کوئلے کی طرح سیاہ لاشیں جلے گوشت کی بومردہ خانوں کامنظر

بوڑھی عورت مسلسل آنسو بہاتی آنکھوں کے ساتھ اپنے جواں سال بیٹے کی لاش تلاش کرتی رہی

بوڑھی عورت مسلسل آنسو بہاتی آنکھوں کے ساتھ اپنے جواں سال بیٹے کی لاش تلاش کرتی رہی

جناح اسپتال کے مردہ خانے کے باہر تک جلے ہوئے گوشت کی بو رچی ہوئی تھی۔

اندر داخل ہونے پر بوشدید ہوگئی اور ناقابل برداشت محسوس ہونے لگی، مردہ خانے میں درجنوں کوئلے کی طرح سیاہ لاشیں ہر طرف رکھی ہوئی تھی لاشوں کو سفید چادر سے ڈھانپنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم ہاتھ حفاظتی انداز میں سینے کے آگے اکڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے ایمبولینس سروسزکے زیر استعمال چادریں انھیں پوری طرح ڈھانکنے میں ناکام تھیں، متعدد افراد ایک ایک ایک لاش کا کپڑا اٹھا کر اپنے پیاروں کوشناخت کرنے کی کوشش کررہے تھے، چند لاشوں پرکچھ کپڑے جلنے سے بچ گئے تھے جس کی وجہ سے ان کی شناخت ممکن نظرآرہی تھی۔

ایمبولینس سروسز کے ذریعے مسلسل نئی لاشوںکی آمد کا سلسلہ جاری تھا، مردہ خانے کے آفس کیلیے مخصوص چھوٹے سے کمرے میں ایک ڈاکٹر اور ان کا عملہ ضابطے کی کارروائی میں مصروف تھے جن لاشوں کو ان کے ورثا شناخت کرچکے تھے وہ بھی لاش لیجانے کا اجازت نامہ حاصل کرنے کیلیے وہاں موجود تھے، ریسکیوورکرز، اسپتال کے عملے، ورثا اور میڈیا کے نمائندوں سے کچھاکچھ بھرے مردہ خانے میں ایک بوڑھی عورت ایک نوجوان کے بازو تھامے ایک ایک لاش کا بغور معائنہ کررہی تھی نقاب میں چھپے چہرے کے باوجود مسلسل آنسو بہاتی آنکھیں حسرت و غم کی ایک انتہائی تکلیف دہ تصویر پیش کررہی تھیں۔


بوڑھی عورت اپنے 26 سالہ بیٹے محمد عادل کی لاش شناخت کرنے کی کوشش کررہی تھی اس کے ساتھ موجود نوجوان اس کا چھوٹا بیٹا محمد فیضان تھا، محمد فیضان نے بتایا کہ اس کی بوڑھی ماں پوری رات آتشزدگی کا شکار فیکٹری کے باہر اس آس پر موجود رہی کہ شاید کوئی معجزہ ہوجائے اور اس کا بیٹا زندہ رہ جانے والوں میں ہوں، تاہم صبح دیگر گھر والوں کے سمجھانے بجھانے پر انھوں نے مردہ خانوں میں اپنے بھائی کی تلاش شروع کی تاہم تاحال وہ ناکام تھے، انھوں نے کہا کہ وہ اس سے قبل سول اور عباسی کے مردہ خانوں اور ایدھی سرد خانے میں موجود لاشوں کو دیکھ چکے ہیں اور ناکامی کے بعد انھوں نے جناح اسپتال کا رخ کیا ہے تاہم یہاں بھی وہ ناکام رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ محمد عادل نے دو ماہ قبل ہی فیکٹری میں بطور ہیلپر کام شروع کیا تھا، اسی دوران وہاں موجود 22 سالہ نوجوان نعمان نے زاروقطار روتے ہوئے بتایاکہ اس نے چند لمحے اپنے 34 سالہ بھائی محمدکامران کی لاش کپڑوں کی مدد سے شناخت کرلی ہے، اس نے بتایا کہ وہ اورنگی ٹائون کے رہائشی ہیں اور اس کا بھائی فیکٹری کے اسٹیچنگ ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا اور حال ہی میں اس کی شادی کی تاریخ طے ہوئی تھی، کم و بیش یہی منظر سول اور عباسی شہید اسپتالوںکابھی تھا جہاں منگل اور بدھ کی درمیانی شب سے بدھ کی شام تک مسلسل سوختہ لاشیں لائی جارہی تھیں۔

جبکہ متعدد افراد اپنے پیاروں کی لاشیں شناخت اور وصول کرنے کیلیے ان اسپتالوں کے درمیان گھن چکر بنے ہوئے تھے، بڑی تعداد میں لاشیں اتنی بری طرح جل چکی تھیں کہ انھیں شناخت کرنا ممکن نہیں تھا تاہم اہل خانہ اس امید میں ہر اسپتال کا چکر لگارہے تھے کہ شاید وہ اپنے عزیز کو پہنچاننے میں کامیاب ہوجائیں۔

Recommended Stories

Load Next Story