پاتال
عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں پانچ چھ ارب ڈالر سے زائد سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا گیا ہے
RAWALPINDI:
سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں کرپشن، بدعنوانی اور منی لانڈرنگ نے ڈھائی کروڑ نفوس پر مشتمل ملک کو شدید معاشی، مالیاتی اور اقتصادی بحران کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔ ملک پر تقریباً پچاس ارب ڈالر سے زائد کے قرضے ہیں۔ سری لنکا کی معاشی و مالیاتی صورت حال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدتر سے بدترین ہوتی جا رہی ہے۔ کولمبو یونیورسٹی کے ماہر سماجیات راج کمار چندرا کا کہنا ہے کہ حالات اور واقعات اور معاشی و سیاسی حرکیات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین، مبصرین اور تجزیہ کار ایک طویل عرصے سے حکومتی عہدیداران اور اعلیٰ سرکاری شخصیات کو نہ صرف یہ کہ حالات کے سدھار کے حوالے سے قیمتی مشورے دے رہے تھے بلکہ انھیں خبردار کرتے چلے آ رہے تھے کہ سرکاری و غیر پیداواری اخراجات میں قابل ذکر کمی کی جائے کہ جس کی وجہ سے بجٹ خسارہ بڑھتا جا رہا ہے، لیکن افسوس کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، جن میں لبرل جمہوریت پسند اور سوشلسٹ سب ہی شامل ہیں کسی نے ماہرین کے انتباہ کو سنجیدہ نہ لیا اور پیش آمدہ خطرات سے بے فکر بقول علامہ اقبال:
تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی
کی تصویر بنے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج سری لنکا کو دیوالیہ قرار دیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ذمے داران اس بدنصیب ملک کی معاشی بدنظمی، بدعنوانی، اقتصادی بدحالی، مالیاتی بحران اور دیگر بدانتظامیوں کا ذمے دار ملک کے صدر ریٹائرڈ جنرل کوٹابایا راجہ اور ان کے قریبی ساتھیوں کو گردانتے ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں پانچ چھ ارب ڈالر سے زائد سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا گیا ہے۔ یہ قیاس بھی کیا جا رہا ہے کہ ملک سے لوٹی ہوئی یہ دولت ارجنٹائن کے بینکوں یا پھر یورپ کے مختلف بینکوں میں چھپائی گئی ہے۔
سری لنکا کے بدعنوانوں اور کرپٹ حکمرانوں کی بداعمالیوں کی سزا اب لنکن عوام بھگت رہے ہیں، جہاں مہنگائی کا طوفان آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ لوگ گلیوں اور سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں، ملک میں غذائی قلت پیدا ہوچکی ہے، بازار سنسان اور ویران ہیں، اسپتال میں دوائیں تک ناپید ہیں، سری لنکن ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں دواؤں کی عدم دستیابی اور آلات جراحی کی کمیابی کے باعث ایمرجنسی کی صورت میں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سری لنکن ارباب اختیار اور صاحب اقتدار اب سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ ملک کو اس معاشی بحران سے کیسے نکالا جائے۔ کون سی تدابیر اختیار کی جائیں، کون سے فیصلے اور اقدامات اٹھائے جائیں کہ ملک دیوالیہ صورت حال سے باہر نکل سکے۔
ملک میں سیاسی، معاشی اور اقتصادی استحکام آجائے، عوام مطمئن ہو جائیں، ملک کو ہنگامی صورت حال سے گلو خلاصی ملے، بیرونی مالیاتی اداروں کے ذمے داران کو مطمئن کیا جاسکے تاکہ مزید قرضے حاصل کرکے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جاسکے وغیرہ وغیرہ۔ترقی پذیر ملکوں کا یہی المیہ ہے کہ نااہل، کرپٹ اور بدعنوان حکمران جب ملک پر مسلط ہو جائیں تو قومی وسائل اور ملکی دولت پر ایسے ہاتھ صاف کرتے ہیں کہ اقتدار کی امانت انھیں خیانت کرنے ہی کے لیے سونپی گئی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خزانہ خالی اور معاشی بدحالی ملک کا مقدر بن جاتی ہے اور عوام غربت، بھوک، افلاس، مہنگائی اور بے روزگاری کی دلدل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔
ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے، ملک کا سالانہ بجٹ خسارے کی نذر ہو جاتا ہے، پھر ملک دیوالیہ نہ ہو تو کیا ہو؟ ان دنوں وطن عزیز کی معاشی، اقتصادی اور مالیاتی صورتحال زبوں حالی کا شکار اور پاتال کی سمت رواں دواں نظر آتی ہے۔ بیرونی قرضوں کا بھاری بوجھ، بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ، آئی ایم ایف کے مطالبات، سبسڈی کے خاتمے کے لیے دباؤ، نئے قرضوں کے حصول کی ضرورت، پھر مہنگائی گرانی کے طوفان سے عوام میں حکومت مخالف جذبات اور نفرت انگیزیاں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا مستقل ترین فیصلہ اور اس پس منظر میں عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل اور ریلیف فراہم کرنے کے دعوے کیوں کر پورے ہو سکیں گے اور اتحادیوں کو مطمئن کرنے کا مخمصہ جیسے بڑے گمبھیر اور مستقل چیلنجز اتحادی حکومت کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔
کابینہ ارکان کے ساتھ لندن جانے، وہاں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقاتوں کے بعد کسی اعلامیے کا جاری نہ ہونا اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ (ن) لیگ کی قیادت مشکل کا تنہا بوجھ اٹھانے پر تیار نہیں بلکہ اس مقصد کے لیے وہ اتحادیوں بالخصوص پی پی پی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی کے کاندھوں کو استعمال کرنے کی خواہاں ہے۔
اس حوالے سے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے آصف زرداری، خالد مقبول صدیقی اور مولانا فضل الرحمن سے الگ الگ ملاقاتیں کرکے انھیں حقائق سے آگاہ کیا ہے۔ اس دوران اسمبلیوں کے تحلیل اور فوری نئے انتخابات کے اعلان کی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں لیکن تادم تحریر جوہری طور پر ایسا کچھ بھی سامنے نہیں آیا۔ زرداری صاحب اصلاحات کے بعد انتخابات کے حامی ہیں۔ وفاقی کابینہ کے ایک تازہ فیصلے کے مطابق اصلاحات کے بغیر فوری الیکشن نہیں ہوں گے۔
حکومت اگست 2023 تک آئینی مدت پوری کرے گی۔ ادھر عمران خان اتحادی حکومت پر فوری الیکشن کے لیے مسلسل دباؤ بڑھا رہے ہیں جلسوں پر جلسے جن میں غیر متوقع طور پر کثیر تعداد میں عوام کی شرکت اور ان کے بیانیے کی پذیرائی کے بعد وہ بار بار دہرا رہے ہیں کہ 20 مئی کے بعد اسلام آباد جانے کی کال دوں گا اور جب تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوگا دھرنا دیا جائے گا۔
عمران کا اسلام آباد پڑاؤ اور ان کا فوری الیکشن کے اعلان کا مطالبہ اتحادی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ اسی دوران عدالت عظمیٰ سے صدارتی ریفرنس بحوالہ آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح پر آنے والے فیصلے نے پی ٹی آئی کے موقف کی تائید کردی کہ جو لوگ ووٹ بیچتے ہیں وہ اپنے لوگوں، آئین اور جمہوریت سے غداری کرتے ہیں۔ عدالتی رائے کے مطابق پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے کے مرتکب رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ اراکین کا انحراف سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم اور جمہوریت کو ڈی ریل کرسکتا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا شکریہ۔ سپریم کورٹ نے ملک کی اخلاقیات کو گرنے سے بچا لیا ہے جب کہ سچائی یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کی اخلاقیات دہائیوں سے گرتی چلی آ رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھی قومی زندگی کے تمام شعبوں میں ''پاتال'' میں گرتا چلا جا رہا ہے سری لنکا کی طرح۔
سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں کرپشن، بدعنوانی اور منی لانڈرنگ نے ڈھائی کروڑ نفوس پر مشتمل ملک کو شدید معاشی، مالیاتی اور اقتصادی بحران کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔ ملک پر تقریباً پچاس ارب ڈالر سے زائد کے قرضے ہیں۔ سری لنکا کی معاشی و مالیاتی صورت حال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدتر سے بدترین ہوتی جا رہی ہے۔ کولمبو یونیورسٹی کے ماہر سماجیات راج کمار چندرا کا کہنا ہے کہ حالات اور واقعات اور معاشی و سیاسی حرکیات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین، مبصرین اور تجزیہ کار ایک طویل عرصے سے حکومتی عہدیداران اور اعلیٰ سرکاری شخصیات کو نہ صرف یہ کہ حالات کے سدھار کے حوالے سے قیمتی مشورے دے رہے تھے بلکہ انھیں خبردار کرتے چلے آ رہے تھے کہ سرکاری و غیر پیداواری اخراجات میں قابل ذکر کمی کی جائے کہ جس کی وجہ سے بجٹ خسارہ بڑھتا جا رہا ہے، لیکن افسوس کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، جن میں لبرل جمہوریت پسند اور سوشلسٹ سب ہی شامل ہیں کسی نے ماہرین کے انتباہ کو سنجیدہ نہ لیا اور پیش آمدہ خطرات سے بے فکر بقول علامہ اقبال:
تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی
کی تصویر بنے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج سری لنکا کو دیوالیہ قرار دیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ذمے داران اس بدنصیب ملک کی معاشی بدنظمی، بدعنوانی، اقتصادی بدحالی، مالیاتی بحران اور دیگر بدانتظامیوں کا ذمے دار ملک کے صدر ریٹائرڈ جنرل کوٹابایا راجہ اور ان کے قریبی ساتھیوں کو گردانتے ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں پانچ چھ ارب ڈالر سے زائد سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا گیا ہے۔ یہ قیاس بھی کیا جا رہا ہے کہ ملک سے لوٹی ہوئی یہ دولت ارجنٹائن کے بینکوں یا پھر یورپ کے مختلف بینکوں میں چھپائی گئی ہے۔
سری لنکا کے بدعنوانوں اور کرپٹ حکمرانوں کی بداعمالیوں کی سزا اب لنکن عوام بھگت رہے ہیں، جہاں مہنگائی کا طوفان آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ لوگ گلیوں اور سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں، ملک میں غذائی قلت پیدا ہوچکی ہے، بازار سنسان اور ویران ہیں، اسپتال میں دوائیں تک ناپید ہیں، سری لنکن ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں دواؤں کی عدم دستیابی اور آلات جراحی کی کمیابی کے باعث ایمرجنسی کی صورت میں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سری لنکن ارباب اختیار اور صاحب اقتدار اب سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ ملک کو اس معاشی بحران سے کیسے نکالا جائے۔ کون سی تدابیر اختیار کی جائیں، کون سے فیصلے اور اقدامات اٹھائے جائیں کہ ملک دیوالیہ صورت حال سے باہر نکل سکے۔
ملک میں سیاسی، معاشی اور اقتصادی استحکام آجائے، عوام مطمئن ہو جائیں، ملک کو ہنگامی صورت حال سے گلو خلاصی ملے، بیرونی مالیاتی اداروں کے ذمے داران کو مطمئن کیا جاسکے تاکہ مزید قرضے حاصل کرکے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جاسکے وغیرہ وغیرہ۔ترقی پذیر ملکوں کا یہی المیہ ہے کہ نااہل، کرپٹ اور بدعنوان حکمران جب ملک پر مسلط ہو جائیں تو قومی وسائل اور ملکی دولت پر ایسے ہاتھ صاف کرتے ہیں کہ اقتدار کی امانت انھیں خیانت کرنے ہی کے لیے سونپی گئی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خزانہ خالی اور معاشی بدحالی ملک کا مقدر بن جاتی ہے اور عوام غربت، بھوک، افلاس، مہنگائی اور بے روزگاری کی دلدل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔
ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے، ملک کا سالانہ بجٹ خسارے کی نذر ہو جاتا ہے، پھر ملک دیوالیہ نہ ہو تو کیا ہو؟ ان دنوں وطن عزیز کی معاشی، اقتصادی اور مالیاتی صورتحال زبوں حالی کا شکار اور پاتال کی سمت رواں دواں نظر آتی ہے۔ بیرونی قرضوں کا بھاری بوجھ، بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ، آئی ایم ایف کے مطالبات، سبسڈی کے خاتمے کے لیے دباؤ، نئے قرضوں کے حصول کی ضرورت، پھر مہنگائی گرانی کے طوفان سے عوام میں حکومت مخالف جذبات اور نفرت انگیزیاں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا مستقل ترین فیصلہ اور اس پس منظر میں عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل اور ریلیف فراہم کرنے کے دعوے کیوں کر پورے ہو سکیں گے اور اتحادیوں کو مطمئن کرنے کا مخمصہ جیسے بڑے گمبھیر اور مستقل چیلنجز اتحادی حکومت کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔
کابینہ ارکان کے ساتھ لندن جانے، وہاں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقاتوں کے بعد کسی اعلامیے کا جاری نہ ہونا اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ (ن) لیگ کی قیادت مشکل کا تنہا بوجھ اٹھانے پر تیار نہیں بلکہ اس مقصد کے لیے وہ اتحادیوں بالخصوص پی پی پی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی کے کاندھوں کو استعمال کرنے کی خواہاں ہے۔
اس حوالے سے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے آصف زرداری، خالد مقبول صدیقی اور مولانا فضل الرحمن سے الگ الگ ملاقاتیں کرکے انھیں حقائق سے آگاہ کیا ہے۔ اس دوران اسمبلیوں کے تحلیل اور فوری نئے انتخابات کے اعلان کی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں لیکن تادم تحریر جوہری طور پر ایسا کچھ بھی سامنے نہیں آیا۔ زرداری صاحب اصلاحات کے بعد انتخابات کے حامی ہیں۔ وفاقی کابینہ کے ایک تازہ فیصلے کے مطابق اصلاحات کے بغیر فوری الیکشن نہیں ہوں گے۔
حکومت اگست 2023 تک آئینی مدت پوری کرے گی۔ ادھر عمران خان اتحادی حکومت پر فوری الیکشن کے لیے مسلسل دباؤ بڑھا رہے ہیں جلسوں پر جلسے جن میں غیر متوقع طور پر کثیر تعداد میں عوام کی شرکت اور ان کے بیانیے کی پذیرائی کے بعد وہ بار بار دہرا رہے ہیں کہ 20 مئی کے بعد اسلام آباد جانے کی کال دوں گا اور جب تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوگا دھرنا دیا جائے گا۔
عمران کا اسلام آباد پڑاؤ اور ان کا فوری الیکشن کے اعلان کا مطالبہ اتحادی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ اسی دوران عدالت عظمیٰ سے صدارتی ریفرنس بحوالہ آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح پر آنے والے فیصلے نے پی ٹی آئی کے موقف کی تائید کردی کہ جو لوگ ووٹ بیچتے ہیں وہ اپنے لوگوں، آئین اور جمہوریت سے غداری کرتے ہیں۔ عدالتی رائے کے مطابق پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے کے مرتکب رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ اراکین کا انحراف سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم اور جمہوریت کو ڈی ریل کرسکتا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا شکریہ۔ سپریم کورٹ نے ملک کی اخلاقیات کو گرنے سے بچا لیا ہے جب کہ سچائی یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کی اخلاقیات دہائیوں سے گرتی چلی آ رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھی قومی زندگی کے تمام شعبوں میں ''پاتال'' میں گرتا چلا جا رہا ہے سری لنکا کی طرح۔