لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی
حکومت نے مہنگے موبائل فونز کی درآمد پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے جو ایک اچھا قدم ہے
پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن پون صدی گزرنے کے باوجود ہزاروں مربع میل کا علاقہ ایسا ہے جہاں آج بھی روایتی کاشت کاری ہو رہی ہے بارش نہ ہونے کے باعث بہت سے علاقے بنجر اور صحرا کا منظر پیش کر رہے ہیں چولستان ہو یا تھر ہو، پھوٹوہار کے بارانی علاقے ہوں چاہے نہری علاقے ہی کیوں نہ ہوں ہر طرف پانی کی قلت ہی قلت ہے۔
موسمیاتی تبدیلی نے فصلوں پر انتہائی مضر اثرات مرتب کرنا شروع کر دیے ہیں۔ بارانی علاقوں میں صدیوں پرانی کاشت کاری کے قدم جمے ہوئے ہیں، نئی زرعی ٹیکنالوجی سے دنیا نے اپنی فصلوں کی پیداوار کو دگنا تین گنا کرلیا ہے لہٰذا ایک طرف فصلوں کی کم پیداوار کے باعث فوڈ گروپ کی درآمدات کے مضر اثرات نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پیدا کردی ہے۔ رواں مالی سال کے صرف اور صرف 10 ماہ کی بات ہے فوڈ گروپ کی درآمدات 7 ارب 74 کروڑ 76 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی ہے۔
جب کہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں یہ مالیت 6 ارب 89 کروڑ93 لاکھ ڈالرز تھیں اس طرح 12فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس گروپ میں دیگر فوڈ کے نام سے ایک مد ہے جس کی درآمدات 2 ارب ڈالر سے زائد رہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ بوقت ضرورت گندم، چینی کی درآمدات کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی طرح چائے کی درآمد، خوردنی تیل کی درآمد اور دیگر ضروری خوراک کی درآمد کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن غیر ضروری اشیا کی درآمد کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میں چیز، مکھن، بسکٹ، ٹافیاں حتیٰ کہ کتے بلیوں کی خوراک بھی شامل ہے۔
اس طرح دیگر فوڈ گروپ کی درآمدات 2 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ حکومت نے ان غیر ضروری اور اشیائے تعیشات اور لگژری گاڑیوں، قیمتی موبائل فون، کاسمیٹکس سمیت 80 غیر ضروری اور اشیائے تعیشات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
فوڈ گروپ کی مد میں 10 ماہ کا درآمدی بل یہ ظاہرکر رہا ہے کہ اگر صحیح معنوں میں پابندی کا اعلان ہوتا ہے تو صرف اسی ایک گروپ کے درآمدی بل میں سالانہ ایک ارب ڈالر باآسانی بچایا جاسکتا ہے اور اگر ہم چینی، گندم وغیرہ کی درآمد کے بجائے برآمد کرنے والے بن جائیں تو مزید ایک ارب ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے ، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ایک طویل عرصے میں زراعت کے مسائل سے کسی طور پر بھی نمٹ نہ پانے کے باعث پاکستان کو گندم، چینی، کپاس، دالیں اور کئی اقسام کی سبزیاں، فروٹس، ڈرائی فروٹس بچوں کے لیے غذائی اشیا، پام آئل اور دیگر درآمدی خوراک کا بل اب سالانہ 10ارب ڈالر تک پہنچنے والا ہے جس میں سے اب چن چن کر غیر ضروری غذائی درآمدات پر پابندی لگا دی جائے۔
پاکستان کی کمزور معیشت جس کا سارا انحصار قرضوں پر ہے۔ قرضوں کے بار میں زبردست اضافے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کے شاہانہ اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں پھر بیرون ملک سفارت خانوں کے اخراجات وہاں کے عملے کی بھاری بھرکم تنخواہیں اور درآمدی سروسز کی ادائیگی پر بھی اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت اس کا بھی حساب کتاب لگا کر دیکھے کہاں کہاں ڈالرز کی بچت ہو سکتی ہے۔ تجویز دی جا رہی ہے کہ بڑی گاڑیوں کی درآمد پر فوری پابندی عائد کر دی جائے۔
یقینی طور پر پاکستان کی معیشت کمزور ہے اس کے کاندھوں پر لگژری گاڑیوں، مہنگے موبائل فونز کا بوجھ ناقابل برداشت ہے۔ پی بی ایس کی رپورٹ برائے درآمدات جوکہ مالی سال جولائی تا اپریل 2022کے 10 ماہ کے مطابق ٹرانسپورٹ گروپ کی درآمدات کا مالی بل 3ارب 73 کروڑ38 لاکھ ڈالر کا رہا جب کہ گزشتہ مالی سال اسی دورانیے کا بل 2 ارب 33 کروڑ30 لاکھ ڈالر کا رہا اور اس طرح 60 فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا۔ ایک کمزور معیشت جو قرض لے کر لرزتی ہوئی لڑکھڑاتی ہوئی ڈگمگاتی ہوئی چل رہی ہے۔
اس کے ٹرانسپورٹ گروپ کی درآمدات جو غالباً ایک سال میں 5 ارب ڈالر تک پہنچنے والی ہے اس کا ہر طرح سے جائزہ لیا جانا چاہیے اور جہاں تک لگژری گاڑیوں کی بات ہے وہ قطعاً ممنوع کر دی جائیں۔ ڈیوٹی ٹیکس چاہے کتنی زیادہ لگا دیں منگوانے والے خریدنے والے پھر بھی خریدتے رہیں گے کیونکہ یہاں معاملہ ضرورت کا بالکل نہیں ہے۔ معاملہ ہے اپنی شان و شوکت کے اظہار کا۔ معاشرے میں اپنی امارت کے فخریہ نمود و نمائش کا، اب اس کے لیے لاکھوں روپے مزید بطور ٹیکس بھی دینا پڑے تو یہ ان لوگوں کے لیے معمولی بات ہے۔
جہاں پر حکومتی معاشی ماہرین کو یہ دیکھنا ہوگا کہ کروڑوں ڈالر خرچ کرکے لگژری گاڑیوں کی درآمد سے پاکستان کی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ہے۔ ملک میں تو ڈالروں کی شدید قلت ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے سخت شرائط پر قرض بھی لیتے ہیں تو پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے بعد پھر مزید قرض لینے کی ضرورت پڑ جاتی ہے لہٰذا ایک ایک ڈالر بچائیں گے تو اربوں ڈالر کی بچت ہوگی۔
اب ذرا موبائل فون کی درآمدات کے اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیں۔ رواں مالی سال کے 10 ماہ کے دوران ایک ارب 81 کروڑ2 لاکھ 34 ہزار ڈالرز کے موبائل فونز درآمد کیے گئے جب کہ اس سے گزشتہ مالی سال کے 10 ماہ کا درآمدی بل ایک ارب 68 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کے ساتھ تقریباً ساڑھے سات فیصد کا اضافہ ہوا۔
حکومت نے مہنگے موبائل فونز کی درآمد پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے جو ایک اچھا قدم ہے لیکن اس میں اس بات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی کہ ان میں کئی موبائل فونز کی ضرورت ان افراد کو ہو سکتی ہے جو اس سے اپنے کاروباری معاملات کو مزید فروغ دے سکتے ہوں۔ اگر ان کے بغیر احسن طریقے سے کام چلایا جاسکتا ہو تو بہتر۔ بصورت دیگر صرف اور صرف ان افراد کو درآمد کی اجازت دی جائے جو ان مہنگے موبائل فونز کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے کر معیشت میں بہتری لانے کا سبب بنیں۔
کیونکہ جدید ٹیکنالوجی ہے اس کا حصول بھی ضروری ہے اور ان افراد کے پاس ہونا ضروری ہے جنھیں کاروباری ضرورت کے لیے اس کی اشد ضرورت ہو۔ معاشرے میں بہت سے افراد ہیں جو خود کو مہنگے ترین موبائل فونز کا مالک جتا کر محض اپنی شان و شوکت کا رعب ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان میں بہت سے افراد ایسے ہوں گے جنھیں موبائل کا مکمل استعمال بھی نہیں آتا اور ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ پاکستان ان لوگوں کی خاطر اپنا قیمتی زرمبادلہ خرچ نہیں کرسکتا۔
موسمیاتی تبدیلی نے فصلوں پر انتہائی مضر اثرات مرتب کرنا شروع کر دیے ہیں۔ بارانی علاقوں میں صدیوں پرانی کاشت کاری کے قدم جمے ہوئے ہیں، نئی زرعی ٹیکنالوجی سے دنیا نے اپنی فصلوں کی پیداوار کو دگنا تین گنا کرلیا ہے لہٰذا ایک طرف فصلوں کی کم پیداوار کے باعث فوڈ گروپ کی درآمدات کے مضر اثرات نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پیدا کردی ہے۔ رواں مالی سال کے صرف اور صرف 10 ماہ کی بات ہے فوڈ گروپ کی درآمدات 7 ارب 74 کروڑ 76 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی ہے۔
جب کہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں یہ مالیت 6 ارب 89 کروڑ93 لاکھ ڈالرز تھیں اس طرح 12فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس گروپ میں دیگر فوڈ کے نام سے ایک مد ہے جس کی درآمدات 2 ارب ڈالر سے زائد رہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ بوقت ضرورت گندم، چینی کی درآمدات کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی طرح چائے کی درآمد، خوردنی تیل کی درآمد اور دیگر ضروری خوراک کی درآمد کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن غیر ضروری اشیا کی درآمد کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میں چیز، مکھن، بسکٹ، ٹافیاں حتیٰ کہ کتے بلیوں کی خوراک بھی شامل ہے۔
اس طرح دیگر فوڈ گروپ کی درآمدات 2 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ حکومت نے ان غیر ضروری اور اشیائے تعیشات اور لگژری گاڑیوں، قیمتی موبائل فون، کاسمیٹکس سمیت 80 غیر ضروری اور اشیائے تعیشات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
فوڈ گروپ کی مد میں 10 ماہ کا درآمدی بل یہ ظاہرکر رہا ہے کہ اگر صحیح معنوں میں پابندی کا اعلان ہوتا ہے تو صرف اسی ایک گروپ کے درآمدی بل میں سالانہ ایک ارب ڈالر باآسانی بچایا جاسکتا ہے اور اگر ہم چینی، گندم وغیرہ کی درآمد کے بجائے برآمد کرنے والے بن جائیں تو مزید ایک ارب ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے ، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ایک طویل عرصے میں زراعت کے مسائل سے کسی طور پر بھی نمٹ نہ پانے کے باعث پاکستان کو گندم، چینی، کپاس، دالیں اور کئی اقسام کی سبزیاں، فروٹس، ڈرائی فروٹس بچوں کے لیے غذائی اشیا، پام آئل اور دیگر درآمدی خوراک کا بل اب سالانہ 10ارب ڈالر تک پہنچنے والا ہے جس میں سے اب چن چن کر غیر ضروری غذائی درآمدات پر پابندی لگا دی جائے۔
پاکستان کی کمزور معیشت جس کا سارا انحصار قرضوں پر ہے۔ قرضوں کے بار میں زبردست اضافے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کے شاہانہ اخراجات اتنے زیادہ ہوتے ہیں پھر بیرون ملک سفارت خانوں کے اخراجات وہاں کے عملے کی بھاری بھرکم تنخواہیں اور درآمدی سروسز کی ادائیگی پر بھی اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت اس کا بھی حساب کتاب لگا کر دیکھے کہاں کہاں ڈالرز کی بچت ہو سکتی ہے۔ تجویز دی جا رہی ہے کہ بڑی گاڑیوں کی درآمد پر فوری پابندی عائد کر دی جائے۔
یقینی طور پر پاکستان کی معیشت کمزور ہے اس کے کاندھوں پر لگژری گاڑیوں، مہنگے موبائل فونز کا بوجھ ناقابل برداشت ہے۔ پی بی ایس کی رپورٹ برائے درآمدات جوکہ مالی سال جولائی تا اپریل 2022کے 10 ماہ کے مطابق ٹرانسپورٹ گروپ کی درآمدات کا مالی بل 3ارب 73 کروڑ38 لاکھ ڈالر کا رہا جب کہ گزشتہ مالی سال اسی دورانیے کا بل 2 ارب 33 کروڑ30 لاکھ ڈالر کا رہا اور اس طرح 60 فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا۔ ایک کمزور معیشت جو قرض لے کر لرزتی ہوئی لڑکھڑاتی ہوئی ڈگمگاتی ہوئی چل رہی ہے۔
اس کے ٹرانسپورٹ گروپ کی درآمدات جو غالباً ایک سال میں 5 ارب ڈالر تک پہنچنے والی ہے اس کا ہر طرح سے جائزہ لیا جانا چاہیے اور جہاں تک لگژری گاڑیوں کی بات ہے وہ قطعاً ممنوع کر دی جائیں۔ ڈیوٹی ٹیکس چاہے کتنی زیادہ لگا دیں منگوانے والے خریدنے والے پھر بھی خریدتے رہیں گے کیونکہ یہاں معاملہ ضرورت کا بالکل نہیں ہے۔ معاملہ ہے اپنی شان و شوکت کے اظہار کا۔ معاشرے میں اپنی امارت کے فخریہ نمود و نمائش کا، اب اس کے لیے لاکھوں روپے مزید بطور ٹیکس بھی دینا پڑے تو یہ ان لوگوں کے لیے معمولی بات ہے۔
جہاں پر حکومتی معاشی ماہرین کو یہ دیکھنا ہوگا کہ کروڑوں ڈالر خرچ کرکے لگژری گاڑیوں کی درآمد سے پاکستان کی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ہے۔ ملک میں تو ڈالروں کی شدید قلت ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے سخت شرائط پر قرض بھی لیتے ہیں تو پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے بعد پھر مزید قرض لینے کی ضرورت پڑ جاتی ہے لہٰذا ایک ایک ڈالر بچائیں گے تو اربوں ڈالر کی بچت ہوگی۔
اب ذرا موبائل فون کی درآمدات کے اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیں۔ رواں مالی سال کے 10 ماہ کے دوران ایک ارب 81 کروڑ2 لاکھ 34 ہزار ڈالرز کے موبائل فونز درآمد کیے گئے جب کہ اس سے گزشتہ مالی سال کے 10 ماہ کا درآمدی بل ایک ارب 68 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کے ساتھ تقریباً ساڑھے سات فیصد کا اضافہ ہوا۔
حکومت نے مہنگے موبائل فونز کی درآمد پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے جو ایک اچھا قدم ہے لیکن اس میں اس بات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی کہ ان میں کئی موبائل فونز کی ضرورت ان افراد کو ہو سکتی ہے جو اس سے اپنے کاروباری معاملات کو مزید فروغ دے سکتے ہوں۔ اگر ان کے بغیر احسن طریقے سے کام چلایا جاسکتا ہو تو بہتر۔ بصورت دیگر صرف اور صرف ان افراد کو درآمد کی اجازت دی جائے جو ان مہنگے موبائل فونز کے ذریعے اپنے کاروبار کو وسعت دے کر معیشت میں بہتری لانے کا سبب بنیں۔
کیونکہ جدید ٹیکنالوجی ہے اس کا حصول بھی ضروری ہے اور ان افراد کے پاس ہونا ضروری ہے جنھیں کاروباری ضرورت کے لیے اس کی اشد ضرورت ہو۔ معاشرے میں بہت سے افراد ہیں جو خود کو مہنگے ترین موبائل فونز کا مالک جتا کر محض اپنی شان و شوکت کا رعب ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان میں بہت سے افراد ایسے ہوں گے جنھیں موبائل کا مکمل استعمال بھی نہیں آتا اور ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ پاکستان ان لوگوں کی خاطر اپنا قیمتی زرمبادلہ خرچ نہیں کرسکتا۔