کوہلی سے تو شاہد آفریدی بہتر ہے
ویرات کوہلی کی حرکتوں کو دیکھ کر میں نے اپنی رائے کو تبدیلی کیااور آفریدی کی حمایت کا اعلان کردیا.
دنیا میں موجود کم از کم ایک مسلمہ اصول سے تو میں بہت اچھی طرح واقف ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہر ایک معاملہ میں انسان کے پاس دو آپشنز موجود ہوتے ہیں ۔۔۔۔ یا تو وہ اُس میں پسندیدگی کا اظہار کرتا ہے یا پھر نا پسندیدگی کا ۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوسکتا کہ جب انسان سے کسی معاملے پر رائے لی جائے تو بیک وقت وہ اُس کی حمایت بھی کرے اور مخالفت بھی۔اور میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ اس اظہارِ رائے کا بہرحال احترام ضرور کرنا چاہیے۔
گزشتہ روز پاکستان اور بھارت کا میچ ایک محفل میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔اب اس کو اتفاق کہیں یا کچھ اور مگر میری توجہ میچ سے زیادہ لوگوں کے جذبات کو دیکھنے پر مرکوز تھیں۔ جوش و خروش قابل دید تھا۔ ہر ایک بال پر وہاں موجود لوگ خوشی اور غم کا اظہار کررہے تھے۔لیکن یہاں ایک سب سے اچھی بات جس نے مجھے ذاتی طور پر بہت متاثر کیا وہ اتحاد و اتفاق تھا یعنی سب ایک ہی پلڑے میں نظر آئے اور وہ پلڑہ پاکستان کی جیت کا تھا۔یہ اس قدر اچھا منظر تھا کہ فوری طور پر خواہش نے جنم لیا کہ کاش یہ قوم تمام نہیں لیکن اکثر معاملات میں اسی اتحاد کا مظاہرہ کرے۔
خیر بات ہورہی تھی پاکستان اور بھارت کے میچ کی۔میچ کے آغاز سے تقریباً اختتام تک میری رائے تو یہی تھی کہ بس میچ میں مقابلہ بھرپور ہونا چاہیے پھر چاہے جیت پاکستان کی ہو یا بھارت کی۔جبکہ لوگوں کے جذبات میرے جذبات سے قدرے مختلف تھے۔وہ کسی صورت بھارت سے شکست برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے۔بلکہ کچھ افراد کو تو یہ بھی کہتے سنا کہ بس آج کا میچ جیت جائے پھر ٹورنامنٹ ہار بھی جائے تو ہم سر پر بٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ ان خیالات کو دیکھتے ہوئے میرے خیالات میں تبدیلی نے جنم لینا شروع کردیا تھا۔ لیکن اس تبدیلی نے اُس وقت 180 ڈگری کا رُخ اُس وقت موڑا جب بھارتی کپتان ویرات کوہلی نے اپنا اصل روپ دکھانا شروع کیا۔وہ جس طرح ہمارے کھلاڑیوں کے سامنے آکر بدتمیزی کررہا تھا مجھے اُس کی یہ حرکت ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ایک آنکھ نہ بھائی۔اور پھر سوچا کہ کم از کم اس شخص کو تو شکست کا مزہ چکھانا ہی چاہیے۔
مگر اتفاق دیکھیے ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا اور پاکستان کی تین وکٹیں یکدم اُکھڑگئیں۔ میرے ارد گرد ماحول میں ایسا سناٹا چھا گیا کہ سوئی کو بھی زمین میں پھینکا جائے تو آواز کوآسانی کے ساتھ سنا جاسکتا تھا۔مگر گراونڈ میں موجود بھارتی تماشائی اور کھلاڑی تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ میچ کا نتیجہ اُن کے حق میں لکھا جاچکا ہے۔مجھے افسوس یہ نہیں ہورہا تھا کہ پاکستان نے ایک جیتی ہوئی بازی پر اپنی گرفت کمزور کرلی مگر افسوس تو بس بھارتی کھلاڑیوں کے رویوں پر تھا ۔ اُن کے رویوں میں پاکستان سے نفرت کی اس قدر بو آرہی تھی کہ میلوں دور ہونے کے باوجود بھی آسانی سے سونگی جاسکتی تھی۔
ذاتی طور پر میں شاہد آفریدی کو پسند نہیں کرتا اُس کی اپنی کچھ وجوہات ہیں لیکن ویرات کوہلی کی حرکتوں کو دیکھ کر میں نے اپنی رائے کو تبدیلی کیااور آفریدی کی حمایت کا اعلان کردیا کیونکہ آخر میں بھی ایک پاکستانی ہوں اور کوہلی نہیں آفریدی کی حمایت ہی میرا حق ہے۔ اور اسی سوچ نے مجھے پاکستان ٹیم کی جیت کے لیے دعا کرنے پرپر مجبور کردیا اور پھر جو ہوا وہ شاید یہاں بیان کرنا کم از کم میرے لیے ممکن نہیں۔ایک ایسا میچ ہم جیتے جو چند منٹوں پہلے ہم ہار چکے تھے۔4 گیندوں پر 10 رنز درکار تھے۔مگر یہ تو کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ اس میں بھی 2 گیندیں اضافی تھی۔ اس فتح پر ٹیم کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
بس جاتے جاتے اُن تمام کھلاڑیوں سے التماس ہے کہ اللہ تعالی نے اُن کو بڑی عزت سے نوازا ہے ۔ یہ گزارش تمام بزرگوں سے ہے بشمول مصبا ح الحق، محمد حفیظ اور شاہد آفریدی ۔یہ وہ کھلاڑی ہیں جو اپنے عروج پر ہیں۔ لیکن یہ عروج کب تک رہتا ہے کسی کو نہیں معلوم۔ میری تو حسرت ہی رہ گئی ہے کہ کوئی پاکستان کا کھلاڑی عزت کے ساتھ اپنے کیرئیر کا خاتمہ کرے۔کب کوئی عمران خان بنے گا۔ کب کوئی ویون رچرڈز بنے گا۔ کب کوئی برائن لارا بنے گا۔ کب کوئی اپنے کیرئیر کا اختتام جاک کیلس اور سچن ٹندولکر کی طرح کریگا۔ یقین کریں اگر یہ کھلاڑی بھی اپنے عروج پر کرکٹ سے علیحدگی کا اعلان کردیں تو زندگی بھر کرکٹ ان کھلاڑیوں کو خود سے جدا نہیں کریگی۔کیونکہ ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ کھلاڑی تو ہم نے بڑے بڑے پیدا کیے لیکن سب سیاست اور مزید سے مزید کھیلنے کی جستجو میں کہاں کھو گئے کسی کو خبر تک نہ چلی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
گزشتہ روز پاکستان اور بھارت کا میچ ایک محفل میں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔اب اس کو اتفاق کہیں یا کچھ اور مگر میری توجہ میچ سے زیادہ لوگوں کے جذبات کو دیکھنے پر مرکوز تھیں۔ جوش و خروش قابل دید تھا۔ ہر ایک بال پر وہاں موجود لوگ خوشی اور غم کا اظہار کررہے تھے۔لیکن یہاں ایک سب سے اچھی بات جس نے مجھے ذاتی طور پر بہت متاثر کیا وہ اتحاد و اتفاق تھا یعنی سب ایک ہی پلڑے میں نظر آئے اور وہ پلڑہ پاکستان کی جیت کا تھا۔یہ اس قدر اچھا منظر تھا کہ فوری طور پر خواہش نے جنم لیا کہ کاش یہ قوم تمام نہیں لیکن اکثر معاملات میں اسی اتحاد کا مظاہرہ کرے۔
خیر بات ہورہی تھی پاکستان اور بھارت کے میچ کی۔میچ کے آغاز سے تقریباً اختتام تک میری رائے تو یہی تھی کہ بس میچ میں مقابلہ بھرپور ہونا چاہیے پھر چاہے جیت پاکستان کی ہو یا بھارت کی۔جبکہ لوگوں کے جذبات میرے جذبات سے قدرے مختلف تھے۔وہ کسی صورت بھارت سے شکست برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے۔بلکہ کچھ افراد کو تو یہ بھی کہتے سنا کہ بس آج کا میچ جیت جائے پھر ٹورنامنٹ ہار بھی جائے تو ہم سر پر بٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ ان خیالات کو دیکھتے ہوئے میرے خیالات میں تبدیلی نے جنم لینا شروع کردیا تھا۔ لیکن اس تبدیلی نے اُس وقت 180 ڈگری کا رُخ اُس وقت موڑا جب بھارتی کپتان ویرات کوہلی نے اپنا اصل روپ دکھانا شروع کیا۔وہ جس طرح ہمارے کھلاڑیوں کے سامنے آکر بدتمیزی کررہا تھا مجھے اُس کی یہ حرکت ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ایک آنکھ نہ بھائی۔اور پھر سوچا کہ کم از کم اس شخص کو تو شکست کا مزہ چکھانا ہی چاہیے۔
مگر اتفاق دیکھیے ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا اور پاکستان کی تین وکٹیں یکدم اُکھڑگئیں۔ میرے ارد گرد ماحول میں ایسا سناٹا چھا گیا کہ سوئی کو بھی زمین میں پھینکا جائے تو آواز کوآسانی کے ساتھ سنا جاسکتا تھا۔مگر گراونڈ میں موجود بھارتی تماشائی اور کھلاڑی تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ میچ کا نتیجہ اُن کے حق میں لکھا جاچکا ہے۔مجھے افسوس یہ نہیں ہورہا تھا کہ پاکستان نے ایک جیتی ہوئی بازی پر اپنی گرفت کمزور کرلی مگر افسوس تو بس بھارتی کھلاڑیوں کے رویوں پر تھا ۔ اُن کے رویوں میں پاکستان سے نفرت کی اس قدر بو آرہی تھی کہ میلوں دور ہونے کے باوجود بھی آسانی سے سونگی جاسکتی تھی۔
ذاتی طور پر میں شاہد آفریدی کو پسند نہیں کرتا اُس کی اپنی کچھ وجوہات ہیں لیکن ویرات کوہلی کی حرکتوں کو دیکھ کر میں نے اپنی رائے کو تبدیلی کیااور آفریدی کی حمایت کا اعلان کردیا کیونکہ آخر میں بھی ایک پاکستانی ہوں اور کوہلی نہیں آفریدی کی حمایت ہی میرا حق ہے۔ اور اسی سوچ نے مجھے پاکستان ٹیم کی جیت کے لیے دعا کرنے پرپر مجبور کردیا اور پھر جو ہوا وہ شاید یہاں بیان کرنا کم از کم میرے لیے ممکن نہیں۔ایک ایسا میچ ہم جیتے جو چند منٹوں پہلے ہم ہار چکے تھے۔4 گیندوں پر 10 رنز درکار تھے۔مگر یہ تو کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ اس میں بھی 2 گیندیں اضافی تھی۔ اس فتح پر ٹیم کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
بس جاتے جاتے اُن تمام کھلاڑیوں سے التماس ہے کہ اللہ تعالی نے اُن کو بڑی عزت سے نوازا ہے ۔ یہ گزارش تمام بزرگوں سے ہے بشمول مصبا ح الحق، محمد حفیظ اور شاہد آفریدی ۔یہ وہ کھلاڑی ہیں جو اپنے عروج پر ہیں۔ لیکن یہ عروج کب تک رہتا ہے کسی کو نہیں معلوم۔ میری تو حسرت ہی رہ گئی ہے کہ کوئی پاکستان کا کھلاڑی عزت کے ساتھ اپنے کیرئیر کا خاتمہ کرے۔کب کوئی عمران خان بنے گا۔ کب کوئی ویون رچرڈز بنے گا۔ کب کوئی برائن لارا بنے گا۔ کب کوئی اپنے کیرئیر کا اختتام جاک کیلس اور سچن ٹندولکر کی طرح کریگا۔ یقین کریں اگر یہ کھلاڑی بھی اپنے عروج پر کرکٹ سے علیحدگی کا اعلان کردیں تو زندگی بھر کرکٹ ان کھلاڑیوں کو خود سے جدا نہیں کریگی۔کیونکہ ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ کھلاڑی تو ہم نے بڑے بڑے پیدا کیے لیکن سب سیاست اور مزید سے مزید کھیلنے کی جستجو میں کہاں کھو گئے کسی کو خبر تک نہ چلی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔