قوم کی قسمت کے فیصلے اور ہجوم
اس تجزیے کو سمجھنے کے لیے موجودہ اتحادی حکومت کی ہیئت ترکیبی کو سمجھنا چاہیے۔
اللہ مغفرت فرمائے، کرشماتی افسانہ نگار انتظار حسین یاد آتے ہیں۔ کہنے کو کون نہیں جو کچھ نہ کچھ کہہ لے لیکن انتظار صاحب محاورے میں بات کہتے اور مجمع لوٹ لیتے۔ مثلاً شدت کی گرمی کو انھوں نے بہت گرمی کبھی نہیں کہا۔ وہ کچھ ایسی بات کہتے کہ جیسے گرمی ایسی ہے کہ چیل بھی انڈہ چھوڑ جائے۔ اس روز بھی گرمی کی کیفیت کچھ ایسی تھی جب میں بغرض مجبوری گھر سے نکلا اور ایک محلے کی دکان پر پہنچا۔
خواہش اور امید تو یہی ہوتی ہے کہ بندہ پیسے دے، چیز لے اور گھر پہنچے لیکن یہاں تو معاملہ ہی دوسرا تھا۔ ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی کسی بات نے دکان دار کو خفا کر دیا تھا اور دیہی مزاج کا یہ شخص بے بھاؤکی سنا رہا تھا۔ دوسری طرف گاہکوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔
بس اسی پر انتظار صاحب یاد آگئے۔ٹیلی ویژن سے جیسا کہ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ حالات حاضرہ سے متعلق ایک تبصرہ نما خبر یا تجزیہ نشر ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کہنے والوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے کہہ دیا ہے کہ عمران خان اگر پچیس تیس ہزار بندے لے کر اسلام آباد پہنچ جائیں تو زیادہ اینڈنے کی ضرورت نہیں۔ بس، الیکشن کا اعلان کرو ، اپنا بوریا بستر لپیٹو اور گھر جاؤ۔
بڑے شہروں میں کاروبار کی صورت مختلف ہوتی ہے۔ لوگوں کے پاس وقت کم ہوتا ہے اور وہ جلدی میں ہوتے ہیں۔ ایک ہاتھ لیا، ایک ہاتھ دیا اور یہ جا وہ جا۔ دیہی مزاج کے بازاروں اور گاؤں دیہات میں جو پاکستان کے ساٹھ باسٹھ فیصد سے زاید ہیں، نسبتاً مختلف ہوتے ہیں۔
کوئی شخص کسی بڑے شہر کا چکر لگا آئے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ سناؤ کیا دیکھ کر آئے ہو؟ گویا کوئی بات بغیر نوٹس کے نہیں جاتی۔ اسلام آباد کی نواحی بستیوں کا مزاج بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ تو ان صاحب نے بیس پچیس ہزار کے مجمعے اور اس کے نتیجے میں حکومت کے خاتمے کی بات سنی تو خفا ہو گئے۔ ان کی خفگی کو ہوا ایک اور صاحب جو ٹی وی اینکر ہیں ایک جملے سے دی۔ یہ وہی جملہ تھا کہ صاحبان معاملہ دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔ بس اسی چیز نے ان صاحب کا پارہ چڑھا دیا اور کھری کھری سنانے لگے۔
مفہوم ان کی بات کا یہ تھا کہ اگر عمران چند ہزار کے ہجوم کی طاقت سے حکومت کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو کیا دوسروں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔ وہ بھی لاؤ لشکر کے ساتھ آئیں گے اور اپنی بات منوا لیں گے۔ ہم میڈیا کے اسیروں اور سوشل میڈیا کی چمک دمک میں کھو جانے والوں کے لیے بر سر زمیں سننے کو ملنے والے اس ردعمل نے ایک نئی دنیا کے دروازے کھول دیے۔
تو بات ہے کہ ایک مرکزی دھارے کی میڈیا کی دنیا ہے جس کا اپنا مزاج اور مجبوریاں ہیں اور ایک سوشل میڈیا کی دنیا ہے جس پر خواہشات کی حکمرانی ہے۔ ان دونوں دنیاؤں کی خوبی یہ ہے کہ یہ بڑی آسانی کے ساتھ گلی محلے میں رونے، چیخنے اور چلانے والے کی آواز اور تصویر دونوں کو غائب کر سکتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کیا پوری دنیا ہی اس تجربے سے گزر رہی ہے۔
پاکستان میں اس وقت تاثر یہ ہے کہ عمران خان جو پوری طلاقت لسانی کے ساتھ میدان میں نکلے ہیں اور اپنے گرد ہجوم کو متحرک کرنے میں بھی کام یاب رہے ہیں، معرکہ مار چکے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کی تمام تر جادو گری کے باوجود پاکستان کی اکثریت اس صورت حال کا تجزیہ کسی دوسرے کے ذہن کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ وہ اسے اپنے تجربے اور اپنے دکھوں کی روشنی میں دیکھتی ہے اور ایسا تجزیہ کرتی ہے جس کی جڑیں زمین سے اٹھتی ہیں۔
اس دکان دار کا یہ کہنا کہ دوسرے کیا چوڑیاں پہن کر بیٹھے ہیں، مولانا فضل الرحمن کے تبصروں کی طرح بڑا بلیغ تبصرہ ہے۔ اس کا مطلب فقط یہ نہیں ہے کہ یہ جنگ دو سیاسی قوتوں کے درمیان ہے یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف ۔ یہ تجزیہ کچھ اور بتاتا ہے۔
اس تجزیے کو سمجھنے کے لیے موجودہ اتحادی حکومت کی ہیئت ترکیبی کو سمجھنا چاہیے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کتنی بھی بڑی جماعت ہو، وہ کتنے بڑے جلسے کرنے اور جلوس نکالنے کی قدرت رکھتی ہو، اس کے مقابل کھڑی سیاسی جماعتیں جدوجہد اور مزاحمت کا زیادہ بڑا تجربہ اور صلاحیت رکھتی ہیں۔
ہمارے دانش ور سیاسی کارکن ناصر الدین محمود بھی تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فیصلہ اگر سڑکوں پر ہونا ہے تو پھر جان رکھیے کہ سڑکوں پر گھمسان کا رن پڑے گا اور پھر جو کچھ ہو گا، وہ کسی کے سنبھالے سنبھلے گا نہیں۔اس بات کا مطلب کیا ہے؟ ہاتھ کنگن کو آرسی کر کے دیکھ لیں۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جمعیت علمائے اسلام اس وقت حکومت میں ہے۔
حکومت میں ہونے کے باوجود وہ اس وقت ایوان اقتدار کی پرسکون فضاؤں میں نہیں بیٹھے بلکہ حزب اختلاف کے کسی راہ نما کی طرح سڑکوں پر ہیں اور جلسے کر رہے ہیں۔
جلسوں کی کوریج کے بارے میں عمران خان نے اگرچہ کہہ دیا ہے کہ روشنی ہی سب کچھ ہے۔ یعنی روشنیوں کی چکا چوند سے اصل حقائق چھپا کر من مرضی کے حقائق تخلیق کیے جاسکتے ہیں۔ عمران خان ایسا کر دکھانے میں بھی کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے باوجود مولانا فضل الرحمن نے روشنیوں کے چمتکار کے بغیر ہی بڑے بڑے جلسے کر دکھائے ہیں۔ ان کے جلسوں کاسلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز بھی مولانا فضل الرحمن ہی کی طرح سڑکوں پر ہیں اور بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں۔
حکمراں اتحاد کی یہ دو بڑی جماعتیں ہیں۔ اب ذرا دیگر جماعتوں کی تاریخ، مزاج اور صلاحیت کو ذہن میں لائیں اور سوچیں کہ اگر ہجوم ہی کو فیصلوں کا معیار بنا لیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمہوری وطن پارٹی، پختونخوا میپ اور ان کی دیگر تمام ساتھی جماعتیں بھی مجبور ہو کر سڑکوں پر نکل آئیں تو نتیجہ کیا نکلے گا؟
اس لیے عقل کی بات یہ ہے کہ اگر کسی کا حوصلہ جواب دے گیا ہے تو وہ اپنے حوصلے کی دوا کرے لیکن پاکستان کی قسمت کو ہجوم کے ہاتھ میں دینے سے گریز کرے۔ اس بار اگر ایسا ہو گیا تو آئین قانون، ضابطہ اور سیاسی طور طریقے سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے اور ملک اس راہ پر چل نکلے گا جس کے نتیجے جیتی جاگتی زندگیاں مٹی کے ڈھیر میں بدل جاتی ہیں۔
خواہش اور امید تو یہی ہوتی ہے کہ بندہ پیسے دے، چیز لے اور گھر پہنچے لیکن یہاں تو معاملہ ہی دوسرا تھا۔ ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی کسی بات نے دکان دار کو خفا کر دیا تھا اور دیہی مزاج کا یہ شخص بے بھاؤکی سنا رہا تھا۔ دوسری طرف گاہکوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔
بس اسی پر انتظار صاحب یاد آگئے۔ٹیلی ویژن سے جیسا کہ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ حالات حاضرہ سے متعلق ایک تبصرہ نما خبر یا تجزیہ نشر ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کہنے والوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے کہہ دیا ہے کہ عمران خان اگر پچیس تیس ہزار بندے لے کر اسلام آباد پہنچ جائیں تو زیادہ اینڈنے کی ضرورت نہیں۔ بس، الیکشن کا اعلان کرو ، اپنا بوریا بستر لپیٹو اور گھر جاؤ۔
بڑے شہروں میں کاروبار کی صورت مختلف ہوتی ہے۔ لوگوں کے پاس وقت کم ہوتا ہے اور وہ جلدی میں ہوتے ہیں۔ ایک ہاتھ لیا، ایک ہاتھ دیا اور یہ جا وہ جا۔ دیہی مزاج کے بازاروں اور گاؤں دیہات میں جو پاکستان کے ساٹھ باسٹھ فیصد سے زاید ہیں، نسبتاً مختلف ہوتے ہیں۔
کوئی شخص کسی بڑے شہر کا چکر لگا آئے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ سناؤ کیا دیکھ کر آئے ہو؟ گویا کوئی بات بغیر نوٹس کے نہیں جاتی۔ اسلام آباد کی نواحی بستیوں کا مزاج بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ تو ان صاحب نے بیس پچیس ہزار کے مجمعے اور اس کے نتیجے میں حکومت کے خاتمے کی بات سنی تو خفا ہو گئے۔ ان کی خفگی کو ہوا ایک اور صاحب جو ٹی وی اینکر ہیں ایک جملے سے دی۔ یہ وہی جملہ تھا کہ صاحبان معاملہ دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔ بس اسی چیز نے ان صاحب کا پارہ چڑھا دیا اور کھری کھری سنانے لگے۔
مفہوم ان کی بات کا یہ تھا کہ اگر عمران چند ہزار کے ہجوم کی طاقت سے حکومت کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو کیا دوسروں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔ وہ بھی لاؤ لشکر کے ساتھ آئیں گے اور اپنی بات منوا لیں گے۔ ہم میڈیا کے اسیروں اور سوشل میڈیا کی چمک دمک میں کھو جانے والوں کے لیے بر سر زمیں سننے کو ملنے والے اس ردعمل نے ایک نئی دنیا کے دروازے کھول دیے۔
تو بات ہے کہ ایک مرکزی دھارے کی میڈیا کی دنیا ہے جس کا اپنا مزاج اور مجبوریاں ہیں اور ایک سوشل میڈیا کی دنیا ہے جس پر خواہشات کی حکمرانی ہے۔ ان دونوں دنیاؤں کی خوبی یہ ہے کہ یہ بڑی آسانی کے ساتھ گلی محلے میں رونے، چیخنے اور چلانے والے کی آواز اور تصویر دونوں کو غائب کر سکتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کیا پوری دنیا ہی اس تجربے سے گزر رہی ہے۔
پاکستان میں اس وقت تاثر یہ ہے کہ عمران خان جو پوری طلاقت لسانی کے ساتھ میدان میں نکلے ہیں اور اپنے گرد ہجوم کو متحرک کرنے میں بھی کام یاب رہے ہیں، معرکہ مار چکے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کی تمام تر جادو گری کے باوجود پاکستان کی اکثریت اس صورت حال کا تجزیہ کسی دوسرے کے ذہن کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ وہ اسے اپنے تجربے اور اپنے دکھوں کی روشنی میں دیکھتی ہے اور ایسا تجزیہ کرتی ہے جس کی جڑیں زمین سے اٹھتی ہیں۔
اس دکان دار کا یہ کہنا کہ دوسرے کیا چوڑیاں پہن کر بیٹھے ہیں، مولانا فضل الرحمن کے تبصروں کی طرح بڑا بلیغ تبصرہ ہے۔ اس کا مطلب فقط یہ نہیں ہے کہ یہ جنگ دو سیاسی قوتوں کے درمیان ہے یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف ۔ یہ تجزیہ کچھ اور بتاتا ہے۔
اس تجزیے کو سمجھنے کے لیے موجودہ اتحادی حکومت کی ہیئت ترکیبی کو سمجھنا چاہیے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کتنی بھی بڑی جماعت ہو، وہ کتنے بڑے جلسے کرنے اور جلوس نکالنے کی قدرت رکھتی ہو، اس کے مقابل کھڑی سیاسی جماعتیں جدوجہد اور مزاحمت کا زیادہ بڑا تجربہ اور صلاحیت رکھتی ہیں۔
ہمارے دانش ور سیاسی کارکن ناصر الدین محمود بھی تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فیصلہ اگر سڑکوں پر ہونا ہے تو پھر جان رکھیے کہ سڑکوں پر گھمسان کا رن پڑے گا اور پھر جو کچھ ہو گا، وہ کسی کے سنبھالے سنبھلے گا نہیں۔اس بات کا مطلب کیا ہے؟ ہاتھ کنگن کو آرسی کر کے دیکھ لیں۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جمعیت علمائے اسلام اس وقت حکومت میں ہے۔
حکومت میں ہونے کے باوجود وہ اس وقت ایوان اقتدار کی پرسکون فضاؤں میں نہیں بیٹھے بلکہ حزب اختلاف کے کسی راہ نما کی طرح سڑکوں پر ہیں اور جلسے کر رہے ہیں۔
جلسوں کی کوریج کے بارے میں عمران خان نے اگرچہ کہہ دیا ہے کہ روشنی ہی سب کچھ ہے۔ یعنی روشنیوں کی چکا چوند سے اصل حقائق چھپا کر من مرضی کے حقائق تخلیق کیے جاسکتے ہیں۔ عمران خان ایسا کر دکھانے میں بھی کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے باوجود مولانا فضل الرحمن نے روشنیوں کے چمتکار کے بغیر ہی بڑے بڑے جلسے کر دکھائے ہیں۔ ان کے جلسوں کاسلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز بھی مولانا فضل الرحمن ہی کی طرح سڑکوں پر ہیں اور بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں۔
حکمراں اتحاد کی یہ دو بڑی جماعتیں ہیں۔ اب ذرا دیگر جماعتوں کی تاریخ، مزاج اور صلاحیت کو ذہن میں لائیں اور سوچیں کہ اگر ہجوم ہی کو فیصلوں کا معیار بنا لیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمہوری وطن پارٹی، پختونخوا میپ اور ان کی دیگر تمام ساتھی جماعتیں بھی مجبور ہو کر سڑکوں پر نکل آئیں تو نتیجہ کیا نکلے گا؟
اس لیے عقل کی بات یہ ہے کہ اگر کسی کا حوصلہ جواب دے گیا ہے تو وہ اپنے حوصلے کی دوا کرے لیکن پاکستان کی قسمت کو ہجوم کے ہاتھ میں دینے سے گریز کرے۔ اس بار اگر ایسا ہو گیا تو آئین قانون، ضابطہ اور سیاسی طور طریقے سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے اور ملک اس راہ پر چل نکلے گا جس کے نتیجے جیتی جاگتی زندگیاں مٹی کے ڈھیر میں بدل جاتی ہیں۔