لاہور ہائیکورٹ میں جواب جمع نہ کروانے پر وزیراعلیٰ پنجاب کو ایک لاکھ روپے جرمانہ
عدالت نے 30 مئی تک جواب جمع کروانے کی مہلت دے دی
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی نے جواب جمع نہ کروانے پر وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا۔
حمزہ شہباز کو عہدے سے ہٹانے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے پنجاب حکومت کو بھی جواب جمع نہ کروانے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا۔
عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کو بھی جواب جمع نہ کروانے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔ چیف جسٹس امیر بھٹی نے حکم دیا کہ جرمانہ کی رقم لاہور ہائیکورٹ بار کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جائے۔
وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے وکیل نے بھی جواب جمع کروانے کے لیے مہلت کی استدعا کر دی۔ وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ مجھے دو روز کی مہلت کی چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق حکومت کے رائٹس سلب نہیں کر سکتے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ق لیگ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت آپ کے کہنے پر نہیں چلے گی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب جمع کروانے کے لیے مہلت کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ آپ کو جواب 2روز پہلے جمع کروانا چاہیے تھا۔
وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ حمزہ شہباز کے پاس مطلوبہ ووٹ نہیں، چیف جسٹس امیر بھٹی نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ نہیں ہے کہ حمزہ شہباز کے پاس اکثریت ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق ماضی سے ہوگا یا نہیں کیونکہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا اطلاق ماضی سے ہوا تو ساری صورت حال کلیئر ہوجائے گی۔
عدالت نے 30مئی تک وزیر اعلیٰ پنجاب کو جواب جمع کروانے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
دوسری جانب، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس امیر بھٹی نے چوہدری پرویز الٰہٰی سمیت دیگر کی درخواستوں پر بھی سماعت کی۔ درخواست گزاروں نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 کی تشریح کردی ہے، قانونی طور پر حمزہ شہباز اب وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر نہیں رہ سکتے۔
عدالت نے اسپیکر پرویز الہٰی اور پی ایس ٹو گورنر کو بھی ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا۔
حمزہ شہباز کو عہدے سے ہٹانے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے پنجاب حکومت کو بھی جواب جمع نہ کروانے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا۔
عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کو بھی جواب جمع نہ کروانے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔ چیف جسٹس امیر بھٹی نے حکم دیا کہ جرمانہ کی رقم لاہور ہائیکورٹ بار کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جائے۔
وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے وکیل نے بھی جواب جمع کروانے کے لیے مہلت کی استدعا کر دی۔ وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ مجھے دو روز کی مہلت کی چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق حکومت کے رائٹس سلب نہیں کر سکتے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ق لیگ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت آپ کے کہنے پر نہیں چلے گی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب جمع کروانے کے لیے مہلت کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ آپ کو جواب 2روز پہلے جمع کروانا چاہیے تھا۔
وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ حمزہ شہباز کے پاس مطلوبہ ووٹ نہیں، چیف جسٹس امیر بھٹی نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ نہیں ہے کہ حمزہ شہباز کے پاس اکثریت ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق ماضی سے ہوگا یا نہیں کیونکہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا اطلاق ماضی سے ہوا تو ساری صورت حال کلیئر ہوجائے گی۔
عدالت نے 30مئی تک وزیر اعلیٰ پنجاب کو جواب جمع کروانے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
دوسری جانب، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس امیر بھٹی نے چوہدری پرویز الٰہٰی سمیت دیگر کی درخواستوں پر بھی سماعت کی۔ درخواست گزاروں نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 کی تشریح کردی ہے، قانونی طور پر حمزہ شہباز اب وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر نہیں رہ سکتے۔
عدالت نے اسپیکر پرویز الہٰی اور پی ایس ٹو گورنر کو بھی ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا۔