قلعہ بنانے سے…

بلوچستان میں اس صدی کے آغاز سے شروع ہونے والی چپقلش کی جڑیں مزید گہری ہوتی جارہی ہیں

tauceeph@gmail.com

لاہور:
اعلیٰ تعلیم یافتہ بلوچ خاتون شاری بلوچ فدائی گروپ میں شامل ہوئیں، پھر خودکش حملہ آور بن گئیں اور کراچی یونیورسٹی میں چینی زبان کے انسٹی ٹیوٹ کے سامنے خود کو دھماکا سے اڑا لیا جس میں تین چینی اساتذہ اور ایک پاکستانی ڈرائیور جاں بحق ہوئے۔ شاری بلوچ اپنے پیچھے دو بچوں، شوہر اور بوڑھے والدین کو چھوڑ گئی۔

خود کش دھماکے کے بعد حکام کوکراچی یونیورسٹی کی سیکیورٹی کا خیال آیا۔ یونیورسٹی کو قرونِ وسطی کی طرح قلعہ بنانے کا فیصلہ ہوا۔ یونیورسٹی میں 30سال سے تعینات سیکیورٹی اہلکاروں کو متحرک کردیا گیا۔ اساتذہ ، طالب علموں اور اپنے کاموں سے آنے والے افراد کی زندگیاں مشکل ہوگئیں۔

ایک نوجوان رپورٹر نے لکھا کہ کراچی یونیورسٹی میں 20 ہزار کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ انھیں سیکیورٹی کے لیے ضابطوں سے گزرنا پڑرہا ہے۔ مئی کی شدید گرمی میں یونیورسٹی کے پوائنٹ مرکزی دروازہ پر ختم ہوجاتے ہیں۔

طلبا اور طالبات کو گرمی میں طویل فاصلے پیدل طے کرنے پڑرہے ہیں۔ دھماکا کے فورا بعد یونیورسٹی کی تمام کینٹین بند کردی گئی ہیں۔ اساتذہ اور طلبہ کو پانی تک میسر نہیں ۔ اب شہر میں مزید دو دھماکے ہوچکے ہیں اور کئی بے گناہ اپنی جانیں کھو چکے ہیں۔

شاری بلوچ نے ایک انتہا پسندانہ اقدام کیا۔ اس خودکش حملہ کا فوری نقصان تو یہ ہوا کہ کراچی کی دو یونیورسٹیوں کراچی یونیورسٹی اور این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی میں چینی زبان پڑھانے والے اساتذہ پاکستان سے چلے گئے، یوں دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان کی تدریس معطل ہوگئی ۔ کئی سو طلبہ جو ان دونوں اداروں میں چینی زبان کا کورس کررہے ہیں ان کے بارے میں چینی حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ اب انسٹی ٹیوٹ میں کلاسیں آن لائن ہونگی۔

کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ انسٹی ٹیوٹ میں اس سال بی ایس کورس کی تدریس کا آغاز ہوا تھا اور یہ کورس اب بند ہوجائے گا۔ مگر اس کے ساتھ زیرِ تعلیم بلوچ طلبہ کے لاپتہ ہونے کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک بلوچ طالب علم کو لاہور سے گرفتار کیا گیا۔ لاہور میں انسانی حقوق کے لیے جدوجہد میں مصروف وکلاء کی کوششوں سے لاہور ہائی کورٹ نے اس گمشدگی کا نوٹس لیا اور پولیس حکام کو اس طالب علم کو رہا کرنا پڑا۔ اس طرح کی خبریں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بھی آئیں۔

بلوچستان میں اس صدی کے آغاز سے شروع ہونے والی چپقلش کی جڑیں مزید گہری ہوتی جارہی ہیں۔ یہ بلوچستان کا نیا تنازعہ بزرگ بلوچ سردار اکبر بگٹی کے قتل سے شروع ہوا۔ بلوچستان اس سے نئے بحران کا شکار ہوا۔ بلوچ سرداروں کا جرگہ ہوا۔ اس جرگہ میں اس معاہدہ حق خود اختیاری پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ بلوچستان کے امور کے ماہر عزیز سنگھور کی تحقیق کے مطابق یہ معاہدہ خان قلات اور انگریز وائسرائے کے درمیان ہوا تھا۔


خان قلات ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ سردار بگٹی کے ایک پوتے اور خیر بخش مری کے صاحبزادگان نے بھی یورپ میں سیاسی پناہ لی۔ بلوچستان میں آباد پنجابی، پٹھانوں اور اردو بولنے والے اساتذہ، وکلاء، ڈاکٹروں، انجنیئروں، صحافیوں اور خواتین کی ٹارگٹ کلنگ کی لہر آئی اور کچھ دنوں بعد بلوچ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگیں۔

2008میں پیپلز پارٹی نے وفاق اور بلوچستان میں حکومتیں بنائیں۔ سردار اسلم رئیسانی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے۔ قومی اسمبلی میں بلوچستان کے خلاف ماضی میں ہونے والی زیادتیوں کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ حقوق آغاز بلوچستان کا پیکیج آیا۔ کچھ لاپتہ افراد اپنے گھروں تک پہنچے مگر سردار اسلم رئیسانی نے اعتراف کیا کہ ان کی حکومت کی رٹ کوئٹہ ڈویژن کی حدود تک محدود ہے۔ 2013 میں متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔

سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے تھم گیا۔ ڈاکٹر مالک نے یورپ میں مقیم جلاوطن رہنماؤں سے مذاکرات کیے اور انھیں ملک واپسی کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ ابھی یہ مذاکرات مکمل ہونے والے تھے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت کو رخصت کردیا گیا۔ ان کی پیش رو حکومتوں نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی۔ گزشتہ سال گوادر کے ماہی گیروں نے اپنے حقوق کے لیے تحریک شروع کی۔ جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل ، ہدایت الرحمن نے تحریک کی قیادت کی۔ ان کا بیانیہ ہے کہ ان کے آباؤ اجداد ہزار سال سے اس علاقہ میں آباد ہیں مگر اہلکار ان کی شناخت پوچھتے ہیں۔

غیر ملکی بڑے فشنگ ٹرالر گوادر کے ساحل سے ساری مچھلی شکار کرلیتے ہیں۔ غریب ماہی گیروں کو جن کا واحد روزگار ماہی گیری ہے پورے ہفتہ شکار پر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ان کے مطالبات میں ماہی گیروں کو پانچ دن تک ماہی گیری کا حق دینے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ گوادر کے ماہی گیروں کا احتجاج ایک مہینہ تک جاری رہا۔

جماعت اسلامی کے متحرک کارکن سرفراز احمد کا کہنا ہے کہ بلوچوں کے حالات کے بارے میں مولانا ہدایت الرحمن کی آدھے منٹ کی وڈیو سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گئی۔ نیشنل ورکرز پارٹی کے صدر یوسف مستی خان احتجاج میں شرکت کے لیے گوادر گئے تو گرفتار کر لیے گئے۔ بلوچستان کے علاوہ ملک کے مختلف علاقوں سے بلوچ طلبہ اور سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات میں کمی نہیں آئی۔

بلوچ سیاسی کارکن خواتین نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا۔ پولیس نے کئی طلبہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے فیصلہ دیا کہ احتجاج ایک آئینی حق ہے اور ان افراد کے خلاف غداری کا مقدمہ خارج کردیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے قائد اعظم یونیورسٹی کے چانسلر ، صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور وائس چانسلر کو ہدایات جاری کیں کہ وہ بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے کی وارداتوں کے تدارک کے لیے اقدامات کریں۔

معزز چیف جسٹس نے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر مشتمل کمیشن قائم کیا اور ہدایات جاری کیں کہ بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے اور لاپتہ کرنے کے واقعات کمیشن کے سامنے رکھے جائیں۔ بلوچستان کے مسائل کا حل محض کراچی یونیورسٹی کو قلعہ میں تبدیل کرنے، پورے شہر میں چوکیاں بنانے، بلوچستان کی یونیورسٹیوں کو بند کرنے، سیاسی کارکنوں اور طلبہ کو لاپتہ کرنے میں مضمر نہیں ہے۔ خود وزیر اعظم شہباز شریف ان ہی خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔

انھوں نے بلوچستان کے دورہ میں وعدہ کیا تھا کہ اس مسئلہ کے حل کے لیے متعلقہ افراد سے رابطہ کریں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کیا جائے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو مذاکرات کے لیے میز پر لایا جائے تاکہ مسئلہ کا سیاسی حل نکلے۔
Load Next Story