حکومتی مجبوری عوام کا بھرکس نکال گئی
ایسے طریقے تلاش کیے جائیں جس کے ذریعے دوبارہ اس طرح کے حالات پیش نہ آئیں جس سے حکومت کو عوامی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے
حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس کا لب لباب یہ تھا کہ یہ انتہائی مشکل ترین فیصلہ کرنا حکومت کی انتہائی مجبوری تھی کیونکہ آئی ایم ایف نے پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم نہ کرنے کی صورت میں قرضہ جاری کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
اس فیصلے کے نتیجے میں انٹر بینک میں ڈالر 1 روپے 21 پیسے سستا ہوکر 200 روپے 80 پیسے کا ہوگیا جب کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی کاروبارکا مثبت آغاز ہوا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق یہ سبسڈی مالیاتی نظام کو نقصان پہنچا رہی تھی، بہرحال پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات براہ راست عوام پر منتقل ہونگے اور مہنگائی مزید کئی گنا بڑھ جائے گی۔
آئی ایم ایف سے قرض کی منظوری کے بغیر پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھتا جارہا تھا، کیونکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے تھے اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے پر دباؤ واضح نظر آرہا تھا۔ سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے رخصت ہونے سے قبل جو سبسڈی دی تھی ، اس کے نتیجے میں ملکی معیشت پر بہت زیادہ دباؤ بڑھا ، جب کہ موجودہ اتحادی حکومت بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے میں تامل سے کام لے رہی تھی۔
صورتحال ایک ایسی بند گلی میں جاتی ہوئی محسوس ہورہی تھی ، جس سے نکلنے کی کوئی صورت بظاہر نظر نہیں آرہی تھی ، بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا آئی ایم ایف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور بجلی کی فی یونٹ قیمتوں میں اضافے کو قبول کرتا ہے یا پھر مزید مطالبات سامنے لاتا ہے ، یہ بات تو چند دنوں میں کھل کر سامنے آ ہی جائے گی۔
ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہر حکومت نے صرف مالیاتی پالیسیوں پر توجہ دی ہے ، جب کہ معاشی پالیسیاں سرے سے ترتیب ہی نہیں دی گئی ہیں جس کی وجہ سے ہماری معیشت مستحکم بنیادوں پر استوار نہیں ہوسکی ہے ، اور ہم اول و آخر آئی ایم ایف کے محتاج ہوچکے ہیں۔حالیہ قیمتوں میں اضافے سے وہ فرد جو موٹر سائیکل چلاتا ہے یا پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتا ہے۔
وہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ عام آدمی کی زندگی میں طلوع ہونے والا ہر نیا دن مشکل سے مشکل تر اور حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی سے اس طرح کے حالات پیدا ہو رہے ہیں جس سے عام آدمی ، غریبوں اور مزدوروں کے لیے زندگی گزارنا بہت مشکل ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں لوگ بھوک اور دو وقت کی روٹی نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کر رہے ہیں، یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے ، ملک اس وقت بہت سنگین حالات سے دوچار ہے۔ ایک طرف مہنگائی کا سیلاب ہے تو دوسری جانب بے روزگاری کا طوفان، ایسے میں اس ملک کا غریب آدمی کیا کرے؟ اور یہ چیزیں ملک کو کس مقام پر لے کر جائیں گی؟
پاکستانی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدات میں زیادہ اضافہ پٹرولیم، آٹو موبائل اورکھانے پینے کی اشیا کی زیادہ درآمد کی وجہ سے ہوا ہے، خصوصاً پٹرولیم مصنوعات کی عالمی سطح پر زیادہ قیمتوں نے ملکی درآمدات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، اگرچہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے تاہم درآمدات میں ہونے والا اضافہ بہت زیادہ ہے جو ملک کے بیرونی تجارت کے شعبے کے لیے خطرے کی علامت ہے۔
موجودہ صورتحالِ سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ایسے طریقے تلاش کیے جائیں جس کے ذریعے دوبارہ اس طرح کے حالات پیش نہ آئیں جس سے حکومت کو عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے۔ اس طرح کا ایک طویل مدتی حل یہ ہے کہ حکومت آمدنی کے دیگر قابلِ اعتماد اور براہِ راست ذریعے تلاش کرے تاکہ حکومت کے پٹرولیم مصنوعات پر آمدنی کے انحصار کو کم از کم کیا جا سکے۔
معاشی ماہرین ملکی برآمدات میں اضافے کو خوش آیند قرار دیتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ تجارتی خسارے میں اضافہ اصل میں سب سے بڑا مسئلہ ہے جو حکومتی پالیسیوں کے باوجود مسلسل بڑھ رہا ہے اور پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے، ابھی جون میں بجٹ بھی پیش کرنا ہے ، اس حوالے سے بھی حکومت کو مزید مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا۔
وفاقی وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس کا لب لباب یہ تھا کہ یہ انتہائی مشکل ترین فیصلہ کرنا حکومت کی انتہائی مجبوری تھی کیونکہ آئی ایم ایف نے پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم نہ کرنے کی صورت میں قرضہ جاری کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
اس فیصلے کے نتیجے میں انٹر بینک میں ڈالر 1 روپے 21 پیسے سستا ہوکر 200 روپے 80 پیسے کا ہوگیا جب کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی کاروبارکا مثبت آغاز ہوا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق یہ سبسڈی مالیاتی نظام کو نقصان پہنچا رہی تھی، بہرحال پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات براہ راست عوام پر منتقل ہونگے اور مہنگائی مزید کئی گنا بڑھ جائے گی۔
آئی ایم ایف سے قرض کی منظوری کے بغیر پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھتا جارہا تھا، کیونکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے تھے اور ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے پر دباؤ واضح نظر آرہا تھا۔ سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے رخصت ہونے سے قبل جو سبسڈی دی تھی ، اس کے نتیجے میں ملکی معیشت پر بہت زیادہ دباؤ بڑھا ، جب کہ موجودہ اتحادی حکومت بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے میں تامل سے کام لے رہی تھی۔
صورتحال ایک ایسی بند گلی میں جاتی ہوئی محسوس ہورہی تھی ، جس سے نکلنے کی کوئی صورت بظاہر نظر نہیں آرہی تھی ، بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا آئی ایم ایف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور بجلی کی فی یونٹ قیمتوں میں اضافے کو قبول کرتا ہے یا پھر مزید مطالبات سامنے لاتا ہے ، یہ بات تو چند دنوں میں کھل کر سامنے آ ہی جائے گی۔
ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہر حکومت نے صرف مالیاتی پالیسیوں پر توجہ دی ہے ، جب کہ معاشی پالیسیاں سرے سے ترتیب ہی نہیں دی گئی ہیں جس کی وجہ سے ہماری معیشت مستحکم بنیادوں پر استوار نہیں ہوسکی ہے ، اور ہم اول و آخر آئی ایم ایف کے محتاج ہوچکے ہیں۔حالیہ قیمتوں میں اضافے سے وہ فرد جو موٹر سائیکل چلاتا ہے یا پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتا ہے۔
وہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ عام آدمی کی زندگی میں طلوع ہونے والا ہر نیا دن مشکل سے مشکل تر اور حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی سے اس طرح کے حالات پیدا ہو رہے ہیں جس سے عام آدمی ، غریبوں اور مزدوروں کے لیے زندگی گزارنا بہت مشکل ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں لوگ بھوک اور دو وقت کی روٹی نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کر رہے ہیں، یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے ، ملک اس وقت بہت سنگین حالات سے دوچار ہے۔ ایک طرف مہنگائی کا سیلاب ہے تو دوسری جانب بے روزگاری کا طوفان، ایسے میں اس ملک کا غریب آدمی کیا کرے؟ اور یہ چیزیں ملک کو کس مقام پر لے کر جائیں گی؟
پاکستانی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدات میں زیادہ اضافہ پٹرولیم، آٹو موبائل اورکھانے پینے کی اشیا کی زیادہ درآمد کی وجہ سے ہوا ہے، خصوصاً پٹرولیم مصنوعات کی عالمی سطح پر زیادہ قیمتوں نے ملکی درآمدات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، اگرچہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے تاہم درآمدات میں ہونے والا اضافہ بہت زیادہ ہے جو ملک کے بیرونی تجارت کے شعبے کے لیے خطرے کی علامت ہے۔
موجودہ صورتحالِ سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ایسے طریقے تلاش کیے جائیں جس کے ذریعے دوبارہ اس طرح کے حالات پیش نہ آئیں جس سے حکومت کو عوامی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے۔ اس طرح کا ایک طویل مدتی حل یہ ہے کہ حکومت آمدنی کے دیگر قابلِ اعتماد اور براہِ راست ذریعے تلاش کرے تاکہ حکومت کے پٹرولیم مصنوعات پر آمدنی کے انحصار کو کم از کم کیا جا سکے۔
معاشی ماہرین ملکی برآمدات میں اضافے کو خوش آیند قرار دیتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ تجارتی خسارے میں اضافہ اصل میں سب سے بڑا مسئلہ ہے جو حکومتی پالیسیوں کے باوجود مسلسل بڑھ رہا ہے اور پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے، ابھی جون میں بجٹ بھی پیش کرنا ہے ، اس حوالے سے بھی حکومت کو مزید مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا۔