کیا اسلام آباد واقعی محفوظ ہے
ضلع کچہری میں پیش آنے والا اندوہ ناک واقعہ کا احوال
تین مارچ کی صبح وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہلکی بارش برس رہی تھی، شہر میں گذشتہ رات بھارت کی شکست اور وطن عزیز کی ایشیا کرکٹ کپ میں تاریخی فتح پر تبصرے ابھی شروع ہی ہوئے تھے کہ اچانک ایک خبر ٹی وی چینلز پر گونجنے لگی ''اسلام آباد کچہری پر حملہ، کم ازکم گیارہ افراد ہلاک، دو درجن زخمی '' پھر چند لمحوں بعد لائیو کوریج نے شہر کیا، ملک بھر کو سوگ وار کردیا۔
اب تبصروں کا رخ میچ کی بجائے، طالبان سے جنگ بندی اور شہر کی سیکیوریٹی کی طرف مڑ چکا تھا، پھر اس کے بعد بات نہ جانے کہاں سے کہاں نکل گئی، جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ دوسری جانب ملکی اور غیر ملکی میڈیا اس اندوہناک واقعے کی ابتدائی رپورٹ فراہم کر رہا تھا لیکن اصل صورت حال واقعے کے قریباً ایک گھنٹے بعد واضح ہونا شروع ہوئی۔ یہ دن شہر کے مکینوں کو یوں بھی یاد رہے گا کہ آسمان سے بارش ہو رہی تھی اور انصاف جل رہا تھا۔ وفاقی دارالحکومت کی ضلع کچہری میں فائرنگ اور دو خودکش دھماکوں سے ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان، چار وکلاء سمیت گیارہ افرادجاں بحق جبکہ پچیس شدید زخمی ہوگئے ہیں۔
جاں بحق ہونیوالے وکلاء میں ایک خاتون بھی شامل ہے جبکہ زخمیوں کو پمزہسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں پرپانچ کی حالت تشویشناک ہے۔ واقعات کے مطابق سوموارکی صبح ساڑھے آٹھ سے پونے نو بجے کے درمیان بغیرسیکیورٹی والے داخلی راستہ ایف ایٹ مرکزفٹ بال گروانڈکی جانب سے دو دہشت گردی جوکلاشنکوفوں سے مسلح تھے داخل ہوئے اورانہوں نے وکلاء اور کچہری میں موجودافراد پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ضلع کچہری میں بھگدڑمچ گئی۔
پولیس کے مطابق دہشت گردوں نے پندرہ سے بیس منٹ تک اندھادھند سیدھی فائرنگ کی اوراسی دوران وہ ایڈیشنل سیشن جج اسلام آبادرفاقت اعوان کی عدالت کے سامنے پہنچے جہاں پرایک دہشت گردنے ان پربھی اندھادھند فائرنگ کی اس مرحلہ پرپولیس اور رینجرزکی نفری بھی پہنچ چکی تھی تھانہ مارگلہ کے ایس ایچ اوانسپکٹرخالد اعوان نے کانسٹیبل ادریس کے ہمراہ محفوظ مقام سے دہشت گردی پرفائرنگ کی جس نے پولیس پرجوابی فائرنگ کی اورہینڈ گرنیڈ پھینکا جو پھٹ نہ سکا جس پرپولیس نے دہشت گرد پر فائر کھولاجس سے وہ گر گیا اور ساتھ ہی دہشت گرد نے خود کو بم سے اڑالیا۔
اسی طرح دوسرے دہشت گرد نے وکلاء چیمبرز کی جانب رخ کیا اور اندھا دھند فائرنگ کرنے پر خود کو بم سے اڑالیا جس کے بعد وفاقی پولیس، رینجرز اور پولیس کمانڈوز نے پوری ضلع کچہری کوگھیرے میں لے لیااورجائے وقوعہ سے ایڈیشنل سیشن جج اسلام آبادرفاقت اعوان، ایڈووکیٹ فضہ طارق، راؤ رشید ایڈووکیٹ، تنویر حیدر ایڈووکیٹ اورمیاں محمد اسلم سمیت چھتیس افراد کو پمز منتقل کیا جہاں پر ڈاکٹروں نے سیشن جج رفاقت اعوان مذکورہ وکلاء سمیت گیارہ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کردی جبکہ باقی پچیس زخمیوں میں سے پانچ کو تشیویشناک حالت میں آپریشن تھیٹرمنتقل کردیا۔
پولیس نے جائے وقوعہ کو''کارڈن آف''کرکے ایک دہشت گردکامکمل چہرہ قبضہ میں لے لیا ہے جوکہ قابل شناخت ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری ضلع کچہری میں تعینات کردی گئی ہے۔ وقوعہ کے بعد ضلع کچہری پیشیوں پرآئے افراد کے ورثاء کوپمز ہسپتال کے باہر تانتا بندھ گیا لوگ اپنے پیاروں کودھاڑیں مارتے تلاش کرتے رہے۔ زخمیوں کو پمز منتقل کرنے کے پمزکی سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی۔ آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے جائے وقوعہ کادورہ کیاجس میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی تعداددو سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔
پوری ضلع کچہری کی سیکیورٹی کلئینرنس مکمل کی گئی ہے۔ ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹررضوان نے بھی جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردوں کی تعداد دو یا پانچ سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے میڈیا کے لوگوں کو ضلع کچہری سے دور ہٹنے کا کہتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ ممکنہ طور پر کوئی دہشت گرد کہیں کچہری میں چھپے ہوئے بھی ہوسکتے ہیں اس لئے مکمل سیکیورٹی سرچنگ کا عمل مکمل ہونے تک کسی کو ضلع کچہری میں جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اب تبصروں کا رخ میچ کی بجائے، طالبان سے جنگ بندی اور شہر کی سیکیوریٹی کی طرف مڑ چکا تھا، پھر اس کے بعد بات نہ جانے کہاں سے کہاں نکل گئی، جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ دوسری جانب ملکی اور غیر ملکی میڈیا اس اندوہناک واقعے کی ابتدائی رپورٹ فراہم کر رہا تھا لیکن اصل صورت حال واقعے کے قریباً ایک گھنٹے بعد واضح ہونا شروع ہوئی۔ یہ دن شہر کے مکینوں کو یوں بھی یاد رہے گا کہ آسمان سے بارش ہو رہی تھی اور انصاف جل رہا تھا۔ وفاقی دارالحکومت کی ضلع کچہری میں فائرنگ اور دو خودکش دھماکوں سے ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان، چار وکلاء سمیت گیارہ افرادجاں بحق جبکہ پچیس شدید زخمی ہوگئے ہیں۔
جاں بحق ہونیوالے وکلاء میں ایک خاتون بھی شامل ہے جبکہ زخمیوں کو پمزہسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں پرپانچ کی حالت تشویشناک ہے۔ واقعات کے مطابق سوموارکی صبح ساڑھے آٹھ سے پونے نو بجے کے درمیان بغیرسیکیورٹی والے داخلی راستہ ایف ایٹ مرکزفٹ بال گروانڈکی جانب سے دو دہشت گردی جوکلاشنکوفوں سے مسلح تھے داخل ہوئے اورانہوں نے وکلاء اور کچہری میں موجودافراد پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ضلع کچہری میں بھگدڑمچ گئی۔
پولیس کے مطابق دہشت گردوں نے پندرہ سے بیس منٹ تک اندھادھند سیدھی فائرنگ کی اوراسی دوران وہ ایڈیشنل سیشن جج اسلام آبادرفاقت اعوان کی عدالت کے سامنے پہنچے جہاں پرایک دہشت گردنے ان پربھی اندھادھند فائرنگ کی اس مرحلہ پرپولیس اور رینجرزکی نفری بھی پہنچ چکی تھی تھانہ مارگلہ کے ایس ایچ اوانسپکٹرخالد اعوان نے کانسٹیبل ادریس کے ہمراہ محفوظ مقام سے دہشت گردی پرفائرنگ کی جس نے پولیس پرجوابی فائرنگ کی اورہینڈ گرنیڈ پھینکا جو پھٹ نہ سکا جس پرپولیس نے دہشت گرد پر فائر کھولاجس سے وہ گر گیا اور ساتھ ہی دہشت گرد نے خود کو بم سے اڑالیا۔
اسی طرح دوسرے دہشت گرد نے وکلاء چیمبرز کی جانب رخ کیا اور اندھا دھند فائرنگ کرنے پر خود کو بم سے اڑالیا جس کے بعد وفاقی پولیس، رینجرز اور پولیس کمانڈوز نے پوری ضلع کچہری کوگھیرے میں لے لیااورجائے وقوعہ سے ایڈیشنل سیشن جج اسلام آبادرفاقت اعوان، ایڈووکیٹ فضہ طارق، راؤ رشید ایڈووکیٹ، تنویر حیدر ایڈووکیٹ اورمیاں محمد اسلم سمیت چھتیس افراد کو پمز منتقل کیا جہاں پر ڈاکٹروں نے سیشن جج رفاقت اعوان مذکورہ وکلاء سمیت گیارہ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کردی جبکہ باقی پچیس زخمیوں میں سے پانچ کو تشیویشناک حالت میں آپریشن تھیٹرمنتقل کردیا۔
پولیس نے جائے وقوعہ کو''کارڈن آف''کرکے ایک دہشت گردکامکمل چہرہ قبضہ میں لے لیا ہے جوکہ قابل شناخت ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری ضلع کچہری میں تعینات کردی گئی ہے۔ وقوعہ کے بعد ضلع کچہری پیشیوں پرآئے افراد کے ورثاء کوپمز ہسپتال کے باہر تانتا بندھ گیا لوگ اپنے پیاروں کودھاڑیں مارتے تلاش کرتے رہے۔ زخمیوں کو پمز منتقل کرنے کے پمزکی سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی۔ آئی جی اسلام آباد سکندر حیات نے جائے وقوعہ کادورہ کیاجس میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی تعداددو سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔
پوری ضلع کچہری کی سیکیورٹی کلئینرنس مکمل کی گئی ہے۔ ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹررضوان نے بھی جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردوں کی تعداد دو یا پانچ سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے میڈیا کے لوگوں کو ضلع کچہری سے دور ہٹنے کا کہتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ ممکنہ طور پر کوئی دہشت گرد کہیں کچہری میں چھپے ہوئے بھی ہوسکتے ہیں اس لئے مکمل سیکیورٹی سرچنگ کا عمل مکمل ہونے تک کسی کو ضلع کچہری میں جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔