پُر اسرار ڈاک نیویارک کی خاتون کو والدین کے 1960 میں لکھے خطوط موصول ہونے لگے

پوسٹ آفس سمیت کسی کو یہ معلوم نہیں کہ یہ پوسٹ کارڈز انہیں کہاں سے پہنچ رہے ہیں

خط پر 1960 کی مہر لگی ہے اور یہ خط کینیڈا سے بھیجا گیا ہے(فوٹو بشکریہ اے ایف پی)

ISLAMABAD:
خاتون کو اچانک 1960 کی دہائی میں لکھے پُر اسرار خطوط موصول ہونے لگےجو ان کی والدہ نے اپنے ہنی مون کے دوران بھیجے تھے۔

غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق نیویارک میں رہنے والی کیرل ہوور نامی خاتون کو رواں سال اپریل میں ایک ایسا خط موصول ہوا جو دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گئیں۔

غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے خاتون نے کہا کہ اس خط نے انہیں اس لئے حیران کر دیا کیونکہ اس پر ان کی والدہ کا نام لکھا تھا اور وہ لکھائی بھی ان کی والدہ کی تھی۔

تاہم یہاں دلچسپ بات یہ ہےکہ خط پر 1960 کی مہر لگی ہے اور یہ خط کینیڈا سے بھیجا گیا ہے جو خاتون کو 62 سالوں بعد موصول ہوا ہے۔ خاتون کا کہنا ہے کہ شاید اس وقت ان کے والدین ہنی مون پر کینیڈا گئے ہوئے تھے۔

پہلے تو ہوور نے سوچا کہ شاید ڈاک خانے کے سسٹم میں کوئی مسئلہ ہوا ہے اور اس لئے انہیں اتنا پُرانا خط موصول ہوا تاہم جب وہ اس خط کو لے کر نیویارک کے پوسٹل سروس گئیں توانہیں کچھ ایسا معلوم ہوا کہ وہ مزید حیرت میں پڑ گئیں۔

پوسٹل سروس کےنمائندے نے کہا کہ'' ہم معذرت چاہتے ہیں۔کیا آپ جم اور پیگ کو جانتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ ڈاک بھیجی۔ ہمارے پاس مزید دو اور خطوط موجود ہیں'' خاتون نے کہا کہ ''یہ میرے والدین ہیں مگر وہ سالوں پہلے ہی انتقال کر چکے ہیں''۔


اور اس کے بعد ہووراور ان کی ایک کزن کے لیے مزید تاریخی پوسٹ کارڈز آنا شروع ہو گئے جنہیں ایک کارڈ منی سوٹا میں اپنے سابقہ خاندان کے گھر موصول ہوا۔



ان خطوط میں ہوور کے والدین نے اپنے والدین کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں اپنے حال سے آگاہ کیا ہے، تاہم پوسٹ آفس سمیت کسی کو یہ معلوم نہیں کہ یہ پوسٹ کارڈز انہیں کہاں سے پہنچ رہے ہیں انہیں کون اور کیوں بھیج رہا ہے۔

اگرچہ اس کی پیمائش کرنا مشکل ہے، لیکن اندازہ لگایا گیا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ میں تین فیصد سے بھی کم میل ضائع ہو جاتی ہیں اگر تلاش کی درخواست دائر کرنے کے بعد کوئی پیکیج یا خط برآمد ہوتا ہے، تو یو ایس پوسٹل سروس میل کو دوبارہ بھیجتی ہے ۔

یاد رہے کہ یہ ایسے خطوط ہوتے ہیں جن کا شپنگ لیبل گر گیا ہو یا غلط پتہ درج ہو جس کی وجہ سے انہیں ناقابلِ ترسیل قرار دے کر ضائع کر دیا جاتا ہے۔

خاتون کا کہنا ہے کہ ان خطوط کو پراسرار قرار دیا جا رہا ہے تاہم وہ ان خطوط کو پڑھ کر بےحد لطف اندوز ہو رہی ہیں کیونکہ یہ ان کی والدہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں جو 2014 میں ہی انتقال کر گئیں تھیں۔

خاتون نے غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''میرے خیال میں ان دنوں انسانی تعلق بہت قیمتی ہے، اور اگرچہ مجھے یقین ہے کہ اس راز کی کوئی وضاحت موجود نہیں ہے مگر ماضی کے ان پوسٹ کارڈز کو حاصل کرنا جوہمارےبچھڑے ہوئے پیاروں نے سالوں پہلے لکھے ہوں کائنات کی طرف سےہمارے لئے ایک تحفہ ہے''۔
Load Next Story