افتخار عارف کا ’’ گل سرخ ‘‘
میں افتخار عارف کی زندگی کو ’’خانہ بدوش‘‘ رہن سہن کا ایک عادی فرد سمجھتا ہوں
سوچتا ہوں کہ یہ روحانی رشتوں کی عجب اڑان کیوں ہوتی ہے، ان وجدی رشتوں کی اجزائے ترکیبی کے عجب رنگ اور ڈھنگ کیوں ہوتے ہیں؟ ان رشتوں کو باہم کرنے میں آخر وہ کونسی طاقت ہوتی ہے جو نہ مل کر اور نہ پا کر بھی مہان ٹہرتی ہے، روح کے راگ کا یہ عجب تعلق ہوتا ہے جو خود بخود احساس اور خیالات کی جوت بھی جگاتا ہے اور ہم آہنگی کے سر لے کی تھاپ پر چھیڑتا بھی رہتا ہے۔
میرا ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ میں افتخار عارف کو بہت زیادہ یا طویل عرصے سے جانتا ہوں، مگر میرا وجدان یہ دعویٰ کرنے پر مصر ہے کہ زمانے کا ''بارہواں کھلاڑی'' ہی اپنے احساس صبر اور برداشت کی قوت سے سب کا انمول سرمایہ اور امید ہوتا ہے، بارہویں کھلاڑی کے احساس کی تپسیا وہ کشش لیے ہوئے ہوتی ہے جو سب کے لیے ثمر کے ساتھ سب کی امیدوں کا محور ہوتی ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ میں افتخار عارف کے ساتھ لکھنو کی آغا میر کی ڈیوڑھی سے جڑا ہوں یا نخاس کے شیعہ کالج سے واقف رہا ہوں یا پھر لکھنو یونیورسٹی کے فارسی سمجھنے والے با ذوق فرد کی حیثیت سے افتخار عارف سے شناسا ہوا، البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ کشمیری محلے کے بھیتر کہیں آباد احمد سہیل یا نصرت سہیل اور آغا میر ڈیوڑھی کے افضال احمد کے با ادب گھرانے کا اہم جز افتخار عارف اور میں اب تک ضرور ہوں، جہاں کی کوئی یاد یا گفتگو یاور مہدی کے ذکر بنا ہمیشہ ادھوری ہی رہی۔
مجھے تو ''اردو مرکز لندن'' کے ان احساسات اور خیالات کا علم بھی ہے جہاں ''اردو'' اپنی قدر و منزلت پر فاخرانہ اور متکبرانہ انداز سے افتخار عارف کے لیے بے چین و بے قرار رہا کرتی تھی کہ افتخار عارف اور لکھنو کے سپوت آغا حسن عابدی کا لگایا گیا۔ ''اردو مرکز'' کا یہ نشان دنیائے ادب کی نامور شخصیات اور علم و ادب کا عالمی مرکز رہا، مگر سرمایہ دارانہ خباثتوں اور علم کی تضحیک کے سرمایہ دار کی لالچ بھری بدنیتی سے افتخار عارف اور اردو مرکز سے زیادہ کون واقف ہوگا کہ اسی بے حس سرمایہ داری نے علم و ادب کو تاراج کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، مگر افتخار عارف بھی کمال حوصلے کا جری تھا کہ اس نے آمرانہ دور میں بھی ادب کے دیے جلانے کی ترکیب خوبصورت حکمت عملی سے جاری رکھی اور تمام تر گھٹن اور اعصاب شکن صبر کے فلسفے کے تحت زندگی کے آہنگ کی جوت جلائے رکھی اور مشکلات کا بہت خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا، بہت کچھ جاننے کے باوجود کٹھناؤں کے اس مرد آہن نے ''درِحسین'' سے صبر کی طاقت کا کسب حاصل کرنے میں کبھی بخل نہ برتا اور یہی افتخار عارف کا ٹہراؤ اور افتخار ہے۔
اپنے لال کی کامیابی پر حسرت و مسرت سے بھری اس ماں کی آنکھوں کی پتلی میں صرف افتخار عارف کا عکس دیکھنے کا میں وہ خوش نصیب ہوں جو مہین جسامت اور بیٹے افتخار کی دوری پر بھی خاموشی سے دعاگو رہا کرتی تھی، یہ میرا مان ہے کہ جب ماں کی جدائی پر افتخار عارف لندن میں تنہا بیٹا آنسو روک کر اور اپنے دکھ بانٹنے کے حوالے سے مجھ سمیت سب کو ماں کے بارے میں لکھ کر بھیج رہا تھا کہ
باب دعا پر ایک دیا تھا وہ بھی ہوا کی نذر ہوا
افتخار عارف کے شعری مجموعے ''باغِ گل سرخ ''کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو اس مجموعے کی بنیاد ''ماں'' جنم کنڈلی کی یادیں، ہجرت اور لکھنو کی وہ گم گشتہ تہذیب شائستگی اور الوہیت ملے گی، جس میں جا بجا کہیں کشمیری محلے کا امام بارگاہ، کہیں نخاس کا چائے خانہ، کہیں وزیر گنج کی پر پیچ گلیوں میں نیم خستہ بارگاہ سے حقانیت کے سروان آل محمد کے تذکرے تو کہیں کالے امام بارگاہ سے لے کر آصف الدولہ اور بھول بھلیوں کے بڑے امام بارگاہ کے پہلو میں سفید مسجد کے عقیدت بھرے کارنس ملیں گے کہ جن میں صرف محبت تہذیب اور غم گساری کے احساساتی جڑاؤ کی فکر ہی نظر آئے گی۔
باغِ گل سرخ میں احساس اور تخلیق کی جوت جگانے اور لکھنو کی شائستگی سے اٹھا وہ تہذیبی رچاؤ نظر آئے گا جس میں تخلیق کے آہنگ کا مکمل خیال اور ادبی محاسن کی جملہ ضرورتیں پوری کی گئیں ہیں، اس شعری مجموعے میں افتخار عارف لکھنو کے قیصر باغ میں بیٹھے اہل ادب سے اپنے دکھ المیے اور احساس بانٹتے ہوئے نظر آئیں گے۔
اللھم لبیک میں آپ ہجرت کے دکھ کا انداز اور شائستگی دیکھیے کہ۔
کتنے دشوار مراحل تھے،وہ جب گذرے تھے
میں بہت سہل اسی جادہ ہجرت سے گیا
افتخار عارف کو اپنے اندر جرات اور قوت کا روحانی رنگ اتارنے کا یہ مرحلہ دیکھیے کہ...
خود بلاغت جس پہ نازاں ہو،کلام ایسا تو ہو
صاحبِ نہج البلاغہ کا غلام ایسا تو ہو
جنم مٹی کی گلیوں،چوباروں،چوک اور قہوہ خانے سے عشق اور ہجرت کے کرب کا یہ انداز بھی عجب ہے کہ...
آپ نے پہلے پہل عشق کیا، شعر کہے
کچھ نہ کچھ رابطہ اس شہر سے رکھیئے صاحب
میں افتخار عارف کی زندگی کو ''خانہ بدوش'' رہن سہن کا ایک ایسا عادی فرد سمجھتا ہوں جو غم کے پہاڑ لیے کہیں بھی بسیرا کر لیتا ہے، مگر دھرتی اور اس کی خوشبو سے رشتہ توڑنے پر ہرگز تیار نہیں، اگر افتخار عارف کی جنم ماں لکھنو ہے تو اس کے عہد عشق کی ماں سندھ کا مرکزی شہر کراچی ہی رہا، افتخار اپنے رشتوں کو مضبوطی سے تھامے نگر نگر پھرا ضرور مگر نہ لکھنوی انداز چھوڑا اور نہ ہی کراچی سندھ کا وہ ترقی پسند انداز زندگی بھولا جس نے اسے ''افتخار عارف'' بنایا۔ تبھی تو وہ کوسوں دور بھی اپنے شہر کے دکھ کو نہ بھولا اور چنگھاڑ دیا، وگرنہ یہ کیوں کہتا کہ...
سمندر کے کنارے ایک بستی رو رہی تھی
میں اتنی دور تھا اور مجھ کو وحشت ہو رہی تھی
وہی بستی جہاں میلے لگے رہتے تھے دن رات
وہی بستی تھی اور لاشوں پہ لاشیں ڈھو رہی تھی
دلوں کے بیچ دیواریں اٹھائی جارہی تھیں
ہوائے منتقم باغوں،میں نفرت بو رہی تھی
افتخار عارف تم یقین رکھو میں ان تلاش کرتی اور دعائیں دیتی منہنی سی ماں کی آنکھوں کا گواہ ہوں جو اب بھی تمہارے سرہانے کھڑی ٹکٹی باندھے تمہیں دیکھ کر چلی جاتی ہیں،تم خدارا یہ نہ کہو کہ...
دور کہیں جاگتی آنکھیں اندھیاروں میں ڈوب گئیں
وہ تو جاگ رہی ہیں اور ہر لمحے تمہیں اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں، تبھی تو تم دکھ کے پہاڑ اٹھا کر بھی تمام دوستوں اور اپنی ترقی پسند سوچ کے ساتھ کھڑے ہو۔
میرا ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ میں افتخار عارف کو بہت زیادہ یا طویل عرصے سے جانتا ہوں، مگر میرا وجدان یہ دعویٰ کرنے پر مصر ہے کہ زمانے کا ''بارہواں کھلاڑی'' ہی اپنے احساس صبر اور برداشت کی قوت سے سب کا انمول سرمایہ اور امید ہوتا ہے، بارہویں کھلاڑی کے احساس کی تپسیا وہ کشش لیے ہوئے ہوتی ہے جو سب کے لیے ثمر کے ساتھ سب کی امیدوں کا محور ہوتی ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ میں افتخار عارف کے ساتھ لکھنو کی آغا میر کی ڈیوڑھی سے جڑا ہوں یا نخاس کے شیعہ کالج سے واقف رہا ہوں یا پھر لکھنو یونیورسٹی کے فارسی سمجھنے والے با ذوق فرد کی حیثیت سے افتخار عارف سے شناسا ہوا، البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ کشمیری محلے کے بھیتر کہیں آباد احمد سہیل یا نصرت سہیل اور آغا میر ڈیوڑھی کے افضال احمد کے با ادب گھرانے کا اہم جز افتخار عارف اور میں اب تک ضرور ہوں، جہاں کی کوئی یاد یا گفتگو یاور مہدی کے ذکر بنا ہمیشہ ادھوری ہی رہی۔
مجھے تو ''اردو مرکز لندن'' کے ان احساسات اور خیالات کا علم بھی ہے جہاں ''اردو'' اپنی قدر و منزلت پر فاخرانہ اور متکبرانہ انداز سے افتخار عارف کے لیے بے چین و بے قرار رہا کرتی تھی کہ افتخار عارف اور لکھنو کے سپوت آغا حسن عابدی کا لگایا گیا۔ ''اردو مرکز'' کا یہ نشان دنیائے ادب کی نامور شخصیات اور علم و ادب کا عالمی مرکز رہا، مگر سرمایہ دارانہ خباثتوں اور علم کی تضحیک کے سرمایہ دار کی لالچ بھری بدنیتی سے افتخار عارف اور اردو مرکز سے زیادہ کون واقف ہوگا کہ اسی بے حس سرمایہ داری نے علم و ادب کو تاراج کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، مگر افتخار عارف بھی کمال حوصلے کا جری تھا کہ اس نے آمرانہ دور میں بھی ادب کے دیے جلانے کی ترکیب خوبصورت حکمت عملی سے جاری رکھی اور تمام تر گھٹن اور اعصاب شکن صبر کے فلسفے کے تحت زندگی کے آہنگ کی جوت جلائے رکھی اور مشکلات کا بہت خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا، بہت کچھ جاننے کے باوجود کٹھناؤں کے اس مرد آہن نے ''درِحسین'' سے صبر کی طاقت کا کسب حاصل کرنے میں کبھی بخل نہ برتا اور یہی افتخار عارف کا ٹہراؤ اور افتخار ہے۔
اپنے لال کی کامیابی پر حسرت و مسرت سے بھری اس ماں کی آنکھوں کی پتلی میں صرف افتخار عارف کا عکس دیکھنے کا میں وہ خوش نصیب ہوں جو مہین جسامت اور بیٹے افتخار کی دوری پر بھی خاموشی سے دعاگو رہا کرتی تھی، یہ میرا مان ہے کہ جب ماں کی جدائی پر افتخار عارف لندن میں تنہا بیٹا آنسو روک کر اور اپنے دکھ بانٹنے کے حوالے سے مجھ سمیت سب کو ماں کے بارے میں لکھ کر بھیج رہا تھا کہ
باب دعا پر ایک دیا تھا وہ بھی ہوا کی نذر ہوا
افتخار عارف کے شعری مجموعے ''باغِ گل سرخ ''کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو اس مجموعے کی بنیاد ''ماں'' جنم کنڈلی کی یادیں، ہجرت اور لکھنو کی وہ گم گشتہ تہذیب شائستگی اور الوہیت ملے گی، جس میں جا بجا کہیں کشمیری محلے کا امام بارگاہ، کہیں نخاس کا چائے خانہ، کہیں وزیر گنج کی پر پیچ گلیوں میں نیم خستہ بارگاہ سے حقانیت کے سروان آل محمد کے تذکرے تو کہیں کالے امام بارگاہ سے لے کر آصف الدولہ اور بھول بھلیوں کے بڑے امام بارگاہ کے پہلو میں سفید مسجد کے عقیدت بھرے کارنس ملیں گے کہ جن میں صرف محبت تہذیب اور غم گساری کے احساساتی جڑاؤ کی فکر ہی نظر آئے گی۔
باغِ گل سرخ میں احساس اور تخلیق کی جوت جگانے اور لکھنو کی شائستگی سے اٹھا وہ تہذیبی رچاؤ نظر آئے گا جس میں تخلیق کے آہنگ کا مکمل خیال اور ادبی محاسن کی جملہ ضرورتیں پوری کی گئیں ہیں، اس شعری مجموعے میں افتخار عارف لکھنو کے قیصر باغ میں بیٹھے اہل ادب سے اپنے دکھ المیے اور احساس بانٹتے ہوئے نظر آئیں گے۔
اللھم لبیک میں آپ ہجرت کے دکھ کا انداز اور شائستگی دیکھیے کہ۔
کتنے دشوار مراحل تھے،وہ جب گذرے تھے
میں بہت سہل اسی جادہ ہجرت سے گیا
افتخار عارف کو اپنے اندر جرات اور قوت کا روحانی رنگ اتارنے کا یہ مرحلہ دیکھیے کہ...
خود بلاغت جس پہ نازاں ہو،کلام ایسا تو ہو
صاحبِ نہج البلاغہ کا غلام ایسا تو ہو
جنم مٹی کی گلیوں،چوباروں،چوک اور قہوہ خانے سے عشق اور ہجرت کے کرب کا یہ انداز بھی عجب ہے کہ...
آپ نے پہلے پہل عشق کیا، شعر کہے
کچھ نہ کچھ رابطہ اس شہر سے رکھیئے صاحب
میں افتخار عارف کی زندگی کو ''خانہ بدوش'' رہن سہن کا ایک ایسا عادی فرد سمجھتا ہوں جو غم کے پہاڑ لیے کہیں بھی بسیرا کر لیتا ہے، مگر دھرتی اور اس کی خوشبو سے رشتہ توڑنے پر ہرگز تیار نہیں، اگر افتخار عارف کی جنم ماں لکھنو ہے تو اس کے عہد عشق کی ماں سندھ کا مرکزی شہر کراچی ہی رہا، افتخار اپنے رشتوں کو مضبوطی سے تھامے نگر نگر پھرا ضرور مگر نہ لکھنوی انداز چھوڑا اور نہ ہی کراچی سندھ کا وہ ترقی پسند انداز زندگی بھولا جس نے اسے ''افتخار عارف'' بنایا۔ تبھی تو وہ کوسوں دور بھی اپنے شہر کے دکھ کو نہ بھولا اور چنگھاڑ دیا، وگرنہ یہ کیوں کہتا کہ...
سمندر کے کنارے ایک بستی رو رہی تھی
میں اتنی دور تھا اور مجھ کو وحشت ہو رہی تھی
وہی بستی جہاں میلے لگے رہتے تھے دن رات
وہی بستی تھی اور لاشوں پہ لاشیں ڈھو رہی تھی
دلوں کے بیچ دیواریں اٹھائی جارہی تھیں
ہوائے منتقم باغوں،میں نفرت بو رہی تھی
افتخار عارف تم یقین رکھو میں ان تلاش کرتی اور دعائیں دیتی منہنی سی ماں کی آنکھوں کا گواہ ہوں جو اب بھی تمہارے سرہانے کھڑی ٹکٹی باندھے تمہیں دیکھ کر چلی جاتی ہیں،تم خدارا یہ نہ کہو کہ...
دور کہیں جاگتی آنکھیں اندھیاروں میں ڈوب گئیں
وہ تو جاگ رہی ہیں اور ہر لمحے تمہیں اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں، تبھی تو تم دکھ کے پہاڑ اٹھا کر بھی تمام دوستوں اور اپنی ترقی پسند سوچ کے ساتھ کھڑے ہو۔