عورتیں اور اقوام متحدہ

٭عورتوں کی تعلیم اور تربیت: تعلیم ایک انسانی حق ہے اور مساوات، ترقی اور امن کے مقاصد کے حصول کے لیے ضروری آلہ ہے

1975 کا سال تھا، میں روزنامہ مساوات کے دفتر میں بیٹھی کام میں مصروف تھی۔ ایک صاحب کچھ کنفیوزڈ انداز میں میری میز کی طرف آئے۔ ''بھئی یہ عورتوں کا عالمی سال کیا ہے؟'' ۔ ''اقوام متحدہ نے 1975 کو عورتوں کا عالمی سال قرار دیا ہے'' میں نے انھیں بتایا۔ اقوام متحدہ نے 1975 میں میکسیکو میں عورتوں کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد کی تھی اور پاکستان سے بیگم نصرت بھٹو کی قیادت میں ایک وفد نے اس میں شرکت کی تھی۔ دوسری عالمی کانفرنس 1980میں کوپن ہیگن میں، تیسری 1985 میں نیروبی میں اور چوتھی عالمی کانفرنس 1995 میں بیجنگ میں منعقد ہوئی جس میں پاکستان کے وفد کی قیادت بے نظیر بھٹو نے کی۔ جب کہ پاکستانی این جی اوز کی خواتین نے سول سوسائٹی کی نمایندگی کی۔ گزشتہ عشرے میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے وقار نسواں نے اس بات پر نظر رکھی ہے کہ بیجنگ پلیٹ فارم ایکشن میں جن بارہ اہم شعبوں کی نشاندہی کی گئی تھی، ان پر عمل درآمد میں کس حد تک پیش رفت ہوئی ہے اور اس حوالے سے تجاویز پیش کی جاتی رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنے تئیسویں (23) خصوصی اجلاس میں بیجنگ کانفرنس کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کا جو جائزہ لیا وہ بیجنگ پلس فائیو (+5) کہلاتا ہے۔ 1995 میں بیجنگ میں جو وعدے کیے گئے تھے، ان پر عمل درآمد میں کیا کوتاہی ہوئی اور کیا چیلنجز درپیش ہیں انھیں سامنے لایا گیا۔ مارچ 2005 میں کمیشن نے اپنے 49 ویں سیشن میں دس سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا اور 54 ویں سیشن میں بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن کے پندرہ سال کا جائزہ لیا گیا۔ اب اقوام متحدہ نے اپنے رکن ممالک سے کہا ہے کہ وہ قومی سطح پر بیجنگ ڈکلیئریشن اور پلیٹ فارم فار ایکشن پر عمل درآمد کی راہ میں آنے والے چیلنجز اور ترقی کا جائزہ لیں۔ 2015 کے جائزے کے لیے حکومتیں متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اشتراک کریں تاکہ ان کے تجربات اور مہارتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ قومی جائزہ رجحانات، کامیابیوں اور باقی رہ جانے والے کاموں اور چیلنجز کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ عمل درآمد میں تیزی لانے کے لیے منصوبے بھی تیار کرے گا۔

تمام رکن ممالک کو اپنا قومی جائزہ 2014 یکم مئی تک مکمل کرنا ہوگا۔ یہ قومی جائزے اقوام متحدہ کے عالمی جائزے کا حصہ بنیں گے اور اقوام متحدہ کے کمیشن کے 59 ویں (CSW59) میں پیش کیے جائیں گے۔ اقوام متحدہ کے علاقائی کمیشن علاقائی رپورٹوں اور بین الحکومتی میٹنگوں میں شامل رہیں گے۔ اس حوالے سے پاکستان کا تعلق اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا و پیسیفک سے ہے۔ کمیٹی برائے سماجی ترقی کا سیشن 23 تا 25 جون 2014 کو بنکاک میں ہوگا جس میں بیجنگ پلس 20 کی علاقائی کانفرنس کی ابتدائی تیاری کی جائے گی اور 10 تا 14 نومبر 2014 کو صنفی مساوات اور عورتوں کی بااختیاری کے موضوع پر بنکاک میں ہی کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ قومی جائزہ کے عمل میں مدد دینے کے لیے یو این ویمن اور اقوام متحدہ کے علاقائی کمیشن قومی جائزے کی تیاری کے لیے ایک رہنما Note تیار کریں گے۔ اس کے چار حصے ہوں گے: 1995 کے بعد سے اب تک ہونے والی کامیابیوں اور چیلنجز کا جائزہ اور تجزیہ: 2009 کے بعد سے پلیٹ فارم فار ایکشن کے بارہ اہم شعبوں میں ہونے والی پیش رفت: معلومات، اعداد و شمار اور نئی ترجیحات۔ اس طرح رکن ممالک کو قومی اور علاقائی سطح پر عورتوں کے مقام اور مرتبے کا جائزہ لینے کا موقع ملے گا۔ اور یہ بھی کہ صنفی مساوات کے حصول کے لیے انھیں کیا مزید کوششیں کرنا ہوں گی۔ یہاں ہم قارئین کو یہ بتاتے چلیں کہ بیجنگ اعلامیہ اور پلیٹ فارم فار ایکشن کے بارہ اہم شعبے کون سے ہیں:

٭عورتیں اور غربت: غربت کے ناقابل قبول حالات میں رہنے والے ایک ارب سے زیادہ افراد میں اکثریت عورتوں کی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں۔ غربت ایک پیچیدہ اور کثیرالجہتی مسئلہ ہے۔ غربت کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں ساختیاتی وجوہات بھی شامل ہیں۔

٭عورتوں کی تعلیم اور تربیت: تعلیم ایک انسانی حق ہے اور مساوات، ترقی اور امن کے مقاصد کے حصول کے لیے ضروری آلہ ہے۔ غیر امتیازی تعلیم لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے فائدہ مند ہے اور اس کا نتیجہ مرد اور عورت کے زیادہ مساوی تعلقات کی شکل میں نکلتا ہے۔

٭عورتیں اور صحت: عورتوں کو جسمانی اور ذہنی صحت کے اعلیٰ ترین معیارات سے لطف اندوز ہونے کا حق ہے۔ یہ حق ان کی زندگی اور ذاتی اور عوامی مصروفیات میں حصہ لینے کے لیے ضروری ہے۔


٭عورتوں پر تشدد: یہ مساوات، ترقی اور امن کے مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یہ عورتوں کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی خلاف ورزی ہے۔

٭عورتیں اور مسلح تنازعات: عورتوں کی ترقی کے لیے عالمی امن، انسانی حقوق، جمہوریت اور تنازعات کا پرامن تصفیہ ضروری ہے۔

٭عورتیں اور معیشت: معاشرے کے اقتصادی ڈھانچے پر اختیار رکھنے اور مواقع کے لحاظ سے مردوں اور عورتوں میں بہت فرق ہے۔ اقتصادی فیصلہ سازی میں دنیا کے مختلف حصوں میں عورتیں یا تو نظر ہی نہیں آتیں یا ان کی برائے نام نمایندگی ہوتی ہے۔چنانچہ مالیاتی، کاروباری اور دیگر اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔

٭عورتیں اقتدار اور فیصلہ سازی میں: انسانی حقوق کے عالمی منشور کے مطابق ہر ایک کو اپنے ملک کی حکومت میں حصہ لینے کا حق ہے۔ عورتوں کی خودمختاری اور بااختیاری اور ان کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی مرتبے میں بہتری لانے سے ہی زندگی کے ہر شعبے میں پائیدار ترقی ہوسکتی ہے۔

٭عورتوں کے انسانی حقوق: انسانی اور بنیادی آزادیاں ہر انسان کا پیدائشی حق ہیں۔ ان کی حفاظت اور ان کا فروغ ہر حکومت کی اولین ذمے داری ہے۔

٭عورتیں اور ماحولیات۔

٭بچیاں: بچوں کے حقوق کے کنونشن کے مطابق رکن ممالک بچوں کے حقوق کا احترام کریں گے اور انھیں یقینی بنائیں گے بعدازاں مذکورہ بالا بارہ شعبوں کے علاوہ ''عورتیں اور معذوری'' کے شعبے کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا۔
Load Next Story