سمندری مونگے میں کینسر کے خلاف مؤثر کیمیکل دریافت
مسلسل 25 سالہ محنت کے بعد ماہرین نے ’ایلیوتھیروبن‘ نامی کیمیکل کا اصل ماخذ دریافت کرلیا ہے
اگرچہ یہ ایک فلمی کہانی معلوم ہوتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سائنسداں مسلسل 25 برس سے کینسر ختم کرنے والے ایک سالمے (مالیکیول) کی تلاش میں تھے جو اب مل چکا ہے۔
پہلے پہل یہ سمندری مرجانی چٹانوں (کورال) میں دریافت ہوا تھا لیکن اسے مکمل طور پر سمجھا نہیں گیا تھا۔ اب نہ صرف یہ دوبارہ ملا ہے بلکہ اسے نرم کورال کی بجائے تجربہ گاہ میں بھی تیار کرسکتے ہیں جسے سنتھے سز کا عمل کہا جاتا ہے۔
ہم عرصے سے جانتے ہیں کہ سمندروں میں شفاخانہ چھپا ہوسکتا ہے۔ پھر رنگ برنگے اور کئی اقسام کے مونگے شاندار کیمیائی اجزا بناتے ہیں جن میں ادویہ کی نئی دکان بلکہ کان ہوسکتی ہے۔ 1990 کے دوران گریٹ بیریئر ریف میں 'ایلیوتھیروبن' نامی سالمہ دریافت ہوا تھا۔ یہ سرطانی خلیات (سیلز) کو تباہ کرتا ہے اور کینسر روکتا ہے لیکن اس کی ساخت اور بناوٹ کے عمل سے پردہ نہ اٹھ سکا تھا۔
ممتاز سائنسی جریدے نیچر کیمیکل بائیلوجی میں شامل رپورٹ میں جامعہ یوٹاہ کے پروفیسر ایرک شمٹ نے لکھا ہے کہ نہ صرف 'ایلیوتھیروبن' کا ماخذ نرم کورال معلوم کیا گیا ہے بلکہ اس کے جینیاتی خواص بھی دیکھے گئے ہیں۔
سائنسداں ایک عرصے سے 'ایلیوتھیروبن' کی جینیاتی ترکیب معلوم کرنا چاہتے تھے لیکن ساتھ میں وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ آیا خاص طرح کے نرم مونگے انہیں خود بناتے ہیں یا پھر ان سے چپکے چھوٹے پودے ڈائنوفلیجلیٹس یہ کیمیکل پیدا کرتے ہیں۔ لیکن اب بھی مرجانی چٹانوں سے 'ایلیوتھیروبن' کی اتنی مقدار نہیں نکالی جاسکتی جس سے دوا بنائی جاسکے یا محض تجربات ہی ممکن ہوں۔
ڈاکٹر ایرک اور ان کے محقق ساتھیوں نے اب معلوم کیا ہے کہ کورال کے قریبی رشتے دار پودے 'سمندری قلم' (سی پین)میں بھی 'ایلیوتھیروبن' کی اچھی مقدار ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کا مکمل جینیاتی مطالعہ بھی کیا گیا ہے۔ اسی طرح 'ایلیوتھیروبن' سے ملتے جلتے کئی کیمیائی اجزا معلوم کئے گئے اور یوں انہیں ایک بیکٹیریا میں شامل کرکے اس کا جائزہ لیا گیا۔
اب جین کلسٹر کو ایک تبدیل شدہ ای کولائی بیکٹیریا میں رکھ کر اسے مصنوعی طور پر تیار کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی گئ ہے۔ یعنی اگر قدرتی طور پر 'ایلیوتھیروبن' کی مقدار کم ہے تو کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ہم تجربہ گاہ میں اس کی خاطرخواہ مقدار بناسکتےہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سمندر اور بالخصوص نرم مونگوں میں ہزاروں شفا بخش سالمات موجود ہوسکتے ہیں۔
پہلے پہل یہ سمندری مرجانی چٹانوں (کورال) میں دریافت ہوا تھا لیکن اسے مکمل طور پر سمجھا نہیں گیا تھا۔ اب نہ صرف یہ دوبارہ ملا ہے بلکہ اسے نرم کورال کی بجائے تجربہ گاہ میں بھی تیار کرسکتے ہیں جسے سنتھے سز کا عمل کہا جاتا ہے۔
ہم عرصے سے جانتے ہیں کہ سمندروں میں شفاخانہ چھپا ہوسکتا ہے۔ پھر رنگ برنگے اور کئی اقسام کے مونگے شاندار کیمیائی اجزا بناتے ہیں جن میں ادویہ کی نئی دکان بلکہ کان ہوسکتی ہے۔ 1990 کے دوران گریٹ بیریئر ریف میں 'ایلیوتھیروبن' نامی سالمہ دریافت ہوا تھا۔ یہ سرطانی خلیات (سیلز) کو تباہ کرتا ہے اور کینسر روکتا ہے لیکن اس کی ساخت اور بناوٹ کے عمل سے پردہ نہ اٹھ سکا تھا۔
ممتاز سائنسی جریدے نیچر کیمیکل بائیلوجی میں شامل رپورٹ میں جامعہ یوٹاہ کے پروفیسر ایرک شمٹ نے لکھا ہے کہ نہ صرف 'ایلیوتھیروبن' کا ماخذ نرم کورال معلوم کیا گیا ہے بلکہ اس کے جینیاتی خواص بھی دیکھے گئے ہیں۔
سائنسداں ایک عرصے سے 'ایلیوتھیروبن' کی جینیاتی ترکیب معلوم کرنا چاہتے تھے لیکن ساتھ میں وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ آیا خاص طرح کے نرم مونگے انہیں خود بناتے ہیں یا پھر ان سے چپکے چھوٹے پودے ڈائنوفلیجلیٹس یہ کیمیکل پیدا کرتے ہیں۔ لیکن اب بھی مرجانی چٹانوں سے 'ایلیوتھیروبن' کی اتنی مقدار نہیں نکالی جاسکتی جس سے دوا بنائی جاسکے یا محض تجربات ہی ممکن ہوں۔
ڈاکٹر ایرک اور ان کے محقق ساتھیوں نے اب معلوم کیا ہے کہ کورال کے قریبی رشتے دار پودے 'سمندری قلم' (سی پین)میں بھی 'ایلیوتھیروبن' کی اچھی مقدار ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کا مکمل جینیاتی مطالعہ بھی کیا گیا ہے۔ اسی طرح 'ایلیوتھیروبن' سے ملتے جلتے کئی کیمیائی اجزا معلوم کئے گئے اور یوں انہیں ایک بیکٹیریا میں شامل کرکے اس کا جائزہ لیا گیا۔
اب جین کلسٹر کو ایک تبدیل شدہ ای کولائی بیکٹیریا میں رکھ کر اسے مصنوعی طور پر تیار کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی گئ ہے۔ یعنی اگر قدرتی طور پر 'ایلیوتھیروبن' کی مقدار کم ہے تو کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ہم تجربہ گاہ میں اس کی خاطرخواہ مقدار بناسکتےہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سمندر اور بالخصوص نرم مونگوں میں ہزاروں شفا بخش سالمات موجود ہوسکتے ہیں۔