ماحولیاتی تبدیلی اور شدید گرمی کی لہر
آبی گزرگاہوں کے کیچمنٹ ایریاز ہم نے آبادیاں بسا کر بند کر دیے ہیں۔
چولستان کے وسیع صحرا میں پانی اور خوراک ناپید ہے۔ہر سو موت کا رقص ہے۔جدھر نگاہ اُٹھائیں،مردہ مویشیوں کی لاشیں دکھائی دیتی ہیں۔صحرا میں رہنے والے اکثر افراد کا گزر بسر ان ہی مویشیوں کی بدولت ہے۔
وہ ان ہی کے گوشت سے پیٹ بھرتے اور انھی کے دودھ سے توانائی حاصل کرتے اور پیاس بجھاتے ہیں۔یہی مویشی ان کی کل کائنات ہوتے ہیں۔انھی کو بیچ کر شادی بیاہ اور دوسرے اخراجات نکالتے ہیں۔کوئی صحرا کے ان باسیوں سے پوچھے کہ بڑے پیمانے پر مویشیوں کی اموات کیونکر ان کی زندگیوں کو ویران کیے دیتی ہیں۔کاش چولستان جیپ ریلی میں شرکت کرنے والے اہلِ ثروت ان غریبوں کے دکھ کا کوئی مداوا کریں۔بہت سے ممالک ڈرپ واٹر کے ذریعے صحراؤں کو گلزار وں میں تبدیل کر رہے ہیں ۔
مدینہ منورہ سے تبوک کم و بیش سات سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔راستے میں کوئی ویرانی سی ویرانی ہے لیکن تبوک سے ڈیڑھ سو کلومیٹر پہلے صحرا کے عین وسط میں جا بجا گندم کی فصل کے لہلہاتے کھیت ایسا دلفریب نظارہ پیش کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔
اسی صحرا میں مناسب پانی کا بندوبست کرکے مختلف فصلیں ،سبزیاں اور پھل اگائے جا رہے ہیں۔ریتلے صحرا میں اگائی گئی یہاں کی گندم دنیا کی بہترین گندم کے طور پر جانی جاتی ہے۔یہاں سے پھول برآمد کیے جا رہے ہیں۔ بہترین حکمتِ عملی،مناسب مقدار میں پانی کی فراہمی اور تھوڑی سی محنت سے صحراؤں کو گلزار بنایا جا سکتا ہے۔کاش ہم پاکستان میں ایک مربوط حکمتِ عملی سے چولستان،بلوچستان اور وسرے غیر آبادعلاقوں پر توجہ کر کے انھیں گلزاروں میں بدل دیں۔
امسال پاکستان میں موسمِ گرما وقت سے بہت پہلے آ گیا۔مارچ،اپریل کی دھوپ میں وہ تمازت دکھائی دی جو جون جولائی میں عمومی طور پر ہوتی ہے۔گویا موجودہ سخت گرمی کی لہر وقت سے بہت پہلے شروع ہو گئی۔مارچ اور اپریل میں اس سال اوسط درجہء حرارت ساؤتھ ایشیا کی تاریخ کا بلند ترین تھا۔1901میں پہلی دفعہ برِ صغیر میں گرمی ماپنے کا نظام شروع ہوا۔اُس وقت سے لے کر اب تک مارچ اپریل میں کبھی اتنا زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ نہیں ہوا۔ذرا سوچیں ایسے میں بلوچستان میں سبی اور اس کے گردو نواح کا کیا حال ہو گا۔
چولستان کی تپتی ریت کیا قیامت ڈھا رہی ہو گی۔تھر میں پانی کی کمی وہاں کے باسیوں کو کن مجبوریوں میں جکڑ رہی ہوگی۔ٹی وی چینلز اور اخبارات حیدرآباد شہر کے اطراف جام شورو کے علاقے میں دریائے سندھ میں بہتے پانی کے بجائے دور دور تک ریت،مٹی اور ویرانی دکھا رہے ہیں۔سکھر اور گدو بیراج پر پانی کی شدید کمی ہے۔وہاں سے نکلنے والی نہریں خشک پڑی ہیں۔پانی نہ ملنے کی وجہ سے اس موسم میں گنے کی فصل کو بہت نقصان کا اندیشہ ہے۔گنے کی فصل اچھی نہ ہوئی تو چینی کا بحران جنم لے گا۔گدو اور سکھر بیراج میں پانی کی قلت کی وجہ سے بین الصوبائی تعلقات پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔
صدیوںسے تشکیل پاتی انسانی تہذیب و تمدن اور موجودہ دور کے لائف اسٹائل نے ہمارے کرہء ارض کی قدرتی کلائمیٹ کو بہت تباہ و برباد کیا ہے جس کے نتیجے میں زمین پر انسانی بود و باش اور Eco Systems کو شدید خطرات لاحق ہیں۔مسلسل بڑھتے درجہء حرارت اور کلائیمیٹ چینج کے برے اثرات سے پوری زمین اور انسانی زندگی کا ہر شعبہ بلکہ ہر آدمی کی زندگی بری طرح متاثر ہونے جا رہی ہے۔گرم ہوا سے سمندروں کا پانی معمول سے زیادہ گرم ہو رہا ہے اور برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ہر دم بڑھتے صنعتی عملIndustrial activityکے نتیجے میں چمنیوں سے نکلتی زہریلی اور نقصان دہ گیسوں کا اخراج زمین کی فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔آرکیٹک ریجن میں ہزاروں سالوں پر محیطEco system تہہ و بالا ہو رہا ہے۔
کیا ان مہلک تبدیلیوں کے لیے ہم سورج یا قدرت کو ذمے وار ٹھہرا سکتے ہیں۔ہر گز نہیں۔یہ ہم انسانوں کا کیا کرایا ہے۔ہمیں اب تک معلوم ہو جانا چاہیے تھا کہ ہم ایک گرین ہاؤس میں رہ رہے ہیں۔زمین پر زندگی کا انحصار سورج سے آنے والی تونائی اور روشنی پر ہے۔
یہ توانائی اور روشنی زمین پر پہنچنے سے پہلے زمین کی فضا اور بادلوں سے گزرتی ہے اور زمین پر پہنچ کر اس کی سظح پر پہلے جذب ہو تی ہے اور پھر انفرا ریڈ حرارت کی شکل میں واپس فضا کی طرف لوٹتی ہے تاکہ خلا میں نکل جا ئے ، زمین کی فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کے بہت زیادہ جمع ہونے کی وجہ سے واپس پلٹتی انفراریڈ حرارت کا نوے فیصد زمینی فضا میں موجود گرین ہاؤس گیسوں میں جذب ہوکر زمین کی سطح کی طرف Radiateہو جاتا ہے۔انسانی کارروائیوں خاص کر فاسل فیولFossil Fuelکے جلنے سے زمین کی فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بہت بڑھ چکی ہے اور یہ گیسز انفرا ریڈ حرارت کو بلاک کرکے نکلنے نہیں دیتیں اس لیے زمین کی سطح کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔
مردہ جانور اور درخت مر کر زمین کے پیٹ میںچلے جاتے ہیں اور لمبے عرصے میں Decomposeہو کر کوئلے،تیل اور گیس میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔انھی کو Fossil Fuelکہا جاتا ہے جن کے جلنے سے توانائی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں لیکن ان کے جلنے سے گرین ہاؤس گیسوں کا مہلک اخراج بھی ہوتا ہے۔آبی بخارات،نائٹرس آکسائڈ، کاربن ڈائی آکسائڈ، میتھین اور کلوروفلورو کاربن بھی فضا کو بہت گندا بنا رہی ہیں۔
پاکستان کلائیمیٹ چینج سے بہت زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ہم اس وقت پانی کے بحران سے دوچار ہیں۔ملک کے اندر بارشیں مناسب مقدار میں ہو نہیں رہیں۔ ہمارے آبی ذخائر سکڑ رہے ہیںاور زمین کے اندر واٹر لیول خطرناک حد تک نیچے جا رہا ہے۔کھیتوں ،کھلیانوں کے قریب جوہڑ سوکھ چکے ہیں۔
آبی گزرگاہوں کے کیچمنٹ ایریاز ہم نے آبادیاں بسا کر بند کر دیے ہیں۔ جنگلات کی اندھا دھند کٹائی بڑے پیمانے پر Deforestationکا سبب بن رہی ہے۔ جنگلات کی کمی کی وجہ سے جہاں درجہء حرارت بڑھ رہا ہے وہیں مفید جڑی بوٹیاں ختم ہو رہی ہیں اور جنگلی حیات معدوم ہونے کے قریب ہے۔ صبح ہوتے ہی پرندوں کی چہچہاہٹ فضا میں نغمگی بکھیر دیتی تھی اب اگر کہیں تتلی بھی نظر آ جائے تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے ۔
کسی جانور کی ہلاکت پر Vulturesکے غول کے غول اُمڈ آتے تھے ان مرے جانور وں کی لاشیںگلتی،سڑتی اور تعفن پھلاتی رہتی ہیں لیکن Vulturesنہیں آتے۔پارسی کیمونٹی کو اپنی میتیں ٹھکانے لگانی مشکل ہیں۔مناسب بارشیں نہ ہونے سے زمین کے اندر جاری پانی کے سوتے خشک ہو رہے ہیں۔گھروں میں بور کا پانی نیچے ہی نیچے ہوتا جا رہا ہے۔
وزارتِ موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن وہاں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اس اہم سبجیکٹ پر عبور رکھتا ہو۔ایشوز کی آگاہی کے بغیر کیسے اچھی پالیسیاں بنائی جا سکتی ہیں۔یہ ایک سنجیدہ،مشکل اور قدرے نیا سبجیکٹ ہے۔یہ اتنا اہم ہے کہ ہر وقت اس پر کہیں نہ کہیں کانفرنس ہو رہی ہوتی ہے۔ہماری وزارت اور ایجنسی بھی ایسی بے شمار کانفرنسوں میں شریک ہوتی ہے لیکن پاکستانی وفد میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو متعلقہ موضوع سے کلی آگاہی رکھتا ہو۔
ہم صرف بیرونی دورے کے لیے جاتے ہیں اور عام طور پر واپس آ کر کوئی رپورٹ بھی نہیں دیتے۔پاکستان انوائرنمنٹ ایجنسی اپنا کام نہیں کر رہی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس وفاقی ایجنسی کے اندر صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اپنا کام صحیح طریقے سے کر سکے۔ ہمارے رویے ایسے ہیں کہ اربوں روپے سے انڈسٹریل یونٹ تو لگا لیتے ہیں لیکن انڈسٹریل فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے چھوٹا سا ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کے بجائے کسی ندی، نالے، دریا یا سمندر میں ڈال کر صاف پانی زہریلا اورگندا کر دیتے ہیں۔
اگر ہم نے کلائیمیٹ چینج کو سنجیدہ نہ لیا تو خدا نخواستہ فصلیں خراب ہوں گی۔شاید خشک سالی کا سامنا بھی کرنا پڑے۔گلیشیئر اچانک پگھل کر ٹوٹیں گے۔ بارشیں یا تو سرے سے ہوں گی ہی نہیں یا پھر بہت زیادہ اور اچانک ہوں گی جس سے سیلاب آئیں گے۔ گرمیوں کا موسم پہلے ہی طویل ہو چکا ہے۔فوڈ سپلائی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ہمیں مربوط حکمت ِعملی سے آگے بڑھنا ہو گا،کاربن نیوٹرل اکانومی کی طرف پیش رفت کرنی ہو گی اور کلائیمیٹ چینج کی تبدیلی کو اپنا قومی مسئلہ سمجھ کر اس کے برے اثرات کو کم سے کم کرنا ہو گا۔
وہ ان ہی کے گوشت سے پیٹ بھرتے اور انھی کے دودھ سے توانائی حاصل کرتے اور پیاس بجھاتے ہیں۔یہی مویشی ان کی کل کائنات ہوتے ہیں۔انھی کو بیچ کر شادی بیاہ اور دوسرے اخراجات نکالتے ہیں۔کوئی صحرا کے ان باسیوں سے پوچھے کہ بڑے پیمانے پر مویشیوں کی اموات کیونکر ان کی زندگیوں کو ویران کیے دیتی ہیں۔کاش چولستان جیپ ریلی میں شرکت کرنے والے اہلِ ثروت ان غریبوں کے دکھ کا کوئی مداوا کریں۔بہت سے ممالک ڈرپ واٹر کے ذریعے صحراؤں کو گلزار وں میں تبدیل کر رہے ہیں ۔
مدینہ منورہ سے تبوک کم و بیش سات سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔راستے میں کوئی ویرانی سی ویرانی ہے لیکن تبوک سے ڈیڑھ سو کلومیٹر پہلے صحرا کے عین وسط میں جا بجا گندم کی فصل کے لہلہاتے کھیت ایسا دلفریب نظارہ پیش کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔
اسی صحرا میں مناسب پانی کا بندوبست کرکے مختلف فصلیں ،سبزیاں اور پھل اگائے جا رہے ہیں۔ریتلے صحرا میں اگائی گئی یہاں کی گندم دنیا کی بہترین گندم کے طور پر جانی جاتی ہے۔یہاں سے پھول برآمد کیے جا رہے ہیں۔ بہترین حکمتِ عملی،مناسب مقدار میں پانی کی فراہمی اور تھوڑی سی محنت سے صحراؤں کو گلزار بنایا جا سکتا ہے۔کاش ہم پاکستان میں ایک مربوط حکمتِ عملی سے چولستان،بلوچستان اور وسرے غیر آبادعلاقوں پر توجہ کر کے انھیں گلزاروں میں بدل دیں۔
امسال پاکستان میں موسمِ گرما وقت سے بہت پہلے آ گیا۔مارچ،اپریل کی دھوپ میں وہ تمازت دکھائی دی جو جون جولائی میں عمومی طور پر ہوتی ہے۔گویا موجودہ سخت گرمی کی لہر وقت سے بہت پہلے شروع ہو گئی۔مارچ اور اپریل میں اس سال اوسط درجہء حرارت ساؤتھ ایشیا کی تاریخ کا بلند ترین تھا۔1901میں پہلی دفعہ برِ صغیر میں گرمی ماپنے کا نظام شروع ہوا۔اُس وقت سے لے کر اب تک مارچ اپریل میں کبھی اتنا زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ نہیں ہوا۔ذرا سوچیں ایسے میں بلوچستان میں سبی اور اس کے گردو نواح کا کیا حال ہو گا۔
چولستان کی تپتی ریت کیا قیامت ڈھا رہی ہو گی۔تھر میں پانی کی کمی وہاں کے باسیوں کو کن مجبوریوں میں جکڑ رہی ہوگی۔ٹی وی چینلز اور اخبارات حیدرآباد شہر کے اطراف جام شورو کے علاقے میں دریائے سندھ میں بہتے پانی کے بجائے دور دور تک ریت،مٹی اور ویرانی دکھا رہے ہیں۔سکھر اور گدو بیراج پر پانی کی شدید کمی ہے۔وہاں سے نکلنے والی نہریں خشک پڑی ہیں۔پانی نہ ملنے کی وجہ سے اس موسم میں گنے کی فصل کو بہت نقصان کا اندیشہ ہے۔گنے کی فصل اچھی نہ ہوئی تو چینی کا بحران جنم لے گا۔گدو اور سکھر بیراج میں پانی کی قلت کی وجہ سے بین الصوبائی تعلقات پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔
صدیوںسے تشکیل پاتی انسانی تہذیب و تمدن اور موجودہ دور کے لائف اسٹائل نے ہمارے کرہء ارض کی قدرتی کلائمیٹ کو بہت تباہ و برباد کیا ہے جس کے نتیجے میں زمین پر انسانی بود و باش اور Eco Systems کو شدید خطرات لاحق ہیں۔مسلسل بڑھتے درجہء حرارت اور کلائیمیٹ چینج کے برے اثرات سے پوری زمین اور انسانی زندگی کا ہر شعبہ بلکہ ہر آدمی کی زندگی بری طرح متاثر ہونے جا رہی ہے۔گرم ہوا سے سمندروں کا پانی معمول سے زیادہ گرم ہو رہا ہے اور برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ہر دم بڑھتے صنعتی عملIndustrial activityکے نتیجے میں چمنیوں سے نکلتی زہریلی اور نقصان دہ گیسوں کا اخراج زمین کی فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔آرکیٹک ریجن میں ہزاروں سالوں پر محیطEco system تہہ و بالا ہو رہا ہے۔
کیا ان مہلک تبدیلیوں کے لیے ہم سورج یا قدرت کو ذمے وار ٹھہرا سکتے ہیں۔ہر گز نہیں۔یہ ہم انسانوں کا کیا کرایا ہے۔ہمیں اب تک معلوم ہو جانا چاہیے تھا کہ ہم ایک گرین ہاؤس میں رہ رہے ہیں۔زمین پر زندگی کا انحصار سورج سے آنے والی تونائی اور روشنی پر ہے۔
یہ توانائی اور روشنی زمین پر پہنچنے سے پہلے زمین کی فضا اور بادلوں سے گزرتی ہے اور زمین پر پہنچ کر اس کی سظح پر پہلے جذب ہو تی ہے اور پھر انفرا ریڈ حرارت کی شکل میں واپس فضا کی طرف لوٹتی ہے تاکہ خلا میں نکل جا ئے ، زمین کی فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کے بہت زیادہ جمع ہونے کی وجہ سے واپس پلٹتی انفراریڈ حرارت کا نوے فیصد زمینی فضا میں موجود گرین ہاؤس گیسوں میں جذب ہوکر زمین کی سطح کی طرف Radiateہو جاتا ہے۔انسانی کارروائیوں خاص کر فاسل فیولFossil Fuelکے جلنے سے زمین کی فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بہت بڑھ چکی ہے اور یہ گیسز انفرا ریڈ حرارت کو بلاک کرکے نکلنے نہیں دیتیں اس لیے زمین کی سطح کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔
مردہ جانور اور درخت مر کر زمین کے پیٹ میںچلے جاتے ہیں اور لمبے عرصے میں Decomposeہو کر کوئلے،تیل اور گیس میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔انھی کو Fossil Fuelکہا جاتا ہے جن کے جلنے سے توانائی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں لیکن ان کے جلنے سے گرین ہاؤس گیسوں کا مہلک اخراج بھی ہوتا ہے۔آبی بخارات،نائٹرس آکسائڈ، کاربن ڈائی آکسائڈ، میتھین اور کلوروفلورو کاربن بھی فضا کو بہت گندا بنا رہی ہیں۔
پاکستان کلائیمیٹ چینج سے بہت زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ہم اس وقت پانی کے بحران سے دوچار ہیں۔ملک کے اندر بارشیں مناسب مقدار میں ہو نہیں رہیں۔ ہمارے آبی ذخائر سکڑ رہے ہیںاور زمین کے اندر واٹر لیول خطرناک حد تک نیچے جا رہا ہے۔کھیتوں ،کھلیانوں کے قریب جوہڑ سوکھ چکے ہیں۔
آبی گزرگاہوں کے کیچمنٹ ایریاز ہم نے آبادیاں بسا کر بند کر دیے ہیں۔ جنگلات کی اندھا دھند کٹائی بڑے پیمانے پر Deforestationکا سبب بن رہی ہے۔ جنگلات کی کمی کی وجہ سے جہاں درجہء حرارت بڑھ رہا ہے وہیں مفید جڑی بوٹیاں ختم ہو رہی ہیں اور جنگلی حیات معدوم ہونے کے قریب ہے۔ صبح ہوتے ہی پرندوں کی چہچہاہٹ فضا میں نغمگی بکھیر دیتی تھی اب اگر کہیں تتلی بھی نظر آ جائے تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے ۔
کسی جانور کی ہلاکت پر Vulturesکے غول کے غول اُمڈ آتے تھے ان مرے جانور وں کی لاشیںگلتی،سڑتی اور تعفن پھلاتی رہتی ہیں لیکن Vulturesنہیں آتے۔پارسی کیمونٹی کو اپنی میتیں ٹھکانے لگانی مشکل ہیں۔مناسب بارشیں نہ ہونے سے زمین کے اندر جاری پانی کے سوتے خشک ہو رہے ہیں۔گھروں میں بور کا پانی نیچے ہی نیچے ہوتا جا رہا ہے۔
وزارتِ موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن وہاں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اس اہم سبجیکٹ پر عبور رکھتا ہو۔ایشوز کی آگاہی کے بغیر کیسے اچھی پالیسیاں بنائی جا سکتی ہیں۔یہ ایک سنجیدہ،مشکل اور قدرے نیا سبجیکٹ ہے۔یہ اتنا اہم ہے کہ ہر وقت اس پر کہیں نہ کہیں کانفرنس ہو رہی ہوتی ہے۔ہماری وزارت اور ایجنسی بھی ایسی بے شمار کانفرنسوں میں شریک ہوتی ہے لیکن پاکستانی وفد میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو متعلقہ موضوع سے کلی آگاہی رکھتا ہو۔
ہم صرف بیرونی دورے کے لیے جاتے ہیں اور عام طور پر واپس آ کر کوئی رپورٹ بھی نہیں دیتے۔پاکستان انوائرنمنٹ ایجنسی اپنا کام نہیں کر رہی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس وفاقی ایجنسی کے اندر صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اپنا کام صحیح طریقے سے کر سکے۔ ہمارے رویے ایسے ہیں کہ اربوں روپے سے انڈسٹریل یونٹ تو لگا لیتے ہیں لیکن انڈسٹریل فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے چھوٹا سا ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کے بجائے کسی ندی، نالے، دریا یا سمندر میں ڈال کر صاف پانی زہریلا اورگندا کر دیتے ہیں۔
اگر ہم نے کلائیمیٹ چینج کو سنجیدہ نہ لیا تو خدا نخواستہ فصلیں خراب ہوں گی۔شاید خشک سالی کا سامنا بھی کرنا پڑے۔گلیشیئر اچانک پگھل کر ٹوٹیں گے۔ بارشیں یا تو سرے سے ہوں گی ہی نہیں یا پھر بہت زیادہ اور اچانک ہوں گی جس سے سیلاب آئیں گے۔ گرمیوں کا موسم پہلے ہی طویل ہو چکا ہے۔فوڈ سپلائی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ہمیں مربوط حکمت ِعملی سے آگے بڑھنا ہو گا،کاربن نیوٹرل اکانومی کی طرف پیش رفت کرنی ہو گی اور کلائیمیٹ چینج کی تبدیلی کو اپنا قومی مسئلہ سمجھ کر اس کے برے اثرات کو کم سے کم کرنا ہو گا۔