جب موبائل فون نہیں تھا
عریانی فحاشی پھیلی نہیں تھی سکڑی سمٹی شرمائی لجائی کہیں چُھپی بیٹھی ہوتی تھی جسے بڑا ڈھونڈ کر پایا جاتا تھا
RAMALLAH, WEST BANK:
ہم عمروں تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو اور نوجوانوں تم یقین کرو یا نہ کرو لیکن کوئی تیس سال پہلے تک ہمارے ملک میں موبائل فون نہیں تھا۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب انٹرنیٹ بھی نہیں تھا۔ چناں چہ لڑکے بالے خود کو بگاڑنے کے لیے بڑے جتن کرکے کتابوں رسالوں کے اسٹالز اور ٹھیلوں سے ''میں بار بار کیسے بِکی'' اور ''میں مجبور تھی وہ بے غیرت تھا'' جیسی کتابیں خریدتے انھیں نیفے میں اڑس کر لاتے اور یوں چھپا کر پڑھتے جیسے نیکی چھپائی جاتی ہے، اور یہ کتابیں یوں ہی ضائع کردیتے جیسے نیکی کرکے دریا میں ڈالی جاتی ہے۔
یعنی عریانی فحاشی پھیلی نہیں تھی سکڑی سمٹی شرمائی لجائی کہیں چُھپی بیٹھی ہوتی تھی جسے بڑا ڈھونڈ کر پایا جاتا تھا۔ خاص طور پر ضیاء الحق کے دور میں تو ایسی کتابوں کا مطالعہ بھی مزاحمت میں شمار کیا جانا چاہیے کہ جب ڈراموں میں ہیروئن سوتی بھی دوپٹہ اوڑھ کر تھی اور نیوز کاسٹر پورا سر اور ستر ڈھانپے کُھلا جھوٹ بول رہی ہوتی تھی۔
انٹرنیٹ سے محرومی کے سبب خبروں اور معلومات کے حصول کے لیے اخبارات اور کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑتا تھا۔ چوں کہ ویب سائٹس کی طرح اخبار میں کہیں ''کمنٹ'' کی جگہ نہیں ہوتی اس لیے قارئین اپنے محبوب لیڈر اور سیاسی جماعت کے خلاف جاتی خبر شایع ہونے پر اخبار اور خبر دینے والے صحافی کو بس دل ہی دل میں یا زیرلب گالیاں دے سکتے تھے، یعنی مغلظات کی فوری رسائی کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا۔
رہیں کتابیں اور رسالے تو بے شک ان سے علم میں تو اضافہ ہوتا تھا مگر آدمی اس حقیقت سے آشنا ہوجاتا تھا کہ ہر فلسفیانہ قول خلیل جبران کا، ہر ناصحانہ شعر علامہ اقبال اور ہر پُرمزاح فقرہ مشتاق یوسفی کا ہونا ضروری نہیں۔ انٹرنیٹ پر طلوع ہونے والے سوشل میڈیا نے اس آشنائی کو ذہنی کوفت تو بنایا لیکن ان شخصیات کی عظمت میں کئی گنا اضافہ بھی کردیا، سو اب نئی نسل سوچتی ہے کہ کام کی باتیں تو بس یہ تین حضرات کر رہے تھے۔
باقی ادیب، شاعر اور مزاح نگار ''ایروپلین موڈ'' پر تھے یا ''چارجنگ'' پر لگے تھے۔ جاننے اور معلومات بانٹنے کا ایک اور اہم وسیلہ بیٹھکیں، تھڑے اور گلیوں کے نکڑ تھے، جہاں خبریں اور معلومات سینہ بہ سینہ گوش بہ گوش آگے بڑھتی رہتیں، کوئی ''کمیونٹی اسٹینڈرڈ'' رکاوٹ بنتا نہ شیطان اور مارک زگربرگ روک پاتے۔ لگتا ہے ان دنوں شیطان اتنا فارغ نہیں تھا۔
یہ وہی دور تھا جب تفریح کے لیے وی سی آر کرائے پر لائے جاتے اور پھر پورا خاندان رت جگا کرکے اونگھتے ہوئے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر یک کے بعد دیگرے تین سے چار بھارتی فلمیں دیکھ کر پورا کرایہ وصول کرتا تھا۔ گھر کا ایک فرد سینسر بورڈ بنا ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول تھامے چوکَنّا بیٹھا ہوتا، جہاں گھر میں رائج اخلاقیات کے منافی کوئی منظر آیا وہیں اس نے دل پر جبر کرکے ریموٹ کا بٹن دبایا اور اسے بھگایا۔
اگر فلم بینی کی یہ محفل دوست جماتے تو تین فلموں میں ہیرو کی بہن کی عزت بچنے، ہیرو ہیروئن کا سماجی فاصلہ ختم ہونے پر کیمرا ہٹنے اور کسی منظر میں نہاکر آنے والی دوشیزہ کا تولیہ سرکنے سے رکنے سے ہونے والی تشنگی دور کرنے کے لیے ایک چوتھی فلم ضرور دیکھی جاتی تھی۔ دیکھنے والے خود آمر بن کر اور اس فلم کو عوام سمجھ کر اس کی آواز دبادیتے تھے۔ اب ایک سیاسی شخصیت کی تقریر سن کر یہ جانا کہ ایسی فلموں کے اداکار کپڑوں کے عوض اپنے ہم وطنوں کے لیے آٹے کا اہتمام کرتے تھے۔
جی یہ وہی زمانہ ہے جب نجی چینل بھی نہیں تھے۔ لہٰذا سیاست دانوں کو کسی اینکر کے سہارے کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت آپس میں لڑنا پڑتا تھا۔ لے دے کر ایک پی ٹی وی تھا جس کی پالیسی تھی کہ جو دکھارہے ہیں دیکھو ورنہ بھاڑ میں جاؤ۔ چند ڈراموں اور پروگراموں کو چھوڑ کر پی ٹی وی کی نشریات کا یہ حال تھا کہ بہت سے ناظرین نے بھاڑ میں جانے کو ترجیح دی۔
سرکاری چینل کی نشریات شام کو شروع ہوکر رات بارہ بجے ختم ہوتیں۔ لوگ پی ٹی وی کے ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتے تھے، ان ڈراموں کا ایسا سحر تھا کہ ناظرین خبرنامہ بھی ڈراما سمجھ کر دیکھتے تھے، اور ملک کے حالات جاننے کے لیے بی بی سی ریڈیو کا رخ کرتے تھے۔
یاد آیا، یہ وہی دن تھے جب فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ جیسی سماجی ویب سائٹس نہ ہونے کے باعث سینہ بہ سینہ جھوٹ پھیلانے میں خاصا وقت لگ جاتا تھا اور ناراضی کے اظہار کے لیے ان فالو یا ان فرینڈ کرنے کے بہ جائے سامنا ہونے پر ان جان بن کر، ضرورت پڑنے پر سائیکل اور استری جیسی اشیاء اور مہمان آنے پر پنکھے اور چارپائی دینے سے صاف انکار کرکے اپنی خفگی ظاہر کی جاتی تھی۔
موبائل نہ ہونے کا باعث انگلیاں اتنی فارغ تھیں کہ آدمی پورے انہماک سے ناک کی صفائی اور پوری فرصت سے سر کی کھجائی کے بعد بھی یہ سوچتا رہ جاتا تھا کہ اب ان کا کیا کروں۔ بہت سی خواتین ایک دوسرے کے سروں سے جوئیں نکالنے کو انگلیوں کا بہترین مصرف جانتی تھیں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ خدمت انجام دیتے ہوئے سروں میں لاتعداد جوئیں جوں کی توں چھوڑ دی جاتی تھیں، ایسا نہیں کہ یہ خواتین تفتیشی اور احتسابی اداروں کی طرح جوؤں میں امتیاز اور تفریق کی قائل تھیں، ان کی سوچ یہ تھی کہ سب ماردیں تو پھر کرنے کو کیا رہ جائے گا؟
قبل از موبائل دور میں کسی سے رابطہ کرنا، بلانا اور پیغام پہنچانا بڑا مشکل تھا۔ جب معاملہ محبت کا ہو تو یہ مشکل اور بڑھ جاتی تھی۔ رابطے کے ذریعے تین تھے، گلی میں یا درس گاہ کے باہر انتظار، خط اور لائن فون۔ یوں سمجھو کہ جتنی دیر آج موبائل فون پر بات ہوتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ وقت انتظار میں صرف ہوتا تھا، پھر ملاقات اتنی مختصر ہوتی تھی جتنا میسیج لکھنے میں وقت لگتا ہے۔ خط لکھنا ایک جھنجھٹ تھا، اور اس سے بڑھ کر محبوب کو متاثر کرنے کے لیے خط میں شعر ٹانکنا۔
ان دنوں شعر کے ساتھ اقبال اور فراز کا نام لکھنا ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا، کیوں کہ نیم خواندہ ترین محبوبہ بھی جانتی تھی کہ ''شیشی بھری گلاب کی پتھر سے توڑ دوں۔۔۔خط کا جواب نہ ملے خط لکھنا چھوڑ دوں فراز'' کسی طور بھی فراز کا شعر نہیں ہوسکتا اور اگر یہ فراز نے سن لیا تو وہ اپنا سر پھوڑ لیں گے یا لکھنے والے کا سر توڑ دیں گے۔ جہاں تک تعلق ہے لائن فون کا تو اس پر گفتگو کی اپنی مشکلات تھیں۔
یہ دیکھنا پڑتا تھا کہ کن اوقات میں محبوب کے ابا اور محبوبہ کے بھیا گھر پر نہیں ہوتے، دوران کلام آواز دھیمی رکھنے میں مہارت لازمی تھی، ''یوتھ'' کو اتنی آہستہ آواز میں بات کرتے دیکھ کر گھر والے سمجھتے تھے کہ شاید فون پر سرگوشی میں کہہ رہے ہیں ''ہم نے حقیقی آزادی کی جنگ لڑنی ہے''، کال کے منتظر مقررہ وقت پر شکرے کی طرح فون کے ارد گرد منڈلا رہے ہوتے اور جوں ہی بیل بجتی بھوکے بھیڑیے کی طرح جھپٹ کر کال اٹھاتے، ایسے میں اگر محبوبہ کی جگہ خالہ محمودہ کی کال آجاتی تو ''خالہ! امی تو گئی ہوئی ہیں'' کا سیاسی بیان جاری کردیا جاتا۔ دل کو یہ اطمینان ہوتا کہ جھوٹ کس نے بولا امی واقعی دوسرے کمرے میں گئی ہوئی ہیں۔
اس دور میں موبائل اسکرین نہ ہونے کی وجہ سے ساتھ بیٹھے لوگوں کو ایک دوسرے کے منہ دیکھنا ہوتے تھے، اب اگر یوں ہی منہ دیکھتے رہتے تو سامنے والا کہتا منہ کیا دیکھ رہے ہو، لہٰذا منہ دیکھے کو باتیں بھی کرنی ہوتی تھیں۔ یہ بے فکری نہیں تھی کہ دور بستے رشتے دار اور دوست آن لائن نظر آرہے ہیں، لائیک اور شیئر کررہے ہیں اور اسٹیٹس لگا رہے ہیں تو خیریت ہی سے ہوں گے ان سے رابطہ کرنے کی کیا ضرورت ہے! تب ہر کچھ عرصے بعد خط لکھ کر دوسرے شہروں اور ملکوں میں آباد قرابت داروں کا حال جاننا پڑتا تھا۔ عیدبقرعید پر بھی سارے عزیزوں اور جاننے والوں کو ایک کلک سے مبارک باد دے کر نمٹادینے کی سہولت میسر نہیں تھی، سو عیدکارڈ منتخب کرنے، خریدنے اور اس پر لکھ کر بھیجنے کے جھمیلوں میں پڑنا پڑتا تھا۔
تو بھیا یہ تھا قبل ازموبائل دور، کتنا مشکل تھا نا، اب کتنی آسانی ہوگئی ہے، ارے اس آسانی میں تو آپ کو خوش ہونا چاہیے، یہ آنکھیں نم کیوں ہوگئیں!
ہم عمروں تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو اور نوجوانوں تم یقین کرو یا نہ کرو لیکن کوئی تیس سال پہلے تک ہمارے ملک میں موبائل فون نہیں تھا۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب انٹرنیٹ بھی نہیں تھا۔ چناں چہ لڑکے بالے خود کو بگاڑنے کے لیے بڑے جتن کرکے کتابوں رسالوں کے اسٹالز اور ٹھیلوں سے ''میں بار بار کیسے بِکی'' اور ''میں مجبور تھی وہ بے غیرت تھا'' جیسی کتابیں خریدتے انھیں نیفے میں اڑس کر لاتے اور یوں چھپا کر پڑھتے جیسے نیکی چھپائی جاتی ہے، اور یہ کتابیں یوں ہی ضائع کردیتے جیسے نیکی کرکے دریا میں ڈالی جاتی ہے۔
یعنی عریانی فحاشی پھیلی نہیں تھی سکڑی سمٹی شرمائی لجائی کہیں چُھپی بیٹھی ہوتی تھی جسے بڑا ڈھونڈ کر پایا جاتا تھا۔ خاص طور پر ضیاء الحق کے دور میں تو ایسی کتابوں کا مطالعہ بھی مزاحمت میں شمار کیا جانا چاہیے کہ جب ڈراموں میں ہیروئن سوتی بھی دوپٹہ اوڑھ کر تھی اور نیوز کاسٹر پورا سر اور ستر ڈھانپے کُھلا جھوٹ بول رہی ہوتی تھی۔
انٹرنیٹ سے محرومی کے سبب خبروں اور معلومات کے حصول کے لیے اخبارات اور کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑتا تھا۔ چوں کہ ویب سائٹس کی طرح اخبار میں کہیں ''کمنٹ'' کی جگہ نہیں ہوتی اس لیے قارئین اپنے محبوب لیڈر اور سیاسی جماعت کے خلاف جاتی خبر شایع ہونے پر اخبار اور خبر دینے والے صحافی کو بس دل ہی دل میں یا زیرلب گالیاں دے سکتے تھے، یعنی مغلظات کی فوری رسائی کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا۔
رہیں کتابیں اور رسالے تو بے شک ان سے علم میں تو اضافہ ہوتا تھا مگر آدمی اس حقیقت سے آشنا ہوجاتا تھا کہ ہر فلسفیانہ قول خلیل جبران کا، ہر ناصحانہ شعر علامہ اقبال اور ہر پُرمزاح فقرہ مشتاق یوسفی کا ہونا ضروری نہیں۔ انٹرنیٹ پر طلوع ہونے والے سوشل میڈیا نے اس آشنائی کو ذہنی کوفت تو بنایا لیکن ان شخصیات کی عظمت میں کئی گنا اضافہ بھی کردیا، سو اب نئی نسل سوچتی ہے کہ کام کی باتیں تو بس یہ تین حضرات کر رہے تھے۔
باقی ادیب، شاعر اور مزاح نگار ''ایروپلین موڈ'' پر تھے یا ''چارجنگ'' پر لگے تھے۔ جاننے اور معلومات بانٹنے کا ایک اور اہم وسیلہ بیٹھکیں، تھڑے اور گلیوں کے نکڑ تھے، جہاں خبریں اور معلومات سینہ بہ سینہ گوش بہ گوش آگے بڑھتی رہتیں، کوئی ''کمیونٹی اسٹینڈرڈ'' رکاوٹ بنتا نہ شیطان اور مارک زگربرگ روک پاتے۔ لگتا ہے ان دنوں شیطان اتنا فارغ نہیں تھا۔
یہ وہی دور تھا جب تفریح کے لیے وی سی آر کرائے پر لائے جاتے اور پھر پورا خاندان رت جگا کرکے اونگھتے ہوئے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر یک کے بعد دیگرے تین سے چار بھارتی فلمیں دیکھ کر پورا کرایہ وصول کرتا تھا۔ گھر کا ایک فرد سینسر بورڈ بنا ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول تھامے چوکَنّا بیٹھا ہوتا، جہاں گھر میں رائج اخلاقیات کے منافی کوئی منظر آیا وہیں اس نے دل پر جبر کرکے ریموٹ کا بٹن دبایا اور اسے بھگایا۔
اگر فلم بینی کی یہ محفل دوست جماتے تو تین فلموں میں ہیرو کی بہن کی عزت بچنے، ہیرو ہیروئن کا سماجی فاصلہ ختم ہونے پر کیمرا ہٹنے اور کسی منظر میں نہاکر آنے والی دوشیزہ کا تولیہ سرکنے سے رکنے سے ہونے والی تشنگی دور کرنے کے لیے ایک چوتھی فلم ضرور دیکھی جاتی تھی۔ دیکھنے والے خود آمر بن کر اور اس فلم کو عوام سمجھ کر اس کی آواز دبادیتے تھے۔ اب ایک سیاسی شخصیت کی تقریر سن کر یہ جانا کہ ایسی فلموں کے اداکار کپڑوں کے عوض اپنے ہم وطنوں کے لیے آٹے کا اہتمام کرتے تھے۔
جی یہ وہی زمانہ ہے جب نجی چینل بھی نہیں تھے۔ لہٰذا سیاست دانوں کو کسی اینکر کے سہارے کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت آپس میں لڑنا پڑتا تھا۔ لے دے کر ایک پی ٹی وی تھا جس کی پالیسی تھی کہ جو دکھارہے ہیں دیکھو ورنہ بھاڑ میں جاؤ۔ چند ڈراموں اور پروگراموں کو چھوڑ کر پی ٹی وی کی نشریات کا یہ حال تھا کہ بہت سے ناظرین نے بھاڑ میں جانے کو ترجیح دی۔
سرکاری چینل کی نشریات شام کو شروع ہوکر رات بارہ بجے ختم ہوتیں۔ لوگ پی ٹی وی کے ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتے تھے، ان ڈراموں کا ایسا سحر تھا کہ ناظرین خبرنامہ بھی ڈراما سمجھ کر دیکھتے تھے، اور ملک کے حالات جاننے کے لیے بی بی سی ریڈیو کا رخ کرتے تھے۔
یاد آیا، یہ وہی دن تھے جب فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ جیسی سماجی ویب سائٹس نہ ہونے کے باعث سینہ بہ سینہ جھوٹ پھیلانے میں خاصا وقت لگ جاتا تھا اور ناراضی کے اظہار کے لیے ان فالو یا ان فرینڈ کرنے کے بہ جائے سامنا ہونے پر ان جان بن کر، ضرورت پڑنے پر سائیکل اور استری جیسی اشیاء اور مہمان آنے پر پنکھے اور چارپائی دینے سے صاف انکار کرکے اپنی خفگی ظاہر کی جاتی تھی۔
موبائل نہ ہونے کا باعث انگلیاں اتنی فارغ تھیں کہ آدمی پورے انہماک سے ناک کی صفائی اور پوری فرصت سے سر کی کھجائی کے بعد بھی یہ سوچتا رہ جاتا تھا کہ اب ان کا کیا کروں۔ بہت سی خواتین ایک دوسرے کے سروں سے جوئیں نکالنے کو انگلیوں کا بہترین مصرف جانتی تھیں۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ خدمت انجام دیتے ہوئے سروں میں لاتعداد جوئیں جوں کی توں چھوڑ دی جاتی تھیں، ایسا نہیں کہ یہ خواتین تفتیشی اور احتسابی اداروں کی طرح جوؤں میں امتیاز اور تفریق کی قائل تھیں، ان کی سوچ یہ تھی کہ سب ماردیں تو پھر کرنے کو کیا رہ جائے گا؟
قبل از موبائل دور میں کسی سے رابطہ کرنا، بلانا اور پیغام پہنچانا بڑا مشکل تھا۔ جب معاملہ محبت کا ہو تو یہ مشکل اور بڑھ جاتی تھی۔ رابطے کے ذریعے تین تھے، گلی میں یا درس گاہ کے باہر انتظار، خط اور لائن فون۔ یوں سمجھو کہ جتنی دیر آج موبائل فون پر بات ہوتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ وقت انتظار میں صرف ہوتا تھا، پھر ملاقات اتنی مختصر ہوتی تھی جتنا میسیج لکھنے میں وقت لگتا ہے۔ خط لکھنا ایک جھنجھٹ تھا، اور اس سے بڑھ کر محبوب کو متاثر کرنے کے لیے خط میں شعر ٹانکنا۔
ان دنوں شعر کے ساتھ اقبال اور فراز کا نام لکھنا ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا، کیوں کہ نیم خواندہ ترین محبوبہ بھی جانتی تھی کہ ''شیشی بھری گلاب کی پتھر سے توڑ دوں۔۔۔خط کا جواب نہ ملے خط لکھنا چھوڑ دوں فراز'' کسی طور بھی فراز کا شعر نہیں ہوسکتا اور اگر یہ فراز نے سن لیا تو وہ اپنا سر پھوڑ لیں گے یا لکھنے والے کا سر توڑ دیں گے۔ جہاں تک تعلق ہے لائن فون کا تو اس پر گفتگو کی اپنی مشکلات تھیں۔
یہ دیکھنا پڑتا تھا کہ کن اوقات میں محبوب کے ابا اور محبوبہ کے بھیا گھر پر نہیں ہوتے، دوران کلام آواز دھیمی رکھنے میں مہارت لازمی تھی، ''یوتھ'' کو اتنی آہستہ آواز میں بات کرتے دیکھ کر گھر والے سمجھتے تھے کہ شاید فون پر سرگوشی میں کہہ رہے ہیں ''ہم نے حقیقی آزادی کی جنگ لڑنی ہے''، کال کے منتظر مقررہ وقت پر شکرے کی طرح فون کے ارد گرد منڈلا رہے ہوتے اور جوں ہی بیل بجتی بھوکے بھیڑیے کی طرح جھپٹ کر کال اٹھاتے، ایسے میں اگر محبوبہ کی جگہ خالہ محمودہ کی کال آجاتی تو ''خالہ! امی تو گئی ہوئی ہیں'' کا سیاسی بیان جاری کردیا جاتا۔ دل کو یہ اطمینان ہوتا کہ جھوٹ کس نے بولا امی واقعی دوسرے کمرے میں گئی ہوئی ہیں۔
اس دور میں موبائل اسکرین نہ ہونے کی وجہ سے ساتھ بیٹھے لوگوں کو ایک دوسرے کے منہ دیکھنا ہوتے تھے، اب اگر یوں ہی منہ دیکھتے رہتے تو سامنے والا کہتا منہ کیا دیکھ رہے ہو، لہٰذا منہ دیکھے کو باتیں بھی کرنی ہوتی تھیں۔ یہ بے فکری نہیں تھی کہ دور بستے رشتے دار اور دوست آن لائن نظر آرہے ہیں، لائیک اور شیئر کررہے ہیں اور اسٹیٹس لگا رہے ہیں تو خیریت ہی سے ہوں گے ان سے رابطہ کرنے کی کیا ضرورت ہے! تب ہر کچھ عرصے بعد خط لکھ کر دوسرے شہروں اور ملکوں میں آباد قرابت داروں کا حال جاننا پڑتا تھا۔ عیدبقرعید پر بھی سارے عزیزوں اور جاننے والوں کو ایک کلک سے مبارک باد دے کر نمٹادینے کی سہولت میسر نہیں تھی، سو عیدکارڈ منتخب کرنے، خریدنے اور اس پر لکھ کر بھیجنے کے جھمیلوں میں پڑنا پڑتا تھا۔
تو بھیا یہ تھا قبل ازموبائل دور، کتنا مشکل تھا نا، اب کتنی آسانی ہوگئی ہے، ارے اس آسانی میں تو آپ کو خوش ہونا چاہیے، یہ آنکھیں نم کیوں ہوگئیں!