متاثرہ فیکٹری کی بیسمنٹ میں بوائلر پھٹنے سے آگ بھڑک اٹھی عینی شاہدین کا بیان
700جینس چوری ہونے پرداخلی وخارجی راستوںپرگرلیںلگائی گئی تھیں،فیکٹری سے نکلنے کاایک راستہ تھا
بلدیہ کے علاقے میں گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والے آگ کے بارے میں بتایاگیاکہ بیسمنٹ میں بوائلرپھٹنے سے آگ بھڑک اٹھی جبکہ فیکٹری کے تمام داخلی وخارجی راستے لوہے کی گرل لگا کر بندکردیے گئے تھے جس کی وجہ سے فیکٹری ملازمین اپنی جانیں نہیں بچاسکے ۔
اس ضمن میں ابتدائی رپورٹ اعلیٰ حکام کوارسال کردی گئی ہے۔انکوائری افسرڈپٹی کمشنر غربی گنہور خان نے ایکسپریس کو بتایاکہ فیکٹری میں کام کرنے والے عینی شاہدین کے بیانات قلمبندکیے گئے ہیں جس میں انکشاف ہواہے کہ فیکٹری کے مالک شہزادبھیلا اور شاہد بھیلانے رمضان میں 700 جینس کی پینٹیں چوری ہونے کے بعد فیکٹری کے داخلی اورخارجی راستوں پرلوہے کی گرلزلگاکرانہیں تالے لگادیے تھے اور صرف ایک مین گیٹ پر گارڈزتعینات تھے جوکہ مزدورںکے فیکٹری سے نکلنے کے وقت چیکنگ کیاکرتے تھے۔
عینی شاہدین نے بیانات میں مزیدانکشاف کیاگیاہے کہ فیکٹری کے بیسمینٹ میں بوائلرنصب تھے جس کے پھٹنے سے آگ بھڑک اٹھی اورگھبراہٹ میں تمام مزدور فیکٹری سے باہر نکلنے کے بجائے اوپرکی منزلوں کی طرف بھاگنا شروع ہوگئے اورزیادہ تر ہلاکتیں دم گھٹنے کے باعث ہوئیں۔دوسری جانب ڈپٹی کمشنرضلع غربی گنہورعلی لغاری نے کہا کہ گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی اندوہناک آتشزد گی کی وجوہات کاجائزہ لینے کیلیے ضلعی انتظامیہ غیرجانبدارانہ تحقیقات کرے گی اوراس سلسلے میں کوئی دبائوخاطرمیں نہیں لایا جائے گا۔
ضلعی انتظا میہ کوشش کررہی ہے کہ فیکٹری مالکان کوجلدسے جلدقانون کی گرفت میں لایا جائے، آتشزدگی سے جاں بحق افراداورزخمیوں کی فہرست بنائی جارہی ہے جو بہت جلدحکومت کو بجھوادی جائے گی،منگل کی شام سے ضلعی انتطامیہ ریسکیوآپریشن کی نگرانی کر رہی ہے اوربدھ کی شام تک جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشو ں کے علاوہ کم و بیش تیس سے زائد زخمیوں کو نکالا گیاجس میں تمام متعلقہ اداروں نے حصہ لیاہے۔
انھوں کہا کہ جولوگ ریسکیو آپریشن پر سوال اٹھا رہے ہیں وہ وہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں عوام اپنے اداروں پراعتماد کریں،ریسکیو آپریشن میں تمام اداروں نے اپنی ذمے داری پوری کی ہے تاہم یہ دیکھاجاناباقی ہے کہ اس فیکٹری سمیت کتنی فیکٹریاں ایسی جگہوں پربنی ہوئی ہیں جہا ں ہنگامی حالات میں ریسکیو آپریشن ممکن نہیں ہوسکتااور فیکٹریوں کو قائم کرنے کی کون لوگ اجازت دیتے ہیں،ہم اپنی رپورٹ میں ذمے داری کا تعین کریںگے۔
اس ضمن میں ابتدائی رپورٹ اعلیٰ حکام کوارسال کردی گئی ہے۔انکوائری افسرڈپٹی کمشنر غربی گنہور خان نے ایکسپریس کو بتایاکہ فیکٹری میں کام کرنے والے عینی شاہدین کے بیانات قلمبندکیے گئے ہیں جس میں انکشاف ہواہے کہ فیکٹری کے مالک شہزادبھیلا اور شاہد بھیلانے رمضان میں 700 جینس کی پینٹیں چوری ہونے کے بعد فیکٹری کے داخلی اورخارجی راستوں پرلوہے کی گرلزلگاکرانہیں تالے لگادیے تھے اور صرف ایک مین گیٹ پر گارڈزتعینات تھے جوکہ مزدورںکے فیکٹری سے نکلنے کے وقت چیکنگ کیاکرتے تھے۔
عینی شاہدین نے بیانات میں مزیدانکشاف کیاگیاہے کہ فیکٹری کے بیسمینٹ میں بوائلرنصب تھے جس کے پھٹنے سے آگ بھڑک اٹھی اورگھبراہٹ میں تمام مزدور فیکٹری سے باہر نکلنے کے بجائے اوپرکی منزلوں کی طرف بھاگنا شروع ہوگئے اورزیادہ تر ہلاکتیں دم گھٹنے کے باعث ہوئیں۔دوسری جانب ڈپٹی کمشنرضلع غربی گنہورعلی لغاری نے کہا کہ گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی اندوہناک آتشزد گی کی وجوہات کاجائزہ لینے کیلیے ضلعی انتظامیہ غیرجانبدارانہ تحقیقات کرے گی اوراس سلسلے میں کوئی دبائوخاطرمیں نہیں لایا جائے گا۔
ضلعی انتظا میہ کوشش کررہی ہے کہ فیکٹری مالکان کوجلدسے جلدقانون کی گرفت میں لایا جائے، آتشزدگی سے جاں بحق افراداورزخمیوں کی فہرست بنائی جارہی ہے جو بہت جلدحکومت کو بجھوادی جائے گی،منگل کی شام سے ضلعی انتطامیہ ریسکیوآپریشن کی نگرانی کر رہی ہے اوربدھ کی شام تک جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشو ں کے علاوہ کم و بیش تیس سے زائد زخمیوں کو نکالا گیاجس میں تمام متعلقہ اداروں نے حصہ لیاہے۔
انھوں کہا کہ جولوگ ریسکیو آپریشن پر سوال اٹھا رہے ہیں وہ وہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں عوام اپنے اداروں پراعتماد کریں،ریسکیو آپریشن میں تمام اداروں نے اپنی ذمے داری پوری کی ہے تاہم یہ دیکھاجاناباقی ہے کہ اس فیکٹری سمیت کتنی فیکٹریاں ایسی جگہوں پربنی ہوئی ہیں جہا ں ہنگامی حالات میں ریسکیو آپریشن ممکن نہیں ہوسکتااور فیکٹریوں کو قائم کرنے کی کون لوگ اجازت دیتے ہیں،ہم اپنی رپورٹ میں ذمے داری کا تعین کریںگے۔