قوم کی تشویش
پٹرول کی قیمت میں 15 روپے کا اضافہ ہو تو ٹرانسپورٹر کرایہ 100 روپے بڑھا دیتے ہیں
لاہور:
موجودہ حکمران حسب روایت ماضی کی حکومت کو تمام خرابیوں کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں جب کہ عوام حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ قوم جہاں پہلے کھڑی تھی، آج بھی وہیں کھڑی ہے۔ صبر کی تلقین کوئی کسی کو نہیں کر رہا ، البتہ تشویش کا اظہار ضرورکرتے ہیں جو اب مستند فیشن کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
موجودہ حکومت کہہ رہی ہے کہ پی ٹی آئی کے قول و فعل میں تضاد رہا جس کی وجہ سے مسائل جوں کے توں ہیں۔دکھ تو اس بات کا ہے کہ قانون کا نظام بڑی سست رفتاری سے اس ملک میں سفر کرتا ہے وہ تو شکرکریں کہ سوشل میڈیا نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب تیکھے موضوعات لمحے بھر میں قوم کے سامنے آ جاتے ہیں جب سوشل میڈیا نہیں تھا تو عوامی سطح پر ایک پردہ تھا اب وہ اٹھ گیا ہے اور لے دے کر خبر آنکھوں کی زینت بن جاتی ہے اور (تشویش ہے) کا جملہ سیاسی مارکیٹ میں نیا روشناس ہوا ہے اور آج ہم بھی اس موضوع کو لے کر کالم لکھ رہا ہوں۔
کراچی میں 10 گھنٹے لائٹ نہیں ہوتی ، مرغی600 روپے فی کلو بک رہی ہے۔ کراچی کی قیادت کہتی ہے کہ اس پر تشویش ہے سندھ اسمبلی میں آپ حضرات کے نمایندے موجود ہیں اسمبلی میں آواز اٹھائیں۔
ڈالر کی قیمت بڑھنے پر ہر ایک کو تشویش ہے۔ (ن) لیگ کو معیشت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، وزیر خزانہ اس کا حل نکالیں اور دن رات معیشت کے حوالے سے کام کریں تین بڑی پارٹیاں جو اقتدار میں بھی رہ چکی ہیں اور خاصے تجربہ کار حضرات موجود ہیں وہ اس کا حل نکالیں ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ جب وفاقی اور صوبائی وزرا سابق ہو جاتے ہیں تو آنے والے وزرا پر تنقید کرتے ہیں یہ بھی اب ایک فیشن کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
غرض مسائل کے حل کی طرف توجہ نہیں دی جاتی صرف بیانات سے کام چلایا جاتا ہے ایک نئی بازگشت قابل احترام الفاظ کے ساتھ نمایاں تشویش کا اظہار لیے دن رات گونج رہی ہے کہ سبسڈی ختم ہوئی تو شدید مہنگائی ہوگی سر جوڑ کر آپ سیاسی حضرات اس کا حل کیوں نہیں نکالتے۔ پاکستان پر قرضوں کا پہاڑ 37 ارب سے 122 ارب ڈالر ہو گیا ہے قوم کو تشویش ہے کہ کتنے ڈیم اب تک بنے ؟ کتنی یونیورسٹیاں اب تک بن سکیں ؟ ریلوے میں کیا تبدیلی ہوئی ؟ ایئرلائن کس مقام پر کھڑی ہے شہروں میں صفائی کی صورتحال ابتر ہے۔
پٹرول کی قیمت میں 15 روپے کا اضافہ ہو تو ٹرانسپورٹر کرایہ 100 روپے بڑھا دیتے ہیں ملک میں اسٹریٹ کرائم بڑھ گئے ہیں ، ڈاکو حضرات سب سے زیادہ خوشحال ہیں ایک غیر قانونی پستول لے کر روز ہزاروں روپے کماتے ہیں۔
ماضی پر مٹی ڈالیں اور نئے سرے سے قومی مسائل کو حل کرنے کا آغاز کریں،اب تو سیاسی حضرات کو اس پر بھی تشویش ہوتی ہے کہ فلاں کے جلسے میں کتنے لوگ موجود تھے قوم کو تعداد سے کوئی مطلب نہیں وہ مسائل کا حل چاہتی ہے جو نظر نہیں آ رہا، عجیب باتوں کا فیشن سیاست میں آ گیا ہے اور دیکھتے دیکھتے اس نے کافی ترقی کی سیڑھیاں طے کرلی ہیں ہماری سیاست کی کیا خوب باتیں ہیں۔
حکومتی لیڈر کے خلاف کوئی بولے تو کرپشن میں ملوث، مرد بولے تو غدار، صحافی بولے تو لفافہ نواز، ادارہ بولے تو کرپٹ، کرسی چھن جائے تو سازش اور قوم کو اس پر تشویش ہے۔ روز ہی گراں فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے اعلانات ہوتے ہیں مگر مجال ہے کہ گراں فروشوں پر کوئی اثر ہو اس کی وجہ صرف اعلانات ہوتے ہیں۔
عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے لوگ بھی عادی ہوگئے ہیں، روز اخبارات میں پڑھتے ہیں اور پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ دوسرے دن کے اخبارات میں پھر یہ خبر آئے گی اور مزے کی بات دیکھیں دوسرے دن پھر یہ اخبارات کی زینت بن جاتی ہے اور آخر میں وہی ہوتا ہے جو روز ہوتا ہے اس پر بھی تشویش ہے قوم کو۔
کسی بھی دکان پر آپ کو نرخ نامہ آویزاں نہیں ملے گا دکاندار کی مرضی ہے کہ وہ آپ سے کیا وصول کر رہا ہے ، اگر احتجاج کروں تو دو جواب ہوتے ہیں دکاندار کے کہ کیا کریں پیچھے سے مہنگا مل رہا ہے زیادہ بحث کروں تو تلخ جواب ملتا ہے کہ ''کہیں اور سے لے لوں'' اس کا حل تو یہ ہے کہ شکایات کی وصولی کے لیے مل کر مارکیٹوں کی سطح پر سیل بنائے جائیں اور اس کے قیام کو ممکن بنانے کی کوشش کی جائے مگر جب خبروں سے کام چل رہا ہے تو اس جھگڑے میں کون پڑے ، جو تشویش قوم کو عمران خان کے زمانے میں تھی مہنگائی کے حوالے سے تھی آج بھی وہ تشویش برقرار ہے بدلا کچھ نہیں سب ویسا ہی چل رہا ہے۔
پاکستان میں قوم کے حالات ریل کے ڈبے کی مانند ہوتے ہیں ایک دفعہ بادشاہ انجن لگا دیا تو پھر مستقل بنیادوں پر لگا رہتا ہے ہاں تبدیلی صرف انجن کو بدلنے کی ہوتی ہے انجن اب بدل گیا ہے مگر ڈبے جوںکے توں لگے ہوئے ہیں جو بار بار پٹری سے اتر جاتے ہیں۔ تبدیلی صرف یہ آئی ہے کہ عمران خان تبدیل ہوگئے ہیں مگر یہ حقیقی تبدیلی نہیں ہے تبدیلی وہ ہوتی ہے جو نظر آئے کچھ باتوں پر تو قوم کو بھی تشویش ہے زور کس پر ہوا تشویش پر، لوگ کہتے ہیں پی ٹی آئی کے سابق وزرا کی کرپشن ثبوت کے ساتھ لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سیریل ''کرپشن'' کے مناظر تو قوم گزشتہ 6 سال سے دیکھ رہی ہے جب کسی سیریل میں جان نہ ہو تو مصنف اور پروڈیوسر اس کو سوپ کی شکل دے دیتا ہے جو تقریباً سو یا 120 اقساط پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب کرپشن بھی سوپ کی شکل اختیار کر گیا ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا سب پر الزامات ہیں اب جو کرپشن کی کہانی پی ٹی آئی کے حوالے سے شروع ہوگی وہ بھی پہلے سیریل ہوگی۔ اس کے بعد وہ بھی سوپ کی شکل اختیار کر لے گی اور یوں الیکشن ہو جائیں گے جو جیت کر آئے گا وہ ماضی کی حکومت کی سیریل کرپشن نئے سرے سے شروع کرے گا۔
پی ٹی آئی کے ایک سابق وفاقی وزیر فرما رہے تھے کہ حکومت بھارت سے تجارت کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ موصوف جب وفاقی وزیر تھے تو راقم نے مشورہ دیا تھا کہ آپ بھارت اور سری لنکا سے جانور امپورٹ کریں کہ ان ممالک میں گائے اور بکرے کا گوشت استعمال نہ ہونے کے برابر ہے اگر وہ اس پر کام کرتے تو گائے کا گوشت 300 روپے اور بکرے کا گوشت 700 روپے میں فروخت ہوتا اس وقت تو موصوف نے توجہ نہیں دی اب گھر بیٹھ گئے ہیں تو انھیں قوم کے درد کی تشویش ہے اور زندہ رہنے کے لیے سیاسی بیان دے رہے ہیں اور ہر جانے والی حکومت اپوزیشن میں آتی ہے تو پھر اس مثال پر قائم رہتے ہیں کہ نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے۔ یہ روایت اب جڑ پکڑ چکی ہے جانے والے اپنی خدمات کا وائٹ پیپر کیوں نہیں منظر عام پر لاتے حکومت کوئی بھی ہو، جانے والے اپوزیشن کا کردار بھرپور انجام دیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں جب نہر میں شگاف ہو گیا کراچی کو پانی کی سپلائی بند ہوگئی اور کافی دن تک لوگ پانی سے محروم رہے۔ کراچی سے منتخب ہونے والے مختلف سیاسی پارٹیوں کے ایم پی ایز نے کسی قسم کی زحمت نہیں کی نہ کسی ایم پی اے کو یہ توفیق ہوئی کہ اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ البتہ اخبارات میں یہ ضرور آیا کہ فلاں پارٹی کو پانی کی سپلائی کے حوالے سے تشویش ہے کسی نے اسمبلی میں آواز نہیں اٹھائی نہ کسی ایم پی اے نے وہ کسی بھی پارٹی سے ہو واٹر بورڈ کے چیئرمین سے مذاکرات کیے ہوں۔
ہر آنے والی حکومت معاشی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتی ہے جب کہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ملک کن حالات میں ہے پھر بھی اقتدار کے تاج کو سر پر سجا لیتے ہیں اس کے بعد اپوزیشن میدان میں کود جاتی ہے اور برسر اقتدار معاشی حالات کا رونا دھونا شروع کردیتے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ 25 سال سے جاری ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری و ساری رہے کہ اب یہ روایت کی شکل اختیار کر گیا ہے اور قوم کو تشویش ہے غریب تو پھر غریب ہے جو غربت کی لکیر کو پیٹ رہا ہے۔
روز خبریں آتی ہیں کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا اس معاملے میں سابق وزیر اعظم عمران خان تو ناتجربہ کار تھے آپ حضرات تو تجربہ کار ہیں پھر بھی ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں اسی پر تو قوم کو تشویش ہے ۔
تشویش بھی ایک نشہ ہے
جو جان چھڑانے کا ایک نسخہ ہے
موجودہ حکمران حسب روایت ماضی کی حکومت کو تمام خرابیوں کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں جب کہ عوام حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ قوم جہاں پہلے کھڑی تھی، آج بھی وہیں کھڑی ہے۔ صبر کی تلقین کوئی کسی کو نہیں کر رہا ، البتہ تشویش کا اظہار ضرورکرتے ہیں جو اب مستند فیشن کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
موجودہ حکومت کہہ رہی ہے کہ پی ٹی آئی کے قول و فعل میں تضاد رہا جس کی وجہ سے مسائل جوں کے توں ہیں۔دکھ تو اس بات کا ہے کہ قانون کا نظام بڑی سست رفتاری سے اس ملک میں سفر کرتا ہے وہ تو شکرکریں کہ سوشل میڈیا نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب تیکھے موضوعات لمحے بھر میں قوم کے سامنے آ جاتے ہیں جب سوشل میڈیا نہیں تھا تو عوامی سطح پر ایک پردہ تھا اب وہ اٹھ گیا ہے اور لے دے کر خبر آنکھوں کی زینت بن جاتی ہے اور (تشویش ہے) کا جملہ سیاسی مارکیٹ میں نیا روشناس ہوا ہے اور آج ہم بھی اس موضوع کو لے کر کالم لکھ رہا ہوں۔
کراچی میں 10 گھنٹے لائٹ نہیں ہوتی ، مرغی600 روپے فی کلو بک رہی ہے۔ کراچی کی قیادت کہتی ہے کہ اس پر تشویش ہے سندھ اسمبلی میں آپ حضرات کے نمایندے موجود ہیں اسمبلی میں آواز اٹھائیں۔
ڈالر کی قیمت بڑھنے پر ہر ایک کو تشویش ہے۔ (ن) لیگ کو معیشت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، وزیر خزانہ اس کا حل نکالیں اور دن رات معیشت کے حوالے سے کام کریں تین بڑی پارٹیاں جو اقتدار میں بھی رہ چکی ہیں اور خاصے تجربہ کار حضرات موجود ہیں وہ اس کا حل نکالیں ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ جب وفاقی اور صوبائی وزرا سابق ہو جاتے ہیں تو آنے والے وزرا پر تنقید کرتے ہیں یہ بھی اب ایک فیشن کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
غرض مسائل کے حل کی طرف توجہ نہیں دی جاتی صرف بیانات سے کام چلایا جاتا ہے ایک نئی بازگشت قابل احترام الفاظ کے ساتھ نمایاں تشویش کا اظہار لیے دن رات گونج رہی ہے کہ سبسڈی ختم ہوئی تو شدید مہنگائی ہوگی سر جوڑ کر آپ سیاسی حضرات اس کا حل کیوں نہیں نکالتے۔ پاکستان پر قرضوں کا پہاڑ 37 ارب سے 122 ارب ڈالر ہو گیا ہے قوم کو تشویش ہے کہ کتنے ڈیم اب تک بنے ؟ کتنی یونیورسٹیاں اب تک بن سکیں ؟ ریلوے میں کیا تبدیلی ہوئی ؟ ایئرلائن کس مقام پر کھڑی ہے شہروں میں صفائی کی صورتحال ابتر ہے۔
پٹرول کی قیمت میں 15 روپے کا اضافہ ہو تو ٹرانسپورٹر کرایہ 100 روپے بڑھا دیتے ہیں ملک میں اسٹریٹ کرائم بڑھ گئے ہیں ، ڈاکو حضرات سب سے زیادہ خوشحال ہیں ایک غیر قانونی پستول لے کر روز ہزاروں روپے کماتے ہیں۔
ماضی پر مٹی ڈالیں اور نئے سرے سے قومی مسائل کو حل کرنے کا آغاز کریں،اب تو سیاسی حضرات کو اس پر بھی تشویش ہوتی ہے کہ فلاں کے جلسے میں کتنے لوگ موجود تھے قوم کو تعداد سے کوئی مطلب نہیں وہ مسائل کا حل چاہتی ہے جو نظر نہیں آ رہا، عجیب باتوں کا فیشن سیاست میں آ گیا ہے اور دیکھتے دیکھتے اس نے کافی ترقی کی سیڑھیاں طے کرلی ہیں ہماری سیاست کی کیا خوب باتیں ہیں۔
حکومتی لیڈر کے خلاف کوئی بولے تو کرپشن میں ملوث، مرد بولے تو غدار، صحافی بولے تو لفافہ نواز، ادارہ بولے تو کرپٹ، کرسی چھن جائے تو سازش اور قوم کو اس پر تشویش ہے۔ روز ہی گراں فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے اعلانات ہوتے ہیں مگر مجال ہے کہ گراں فروشوں پر کوئی اثر ہو اس کی وجہ صرف اعلانات ہوتے ہیں۔
عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے لوگ بھی عادی ہوگئے ہیں، روز اخبارات میں پڑھتے ہیں اور پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ دوسرے دن کے اخبارات میں پھر یہ خبر آئے گی اور مزے کی بات دیکھیں دوسرے دن پھر یہ اخبارات کی زینت بن جاتی ہے اور آخر میں وہی ہوتا ہے جو روز ہوتا ہے اس پر بھی تشویش ہے قوم کو۔
کسی بھی دکان پر آپ کو نرخ نامہ آویزاں نہیں ملے گا دکاندار کی مرضی ہے کہ وہ آپ سے کیا وصول کر رہا ہے ، اگر احتجاج کروں تو دو جواب ہوتے ہیں دکاندار کے کہ کیا کریں پیچھے سے مہنگا مل رہا ہے زیادہ بحث کروں تو تلخ جواب ملتا ہے کہ ''کہیں اور سے لے لوں'' اس کا حل تو یہ ہے کہ شکایات کی وصولی کے لیے مل کر مارکیٹوں کی سطح پر سیل بنائے جائیں اور اس کے قیام کو ممکن بنانے کی کوشش کی جائے مگر جب خبروں سے کام چل رہا ہے تو اس جھگڑے میں کون پڑے ، جو تشویش قوم کو عمران خان کے زمانے میں تھی مہنگائی کے حوالے سے تھی آج بھی وہ تشویش برقرار ہے بدلا کچھ نہیں سب ویسا ہی چل رہا ہے۔
پاکستان میں قوم کے حالات ریل کے ڈبے کی مانند ہوتے ہیں ایک دفعہ بادشاہ انجن لگا دیا تو پھر مستقل بنیادوں پر لگا رہتا ہے ہاں تبدیلی صرف انجن کو بدلنے کی ہوتی ہے انجن اب بدل گیا ہے مگر ڈبے جوںکے توں لگے ہوئے ہیں جو بار بار پٹری سے اتر جاتے ہیں۔ تبدیلی صرف یہ آئی ہے کہ عمران خان تبدیل ہوگئے ہیں مگر یہ حقیقی تبدیلی نہیں ہے تبدیلی وہ ہوتی ہے جو نظر آئے کچھ باتوں پر تو قوم کو بھی تشویش ہے زور کس پر ہوا تشویش پر، لوگ کہتے ہیں پی ٹی آئی کے سابق وزرا کی کرپشن ثبوت کے ساتھ لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سیریل ''کرپشن'' کے مناظر تو قوم گزشتہ 6 سال سے دیکھ رہی ہے جب کسی سیریل میں جان نہ ہو تو مصنف اور پروڈیوسر اس کو سوپ کی شکل دے دیتا ہے جو تقریباً سو یا 120 اقساط پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب کرپشن بھی سوپ کی شکل اختیار کر گیا ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا سب پر الزامات ہیں اب جو کرپشن کی کہانی پی ٹی آئی کے حوالے سے شروع ہوگی وہ بھی پہلے سیریل ہوگی۔ اس کے بعد وہ بھی سوپ کی شکل اختیار کر لے گی اور یوں الیکشن ہو جائیں گے جو جیت کر آئے گا وہ ماضی کی حکومت کی سیریل کرپشن نئے سرے سے شروع کرے گا۔
پی ٹی آئی کے ایک سابق وفاقی وزیر فرما رہے تھے کہ حکومت بھارت سے تجارت کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ موصوف جب وفاقی وزیر تھے تو راقم نے مشورہ دیا تھا کہ آپ بھارت اور سری لنکا سے جانور امپورٹ کریں کہ ان ممالک میں گائے اور بکرے کا گوشت استعمال نہ ہونے کے برابر ہے اگر وہ اس پر کام کرتے تو گائے کا گوشت 300 روپے اور بکرے کا گوشت 700 روپے میں فروخت ہوتا اس وقت تو موصوف نے توجہ نہیں دی اب گھر بیٹھ گئے ہیں تو انھیں قوم کے درد کی تشویش ہے اور زندہ رہنے کے لیے سیاسی بیان دے رہے ہیں اور ہر جانے والی حکومت اپوزیشن میں آتی ہے تو پھر اس مثال پر قائم رہتے ہیں کہ نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے۔ یہ روایت اب جڑ پکڑ چکی ہے جانے والے اپنی خدمات کا وائٹ پیپر کیوں نہیں منظر عام پر لاتے حکومت کوئی بھی ہو، جانے والے اپوزیشن کا کردار بھرپور انجام دیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں جب نہر میں شگاف ہو گیا کراچی کو پانی کی سپلائی بند ہوگئی اور کافی دن تک لوگ پانی سے محروم رہے۔ کراچی سے منتخب ہونے والے مختلف سیاسی پارٹیوں کے ایم پی ایز نے کسی قسم کی زحمت نہیں کی نہ کسی ایم پی اے کو یہ توفیق ہوئی کہ اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ البتہ اخبارات میں یہ ضرور آیا کہ فلاں پارٹی کو پانی کی سپلائی کے حوالے سے تشویش ہے کسی نے اسمبلی میں آواز نہیں اٹھائی نہ کسی ایم پی اے نے وہ کسی بھی پارٹی سے ہو واٹر بورڈ کے چیئرمین سے مذاکرات کیے ہوں۔
ہر آنے والی حکومت معاشی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتی ہے جب کہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ملک کن حالات میں ہے پھر بھی اقتدار کے تاج کو سر پر سجا لیتے ہیں اس کے بعد اپوزیشن میدان میں کود جاتی ہے اور برسر اقتدار معاشی حالات کا رونا دھونا شروع کردیتے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ 25 سال سے جاری ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری و ساری رہے کہ اب یہ روایت کی شکل اختیار کر گیا ہے اور قوم کو تشویش ہے غریب تو پھر غریب ہے جو غربت کی لکیر کو پیٹ رہا ہے۔
روز خبریں آتی ہیں کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے گا اس معاملے میں سابق وزیر اعظم عمران خان تو ناتجربہ کار تھے آپ حضرات تو تجربہ کار ہیں پھر بھی ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں اسی پر تو قوم کو تشویش ہے ۔
تشویش بھی ایک نشہ ہے
جو جان چھڑانے کا ایک نسخہ ہے