ہُو کا عالم
’ہُو کا عالم‘‘ میرےلیےایک ایساہی استعارہ ہواکرتاتھاجسکےحقیقی معنوں کومیں کبھی ٹھوس حوالوں سےپوری طرح سمجھ نہیں پایاتھا
ہر زبان میں ایسے بہت سارے الفاظ اور استعارے ہوا کرتے ہیں جنھیں آپ بار ہا سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں مگر اپنے ذاتی تجربات کے حوالے سے انھیں پوری طرح سمجھ نہیں پاتے۔ ''ہُو کا عالم'' میرے لیے ایک ایسا ہی استعارہ ہوا کرتا تھا جس کے حقیقی معنوں کو میں کبھی ٹھوس حوالوں سے پوری طرح سمجھ نہیں پایا تھا۔ پھر آج سے چند برس پہلے میں نے پورا ایک مہینہ لبنان میں گزارا۔ اسرائیل اپنی فضائی قوت کے بھرپور استعمال کے ساتھ ان دنوں ''حزب اللہ'' کا اس ملک میں صفایا کرنے پر تُلا بیٹھا ہے۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت پہنچا تو بڑی حیرت ہوئی کہ عیسائی اکثریت والے علاقوں میں بازار پُر رونق تھے اور وہاں موجود ہر طرح کے ریستوران رات گئے تک خوش گپیاں کرتے گاہکوں سے بھرے ہوئے۔ بیروت کے وسط میں حریری خاندان کے حامیوں کا غلبہ تھا۔ وہ علاقہ بھی بڑا پُر امن اور پُر رونق نظر آیا۔
میری حفاظت کے خیال سے بیروت میں موجود پاکستانی سفارتکاروں نے اصرار کیا کہ میں اس پلازے کے عین سامنے واقع ایک ہوٹل میں قیام کروں جس کی ایک منزل پر ہمارا سفارت خانہ تھا۔ کسی ہنگامی صورتحال میں صرف دو یا تین منٹ کے اندر اس ہوٹل سے پاکستانی سفارت خانہ میں جا کر پناہ لی جا سکتی ہے۔ ہمارا سفارت خانہ اور وہ ہوٹل حزب اللہ کے گڑھ مانے جانے والے جنوبی بیروت کی عین سرحد پر واقع تھا۔ اس ہوٹل کے 300 سے زیادہ کمرے تھے اور یہ ایک چار منزلہ عمارت تھی۔ میرے علاوہ وہاں جنوبی بیروت سے مہاجر ہوا صرف ایک خاندان تھا جو میاں بیوی اور ان کے پانچ چھ سالہ بیٹے پر مشتمل تھا۔ جنوبی بیروت پر اسرائیلی طیاروں سے ہوتی بمباری کے باعث اس ہوٹل کے دروازے اور کھڑکیاں پوری رات ہولناک انداز میں بجتے رہتے۔ رات دو تین بجے کے بعد میرے کمرے میں رکھے فون کی گھنٹی اچانک بجنا شروع ہو جاتی۔ میں گھبراہٹ میں اُٹھ کر ریسیور اٹھاتا تو انگریزی، عربی اور فرانسیسی زبان میں ریکارڈ ہوئے ایک پیغام کے ذریعے مجھے ''خبردار'' کیا جاتا کہ جان بچانا مقصود ہے تو یہ ہوٹل فوراََ چھوڑ دیا جائے۔ ایمانداری کی بات ہے میں ایک بار بھی اس فون سے خوفزدہ نہ ہوا۔ میرا دل بیٹھنا شروع ہوا تو صرف اس وقت جب میں جنوبی بیروت کے ایک مرکزی محلے تک پیدل چلتا ہوا پہنچ گیا۔ اس علاقے میں نسبتاََ نچلے متوسط طبقے والوں کی رہائش کے لیے کئی منزلہ رہائشی پلازے موجود تھے۔ میں بھری دوپہر تقریباََ ایک گھنٹے تک ایک فٹ پاتھ پر چلتا رہا۔ دور دور تک کوئی انسان نظر نہ آیا۔ اوپر دیکھوں تو بہت ساری بھڑوں کی مانند ''زوں زوں'' کرتی آوازوں کے ساتھ اسرائیلی ڈرون دیکھنے کو ملتے۔ ''ہو کا عالم'' میں اس وقت پوری طرح سمجھ گیا۔ پھر نجانے کہاں سے تین چار موٹر سائیکلیں مختلف سمتوں سے آئیں۔ انھیں جینز اور ٹی شرٹ پہنے حزب اللّہ کے نوجوان رضا کار چلاتے ہوئے مجھے اپنے گھیرے میں لے کر کھڑے ہو گئے۔ ان کا جبلی شک یہ تھا کہ میں شاید ایک جاسوس ہوں جو اسرائیلی ڈرونز کے لیے ممکنہ اہداف ڈھونڈ رہا ہوں۔ مجھے ایک پلازے میں تقریباََ دھکیل کر بڑے مہذب مگر سخت گیر انداز میں خوب تفتیش کی گئی۔ جب انھیں پوری طرح اطمینان ہو گیا کہ میں پاکستان سے آیا بس ایک صحافی ہوں تو انھوں نے متوحش انداز میں مجھے سمجھایا کہ ان علاقوں میں پیدل گھومتے ہوئے میں صرف موت کو دعوت دے رہا ہوں۔
اتنے برس گزر جانے کے بعد میں نے ''ہو کا عالم'' ایک بار پھر پیر کی صبح اسلام آباد میں اپنے گھر کے اِرد گرد دیکھا۔ ضلع کچہری میرے گھر سے پانچ منٹ کے اندر پیدل چلتے ہوئے پہنچا جا سکتا ہے۔ وہاں ''فائر بندی'' کے فریقین کی جانب سے اعلان کے عین 24 گھنٹوں بعد ایک ناخوشگوار واقعہ ہو گیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ تماش بینی کی اپنی قومی عادت کے باعث اسلام آباد کے مکین میرے محلے کو لوگوں اور گاڑیوں کے ہجوم سے بھر دیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ واقعے کے فوراََ بعد کے ابتدائی لمحات میں لوگ اپنے اپنے گھروں کو بھاگ گئے۔ ان کے بعد میڈیا اور پولیس ضلع کچہری کے مرکز میں پہنچ گئے۔ وہاں جانے والے تمام راستے سیل کر دیے گئے اور اپنے گھر کی کھڑی سے مجھے چاروں طرف بس ''ہو کا عالم'' ہی نظر آیا۔
مجھے حیرت ہے کہ پیر کے دن اسلام آباد کے مکینوں کی جبلی تماش بینی کو کیا ہو گیا تھا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ شاید اس خدشے نے انھیں جائے وقوعہ سے دور رکھا کہ کچھ حملہ آور اب بھی زندہ ہیں۔ وہ جائے وقوعہ سے کھسک گئے تھے اور کسی بھی وقت کسی اور علاقے میں نمودار ہو سکتے تھے۔ شاید اسی خوف سے اسلام آباد کے مکینوں کی اکثریت خود کو اپنے گھروں میں محصور کر لینے پر مجبور ہو گئی۔
''ہو کا یہ عالم'' سہتے ہوئے مجھے اپنے وزیر داخلہ مسلسل یاد آتے رہے۔ چند ہی روز قبل اراکین پارلیمان کی ایک کمیٹی کو چوہدری نثار علی خان کے ماتحت کام کرنے والے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا تھا کہ اسلام آباد مختلف النوع Sleepers Cells کی وجہ سے ایک غیر محفوظ شہر بن چکا ہے۔ اس بریفنگ کی خبر عیاں ہونے کے دوسرے دن چوہدری صاحب غصہ سے بھناتے ہوئے ہماری ٹی وی اسکرینوں پر نمودار ہوئے اور ''اللہ کے کرم اور ہماری اَن تھک کوششوں کے باعث'' اسلام آباد کو پاکستان کا ''محفوظ ترین شہر'' قرار دیتے پائے گئے۔ مجھے ہر گز سمجھ نہیں آ رہی کہ میں اس سے آگے کیا لکھ سکتا ہوں۔
میری حفاظت کے خیال سے بیروت میں موجود پاکستانی سفارتکاروں نے اصرار کیا کہ میں اس پلازے کے عین سامنے واقع ایک ہوٹل میں قیام کروں جس کی ایک منزل پر ہمارا سفارت خانہ تھا۔ کسی ہنگامی صورتحال میں صرف دو یا تین منٹ کے اندر اس ہوٹل سے پاکستانی سفارت خانہ میں جا کر پناہ لی جا سکتی ہے۔ ہمارا سفارت خانہ اور وہ ہوٹل حزب اللہ کے گڑھ مانے جانے والے جنوبی بیروت کی عین سرحد پر واقع تھا۔ اس ہوٹل کے 300 سے زیادہ کمرے تھے اور یہ ایک چار منزلہ عمارت تھی۔ میرے علاوہ وہاں جنوبی بیروت سے مہاجر ہوا صرف ایک خاندان تھا جو میاں بیوی اور ان کے پانچ چھ سالہ بیٹے پر مشتمل تھا۔ جنوبی بیروت پر اسرائیلی طیاروں سے ہوتی بمباری کے باعث اس ہوٹل کے دروازے اور کھڑکیاں پوری رات ہولناک انداز میں بجتے رہتے۔ رات دو تین بجے کے بعد میرے کمرے میں رکھے فون کی گھنٹی اچانک بجنا شروع ہو جاتی۔ میں گھبراہٹ میں اُٹھ کر ریسیور اٹھاتا تو انگریزی، عربی اور فرانسیسی زبان میں ریکارڈ ہوئے ایک پیغام کے ذریعے مجھے ''خبردار'' کیا جاتا کہ جان بچانا مقصود ہے تو یہ ہوٹل فوراََ چھوڑ دیا جائے۔ ایمانداری کی بات ہے میں ایک بار بھی اس فون سے خوفزدہ نہ ہوا۔ میرا دل بیٹھنا شروع ہوا تو صرف اس وقت جب میں جنوبی بیروت کے ایک مرکزی محلے تک پیدل چلتا ہوا پہنچ گیا۔ اس علاقے میں نسبتاََ نچلے متوسط طبقے والوں کی رہائش کے لیے کئی منزلہ رہائشی پلازے موجود تھے۔ میں بھری دوپہر تقریباََ ایک گھنٹے تک ایک فٹ پاتھ پر چلتا رہا۔ دور دور تک کوئی انسان نظر نہ آیا۔ اوپر دیکھوں تو بہت ساری بھڑوں کی مانند ''زوں زوں'' کرتی آوازوں کے ساتھ اسرائیلی ڈرون دیکھنے کو ملتے۔ ''ہو کا عالم'' میں اس وقت پوری طرح سمجھ گیا۔ پھر نجانے کہاں سے تین چار موٹر سائیکلیں مختلف سمتوں سے آئیں۔ انھیں جینز اور ٹی شرٹ پہنے حزب اللّہ کے نوجوان رضا کار چلاتے ہوئے مجھے اپنے گھیرے میں لے کر کھڑے ہو گئے۔ ان کا جبلی شک یہ تھا کہ میں شاید ایک جاسوس ہوں جو اسرائیلی ڈرونز کے لیے ممکنہ اہداف ڈھونڈ رہا ہوں۔ مجھے ایک پلازے میں تقریباََ دھکیل کر بڑے مہذب مگر سخت گیر انداز میں خوب تفتیش کی گئی۔ جب انھیں پوری طرح اطمینان ہو گیا کہ میں پاکستان سے آیا بس ایک صحافی ہوں تو انھوں نے متوحش انداز میں مجھے سمجھایا کہ ان علاقوں میں پیدل گھومتے ہوئے میں صرف موت کو دعوت دے رہا ہوں۔
اتنے برس گزر جانے کے بعد میں نے ''ہو کا عالم'' ایک بار پھر پیر کی صبح اسلام آباد میں اپنے گھر کے اِرد گرد دیکھا۔ ضلع کچہری میرے گھر سے پانچ منٹ کے اندر پیدل چلتے ہوئے پہنچا جا سکتا ہے۔ وہاں ''فائر بندی'' کے فریقین کی جانب سے اعلان کے عین 24 گھنٹوں بعد ایک ناخوشگوار واقعہ ہو گیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ تماش بینی کی اپنی قومی عادت کے باعث اسلام آباد کے مکین میرے محلے کو لوگوں اور گاڑیوں کے ہجوم سے بھر دیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ واقعے کے فوراََ بعد کے ابتدائی لمحات میں لوگ اپنے اپنے گھروں کو بھاگ گئے۔ ان کے بعد میڈیا اور پولیس ضلع کچہری کے مرکز میں پہنچ گئے۔ وہاں جانے والے تمام راستے سیل کر دیے گئے اور اپنے گھر کی کھڑی سے مجھے چاروں طرف بس ''ہو کا عالم'' ہی نظر آیا۔
مجھے حیرت ہے کہ پیر کے دن اسلام آباد کے مکینوں کی جبلی تماش بینی کو کیا ہو گیا تھا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ شاید اس خدشے نے انھیں جائے وقوعہ سے دور رکھا کہ کچھ حملہ آور اب بھی زندہ ہیں۔ وہ جائے وقوعہ سے کھسک گئے تھے اور کسی بھی وقت کسی اور علاقے میں نمودار ہو سکتے تھے۔ شاید اسی خوف سے اسلام آباد کے مکینوں کی اکثریت خود کو اپنے گھروں میں محصور کر لینے پر مجبور ہو گئی۔
''ہو کا یہ عالم'' سہتے ہوئے مجھے اپنے وزیر داخلہ مسلسل یاد آتے رہے۔ چند ہی روز قبل اراکین پارلیمان کی ایک کمیٹی کو چوہدری نثار علی خان کے ماتحت کام کرنے والے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا تھا کہ اسلام آباد مختلف النوع Sleepers Cells کی وجہ سے ایک غیر محفوظ شہر بن چکا ہے۔ اس بریفنگ کی خبر عیاں ہونے کے دوسرے دن چوہدری صاحب غصہ سے بھناتے ہوئے ہماری ٹی وی اسکرینوں پر نمودار ہوئے اور ''اللہ کے کرم اور ہماری اَن تھک کوششوں کے باعث'' اسلام آباد کو پاکستان کا ''محفوظ ترین شہر'' قرار دیتے پائے گئے۔ مجھے ہر گز سمجھ نہیں آ رہی کہ میں اس سے آگے کیا لکھ سکتا ہوں۔