سخت معاشی فیصلوں میں تاخیر آئی ایم ایف سے مذاکرات میں پیش رفت رک گئی
فریقین میں بجٹ خسارے،محصولات کے ہدف،بجلی پر سبسڈی واپس لینے کے منصوبے،مہنگائی و اقتصادی ترقی کے تخمینوں پر اختلاف
پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان مذاکرات کا معاملہ اب بھی حل طلب ہے کیونکہ پہلے راؤنڈ کے دوران اکنامک منیجرز وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے بڑی منظوری کے منتظر ہیں جو فنڈ کے ساتھ اختلافات کو ختم کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
اسلام آباد اور دوحہ کے ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ بدھ سے شروع ہونے والی تکنیکی سطح پر بات چیت کے دوران آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام میکرو اکنامک فریم ورک پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے۔
فریقین میں بجٹ خسارے، محصولات کے ہدف، بجلی کی سبسڈی واپس لینے کے منصوبے، اخراجات کو ریشنلائز کرنے اور مہنگائی و اقتصادی ترقی کے تخمینوں پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ اختلاف صرف اسی صورت میں دور ہوسکتے ہیں جب فیول پر سبسڈی اور اگلے مالی سال کے ٹیکس اقدامات کے بارے میں صورتحال واضح ہو جائے۔ یہ مذاکرات 25 مئی تک جاری رہیں گے جس کا اہم فائنل راؤنڈ پیر سے شروع ہوگا۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ پاشا فائنل راؤنڈ کے لیے آج دوحہ جائیں گے۔
ڈاکٹر عائشہ پاشا نے کہا کہ ہم دوحہ جانے سے پہلے بڑی منظوری کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ نے دو منظرنامے تیار کیے ہیں۔ پہلے منصوبے کا انحصار مشکل فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے قیادت سے اجازت ملنے پر ہے جبکہ منظوری نہ ملنے کی صورت میں دوسرا پلان ہوگا لیکن ایک بیک اپ پلان ہے، پالیسی کی سطح پر بات چیت کے دوران آئی ایم ایف کے سامنے دونوں خاکے پیش کریں گے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں۔
بجٹ فریم ورک کو حتمی شکل دینے میں تاخیر کے سوال پر عائشہ پاشا نے کہا کہ دیگر امور پر مکمل وضاحت کے بعد فریم ورک پر اتفاق رائے ہو جائے گا جو وزراء کے دوحہ پہنچنے کے بعد سامنے آئے گا۔
مفتاح اسماعیل کراچی سے دوحہ کے لیے روانہ ہونا تھا لیکن انہیں ہفتے کے روز لاہور آنا پڑا تاکہ وزیر اعظم کو ایک بار پھر زیر التوا فیصلے لینے کیلئے قائل کیا جا سکے۔ لاہور ہی میں وزیراعظم شہبازشریف اور آصف زرداری کی ملاقات ہوئی جس میں سیاسی اور معاشی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
پچھلے ماہ وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی اعلیٰ انتظامیہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ یکم مئی سے ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینا شروع کر دیں گے لیکن ڈاکٹر حفیظ شیخ اور شوکت ترین کی طرح وہ بھی یہ وعدہ پورا جرنے میں ناکام رہے جس سے فریقین میں اعتماد کا فقدان مزید بڑھا۔
ادھر وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ہفتے کے روز کہا کہ اگر کسی نے حکومت کو فرائض کی ادائیگی سے روکا اور پارٹی کی کارکردگی پر شک کیا تو وہ عمران خان کے چھوڑے گئے گند کی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے بلکہ انتخابات کیلئے اتحادیوں سے مشورہ کریں گے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے ہچکچا رہے ہیں کیونکہ اگر قیمتیں بڑھیں تو لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ واضح رہے کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اسے سعودی عرب، چین اور دیگر ممالک سے امداد حاصل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھنے اور روپے کی قدر میں زبردست گراوٹ کو روکنے میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے 15 فروری کو ایندھن کی قیمتیں چار ماہ کے لیے منجمد کر دی تھیں جس کے بعد اب نئی حکومت کے ہاتھ بندھ گئے ہیں۔ شہباز شریف کو قیمتوں میں اضافے اور عوام کے ردعمل کا سامنا کرنے یا سبسڈی دیتے رہنے اور ملک کی معاشی آزادی کو خطرے میں ڈالنے کے انتخاب کا سامنا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی قیادت سے منظوری ملنے میں تاخیر کی وجہ سے وزارت خزانہ کو بجٹ خسارے کے اعداد و شمار پر اتفاق کرنا مشکل ہو رہا ہے جس کا براہ راست انحصار بجلی اور ایندھن کی سبسڈی کے بارے میں کسی بھی فیصلے پر ہے۔ آئندہ مالی سال میں بجلی کے ٹیرف میں مطلوبہ ایڈجسٹمنٹ اور اس فرق کو پر کرنے کے لیے بجٹ سبسڈی کے معاملے پر بھی ابہام ہے۔
علاوہ ازیں اگلے سال کے محصولات کی وصولی کے ہدف پر اب بھی اختلاف تھا، کیونکہ آئی ایم ایف اسے 7.25 ٹریلین روپے مقرر کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا جبکہ ایف بی آر یہ ہدف 6.8 ٹریلین روپے سے لے کر 7 ٹریلین روپے تک دکھا رہا ہے۔
اسلام آباد اور دوحہ کے ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ بدھ سے شروع ہونے والی تکنیکی سطح پر بات چیت کے دوران آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام میکرو اکنامک فریم ورک پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے۔
فریقین میں بجٹ خسارے، محصولات کے ہدف، بجلی کی سبسڈی واپس لینے کے منصوبے، اخراجات کو ریشنلائز کرنے اور مہنگائی و اقتصادی ترقی کے تخمینوں پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ اختلاف صرف اسی صورت میں دور ہوسکتے ہیں جب فیول پر سبسڈی اور اگلے مالی سال کے ٹیکس اقدامات کے بارے میں صورتحال واضح ہو جائے۔ یہ مذاکرات 25 مئی تک جاری رہیں گے جس کا اہم فائنل راؤنڈ پیر سے شروع ہوگا۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ پاشا فائنل راؤنڈ کے لیے آج دوحہ جائیں گے۔
ڈاکٹر عائشہ پاشا نے کہا کہ ہم دوحہ جانے سے پہلے بڑی منظوری کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ نے دو منظرنامے تیار کیے ہیں۔ پہلے منصوبے کا انحصار مشکل فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے قیادت سے اجازت ملنے پر ہے جبکہ منظوری نہ ملنے کی صورت میں دوسرا پلان ہوگا لیکن ایک بیک اپ پلان ہے، پالیسی کی سطح پر بات چیت کے دوران آئی ایم ایف کے سامنے دونوں خاکے پیش کریں گے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں۔
بجٹ فریم ورک کو حتمی شکل دینے میں تاخیر کے سوال پر عائشہ پاشا نے کہا کہ دیگر امور پر مکمل وضاحت کے بعد فریم ورک پر اتفاق رائے ہو جائے گا جو وزراء کے دوحہ پہنچنے کے بعد سامنے آئے گا۔
مفتاح اسماعیل کراچی سے دوحہ کے لیے روانہ ہونا تھا لیکن انہیں ہفتے کے روز لاہور آنا پڑا تاکہ وزیر اعظم کو ایک بار پھر زیر التوا فیصلے لینے کیلئے قائل کیا جا سکے۔ لاہور ہی میں وزیراعظم شہبازشریف اور آصف زرداری کی ملاقات ہوئی جس میں سیاسی اور معاشی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
پچھلے ماہ وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی اعلیٰ انتظامیہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ یکم مئی سے ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینا شروع کر دیں گے لیکن ڈاکٹر حفیظ شیخ اور شوکت ترین کی طرح وہ بھی یہ وعدہ پورا جرنے میں ناکام رہے جس سے فریقین میں اعتماد کا فقدان مزید بڑھا۔
ادھر وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ہفتے کے روز کہا کہ اگر کسی نے حکومت کو فرائض کی ادائیگی سے روکا اور پارٹی کی کارکردگی پر شک کیا تو وہ عمران خان کے چھوڑے گئے گند کی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے بلکہ انتخابات کیلئے اتحادیوں سے مشورہ کریں گے۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے ہچکچا رہے ہیں کیونکہ اگر قیمتیں بڑھیں تو لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ واضح رہے کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اسے سعودی عرب، چین اور دیگر ممالک سے امداد حاصل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھنے اور روپے کی قدر میں زبردست گراوٹ کو روکنے میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے 15 فروری کو ایندھن کی قیمتیں چار ماہ کے لیے منجمد کر دی تھیں جس کے بعد اب نئی حکومت کے ہاتھ بندھ گئے ہیں۔ شہباز شریف کو قیمتوں میں اضافے اور عوام کے ردعمل کا سامنا کرنے یا سبسڈی دیتے رہنے اور ملک کی معاشی آزادی کو خطرے میں ڈالنے کے انتخاب کا سامنا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی قیادت سے منظوری ملنے میں تاخیر کی وجہ سے وزارت خزانہ کو بجٹ خسارے کے اعداد و شمار پر اتفاق کرنا مشکل ہو رہا ہے جس کا براہ راست انحصار بجلی اور ایندھن کی سبسڈی کے بارے میں کسی بھی فیصلے پر ہے۔ آئندہ مالی سال میں بجلی کے ٹیرف میں مطلوبہ ایڈجسٹمنٹ اور اس فرق کو پر کرنے کے لیے بجٹ سبسڈی کے معاملے پر بھی ابہام ہے۔
علاوہ ازیں اگلے سال کے محصولات کی وصولی کے ہدف پر اب بھی اختلاف تھا، کیونکہ آئی ایم ایف اسے 7.25 ٹریلین روپے مقرر کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا جبکہ ایف بی آر یہ ہدف 6.8 ٹریلین روپے سے لے کر 7 ٹریلین روپے تک دکھا رہا ہے۔