اردو صحافت کے دو سو سال آخری حصہ

اردو اخبار جدید مشینوں پر چھپ کر اپنی چھب دکھا رہے ہیں

zahedahina@gmail.com

RAWALPINDI:
ہم جب اردو صحافت کے 200 برس کی بات کرتے ہیں تو اس سے پہلے ہمیں ایک نظر اس بات پر بھی ڈالنی چاہیے کہ ہندوستان میں چھاپہ خانہ کیسے پہنچا۔ ایک روایت یہ کہتی ہے کہ پرتگیزی جب مغل بادشاہ اکبر کے دور میں ہندوستان پہنچے تو جدید چھاپہ خانے کی مشینیں ان کے ساتھ تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ مہابلی اکبر ان کے اس تحفے سے بہت خوش ہوں گے۔

انھوں نے اکبر بادشاہ کی روشن خیالی اور ایجادات سے دلچسپی کے بہت قصے سنے تھے۔ بادشاہ کے دربار میں ان کی پذیرائی ہوئی، انھیں انعام و اکرام سے بھی نوازا گیا لیکن ان یورپین مہمانوں کے رخصت ہوتے ہی چھاپہ خانہ کاٹھ گودام میں ڈال دیا گیا۔ مغلوں کے دربار میں اس زمانے کے اعلیٰ ترین ایرانی خطاط موجود تھے، ان کی موجودگی میں بھلا بھولے ٹائپ کی کہاں گلتی۔

یوں جدید علوم اور سائنسی تعلیم مغل دربار میں وقت سے پیچھے رہ گئی۔ ایک ضعیف روایت یہ بھی ہے کہ چھاپے کی مشینیں چلی تھیں گوا کی بندرگاہ کے لیے لیکن وہ کہیں اور جا پہنچیں۔

چھاپہ خانہ لے کر آنے اور ہندوستان میں اس کی تنصیب کے لیے آنے والے یورپین افراد کو بے قراری اس لیے تھی کہ وہ ہندوستان کی مختلف زبانوں میں تبلیغی کتابچے اور کتاب مقدس کے نسخے چھاپنا چاہتے تھے۔ ان یورپین مبلغین کی آپس میں چپقلش کی داستان بھی دلچسپ ہے اور اگر کوئی اس کو تفصیل سے جاننا چاہے تو اسے اے کے پرولکر کی کتاب ''ہندوستان میں چھاپہ خانہ'' ضرور پڑھنا چاہیے۔

بات ہو رہی تھی اردو صحافت کی۔ اس کی تاریخ کو جس عرق ریزی اور ژرف نگاہی سے بیسویں صدی کے اواخر میں اردو کے استاد ڈاکٹر طاہر مسعود نے سمیٹا ہے اس کے لیے انھیں جس قدر داد دی جائے وہ کم ہے۔ ان کی کتاب کا نام ''اردو صحافت انیسویں صدی میں۔'' ڈاکٹر طاہر نے اردو صحافت کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے، اس سے پہلے نکلنے والے فارسی اخبارات کا بھی احاطہ کیا ہے۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ اردو صحافت کی داغ بیل فارسی اور اردو کے ایک نامور ادیب راجا رام موہن رائے نے جاری کیا جس کا نام ''جام جہاں نما'' رکھا۔ سنجیو صراف نے 1822 کے اسی اخبار کا تذکرہ کیا ہے۔

یہ 2022 ہے۔ ''جام جہاں نما'' کو شکستہ ہوئے ایک طویل عرصہ گزرا ہے۔ ان دو سو برسوں میں اردو صحافت کے زمین و آسمان منقلب ہوگئے۔ 1822 اور اس کے آس پاس ایک ''لدھیانا اخبار'' نکلا۔ یہ اخبار 1830 میں لدھیانا کے پولیٹیکل ایجنٹ کرنل ریڈ نے نکالا، لدھیانا میں کوئی پرنٹنگ پریس دستیاب نہ تھا، اس لیے کرنل ریڈ اسے ہاتھ سے لکھ کر متعلقہ حکام اور چند سو لوگوں میں تقسیم کرتا تھا۔ لدھیانا میں اردو پریس 1836 میں قائم ہوا جس کے اردو اخبار کے علاوہ فارسی کتابیں بھی چھاپی جاتی تھیں۔ ''آئینہ سکندر'' کی سرخی ملاحظہ فرمائیے:

خبر بارگاہ فلک پائے گا، بادشاہ دہلی

مالکِ تاج رنگیں و بادشاہ دیں پناہ

1857 میں جنگ آزادی کا آغاز ہوا تو اردو اخبارات میں سے بیشتر جنگ آزادی کے سرخیلوں کے ساتھ ہوگئے۔ ان اخبارات نے حب وطن کا حق ادا کردیا۔ ان میں کئی بند ہوئے، کئی کے پریس ضبط ہوئے، کچھ کو کالا پانی بھیج دیا گیا اور مولوی محمد باقر اپنی باغیانہ تحریروں کی وجہ سے دلی کی ایک چوڑی سڑک پر پھانسی چڑھے۔ اسی لیے وہ اردو صحافت کے پہلے شہید کہے جاتے ہیں، گزشتہ دنوں میں ان پر کالم بھی لکھ چکی ہوں۔


1857 کی جنگ آزادی ناکام ضرور ہوئی لیکن اس نے اردو اخبارات کو بہت سے نئے لکھنے والے دیے۔ ان میں سے سب سے مشہور و معروف پنڈت رتن ناتھ سرشار ہوئے۔ انھوں نے قسط وار ''فسانۂ آزاد'' لکھا جس نے اردو دنیا میں دھوم مچا دی اور آج بھی وہ دنیا کی تمام اردو یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔

انیسویں صدی کے اختتام تک آتے آتے ان اخبارات میں دلچسپ اور دنیا بھر کی خبریں نہایت اہتمام سے شایع ہوتی تھیں۔ فلموں، اداکاروں اور اداکاراؤں کی چٹ پٹی خبریں چھپتی تھیں۔ اس زمانے میں راجا مہاراجا کے نجی معاملات ان اخبارات کی زینت بنتے تھے۔ مثال کے طور پر کبھی کسی راج کمار کی محبت کا قصہ بیان ہوا ہے تو کہیں طاعون کی وبا کراچی، بمبئی، کلکتہ اور دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں پھیل گئی تھی جس کے نتیجے میں کثرت سے اموات ہو رہی تھیں۔

انگریز سرکار اس پریشان کن صورت حال کا ڈاکٹروں اور دواؤں سے مقابلہ کر رہی تھی۔ اخباروں میں سیاسی بحثیں چل رہی تھیں اور ان کا اثر عوامی شعور پر بھی پڑ رہا تھا۔ عورتوں کے مضامین چھپ رہے تھے اور وہ اپنے مسائل کے بارے میں لکھ رہی تھیں۔ انھیں پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیمی اور سیاسی شعور کس طرح ملک کے مختلف طبقات میں پھیل رہا تھا۔ یہی شعور آیندہ چل کر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی راہ میں ایک اہم موڑ ثابت ہونے والا تھا۔

انیسویں صدی اختتام پذیر ہو رہی تھی جب مشہور طوائف منیر جان کے قتل کا مقدمہ اخباروں میں تفصیل سے شایع ہونے لگا جس میں عام لوگوں کو گہری دلچسپی تھی۔ ان دنوں ہمارے یہاں ججوں کے رویے پر گفتگو ہو رہی ہے۔ یہ بحث انیسویں صدی کے آخر میں بھی چل رہی تھی۔ ''اخبار عام'' 20 مئی 1898 میں لکھتا ہے۔

(1) اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے جس بات کے لیے ہائی کورٹ مدراس کے وکیشن جج مسٹر جسٹس بوڈم صاحب کی ایسی عمدہ خبر لی ہے (کہ) اس کی باریکی سطح مضمون پر تیر رہی ہے۔ ججوں کے لیے یہ نامناسب ہے کہ قانونی پیشے کی دعوتیں قبول کرلیں اور پھر ان دعوتوں کا راگ اخبارات میں الاپا جاوے۔ اعلیٰ سنگار چار یا مدراس کے اٹارنی ایٹ لا ہیں اور انھوں نے مسٹر جسٹس ممدوح اور ایک منتخب پارٹی کو ایک نہایت مکلف دعوت دی اور دعوت کیا تھی۔ اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے انجیل کے طرز سے کام لیا ہے کہ صاف دل چار یار تیری اس میزبانی کا معاوضہ تجھے ہزار گنا ملے گا۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ جج صاحب جس اٹارنی کے گھر جائیں اس کو مقدمات کی کیا کمی ہوگی (51)۔

اس زمانے میں جب اخبارات کی مانگ میں اضافہ ہوا تو اس کے ساتھ ہی مختلف شعبوں کے بارے میں اخباری ایڈیشن بھی نکلنے لگے۔ ایڈیٹوریل بھی تجزیاتی لکھے جانے لگے۔ دادا بھائی نورو جی بھی کھل کر قحط، ہندوستانیوں کی مفلسی اور بے روزگاری جیسے معاملات پر لکھنے لگے۔ انیسویں صدی کے اختتام تک اردو اخبارات کے اداریے پرمغز اور دانش ورانہ ہونے لگے۔ بادشاہت رخصت ہو چکی تھی۔ امرا اور رؤسا کی تعریف کس حد تک کی جاتی، اس سے اہم بات یہ تھی کہ ریاستوں کے خزانے بھی رفتہ رفتہ خالی ہو چکے تھے اور کیوں نہ ہوتے کہ ہمارے رئیسوں کی شاہ خرچیاں اپنے عروج پر تھیں۔ مثال کے طور پر یہ خبر پڑھ لیجیے:

''فرنچ لیڈی اور ہندوستانی رئیس''

''صاحب زادہ محمود علی خاں صاحب جو نواب کلب علی خاں مرحوم والی رام پور کے برخوردار ہیں، آج کل ولایت میں ہیں۔ چند روز ہوئے کہ وہ ریاست رام پور بہ مشاہرہ 20 ہزار روپیہ ماہوار ہوم سیکریٹری تھے بہ غرض سیر و سیاحت عازم ولایت ہوئے اور ولایت کے اخبارات سے معلوم ہوا کہ نواب صاحب نے وہاں ایک مال دار اور حسین فرنچ لڑکی سے شادی کی ہے جو رومن کیتھولک مذہب (سے تعلق) رکھتی ہے۔ مگر وہ والدین کی رضا مندی سے مسلمان ہوگئی اور لور پول میں مسیح الاسلام مسٹر لومینم نے نواب محمود علی خاں صاحب کے ساتھ نکاح پڑھایا۔ 20 ہزار پونڈ کا مہر لکھا گیا بلکہ ایک اخبار راوی ہے کہ مہر نقد ادا کردیا گیا۔ نواب صاحب پہلے بھی ایک دفعہ یورپ کی سیر کر آئے ہیں اور ہندوستان میں بھی ان کی ایک سے زیادہ بیگمات موجود ہیں۔ فرنچ دلہن کی عمر 16 سال کی ہے اور نواب صاحب کا سن 40 کے قریب ہے۔'' (غم خوار ہند)۔

زمانہ زن زن کرتا گزر گیا ہے، اردو اخبار جدید مشینوں پر چھپ کر اپنی چھب دکھا رہے ہیں لیکن اب نہ کوئی ابوالکلام آزاد ہے، نہ مولانا حسرت موہانی اور نہ پنڈت رتن ناتھ سرشار۔ دو سو برس میں یہ فرق ہوا ہے۔
Load Next Story