بحران اچھے ہوتے ہیں

سیاسی بحرانوں کے مثبت پہلو، ایک نقطۂ نظر

سیاسی بحرانوں کے مثبت پہلو، ایک نقطۂ نظر ۔ فوٹو : فائل

پاکستانی معاشرہ دنیا سے الگ تھلک کوئی معاشرہ نہیں ہے اور آج کے ترقی یافتہ دور میں جب تغیرات میں تیزی حیران کُن حد تک پہنچ چکی ہے وہیں سیاسی بحرانوں کے مثبت پہلو بھی تیزی سے معاشرے کو متاثر کررہے ہیں۔

کسی بھی معاشرے میں بحرانوں کی مختلف اقسام اکثر جنم لیتی رہتی ہیں جیسا کہ معاشی بحران، سیاسی بحران، ثقافتی اور سماجی بحران وغیرہ۔ پاکستان میں ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ شہری آبادی کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور کئی دیہات چھوٹے قصبوں اور قصبے چھوٹے شہروں میں ڈھل چکے ہیں، جہاں کا سماجی نظام بھی تبدیل ہوا ہے اور اس کے اثرات سیاست پر بھی مرتب ہوئے اور نئے چہرے اور شخصیات کا بھی جنم ہوا۔ گو کہ ان کی تعداد نہایت محدود ہے۔

پاکستان میں دو دہائیوں سے جمہوریت موجود ہے اور اس کا تسلسل بھی قائم ہے جس نے معاشرے میں جمہوری ثقافت کو جنم دیا اور سیاسی شعور عمومی طور پر عوام الناس میں بیدار ہونا شروع ہوا اور سیاست میں عوامی دل چسپی کا پہلو بھی واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ڈیجیٹل میڈیا پر سیاسی سرگرمیاں مقبولیت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی عوام اب اس قابل ہیں کہ وہ کوئی سیاسی بیانیہ قبول یا رد کرسکیں اور یہ صلاحیت سیاسی شعور عطا کرتا ہے جو عوام الناس میں مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس عمل میں سیاسی بحرانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

اس وقت پاکستان شدید دستوری و قانونی بحرانوں سے گزر رہا ہے اور عدالتوں پر مسلسل دباؤ موجود ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ یہ حق رکھتی ہے کہ وہ دستور کی منشا و مرضی بیان کرسکے یعنی تشریح کا حق صرف اعلیٰ عدلیہ کو ہی حاصل ہے جو ہر دستوری بحران یا تشریح میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

دستور پاکستان 1973ء کی رو سے یہ حق بھی ہے اور اعلیٰ عدلیہ کا فرض بھی ہے کہ وہ دستور کی تشریح کرے۔ دستوری و جمہوری اقدار و روایات کی رو سے تمام تر طبقات اور حکومت وقت کے لیے عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد اور پاس داری ضروری ہے جو دراصل ایک جمہوری توازن کو جنم دیتی ہے جو جمہوری ادارے فراہم کرتے ہیں۔

سیاسی بحران دنیا کے ہر ترقی یافتہ جمہوری ملک کی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ اگر فرانس کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو وہاں چار سال کی محدود مدت میں نو بار حکومت تبدیل ہوئی اور بار بار عوام سے رجو ع کیاگیا۔ بالآخر ایک مستحکم جمہوری ڈھانچا وہاں قائم ہوا اور آج تک قائم بھی ہے۔ یہ دراصل سیاسی بحران کا مثبت پہلو ہے۔

پاکستان میں تحریک انصاف کی سادہ اکثریت رکھنے والی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک کے کے باشعور عوام نے قانون و دستور کے مختلف پہلوؤں کا عملی مشاہدہ بھی کیا۔

عدالت عظمیٰ کی طرف سے از خود نوٹس لیا جانا بھی اہمیت رکھتا ہے اور سیاسی بحران کے سیاسی و قانونی پہلو عوام میں موضوع گفتگو بنے جن سے عوام الناس نے بہت کچھ سیکھا۔

قانون کا احترام اور دستور کی بالادستی عدالتی فیصلے سے قائم ہوئی اور جو حکومت کے خلاف تھا جسے قبول کیاگیا اور معاشرے میں عدلیہ کا احترام و افادیت میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔ جہاں عوامی سطح پر عدلیہ کا فیصلہ قبول کیاگیا وہیں تنقیدی جائزہ بھی لیا گیا اور تنقیدی جائزے میں قانونی و دستوری پہلو عام لوگوں میں بھی پہنچے اور انہوں نے اس پر اپنی اپنی رائے بھی دی جو سیاسی وابستگی کو ظاہر کرتی تھی۔

عوام الناس کا عمومی سیاسی شعور قانونی و دستوری پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا اور یوں سیاسی بحران عوام کے لیے سیکھنے کا ایک ذریعہ بھی بنا۔ قانونی ماہرین نے میڈیا پر آکر اپنا اپنا نقطۂ نظر بیان کیا اور عدلیہ کے فیصلے کا احترام ہر جگہ اور مقام پر نظر آیا۔

جمہوری ادارے جمہوری توازن پیدا کرتے ہیں اور عوام سیاسی بحرانوں میں جمہوری اداروں پر ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ پاکستان کا دستور 1973ء ایک ایسا دستور ہے جو متنازع نہیں ہے اور ہر سطح پر قابل قبول ہونے کے ساتھ ساتھ ہر سطح اور ہر سیاسی جماعت کی جانب سے اس کی پاس داری کی جاتی ہے اور سیاسی بحران دستور کی روح کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالتی فیصلوں سے حل ہوتے ہیں اور دستور کے مطابق تشریح بھی عدالتی اختیار ہے۔


لہٰذا اعلیٰ عدلیہ پر ذمہ داری منتقل ہوجاتی ہے اور دیگر جمہوری ادارے تعاون کریں تو دستور و قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے دیے جانے والے عدالتی فیصلے نہ صرف بحران ختم کرتے ہیں بلکہ جمہوری سیاسی توازن بھی پیدا کرتے ہیں۔

اس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین کی ایک بڑی تعداد مستعفی ہوچکی ہے اور تین ماہ میں عام انتخابات دستوری ضرورت و تقاضا بن کر سامنے آئے ہیں جن کو بحران بنایا جارہا ہے۔ دستور و قانون واضح ہدایات فراہم کرتے ہیں اور ابہام ہونے کی صورت میں اعلیٰ عدلیہ موجود ہے جو دستور کی تشریح کا حق بھی رکھتی ہے یوں ایک عمدہ حل کی طرف جایا جاسکتا ہے۔

معاشرے میں جمہوری تغیرات جنم لیتے رہتے ہیں اور بنیادی طور پر جمہوریت ایک وسیع مفاد ہے جسے عوام الناس اپنی ضرورت اور حکومت میں شمولیت کے لیے استعمال کرتے ہیں اور سیاست داں اپنی ضرورت اور مفاد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں جن میں شعور کی سطح بلند ہو وہ فائدے میں رہتے ہیں۔ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں عوام کی سیاسی شعور کی سطح بلند ہوتی ہے اور وہاں سیاست داں جمہوریت اور جمہوری عمل کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال نہیں کرپاتے ہیں۔

پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے اور یوں ایک ایسا طبقہ و جود میں آچکا ہے جو سیاست کو اپنی وراثت سمجھنے لگا ہے اور خاصا کام یاب بھی ہے۔ وہ انتخابات اور جمہوری عمل میں اپنی دولت کے بل بوتے پر کام یابی حاصل کرلیتا ہے لیکن خصوصاً شہروں میں ایسے لوگ بھی کام یاب ہوئے جو پہلی بار کسی قانون ساز اسمبلی کے ممبر بنے۔ یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نئی سوچ اور ضرورت پاکستان کی سیاست کا حصہ بن رہی ہے اور یہ سوچ اور ضرورت سیاسی بحران بھی بعض اوقات جنم دیتے ہیں جو عوام کو سیاسی شعور کی نت نئی شکلوں اور تناظر فراہم کرتے ہیں۔

شہروں اور دیہات کی سیاست میں بھی فرق موجود ہے۔ پاکستان میں شہری رقبہ بڑھ رہا ہے اور دیہات میں میڈیا کے گہرے اثرات تبدیلیاں لارہے ہیں۔ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا معلومات کو کم وقت میں تیزی سے پھیلانے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔

یوں ایک ایسی فضا جنم لے رہی ہے جو سیاسی تناظر میں تبدیلی پیدا کرسکے۔ سیاسی تناظر کی یہ تبدیلی سیاست میں نئے خیالات و تصورات بھی سامنے لانے کا سبب ہے اور ووٹ کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ پاکستان میں روایتی و غیرروایتی سیاست بیک وقت ہورہی ہے اور روایتی سیاست سیاسی بحرانوں کے سبب مسلسل کم زوری سے دوچار ہے اور اس کی جگہ غیر روایتی سیاست لے رہی ہے جو ایک مثبت پہلو ہے۔

ذرائع ابلاغ اور سائنسی ترقی کے گہرے اثرات سیاست کو متاثر کرتے ہیں اور جہاں شعور پیدا کرتے ہیں وہیں عوام کو درست سمت بھی عطا کرتے ہیں۔ تمام معاشرے ثقافتی اثرات کو قبول کرتے ہیں اور ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں آنے والے سیاسی تغیرات کے اثرات ایک ثقافتی رنگ بھی رکھتے ہیں اور عوام الناس کے لیے سوچ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے ثقافتی اثرات سیاسی پہلو سے دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو متاثر کیے ہوئے ہیں۔ ثقافتی اثرات جمہوریت کو نئی تہذیب بھی عطا کرتے ہیں اور جمہوریت عوام الناس کے لیے زیادہ اہم ہوتی چلی جاتی ہے۔

جمہوریت ایک ہتھیار ہے جو عوام کو احساسِ شراکت حکومت عطا کرتا ہے اور اس سے بھرپور فائدہ صرف اسی صورت میں ہی ممکن ہے جب ووٹ حق دار کو حق سمجھ کر دیا جائے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں بالخصوص معمولی رقم، آٹے کے تھیلے یا گھی کا ڈبا ووٹرز کو دیا جاتا ہے اور یوں ان کا ووٹ خرید لیا جاتا ہے اور غربت مزید غربت پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ غربت کا یہ کلچر دراصل کلچر کی غربت ہے جو وقت یا سیاسی بحران ہی تبدیل کرتا ہے۔

سیاسی بحران میں عوام کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور طاقت ور بیانیہ چھا جاتا ہے اور عوامی سطح پر طاقت ور بیانیہ وہی بنتا ہے جس میں محور و مرکز عوام اور ان کے مفادات ہوں اور وہی بات عوام الناس کو اچھی بھی لگتی ہے۔ پاکستان کا مخصوص اور سیاست کرنے والا طبقہ سیاسی جماعتوں کا حصہ ہے اور طاقت ور حیثیت کا حامل بھی ہے۔

سیاسی بحران اس طبقے کی اہمیت کو کم کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں کیوں کہ قانون و دستور کی اہمیت ابھرتی ہے جو حل فراہم کرتے ہیں اور کوئی ادارہ یا شخص چوں کہ قانون اور دستور سے بالاتر نہیں لہٰذا شخصیات کا سحر کم ہونے لگتا ہے اور جمہوری فضا قائم ہونے لگتی ہے، لہٰذا سیاسی بحران کے سماجی پہلو ہمیشہ مثبت رخ سے معاشرے کو متاثر کرتے ہیں اور سیاسی شعور کو پختہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

آج کے مخصوص سیاسی حالات میں مخصوص طبقہ جسے ''الیکٹ ایبل'' بھی کہا جاتا ہے خوف زدہ ہوچکا ہے اور جن ذرائع یا حالات کی بنا پر اپنا ذاتی ووٹ بنک وہ پیدا کرچکے تھے اب ان کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے اور سیاسی بیانیہ جمہوری تناظر میں سیاسی بحرانوں کو بھی جنم دے رہا ہے۔

سیاسی بحران جمہوری معاشرے کا اہم حصہ ہوتے ہیں اور ہمیشہ معاشرے کو ترقی دیتے ہیں، اگر دستور و قانون کی عمل داری قائم رہے، اور دستور و قانون پیدا شدہ سیاسی بے چینی ختم کرتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک کی سیاسی تاریخ بحرانوں کی تاریخ ہے جو حل ہوتے گئے اور معاشرے کو ترقی دیتے چلے گئے۔ سیاسی بحران اداروں میں جمہوری توازن جنم دیتے ہیں اگر دستور کو ہر سطح پر مقدم رکھتے ہوئے سب کچھ طے کیا جائے۔
Load Next Story