سیاسی و معاشی عدم استحکام وقت قیام سجدہ

ن لیگ کے اندر سے بھی آوازیں آ رہی ہیں کہ یہ ملبہ اٹھانے سے بہتر ہے حکومت چھوڑ دیں

عمران خان جاتے ہوئے بارودی سرنگ بچھا گئے، پٹرول کی قیمتیں بڑھاتے ہیں تو گناہ گار ہوتے ہیں ، نہیں بڑھاتے ہیں تو گناہ گار ہوتے ہیں۔ حکومت کو ماہانہ 120 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے جب کہ شوکت ترین کے آئی ایم ایف سے وعدے کے مطابق 150 ارب روپے کا اضافہ ہونا چاہیے تھا؛ مفتاح اسماعیل کی دہائی۔

نئی حکومت کو آئے اب چھ ہفتے سے زائد ہو چکے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد حلف لیا تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح 186 روپے سے مضبوط ہو کر 182 روپے ہو ئی، اسٹاک ایکسچینج میں ہزار سے زیادہ پوائنٹس کا اضافہ ہوا، اس پر مفتاح اسماعیل سمیت ن لیگ کی قیادت نے یہ سہر ا اپنے سر باندھا کہ مارکیٹس نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے ، اس لیے کہ وہ تجربہ کار ہیں اور ڈیلیور کر سکتے ہیں۔

فیصلہ سازی اور ڈیلیور کرنے پر ناز اب چھ ہفتوں سے گومگو کا شکار ہے ۔ فیصلے کرنے کے بجائے بار بار قوم کو جتلا رہے ہیں کہ مشکل فیصلوں کے بغیر گذارا نہیں۔ گو مگو اور مشکل فیصلوں سے گریز کا دورانیہ طویل ہوا تو مارکیٹس اور روپے ڈالر کی شرح مبادلہ نے سجدہ سہو کر لیا۔ جنھیں معیشت کو اعتماد دینا تھا وہ خود اعتماد کی تلاش میں پہلے لندن اور بعد ازاں اتحادیوں کو مناتے رہے کہ مشکل فیصلوں میں ساتھ دیں!

اگر یادداشت کے چراغ کو کچھ رگڑا جائے تو فیصلہ سازی کا کچھ یہی عالم حکومت سنبھالنے کے بعد پی ٹی آئی کا بھی تھا۔ نئی حکومت کو یقین تھا کہ آئی ایم ایف کے ہاتھ پاؤں چھونے کے بجائے دوست ممالک اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیں گے۔پی ٹی آئی حکومت کو جب مالیاتی آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوا تو آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا، مذاکرات کی رسم پوری ہوئی تو علم ہوا کہ مشکل فیصلوں کے بغیر گزارا نہیں، اس لیے کر لیے گئے۔

اس دوران روپے کی جو درگت بنی وہ بھی تاریخی تھی، اسٹاک ایکسچینج کو بھی اس دوران بار بار غشی کے دورے پڑے۔ اس وقت کی اپوزیشن نے پی ٹی آئی کی قوت فیصلہ اور وقت ضایع کرنے پر کیا کیا لتے نہ لیے۔ وقت کا جبر دیکھیے کہ اب ہو بہو وہی منظر ہے مگر بدلے ہوئے کرداروں کے ساتھ۔

پی ٹی آئی کا آدھے سے زیادہ وقت اس دور میں یہی بتانے اور سمجھانے میں صرف ہوا کہ ان کے ساتھ ن لیگ کی جاتی حکومت نے بڑی زیادتی کی ، خزانہ خالی اور قرضوں کا لمبا سا بہی کھاتہ میزان پورا کرنے کے لیے ہمارے سر دے مارا ہے، کریں تو کیا، جائیں تو کدھر؟ کچھ یہی عالم اب ن لیگ کے ساتھ ہیں۔ ہر آتی جاتی سانس میں ایک ہی گلہ ہے کہ عمران خان زیادتی کر گئے، مشکل فیصلہ کرتے ہیں تو سیاسی نقصان کا ڈر ہے ، نہیں کرتے تو ملک کا نقصان ہے۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کو ایک خوفناک معاشی بحران کا سامنا ہے، بیلنس آف پیمنٹس کا شدید بحران ہے، درآمدات اور برآمدات کا فرق اڑھائی گنا سے زائد ہے۔ حکومت کا اپنا خسارہ بھی تاریخی حدوں کو چھو رہا ہے۔ عمران خان حکومت نے عدم اعتماد تحریک کے دباؤ میں عوامی حمایت کے لیے تیل اور بجلی کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کا جواء کھیلا۔ اُس وقت کی اپوزیشن کو اُن کے نہلے پر یہی دہلا سوجھا کہ یہ آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے کی خلاف ورزی ہے ۔

اب حکومت ن لیگ کی سربراہی میں کل کی اپوزیشن کے پاس ہے۔ حکومت میں آنے کے لیے بے تاب تجربہ کار سیاستدانوں کو عمران خان کے اس جوئے کا علم تھا، کیسے ممکن ہے کہ حساب کتاب کے ماہر، ماضی کے حکمرانوں کو اس جوئے کا توڑ تلاش کرنا نہ سوجھا۔ وزارتوں کی تقسیم کے بارے میں تو بتایا گیا کہ سب کچھ طے کر کے لکھ لیا گیا ہے تاکہ بوقت حکومت سازی جوتیوں میں دال نہ بٹے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ بقول مفتاح اسماعیل عمران خان کی بچھائی اس بارودی سرنگ کو ناکارہ کرنے کا انھوں نے پلان نہ بنایا!

شہباز شریف نے وزارت خزانہ ایک چھوڑ دو ماہرین یعنی مفتاح اسماعیل اور ڈاکٹر عائشہ کے حوالے کی۔ بلکہ یہ نوید بھی کہ اسحاق ڈار لندن میں بیٹھ کر شب روز معیشت کے تنِ مردہ میںجان ڈالنے کے کشتے تیار کر رہے ہیں۔ مگر یہ کیا کہ اب جب کہ وقت قیام آیا ہے تو یہ حالت ِ سجدہ میں ہیں۔

معاشی استحکام سیاسی استحکام کا محتاج ہوتا ہے ۔ نئی حکومت نے ڈیڑھ ماہ ڈھلمل کے بعد نصف ارب ڈالرز ماہانہ کی درآمدات پر پابندی کا فیصلہ کرکے اپنے تئیں جو ناک آؤٹ مکہ مارا ہے، وہ اب بے وقت کا مکہ ہے ۔

ان ڈیڑھ مہینوں میں حکومت تیل کی قیمتوں میں عالمی اضافے کو لاگو کر سکتی تھی، بلکہ کم کی گئی کچھ قیمت واپس کر کے خسارے کو قابو میں لا سکتی تھی،بجلی کی قیمتوں میں بھی مرحلہ وار مناسب ایڈجسٹمنٹ کر سکتی تھی، اپنے اخراجات میں ٹھیک ٹھاک کمی کرنے کا پلان بناتی، اصلاحات کا اتہ پتہ دیتی، فارن ایکسچینج کے بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالنے کے کچھ جتن کرتی۔ ٹارگٹ سبسیڈیز سے نچلے طبقے کو جنم لیے والے منفی اثرات کے لیے کچھ ریلیف مہیا کرتی ، مگر سیاسی نقصان اور اتحادیوں کی شکنوں پر بل کے خوف کی وجہ سے فیصلہ کرنے سے ہی مکمل گریز کے سبب معیشت کو سیاسی استحکام دینے کا قیمتی وقت ضایع ہو گیا۔

اب ن لیگ کے اندر سے بھی آوازیں آ رہی ہیں کہ یہ ملبہ اٹھانے سے بہتر ہے حکومت چھوڑ دیں۔ جلد الیکشن کی خبریں، نگران حکومت کے لیے گردش میں نام اور ملاقاتیں ، عمران خان کا عوامی دباؤ اور اسلام آباد مارچ کا پلان اب سیاست کو عدم استحکام کی دلدل میں لے آیا ہے، ایسے میں اب معاشی استحکام کہاں سے وارد ہوگا۔ پسِ منظر میں سری لنکا کی مثالیں اور آئی ایم ایف سے دوحہ میں مذاکرات کی سن گن بھی شامل کر لیں تو اس بے ساختہ اس کومنٹ کی سمجھ آتی ہے جو ن لیگ کے اندر سے کہیں سنائی دیا کہ ؛ ہم پھنس گئے ہیں !
Load Next Story