بدلتے موسم اور لاہور کا نوحہ

لاہور کسی دور میں اپنے کالجز اور باغات کی وجہ سے مشہور ہوتا تھا، آج اس لاہور میں گنتی کے چند پارکس ہی باقی ہیں

لاہور کنکریٹ کا ایک جنگل محسوس ہورہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

VALENCIA:
گزشتہ دنوں میری نظر سے لاہور کی فضائی تصویر گزری۔ یہ تصویر کم اور نوحہ زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ میں نے اس تصویر کی تصدیق کےلیے گوگل ارتھ کھولا، لاہور کو ایکسپلور کیا۔ آپ یقین کیجیے، مجھے لاہور کنکریٹ کا ایک جنگل ہی محسوس ہورہا تھا۔ بے ہنگم عمارتیں، سڑکیں اور خال خال سبزہ۔

یہ وہی لاہور ہے جو کسی دور میں اپنے کالجز اور باغات کی وجہ سے مشہور ہوتا تھا۔ آج اس لاہور میں گنتی کے چند پارکس باقی بچے ہیں۔ یہی حال کراچی اور راولپنڈی میں ہے۔ ہم نے پرائیوٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز کو گھر بنانے کی اجازت تو دے دی لیکن کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ جب یہ سوسائٹیز بن جائیں گی تو اس کے بعد کا ماحول کیا ہوگا؟ آج دیکھ لیجیے کہ لاہور کا درجہ حرارت کہاں تک جاتا ہے۔ ابھی چند روز سے موسم قدرے بہتر ہے تو درجہ حرارت دن میں 37 سے 40 اور شام میں 32 سے 35 تک ہوتا ہے، جبکہ گزشتہ دنوں جب گرمی کی لہر اپنے جوبن پر تھی تو اسی لاہور میں درجہ حرارت 48 سے اوپر بھی گیا ہے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ شاید جہنم کا منہ لاہور کی جانب کھول دیا گیا ہے اور درجہ حرارت 48 نہیں بلکہ 52 ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار پوری دنیا ہے۔ اب کوئی ٹرمپ جیسا احمق بن کر اس کا انکار کردے تو الگ بات ہے لیکن اس کی ابتدا پاکستان میں بھی موسم کی سختیوں کے ساتھ ہوچکی ہے۔

پاکستان موسمیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ تو نہیں ہے لیکن اس کا شدید شکار ضرور ہے۔ اس میں سب سے پہلا عنصر درخت ہوتے ہیں۔ بے دریغ کٹائی نے جہاں موسموں کو بدل کر رکھ دیا ہے، وہیں اس کے اثرات بھی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یقین کیجیے کہ فروری کے آخر میں لاہور کے چڑیا گھر میں بچے چڑیوں کو دیکھ کر خوش ہورہے تھے اور میں اپنی بیگم کو کہہ رہا تھا کہ آج سے 20 سال پہلے تک چڑیا ایک عام پرندہ ہوتا تھا اور شاید آج سے 20 سال بعد یہ چڑیا بھی نایاب پرندہ بن جائے گا۔ کیوں؟ کیونکہ درختوں کی کٹائی، کھیتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر وہاں مہنگی ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے کے عمل نے ان پرندوں کے قدرتی گھونسلوں کو ختم کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چرندوں پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔


درختوں کی کمی نے بارشوں پر بھی اثرات مرتب کیے ہیں۔ کوئی وقت تھا کہ پنڈی اسلام آباد میں بارش کا مطلب ہوتا تھا کہ اب لاہور میں بھی بارش برسے گی اور اس سال پنڈی اسلام آباد میں طوفانی بارشیں ہوئیں لیکن اُس وقت لاہور میں ایک بوند نہیں گری۔ کبھی مری اور اس سے منسلک علاقے گرمیوں میں بھی ٹھنڈے ہوتے تھے، آج ایسا نہیں ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ہم نے بڑی محنت سے ماحول کو آلودہ اور تباہ کیا ہے۔

جگہ کی کمی کی وجہ سے کچھ باتیں عرض کردیتے ہیں. سب سے پہلے تو زرعی رقبہ کو ہاؤسنگ سوسائٹی میں بدلنے پر فوری پابندی لگا دینی چاہیے۔ لاہور نے جتنا پھیلنا تھا، وہ پھیل چکا ہے، بلکہ اس کی سرحدیں اب قریب کے شہروں سے مل چکی ہیں۔ لہٰذا جو نقصان ہونا تھا، وہ ہوچکا۔ مزید نقصان سے بچنے کےلیے زرعی رقبے کو ہاؤسنگ اسکیم کےلیے، فیکٹری یا مل بنانے کےلیے فروخت کرنے پر فوری پابندی ہونی چاہیے۔ لاہور میں بھی اپارٹمنٹ کلچر کو فروغ دینا ہوگا تاکہ مزید زرعی رقبے کو نگلنا بند ہوسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ بوڑھے سے بوڑھے درخت کی کٹائی پر بھی کوئی قانون ہونا چاہیے، جس کی خلاف ورزی پر سخت ترین سزا ہونی چاہیے۔ اللہ کرے کہ پارلیمنٹ سے اس قانون کو بنوایا جائے تاکہ سب اس کو قبول بھی کریں اور ٹمبر مافیا کا ہاتھ روکا جاسکے۔

اس کے علاوہ توانائی کے متبادل ذرائع پر بھی فی الفور غور کرنا ہوگا اور ان کو اتنا سستا بھی رکھنا ہوگا کہ اشرافیہ ہی نہیں بلکہ مڈل کلاس اور غریب بھی اس سے مستفید ہوسکیں۔

ہمیں آج سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کےلیے کیا چھوڑ کر جارہے ہیں؟ جو نقصان ہم نے مال کمانے کےلیے کر دیا ہے، یقیناً اس کا مکمل ازالہ تو ممکن نہیں ہے، لیکن اس نقصان کی شدت کو کم کرنے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے، وگرنہ ہم جس ڈگر پر چل ر ہے ہیں اور جیسے ہم اپنے میدانی علاقوں کو ریگستان میں بدل رہے ہیں، مجھے خطرہ ہے کہ ایک یا دو دہائی کے بعد ہمارے پاس کھیت کھلیان نہیں ہوں گے، درخت بھی ناپید ہوں گے اور کنکریٹ کا جنگل مکمل ریگستان بن چکا ہوگا۔ سبزہ اورہریالی کی اہمیت کوئی دبئی والوں سے پوچھ لے، جو آج سرتوڑ کوششوں کے ساتھ ہر گزرتے دن دبئی کو مزید گرین کرنے میں مصروف ہیں، کیونکہ وہ بھی جان چکے ہیں کہ کنکریٹ کی گرمی کو صرف شجرکاری کی ٹھنڈک کنٹرول کرسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story