نجیب خان نواب نجیب الدولہ کیسے بنے
صوابی کی مٹی سے جنم لینے والے پختون راہ نما کی داستان
کراچی:
ہندوستان اور پختونوں کا تعلق اور رشتہ بہت قدیم ہے اور یہ تعلق ہزاروں سینکڑوں سالوں پر محیط ہے جس کا ثبوت ہندوستان اور پختونوں کی قدیم تاریخی کتب و آثار بھی ہیں اس لیے جس طرح پختونوں کی تاریخ ہندوستان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔
اس طرح ہندوستان کی سیاسی اور حکم رانی کی تاریخ میں بھی کوئی مورخ پختونوں کے کردار کو نظرانداز نہیں کر سکتا کیوں کہ اسی قوم (پختون) نے اس وقت کے متحدہ ہندوستان پرکئی صدیاں حکم رانی کی وہاں اپنی حویلیاں اور اپنے قبیلوں اور اشخاص کے ناموں سے شہر گاؤں اور محلے بنائے جو آج بھی انہی ناموں سے لکھے اور پکارے جاتے ہیں۔
وہاں پختون نسل سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لاکھوں افراد اور خاندان رہتے ہیں آج سے کئی صدیاں قبل ہندوستان خیبرپختون خوا کے پختونوں کے لیے وہی معاشی اہمیت رکھتا تھا جو آج کل سعودی عرب، دوہا، دبئی، قطر اور یورپ کے ممالک رکھتے ہیں، اس لیے اس زمانے میں زیادہ تر پختون محنت مزدوری اور نوکری کی تلاش میں ہندوستان جایا کرتے تھے اور اس سلسلے میں ایک بہت ہی دل چسپ روایت بختیار خلجی کے بارے میں بیان ہوتی ہے کہ جب بختیار خلجی نے اپنے گھر سے صرف ایک جوڑا کپڑے اپنی چادر کے پہلو میں باندھ کر ہندوستان کے سفر پر روانہ ہوا تو راستے میں کسی نے اس سے پوچھا کہ ہندوستان جا کر کیا کرو گے تو انہوں نے جواب دیا کہ مزدوری کروں گا پوچھنے والے نے دوسرا سوال کیا کہ اگر آپ کو وہاں مزدوری نہ ملی تو پھر؟ بختیار خلجی نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا کہ اگر مزدوری نہ ملی تو بادشاہت تو کہیں گئی ہی نہیں اسے حاصل کرنے کی کوشش کروں گا اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ مزدوری کی تلاش میں ہندوستان جانے والے بختیار خلجی نے اپنی بات کو سچ کر کے دکھایا، ہندوستان کی طرف مزدوری اور نوکری کی تلاش میں جانے والے ہزاروں پختونوں کی حالات زندگی اور اسباب و عوامل کے بارے میں پشتو زبان کی عوامی شاعری کی مقبول صف ٹپہ میں بہت کچھ سمایا گیا ہے جیسا کہ
ہندوستانے شہ روپئی راوڑہ
پہ کورونو روپومے پلار نہ در کوینہ
(ہندوستانی بن کر ڈھیر سارے روپے لے کر آؤ یہاں کے نوٹوں پر میرے والد اپ کو میرا رشتہ نہیں دیتا)
گاڈیہ سردے دویشتو دے
زما جانان دے پہ دکن اولگونہ
(اے گاڑی تمہیں تو سر پر مارنا چاہیے کہ تم نے میرے محبوب کو دکن تک پہنچا دیا)
چوںکہ ہمارے موضوع کا مرکز نواب نجیب الدولہ ہے اس لیے اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے ان کی زندگی اور جدوجہد کے بارے میں جو کچھ معلومات مختلف تاریخی کتابوں سے ہاتھ آئی ہیں ان میں پڑھنے والوں کو شریک کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں، نجیب خان صوبہ خیبرپختون خوا کے ضلع صوابی کے مشہور گاؤں مانیری کا رہنے والا تھا جو 1119 ہجری میں سردار اصالت خان کے گھر پیدا ہوا۔
سردار اصالت خان ابن ملک عنایت خان ابن منیر خان ابن نظیر خان ابن اسماعیل خان مندڑ عمر خیل کے ایک بہت بڑے سردار اور مشیر تھے اور اپنے گاؤں مانیری کے علاوہ دیگر قریب و جوار کے موضعات میں بہ اعتبار بزرگی و شرافت و ناموری ایک امتیازی درجہ رکھتے تھے نجیب خان کے چچا سردار بشارت خان اس زمانے میں تجارت اسپ (گھوڑوں) کیا کرتے تھے چناں چہ وہ جب تجارت کے سلسلے میں ہندوستان گئے تو اپنے دیگر ہم وطن روہیلوں جنہوں نے بہ مقام کھیڑ پر اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔
ان کے پاس مقیم ہوئے کچھ عرصے بعد انہی ہم وطنوں کی معاونت سے پلاس پور تحصیل رام پور پر قبضہ جمایا اور ایک خوش حال رئیس بن گئے اور اپنے نام سے موضع بشارت نگر آباد کیا مگر بشارت خان پھر بھی باقاعدگی کے ساتھ اپنے وطن اور گاؤں مانیری آتے جاتے تھے نجیب خان کی ابتدائی تربیت چوں کہ ان کے اپنے ماں باپ کے زیر سایہ گاؤں مانیری میں ہوئی تھی ان کے والد اصالت خان کو لکھنے پڑھنے سے کچھ لگاؤ نہ تھا۔
اس لئے وہ اپنے بیٹے کو ایک اچھا سپاہی بنانے میں فخر سمجھتے تھے چناں چہ نجیب خان کو بھی حرب سے واقف اور شہ سواری میں طاق کرایا گیا اور اپنا آبائی پیشہ جاگیر داری اپنایا مگر نجیب خان میں قدرت نے سرداری کی خُو بُو رکھی تھی کیوں کہ ان کی تربیت اپنے علاقے کے ایک مشہور سردار کے گھر ہوئی تھی اپنے ہم عمر دوستوں اور قرب و جوار میں ان کی جرأت و بہادری کی شہرت عام ہوئی بل کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تمام علاقہ ان کے نام سے کانپتا تھا اس دوران جب ان کے چچا بشارت خان عرصہ بعد اپنے گاؤں مانیری آئے اور نجیب خان کی بہادری اور جرات کے قصے اور کارنامے گاؤں کے مرد اور عورتوں کی زبان پر سنے تو سمجھ گئے کہ اس لڑکے کا یہاں رہنا اتنا فائدہ مند نہیں جتنا ہندوستان میں ہے اس لیے اپنے بھائی سردار اصالت خان اور اپنی بھاوج کو بمشکل راضی کر کے نجیب خان کو اپنے ساتھ 1150ھ میں لے گئے۔
بشارت خان کی ایک دختر نواب سید علی محمد خان سے منسوب تھی جب کہ دوسری دختر کو نجیب خان کے نام منسوب کر دیا جن سے نواب ضابطہ خان پیدا ہوئے۔ اس حوالے سے نجیب خان اور نواب علی محمد خان ہم زلف تھے چناں چہ نواب علی خان نے نجیب خان کو اپنے پاس آنولہ بلایا اور کچھ سواروں کی سرداری پر فائز کیا اور جب نواب علی محمد خان کو بادشاہ (فرح سیر) کی طرف سے سر ہند کی صوبہ داری عطاء ہوئی اور اس پر قبضہ کرنے کے لئے روانہ ہوئے تو فوج کے سرداروں میں نجیب خان بھی شامل تھے چناں چہ سرکشان صوبہ سر ہند بہارامل زمیندار لاہنو جو بارہ ہزار ہتھیار بند سوار پیادہ رکھتا تھا۔
اس سے مقابلہ پڑا نواب کے ہمراہیوں میں نواب دوندے خان بھی تھے انہوں نے نجیب خان کی مردانگی اور شجاعت کے جوہر دیکھے اور بہت زیادہ متاثر ہوئے، لڑائی میں نجیب خان نے فتح پائی نواب نے ان کا عہدہ بڑھا دیا ایک ہزار سوار پیادہ کے افسر ہو گئے، 1161ھ میں جب نجیب خان کی بیوی کا انتقال ہو گیا تو نواب دوندے خان رئیس بسولی نے اپنی دختر دُرمرجان المعروف (دُر بیگم) سے ان کی شادی کر دی اور گھر داماد بنا لیا، نواب دوندے خان جو کہ خود ایک بہت نامور سردار جنگ جو لیڈر تھے کچھ عرصہ بعد ان کی اپنی فوج کا رسال دار مقرر کر دیا اور دارنگر کی تحصیل بھی سپرد کر دی۔
نجیب خان نے دارنگر (نزد امروہہ) کو اپنا صدر مقام قرار دیا اور تھوڑے عرصے میں اپنے حسن لیاقت سے اس حصہ ملک کو ایسا بنایا کہ قرب و جوار کے لوگ کثرت سے وہاں آباد ہونے لگے اور جب آبادی بڑھ گئی تو انہوں نے جملہ رفاع عام کے کام انجام دینے کی طرف توجہ دی جس دارنگر کے لوگ اور خود نجیب خان علم و تعلیم سے ناواقف تھے ان کی اولاد کے لئے مکاتب اور درس گاہ کا بندوبست کیا اور اپنی درس گاہ اور مکاتب میں زیادہ تر علماء فرنگی محل کے شاگردوں کو ملازمت پر رکھا اس طرح دار نگر روہیل کھنڈ میں ایک قابل ذکر قصبہ بن گیا اس کا اثر یہ ہوا کہ تمام روہیل کھنڈ میں مدارس و مکاتب دیگر پختون نوابوں نے بھی قائم کر دیے، حافظ الملک حافظ، رحمت خان چچا خسر نجیب خان نے عظیم الشان مدرسہ قائم کیا تھا اس کے صدر مدرس بحر العلوم علامہ عبدالعلی فرنگی محلی تھے۔
ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب 1162ھ میں نواب علی خان فرمانبر وائے روہیل کھنڈ اور ان سے پہلے 1152ھ کو محمد خان بنگش انتقال کر گئے تو صفدر جنگ نے میدان خالی دیکھ کر دیگر سردار افاغنہ کے خلاف جنگی سازشیں شروع کر دیں اور کئی بار ان سرداروں پر لشکر کشی کی لیکن ہر بار اس کی فوج نجیب خان اور دوندے خان کی فوجوں سے شکست کھاتی رہی، جس میں صفدر جنگ کے قطب الدین محمد خان بھی مارے گئے اور سعید آباد کے مقام پر لڑی جانے والی جنگ میں نجیب خان نے دادشجاعت اور حکمت دکھائی کہ نقشہ جنگ ہی پلٹ گیا اور صفدر جنگ شکست کھا کر میدان سے بھاگ نکلے اور جس وقت نجیب خان نے اپنے مرشد شاہ ولی اللہ کے بار بار اصرار پر احمد شاہ درانی کو ہندوستان پر حملے اور مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ختم کرنے کی دعوت دی تو اس وقت نجیب خان کے جھنڈے تلے بیس ہزار فوج تمام ہتھیاروں سے لیس ہو کر تیار کھڑی رہتی تھی جب احمد شاہ درانی دہلی آپہنچے اور اپنی قوم کے نوابان روہیل کھنڈ کو باہم صلاح و مشورے کے لیے طلب کیا تو شعبان 1166ھ کو دربار شاہی میں اطلاع پہنچی کہ بسولی کا رسال دار نجیب خان اپنی فوج سمیت حاضر خدمت ہوا ہے غازی الدین خان عماد الملک آکر ان سے ملے اور شاہانہ تیور دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
نجیب خان نے اپنی فوج کو دہلی شہر کی پناہ میں نیچے لاکھڑا کیا اور وہی خیمے بھی لگا دیے اور یہ طریقہ اختیار کیا کہ روزانہ صبح اٹھ کر دشمن (مرہٹوں) کے مورچوں پر حملہ کرتا اور شام کو شہر کے کنارے آرام کرتا آخر کوٹلہ کی جنگ میں گشائیں جو صفدر جنگ کا سپہ سالار تھا نجیب خان کے ہاتھوں مارا گیا احمد شاہ درانی کو اس کار گزاری کی خبر پہنچی تو جوش مسرت میں شاہ کی زبان سے بے اختیار نکل گیا خان رسال دار نہیں بل کہ نجیب الدولہ نے مورچہ فتح کیا۔ بادشاہ نے شرف بازیابی بخشا خلعت اور نوابی دی اور تمام بیرونی افواج کی اعلیٰ سرداری بھی عطا کی۔ اس کے بعد نجیب الدولہ نے اردگرد جو فسادات اٹھتے ان کا مکمل سدباب کیا، مظفر نگر میں چیت سنگھ نے بڑا فتنہ برپا کر رکھا تھا اور لوٹ مار مچا رکھی تھی وہ بھی نجیب الدولہ کے ہاتھوں قتل ہوا اور اس کے مضافات پر قابض ہو گئے۔ اس طرح دوآبہ گنگ و جمن اور کنگا کے مشرقی اور مغربی علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔
1753ء میں مانس ندی کے کنارے اپنے نام کا شہر نجیب آباد قائم کیا۔ شہر کی آبادی کا اہتمام اپنے ایک ہندو کارندے کے سپرد کیا۔ قلعہ پتھر گڑھ کی تعمیر1751ء کا مہتمم ایک مسلمان کو بنایا، مظفر نگر کے ضلع سے بنئے کھشتری، برہمن لا لا کر آباد کیے اس کے علاوہ ہندوؤں کو مکانات بنے بنائے عطا کیے۔
مشہور جنگ پانی پت میں احمد شاہ درانی نے شاہ پسند خان کی فوج کو نجیب الدولہ کی پشت پر رکھا تھا تاکہ مرہٹے عقب سے حملہ نہ کرنے پائیں کیوں کہ مرہٹے سب سے زیادہ نجیب الدولہ کو ختم کرنے کے درپے تھے۔ اس طرح مرہٹوں کے سردار بھاؤ کا بھی اپنی فوج کو خصوصی ہدایت تھی کہ نجیب اللہ کی فوج پر پے در پے حملے کیے جائیں اگر اسے ختم کر ڈالا تو سمجھو کہ فتح ہم نے پائی مگر نجیب الدولہ نے اپنا مورچہ بہت مضبوط بنایا تھا اور ان حالات کے پیش نظر جنگی حکمت عملی اختیار کر کے اپنی جگہ سے کچھ اس طریقے سے حرکت کی کہ بڑھتا ہوادو کوس آگے آیا بھاؤ اور بسواس راؤ کی فوجوں کی پشت پر کھڑا ہو گیا۔
جیسے ہی بھاؤ اور بسواس راؤ کی چاروں طرف سے گھیرے میں آگئے اور ان کے فرار کے تمام راستے روک دیے ایسا گھمسان کا رن پڑا جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے توپیں گرج رہی تھیں، تیر اڑ رہے تھے اور اس کثرت سے تیروں کی بارش تھی کہ میدان میں ایک گھٹا سی چھائی ہوئی تھی تلواریں چمک رہی تھیں اور لڑائی تلواروں سے خنجروں اور کٹاروں سے ہونے لگی تھی اور آخرکار جنگ پانی پت میں فتح و کامرانی احمد شاہ درانی کی فوجوں نے حاصل کی اور اس جنگ میں سب سے زیادہ بہادری اور شجاعت نجیب الدولہ نے دکھائی، اللہ بخش یوسفی اپنی کتاب یوسف زئی افغان میں لکھتے ہیں کہ ''حقیقتاً ہندوستان میں مقیم یوسف زئی برسراقتدار افراد نے ہی احمد شاہ درانی کو ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی اور جب وہ وہاں پہنچے تو روہیل کھنڈ کے حافظ زمان خان اور نواب نجیب الدولہ وغیرہ کے بیس ہزار یوسف زئی لشکر لیے موجود تھے۔
اس لشکر نے پانی پت کے میدان میں چھے جنوری 1761ء کے دن مرہٹوں کی طاقت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا تھا اس فتح کے بعد ہندوستان کے مغل حکم ران کو جو اس وقت بنگال میں تھا حکومت بخش دی اور نجیب الدولہ یوسف زئی کو حکومت کا نگراں مقرر کر کے واپس لوٹ گیا اور 26 سال حکومت کرنے کے بعد 1772ء بمطابق 1182ھ میں اس نے وفات پائی اس وقت اس کی عمر پچاس سال بیان کی جاتی ہے۔''
نجیب الدولہ کی عقل و دانش اور ذہانت کے بارے میں احوال نجیب کے مصنف سید نور الدین حسین خان لکھتے ہیں کہ ''مرد صاحب جوہر بودا گر چہ ناخواندہ مطلق لاکن عقل بسیار و اقبال داشت'' نجیب الدولہ کی صحیح وفات کی تاریخ جو کہ مستند مانی گئی ہے 24 ستمبر 1777ء بمطابق 1184ھ ہے، وفات کے بعد اس کے امراء اور اہل خاندان نے ان کی میت کو نجیب آباد لے جا کر مقبرہ دربیگ میں دفن کر دی، ان کی نماز جنازہ میں شہر کے تمام باشندے موجود تھے ہندو مسلمان سب ہی نے تین روز تک سوگ منایا ان کی تاریخ وفات ''ناظم ملک بقا'' لکھی گئی ہے۔
نواب نجیب الدولہ اخلاق و اوصاف میں ممتاز تھے اپنے معاصر امراء میں اس کی سچائی اور دیانت داری کے قصے عام تھے نجیب الدولہ ہندو مسلمانوں کے تعلقات خوش گوار رکھتے تھے کوئی ایسی بات روا نہ رکھتے تھے کہ ان کی ہندو رعایا کو بارخاطر ہو چناں چہ مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی لکھتے ہیں کہ ''نواب نجیب الدولہ نے نجیب آباد کے بازار خاص میں کوئی مسجد تعمیر نہیں کی کہ مبادا ہندو دکان داروں کی کسی خاص حرکت سے نمازیوں کو کوئی تکلیف پہنچے نیز جب ان کی والدہ فوت ہوئیں تو قبر کے لیے جو جگہ تجویز ہوئی وہ ایک ہندو کی ملکیت تھی اس نے انکار کردیا تو دوسری جگہ تجویز ہوئی وہ بھی کسی ہندو کی تھی مجبور ہو کر نواب نے کہا کہ چلو جنازہ اپنے گاؤں مانیری (صوبہ خیبرپختون خوا) لے چلیں آخر ایک ہندو کو احساس ہوا اور اس نے اجازت دی کہ مقبرہ اس کی زمین پر بنایا جائے۔'' نجیب الدولہ کے متعلق اہل صاحب اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ ''نجیب الدولہ ہندوستانیوں اور یورپین کے دل پر نقش کر رکھا تھا کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کا آدمی تھا اور یہی شخص ہے جو قابل تعظیم اور قابل قدر ہے۔
مسٹر واسلٹ کی چٹھی میں جو کہ ڈاکٹر کنٹرول کو 28 مارچ 1168ھ میں لکھی تھی اس میں لکھا ہے کہ بالحاظ انسانیت اور بالحاظ حکومت تمام ہندوستان میں شاید نجیب الدولہ ہی ایک شخص رہے گا جس کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ وہ بہت ہی بڑا مدبر اور صاحب حکمت شخص ہے جس نے پچاس سواروں کی افسری سے موجودہ (وزارت امیر الامرائی) پر محض اپنی اعلیٰ درجہ کی شجاعت و ایمان داری، ذہانت طبع و استقلال سے ترقی کی وہ ایک جری اور مستحکم رائے کا شخص تھا، ناخواندگی کا جو دھبا اس پر لگا تھا تجربہ اور لیاقت نے وہ اس کی شخصیت سے بالکل ہٹا دیا تھا اور اس کی شرافت اور نیک طینتی نے اس کے خاندانی وقار کو بڑھا دیا تھا، لیکن افسوس کہ نجیب الدولہ جیسی شخصیت سے آج بھی ہماری نئی نسل بے خبر ہے جس کے قصوروار پختون محققق، مورخ، دانش ور، لکھاری اور قوم پرست سیاست داں ہیں۔
جنہوں نے آج تک نجیب الدولہ کے نام اور ان کے کارہائے نمایاں سے اپنے لوگوں کو اگاہ نہیں کیا اور نہ ہی ان کے نام آج تک کوئی سیمینار یا کانفرنس منعقد کروائی، پختونوں کی دعوے دار دونوں قوم پرست سیاسی جماعتیں صرف باچا خان، ولی خان اور عبدالصمد خان اچک زئی کی زندگی اور جدوجہد تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں جب کہ دیگر تاریخی پختون شخصیات کا نام تک نہیں لیتیں اس طرح وہ ایک بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہو ری ہیں۔
صرف اپنی اپنی سیاسی گھڑیوں کی سوئیاں آگے بڑھا کر یہ سمجھتی ہیں کہ اس طرح ہم وقت کی رفتار کو تیز کر رہے ہیں یا یہ کہ کسی پھل کو چراغ کی گرمی کے ذریعے تیزی سے پکانے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مستقبل تاریخ کے نئے تصورات کے ہاتھ میں ہے اور یہ نئے تصورات ہم اپنے ماضی کے کھنڈرات کی بنیادوں سے اچھی طرح اخذ کر سکتے ہیں کیوں کہ جو قوم اپنے ماضی کو بھلا دیتی ہے مستقبل کی ڈور اس کے ہاتھ کبھی نہیں آسکتی۔
ہندوستان اور پختونوں کا تعلق اور رشتہ بہت قدیم ہے اور یہ تعلق ہزاروں سینکڑوں سالوں پر محیط ہے جس کا ثبوت ہندوستان اور پختونوں کی قدیم تاریخی کتب و آثار بھی ہیں اس لیے جس طرح پختونوں کی تاریخ ہندوستان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔
اس طرح ہندوستان کی سیاسی اور حکم رانی کی تاریخ میں بھی کوئی مورخ پختونوں کے کردار کو نظرانداز نہیں کر سکتا کیوں کہ اسی قوم (پختون) نے اس وقت کے متحدہ ہندوستان پرکئی صدیاں حکم رانی کی وہاں اپنی حویلیاں اور اپنے قبیلوں اور اشخاص کے ناموں سے شہر گاؤں اور محلے بنائے جو آج بھی انہی ناموں سے لکھے اور پکارے جاتے ہیں۔
وہاں پختون نسل سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لاکھوں افراد اور خاندان رہتے ہیں آج سے کئی صدیاں قبل ہندوستان خیبرپختون خوا کے پختونوں کے لیے وہی معاشی اہمیت رکھتا تھا جو آج کل سعودی عرب، دوہا، دبئی، قطر اور یورپ کے ممالک رکھتے ہیں، اس لیے اس زمانے میں زیادہ تر پختون محنت مزدوری اور نوکری کی تلاش میں ہندوستان جایا کرتے تھے اور اس سلسلے میں ایک بہت ہی دل چسپ روایت بختیار خلجی کے بارے میں بیان ہوتی ہے کہ جب بختیار خلجی نے اپنے گھر سے صرف ایک جوڑا کپڑے اپنی چادر کے پہلو میں باندھ کر ہندوستان کے سفر پر روانہ ہوا تو راستے میں کسی نے اس سے پوچھا کہ ہندوستان جا کر کیا کرو گے تو انہوں نے جواب دیا کہ مزدوری کروں گا پوچھنے والے نے دوسرا سوال کیا کہ اگر آپ کو وہاں مزدوری نہ ملی تو پھر؟ بختیار خلجی نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا کہ اگر مزدوری نہ ملی تو بادشاہت تو کہیں گئی ہی نہیں اسے حاصل کرنے کی کوشش کروں گا اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ مزدوری کی تلاش میں ہندوستان جانے والے بختیار خلجی نے اپنی بات کو سچ کر کے دکھایا، ہندوستان کی طرف مزدوری اور نوکری کی تلاش میں جانے والے ہزاروں پختونوں کی حالات زندگی اور اسباب و عوامل کے بارے میں پشتو زبان کی عوامی شاعری کی مقبول صف ٹپہ میں بہت کچھ سمایا گیا ہے جیسا کہ
ہندوستانے شہ روپئی راوڑہ
پہ کورونو روپومے پلار نہ در کوینہ
(ہندوستانی بن کر ڈھیر سارے روپے لے کر آؤ یہاں کے نوٹوں پر میرے والد اپ کو میرا رشتہ نہیں دیتا)
گاڈیہ سردے دویشتو دے
زما جانان دے پہ دکن اولگونہ
(اے گاڑی تمہیں تو سر پر مارنا چاہیے کہ تم نے میرے محبوب کو دکن تک پہنچا دیا)
چوںکہ ہمارے موضوع کا مرکز نواب نجیب الدولہ ہے اس لیے اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے ان کی زندگی اور جدوجہد کے بارے میں جو کچھ معلومات مختلف تاریخی کتابوں سے ہاتھ آئی ہیں ان میں پڑھنے والوں کو شریک کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں، نجیب خان صوبہ خیبرپختون خوا کے ضلع صوابی کے مشہور گاؤں مانیری کا رہنے والا تھا جو 1119 ہجری میں سردار اصالت خان کے گھر پیدا ہوا۔
سردار اصالت خان ابن ملک عنایت خان ابن منیر خان ابن نظیر خان ابن اسماعیل خان مندڑ عمر خیل کے ایک بہت بڑے سردار اور مشیر تھے اور اپنے گاؤں مانیری کے علاوہ دیگر قریب و جوار کے موضعات میں بہ اعتبار بزرگی و شرافت و ناموری ایک امتیازی درجہ رکھتے تھے نجیب خان کے چچا سردار بشارت خان اس زمانے میں تجارت اسپ (گھوڑوں) کیا کرتے تھے چناں چہ وہ جب تجارت کے سلسلے میں ہندوستان گئے تو اپنے دیگر ہم وطن روہیلوں جنہوں نے بہ مقام کھیڑ پر اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔
ان کے پاس مقیم ہوئے کچھ عرصے بعد انہی ہم وطنوں کی معاونت سے پلاس پور تحصیل رام پور پر قبضہ جمایا اور ایک خوش حال رئیس بن گئے اور اپنے نام سے موضع بشارت نگر آباد کیا مگر بشارت خان پھر بھی باقاعدگی کے ساتھ اپنے وطن اور گاؤں مانیری آتے جاتے تھے نجیب خان کی ابتدائی تربیت چوں کہ ان کے اپنے ماں باپ کے زیر سایہ گاؤں مانیری میں ہوئی تھی ان کے والد اصالت خان کو لکھنے پڑھنے سے کچھ لگاؤ نہ تھا۔
اس لئے وہ اپنے بیٹے کو ایک اچھا سپاہی بنانے میں فخر سمجھتے تھے چناں چہ نجیب خان کو بھی حرب سے واقف اور شہ سواری میں طاق کرایا گیا اور اپنا آبائی پیشہ جاگیر داری اپنایا مگر نجیب خان میں قدرت نے سرداری کی خُو بُو رکھی تھی کیوں کہ ان کی تربیت اپنے علاقے کے ایک مشہور سردار کے گھر ہوئی تھی اپنے ہم عمر دوستوں اور قرب و جوار میں ان کی جرأت و بہادری کی شہرت عام ہوئی بل کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تمام علاقہ ان کے نام سے کانپتا تھا اس دوران جب ان کے چچا بشارت خان عرصہ بعد اپنے گاؤں مانیری آئے اور نجیب خان کی بہادری اور جرات کے قصے اور کارنامے گاؤں کے مرد اور عورتوں کی زبان پر سنے تو سمجھ گئے کہ اس لڑکے کا یہاں رہنا اتنا فائدہ مند نہیں جتنا ہندوستان میں ہے اس لیے اپنے بھائی سردار اصالت خان اور اپنی بھاوج کو بمشکل راضی کر کے نجیب خان کو اپنے ساتھ 1150ھ میں لے گئے۔
بشارت خان کی ایک دختر نواب سید علی محمد خان سے منسوب تھی جب کہ دوسری دختر کو نجیب خان کے نام منسوب کر دیا جن سے نواب ضابطہ خان پیدا ہوئے۔ اس حوالے سے نجیب خان اور نواب علی محمد خان ہم زلف تھے چناں چہ نواب علی خان نے نجیب خان کو اپنے پاس آنولہ بلایا اور کچھ سواروں کی سرداری پر فائز کیا اور جب نواب علی محمد خان کو بادشاہ (فرح سیر) کی طرف سے سر ہند کی صوبہ داری عطاء ہوئی اور اس پر قبضہ کرنے کے لئے روانہ ہوئے تو فوج کے سرداروں میں نجیب خان بھی شامل تھے چناں چہ سرکشان صوبہ سر ہند بہارامل زمیندار لاہنو جو بارہ ہزار ہتھیار بند سوار پیادہ رکھتا تھا۔
اس سے مقابلہ پڑا نواب کے ہمراہیوں میں نواب دوندے خان بھی تھے انہوں نے نجیب خان کی مردانگی اور شجاعت کے جوہر دیکھے اور بہت زیادہ متاثر ہوئے، لڑائی میں نجیب خان نے فتح پائی نواب نے ان کا عہدہ بڑھا دیا ایک ہزار سوار پیادہ کے افسر ہو گئے، 1161ھ میں جب نجیب خان کی بیوی کا انتقال ہو گیا تو نواب دوندے خان رئیس بسولی نے اپنی دختر دُرمرجان المعروف (دُر بیگم) سے ان کی شادی کر دی اور گھر داماد بنا لیا، نواب دوندے خان جو کہ خود ایک بہت نامور سردار جنگ جو لیڈر تھے کچھ عرصہ بعد ان کی اپنی فوج کا رسال دار مقرر کر دیا اور دارنگر کی تحصیل بھی سپرد کر دی۔
نجیب خان نے دارنگر (نزد امروہہ) کو اپنا صدر مقام قرار دیا اور تھوڑے عرصے میں اپنے حسن لیاقت سے اس حصہ ملک کو ایسا بنایا کہ قرب و جوار کے لوگ کثرت سے وہاں آباد ہونے لگے اور جب آبادی بڑھ گئی تو انہوں نے جملہ رفاع عام کے کام انجام دینے کی طرف توجہ دی جس دارنگر کے لوگ اور خود نجیب خان علم و تعلیم سے ناواقف تھے ان کی اولاد کے لئے مکاتب اور درس گاہ کا بندوبست کیا اور اپنی درس گاہ اور مکاتب میں زیادہ تر علماء فرنگی محل کے شاگردوں کو ملازمت پر رکھا اس طرح دار نگر روہیل کھنڈ میں ایک قابل ذکر قصبہ بن گیا اس کا اثر یہ ہوا کہ تمام روہیل کھنڈ میں مدارس و مکاتب دیگر پختون نوابوں نے بھی قائم کر دیے، حافظ الملک حافظ، رحمت خان چچا خسر نجیب خان نے عظیم الشان مدرسہ قائم کیا تھا اس کے صدر مدرس بحر العلوم علامہ عبدالعلی فرنگی محلی تھے۔
ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب 1162ھ میں نواب علی خان فرمانبر وائے روہیل کھنڈ اور ان سے پہلے 1152ھ کو محمد خان بنگش انتقال کر گئے تو صفدر جنگ نے میدان خالی دیکھ کر دیگر سردار افاغنہ کے خلاف جنگی سازشیں شروع کر دیں اور کئی بار ان سرداروں پر لشکر کشی کی لیکن ہر بار اس کی فوج نجیب خان اور دوندے خان کی فوجوں سے شکست کھاتی رہی، جس میں صفدر جنگ کے قطب الدین محمد خان بھی مارے گئے اور سعید آباد کے مقام پر لڑی جانے والی جنگ میں نجیب خان نے دادشجاعت اور حکمت دکھائی کہ نقشہ جنگ ہی پلٹ گیا اور صفدر جنگ شکست کھا کر میدان سے بھاگ نکلے اور جس وقت نجیب خان نے اپنے مرشد شاہ ولی اللہ کے بار بار اصرار پر احمد شاہ درانی کو ہندوستان پر حملے اور مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ختم کرنے کی دعوت دی تو اس وقت نجیب خان کے جھنڈے تلے بیس ہزار فوج تمام ہتھیاروں سے لیس ہو کر تیار کھڑی رہتی تھی جب احمد شاہ درانی دہلی آپہنچے اور اپنی قوم کے نوابان روہیل کھنڈ کو باہم صلاح و مشورے کے لیے طلب کیا تو شعبان 1166ھ کو دربار شاہی میں اطلاع پہنچی کہ بسولی کا رسال دار نجیب خان اپنی فوج سمیت حاضر خدمت ہوا ہے غازی الدین خان عماد الملک آکر ان سے ملے اور شاہانہ تیور دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
نجیب خان نے اپنی فوج کو دہلی شہر کی پناہ میں نیچے لاکھڑا کیا اور وہی خیمے بھی لگا دیے اور یہ طریقہ اختیار کیا کہ روزانہ صبح اٹھ کر دشمن (مرہٹوں) کے مورچوں پر حملہ کرتا اور شام کو شہر کے کنارے آرام کرتا آخر کوٹلہ کی جنگ میں گشائیں جو صفدر جنگ کا سپہ سالار تھا نجیب خان کے ہاتھوں مارا گیا احمد شاہ درانی کو اس کار گزاری کی خبر پہنچی تو جوش مسرت میں شاہ کی زبان سے بے اختیار نکل گیا خان رسال دار نہیں بل کہ نجیب الدولہ نے مورچہ فتح کیا۔ بادشاہ نے شرف بازیابی بخشا خلعت اور نوابی دی اور تمام بیرونی افواج کی اعلیٰ سرداری بھی عطا کی۔ اس کے بعد نجیب الدولہ نے اردگرد جو فسادات اٹھتے ان کا مکمل سدباب کیا، مظفر نگر میں چیت سنگھ نے بڑا فتنہ برپا کر رکھا تھا اور لوٹ مار مچا رکھی تھی وہ بھی نجیب الدولہ کے ہاتھوں قتل ہوا اور اس کے مضافات پر قابض ہو گئے۔ اس طرح دوآبہ گنگ و جمن اور کنگا کے مشرقی اور مغربی علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔
1753ء میں مانس ندی کے کنارے اپنے نام کا شہر نجیب آباد قائم کیا۔ شہر کی آبادی کا اہتمام اپنے ایک ہندو کارندے کے سپرد کیا۔ قلعہ پتھر گڑھ کی تعمیر1751ء کا مہتمم ایک مسلمان کو بنایا، مظفر نگر کے ضلع سے بنئے کھشتری، برہمن لا لا کر آباد کیے اس کے علاوہ ہندوؤں کو مکانات بنے بنائے عطا کیے۔
مشہور جنگ پانی پت میں احمد شاہ درانی نے شاہ پسند خان کی فوج کو نجیب الدولہ کی پشت پر رکھا تھا تاکہ مرہٹے عقب سے حملہ نہ کرنے پائیں کیوں کہ مرہٹے سب سے زیادہ نجیب الدولہ کو ختم کرنے کے درپے تھے۔ اس طرح مرہٹوں کے سردار بھاؤ کا بھی اپنی فوج کو خصوصی ہدایت تھی کہ نجیب اللہ کی فوج پر پے در پے حملے کیے جائیں اگر اسے ختم کر ڈالا تو سمجھو کہ فتح ہم نے پائی مگر نجیب الدولہ نے اپنا مورچہ بہت مضبوط بنایا تھا اور ان حالات کے پیش نظر جنگی حکمت عملی اختیار کر کے اپنی جگہ سے کچھ اس طریقے سے حرکت کی کہ بڑھتا ہوادو کوس آگے آیا بھاؤ اور بسواس راؤ کی فوجوں کی پشت پر کھڑا ہو گیا۔
جیسے ہی بھاؤ اور بسواس راؤ کی چاروں طرف سے گھیرے میں آگئے اور ان کے فرار کے تمام راستے روک دیے ایسا گھمسان کا رن پڑا جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے توپیں گرج رہی تھیں، تیر اڑ رہے تھے اور اس کثرت سے تیروں کی بارش تھی کہ میدان میں ایک گھٹا سی چھائی ہوئی تھی تلواریں چمک رہی تھیں اور لڑائی تلواروں سے خنجروں اور کٹاروں سے ہونے لگی تھی اور آخرکار جنگ پانی پت میں فتح و کامرانی احمد شاہ درانی کی فوجوں نے حاصل کی اور اس جنگ میں سب سے زیادہ بہادری اور شجاعت نجیب الدولہ نے دکھائی، اللہ بخش یوسفی اپنی کتاب یوسف زئی افغان میں لکھتے ہیں کہ ''حقیقتاً ہندوستان میں مقیم یوسف زئی برسراقتدار افراد نے ہی احمد شاہ درانی کو ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی اور جب وہ وہاں پہنچے تو روہیل کھنڈ کے حافظ زمان خان اور نواب نجیب الدولہ وغیرہ کے بیس ہزار یوسف زئی لشکر لیے موجود تھے۔
اس لشکر نے پانی پت کے میدان میں چھے جنوری 1761ء کے دن مرہٹوں کی طاقت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا تھا اس فتح کے بعد ہندوستان کے مغل حکم ران کو جو اس وقت بنگال میں تھا حکومت بخش دی اور نجیب الدولہ یوسف زئی کو حکومت کا نگراں مقرر کر کے واپس لوٹ گیا اور 26 سال حکومت کرنے کے بعد 1772ء بمطابق 1182ھ میں اس نے وفات پائی اس وقت اس کی عمر پچاس سال بیان کی جاتی ہے۔''
نجیب الدولہ کی عقل و دانش اور ذہانت کے بارے میں احوال نجیب کے مصنف سید نور الدین حسین خان لکھتے ہیں کہ ''مرد صاحب جوہر بودا گر چہ ناخواندہ مطلق لاکن عقل بسیار و اقبال داشت'' نجیب الدولہ کی صحیح وفات کی تاریخ جو کہ مستند مانی گئی ہے 24 ستمبر 1777ء بمطابق 1184ھ ہے، وفات کے بعد اس کے امراء اور اہل خاندان نے ان کی میت کو نجیب آباد لے جا کر مقبرہ دربیگ میں دفن کر دی، ان کی نماز جنازہ میں شہر کے تمام باشندے موجود تھے ہندو مسلمان سب ہی نے تین روز تک سوگ منایا ان کی تاریخ وفات ''ناظم ملک بقا'' لکھی گئی ہے۔
نواب نجیب الدولہ اخلاق و اوصاف میں ممتاز تھے اپنے معاصر امراء میں اس کی سچائی اور دیانت داری کے قصے عام تھے نجیب الدولہ ہندو مسلمانوں کے تعلقات خوش گوار رکھتے تھے کوئی ایسی بات روا نہ رکھتے تھے کہ ان کی ہندو رعایا کو بارخاطر ہو چناں چہ مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی لکھتے ہیں کہ ''نواب نجیب الدولہ نے نجیب آباد کے بازار خاص میں کوئی مسجد تعمیر نہیں کی کہ مبادا ہندو دکان داروں کی کسی خاص حرکت سے نمازیوں کو کوئی تکلیف پہنچے نیز جب ان کی والدہ فوت ہوئیں تو قبر کے لیے جو جگہ تجویز ہوئی وہ ایک ہندو کی ملکیت تھی اس نے انکار کردیا تو دوسری جگہ تجویز ہوئی وہ بھی کسی ہندو کی تھی مجبور ہو کر نواب نے کہا کہ چلو جنازہ اپنے گاؤں مانیری (صوبہ خیبرپختون خوا) لے چلیں آخر ایک ہندو کو احساس ہوا اور اس نے اجازت دی کہ مقبرہ اس کی زمین پر بنایا جائے۔'' نجیب الدولہ کے متعلق اہل صاحب اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ ''نجیب الدولہ ہندوستانیوں اور یورپین کے دل پر نقش کر رکھا تھا کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کا آدمی تھا اور یہی شخص ہے جو قابل تعظیم اور قابل قدر ہے۔
مسٹر واسلٹ کی چٹھی میں جو کہ ڈاکٹر کنٹرول کو 28 مارچ 1168ھ میں لکھی تھی اس میں لکھا ہے کہ بالحاظ انسانیت اور بالحاظ حکومت تمام ہندوستان میں شاید نجیب الدولہ ہی ایک شخص رہے گا جس کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ وہ بہت ہی بڑا مدبر اور صاحب حکمت شخص ہے جس نے پچاس سواروں کی افسری سے موجودہ (وزارت امیر الامرائی) پر محض اپنی اعلیٰ درجہ کی شجاعت و ایمان داری، ذہانت طبع و استقلال سے ترقی کی وہ ایک جری اور مستحکم رائے کا شخص تھا، ناخواندگی کا جو دھبا اس پر لگا تھا تجربہ اور لیاقت نے وہ اس کی شخصیت سے بالکل ہٹا دیا تھا اور اس کی شرافت اور نیک طینتی نے اس کے خاندانی وقار کو بڑھا دیا تھا، لیکن افسوس کہ نجیب الدولہ جیسی شخصیت سے آج بھی ہماری نئی نسل بے خبر ہے جس کے قصوروار پختون محققق، مورخ، دانش ور، لکھاری اور قوم پرست سیاست داں ہیں۔
جنہوں نے آج تک نجیب الدولہ کے نام اور ان کے کارہائے نمایاں سے اپنے لوگوں کو اگاہ نہیں کیا اور نہ ہی ان کے نام آج تک کوئی سیمینار یا کانفرنس منعقد کروائی، پختونوں کی دعوے دار دونوں قوم پرست سیاسی جماعتیں صرف باچا خان، ولی خان اور عبدالصمد خان اچک زئی کی زندگی اور جدوجہد تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں جب کہ دیگر تاریخی پختون شخصیات کا نام تک نہیں لیتیں اس طرح وہ ایک بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہو ری ہیں۔
صرف اپنی اپنی سیاسی گھڑیوں کی سوئیاں آگے بڑھا کر یہ سمجھتی ہیں کہ اس طرح ہم وقت کی رفتار کو تیز کر رہے ہیں یا یہ کہ کسی پھل کو چراغ کی گرمی کے ذریعے تیزی سے پکانے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مستقبل تاریخ کے نئے تصورات کے ہاتھ میں ہے اور یہ نئے تصورات ہم اپنے ماضی کے کھنڈرات کی بنیادوں سے اچھی طرح اخذ کر سکتے ہیں کیوں کہ جو قوم اپنے ماضی کو بھلا دیتی ہے مستقبل کی ڈور اس کے ہاتھ کبھی نہیں آسکتی۔