روشنی میں پرکھ نہیں کی گئی۔
اگر ہم پاکستان کو غربت کی ذلت سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو ترقی یافتہ ممالک کے مالیاتی فارمولوں کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے جدید تقاضوں کے تناظر میں افرادی قوت کو استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہو گی جس صنعت کے لیے ضروری ہے المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی کشمکش اور دولت کی ہوس کی وجہ سے بڑی صنعت لگانے کا ماحول ختم ہو گیا ہے۔صنعت سازی میں تین اہم درجات ہوتے ہیں بڑی صنعت، درمیانی صنعت، چھوٹی گھریلو صنعت ہر ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات ہر وقت یکساں نہیں رہتے۔
معاشی بدحالی سے نکلنے کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت درپیش رہتی ہے۔ چین، تائیوان اور ملائیشیا نے غربت سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے ملکوں میں درمیانی اور چھوٹی صنعت سے بڑی صنعت کی راہ ہموار کی ۔
درمیانی اور چھوٹی صنعتوں کو آسان اقساط پر قرضے دیے اور حکومتی سطح پر اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ ان صنعتوں کی معیاری مصنوعات کو عالمی منڈی میں متعارف کروایا جائے گا اسی بنیاد پر چین کی معاشی حکمت عملی نے جاپان کی عالمی منڈی سے اجارہ داری ختم کی۔ یہ چھوٹی صنعتوں کا ہی اعزاز تھا کہ چین نے اپنے عوام کو غربت کی ہزیمت و خواری سے رہائی دلائی۔ باقاعدہ چھوٹی صنعت سازی کے لیے ٹھوس بنیادوں پر لائحہ عمل تیار کیا جس کی وجہ سے چین آج دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے۔
پاکستان ساخت کے لحاظ سے ایک زرخیز اور معدنیات سے مالا مال ملک ہے جس میں غربت سے چھٹکارے کے لیے بے تحاشہ افرادی قوت کا سمندر بھی ٹھاٹھیں مار رہا ہے جس میں دس کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے بھی ہیں صرف لائحہ عمل کی ضرورت ہے ہر گاؤں کی سطح پر کاٹیج انڈسٹری لگانے سے مقامی سطح پر روزگار ملے گا اور نوکری کے لیے شہروں میں جانے میں کمی واقع ہو گی۔
اس سے پہلے کہ یہاں چھوٹی صنعت لگانے میں بھی سرکاری و سیاسی پیچیدگی حائل ہونی شروع ہو جائیں یہاں تائیوان، جنوبی کوریا ، ملائیشیا اور چین کی طرح درمیانی، چھوٹی اور گھریلو صنعت لگانے کے رواج کو فروغ دیا جائے حکومتی سطح پر ان صنعتوں کو بجلی پانی اور گیس میں خصوصی چھوٹ دی جائے آسان شرائط (کم ریٹ) پر قرض دیا جائے اور اس امر کی ماہرین معاشیات، اسمال انڈسٹری ایسوسی ایشنز اور پاکستان کے مختلف چیمبر آف کامرس سے مل کر ایسی حکمت عملی بنائی جائے کہ ان چھوٹی صنعتوں سے بنا ہوا مال یقینی طور پر عالمی منڈی تک پہنچایا جا سکے تاکہ مسابقت کا سفر شروع ہو سکے۔
پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے آدھی آبادی خواتین کو جو گھروں میں بیکار بیٹھی ہیں انھیں غربت کے خاتمے کے لیے قومی دھارے میں شامل کر کے گھریلو صنعتوں کا جال بچھایا جائے اور پورے پاکستان میں ہر چار سو کلومیٹر کے فاصلے پرا سمال انڈسٹری زون بنائے جائیں اس سے کم از کم پچاس ہزار نوکریاں ملیں گی۔ کم از کم دس افراد والی صنعت کو کاٹیج صنعت کا درجہ دیا جائے۔ غربت کے گرداب میں پھنسے ہوئے لوگوں کے وسیع تر مفاد میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
چھوٹی صنعت غربت کو ختم کر سکتی ہے ہمیں ملک میں چھوٹی صنعت لگانے کا کلچر پیدا کرنا ہے ہمارے یہاں آج تک اجتماعی غربت دور کرنے کا کوئی پلان تشکیل نہیں دیا گیا۔ پاکستان میں معاشی زوال پذیری کی وجہ سے چالیس فیصد سے زائد بڑی صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور کچھ ہونے کو تیار ہیں۔ یورپ کی جی ایس پی پلس GENERALIZED SYSTEM PREFER PLUS اسکیم کی وجہ سے پاکستانی صنعت کو تھوڑا بہت سنبھالا ملا ہے۔ معاشیات سے متعلقہ ادارے اور ماہرین اس امر پر نظر رکھیں کہ اگر آبادی اور غربت کی پیمائش کی جائے تو ہمارے یہاں درمیانی، چھوٹی اور گھریلو صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ملک کی اکانومی حیران کن تک پسماندگی کی طرف جا رہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمی اور افراط زر کے اضافے نے پاکستانی معیشت کو تہہ و بالا کر دیا ہے جو لمحہ فکریہ ہے صنعت کسی بھی ملک کے مالیاتی معاملات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جو پاکستان میں عرصہ دراز سے عدم توجہ کا شکار ہے۔
پاکستان میں صنعت کا زوال ناقابل فراموش نقصان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے چھوٹی صنعت کے لگانے سے لے کر، معیاری پروڈکٹ کے بنانے تک کے اجزاء ترکیبی کو تحقیقی فکر و نظر کی روشنی میں پرکھا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ درمیانی، چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کی آبیاری سے ملک و قوم خوشحالی کے مراحل طے کر سکے۔