پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
آج یہ سب ایک خواب دکھائی دیتا ہے اور فی الحال معاشی استحکام کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی
ISLAMABAD:
بانیان پاکستان کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ اس ملک میں جمہوریت سے زیادہ آمریت کا راج رہے گا اورنااہل اور اخلاقی و مالی کرپٹ حکمران پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا سبب بن جائیں گے جائے گا اور باقی ماندہ پاکستان اس قدر نڈھال ہو جائے گا کہ دنیا اسے ناکارہ اور خطرناک ملک قرار دیدے گی۔
آج ایسی باتیں کرنے والے ہمارے آس پاس ہی موجود ہیں اور ایسا کہنے والوں کے خلاف ہم جذبات میں آکر کچھ بھی کہتے رہیں لیکن کیا ہم خود اس عمل کا مشاہدہ نہیں کر رہے ہیں کہ ملک کے اندر حالات اس طرح کے پیدا ہو گئے ہیں یا پیدا کردیے گئے ہیں کہ بغاوت سر اٹھانے کو ہے۔ کہیں یہ بغاوت صرف دلوں اور ذہنوں میں کلبلا رہی ہے اور کہیں یہ باہر نکل آنے کو تیار بیٹھی ہے۔
ہم خود دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانیوںکی زندگی ناآسودہ ہو گئی ہے ۔صنعتی اور زرعی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔بازار میں ضروری اشیاء کی قیمتوں میں صنعتکار اور تاجر کچھ تو مجبور ہو کر اور کچھ جان بوجھ کر اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کے عمائدین اور منتظمین اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں ناکام ہیں، نئے قوانین وضع کیے جارہے ہیں۔ اپوزیشن اگر کوئی ہے ، تو وہ بھی سوائے آنیاں جانیاں کے کچھ نہیں کررہی ہے۔
پاکستان میں یہ صورتحال کب اورکیونکر پیدا ہوئی۔ قیام پاکستان کی پہلی دہائی میں ہی ایک ایسے جنرل جسے قائداعظم نکما سمجھتے تھے ، یعنی مسٹرایوب خان نے پہلے مارشل لاء کی بنیاد رکھ دی، تب سے اب تک ملک میں ایک آزاد سویلین حکومت کا قیام خواب ہی نظر آتا ہے ۔
جب بھی کوئی سویلین اقتدار میں آیا تو غیر سویلین کی پسند شامل حال ضرور رہی اوراس کی مسلسل کڑی نگرانی بھی کی جاتی رہی اور حقیقت یہی ہے کہ آج تک کوئی بھی جمہوری وزیر اعظم اپنے عہدے کی مدت مکمل نہیں کر سکا البتہ کچھ اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت ضرورپوری کی لیکن ایک ہی اسمبلی نے دو سے تین بار نئے وزیر اعظم بھی منتخب کیے ۔لیکن تان وہیں پر آکر ٹوٹتی رہی کہ مدت بھی انھی اسمبلیوں نے پوری کی جن کو ''پیا من چاہے ''والا معاملہ تھا ۔
ملک کے کسی بھی مسئلے کا اگر گہرائی میں جائزہ لیں تو اس کی واحد وجہ غیر منتخب حکومت نظر آئے گی۔ آج کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں مختلف نسلوں ،زبانوں اور ثقافتوں والے ملک صرف جمہوریت کی وجہ سے زندہ رہ سکتے ہیں اور ووٹ کی برکت ہی انھیں متحد رکھ سکتی ہے۔ اگر یہ صورت نہ ہوتی تو برصغیر کی تقسیم کے بعد سب سے پہلے بھارت ٹوٹ جاتا جس میں آبادی کی کثرت ، مختلف زبانوں، نسلوں اور ثقافتوں اور جغرافیے کے اختلافات عروج پر دکھائی دیتے تھے لیکن بھارت کے عقل مند لیڈروں نے دو نعرے لگائے اور انھیں اپنے ملک کی اساس بنا لیا۔
ایک سیکولرازم اور دوسرا جمہوریت۔ بھارتی لیڈر اپنے سیکولر ازم پر تو کاربند نہ رہ سکے لیکن جمہوریت پر سختی سے کاربند ہو گئے اور ہر بھارتی کو یہ یقین تھا کہ وہ حکومت بدل سکتا ہے اور اپنی پسند کے لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیج سکتا ہے اور حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید اور ان کے خلاف جدوجہد کر سکتا ہے۔ بھارتی جمہوریت نے اسے معاشی لحاظ سے دنیا کے بڑے ملکوں میں شامل کر دیا اور اس کی معاشی ترقی کے ثمرات نچلے طبقے تک بھی پہنچ رہے ہیں جب کہ ہمارے ہاں نچلے طبقات کے لوگ اپنی محنت کے بل بوتے پر جو کچھ حاصل کرتے ہیں، ہم اسے بھی حیلوں بہانوں سے اوپر کھینچ کر بڑے لوگوں کے سپرد کر کے ان کی جھولیاں بھر رہے ہیں۔
دنیا میں یہ دیکھا گیا ہے کہ عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ طاقت کے زور پر قائم حکومتیں کبھی عوام کی فلاح کاکام نہیں کر سکتیں، ان کے اقتدار کے سر چشمے عوام نہیں بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے مفادات ایک ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ' نہ عوام ان کو اقتدار میں لاتے ہیں اور نہ ان کو اقتدار سے اتارتے ہیں البتہ عوام کے غیض و غضب اورا شتعال سے بچنے کے لیے وہ چہرے بدل دیتے ہیں ۔حضرت اقبال نے اسے حکمران کی ساحری کہا ہے۔
خواب سے بیدار ہوتا ہے کوئی محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
پاکستان بنانے والوں کی جوصحیح باتیں اور خیالات و جذبات سینہ بہ سینہ اور تحریر بہ تحریر ہم تک پہنچے ہیں، آج کا پاکستان ان کی قطعاً ترجمانی نہیں کرتا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان بن تو گیا تھا لیکن اسے آزادی آج تک نہیں مل سکی ۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک تھا اور اس کا جغرافیہ نظریات نے تخلیق کیا تھا مگر آج تو یہ سب ایک خواب دکھائی دیتا ہے جس کی تعبیر کے لیے پھر کسی جناح کی ضرورت ہے اور کسی اقبال کی جو جناح کو تلاش کرے۔
ہم نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی دو ٹکڑوں میں تقسیم کے بعد باقی ماندہ ملک کی بقاء کی خاطر اگرکوئی مخلصانہ کام کیا ہے تو وہ ذوالفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شبانہ روز محنت سے ایٹم بم کو حقیقت کے روپ میں ڈھالا ہے جس کے بعد پاکستان دفاعی طور پر تو انتہائی مضبوط ہو گیا لیکن اس دفاعی حصار کی مضبوطی کے بعد جن کے ذمے معیشت کا استحکام تھا۔
وہ اپنے ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور آج یہ سب ایک خواب دکھائی دیتا ہے اور فی الحال معاشی استحکام کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی لیکن جیسی انہونی قیام پاکستان کے وقت ہوئی تھی اور مسلمانوں کو ایک الگ مملکت نصیب ہو گئی تھی خداایسی ہی انہونی اب بھی کرے گا اور یہ ملک اپنے حاسدوں اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کی خواہشات کے برعکس قائم و دائم رہے گا۔
بانیان پاکستان کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ اس ملک میں جمہوریت سے زیادہ آمریت کا راج رہے گا اورنااہل اور اخلاقی و مالی کرپٹ حکمران پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا سبب بن جائیں گے جائے گا اور باقی ماندہ پاکستان اس قدر نڈھال ہو جائے گا کہ دنیا اسے ناکارہ اور خطرناک ملک قرار دیدے گی۔
آج ایسی باتیں کرنے والے ہمارے آس پاس ہی موجود ہیں اور ایسا کہنے والوں کے خلاف ہم جذبات میں آکر کچھ بھی کہتے رہیں لیکن کیا ہم خود اس عمل کا مشاہدہ نہیں کر رہے ہیں کہ ملک کے اندر حالات اس طرح کے پیدا ہو گئے ہیں یا پیدا کردیے گئے ہیں کہ بغاوت سر اٹھانے کو ہے۔ کہیں یہ بغاوت صرف دلوں اور ذہنوں میں کلبلا رہی ہے اور کہیں یہ باہر نکل آنے کو تیار بیٹھی ہے۔
ہم خود دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانیوںکی زندگی ناآسودہ ہو گئی ہے ۔صنعتی اور زرعی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔بازار میں ضروری اشیاء کی قیمتوں میں صنعتکار اور تاجر کچھ تو مجبور ہو کر اور کچھ جان بوجھ کر اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کے عمائدین اور منتظمین اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں ناکام ہیں، نئے قوانین وضع کیے جارہے ہیں۔ اپوزیشن اگر کوئی ہے ، تو وہ بھی سوائے آنیاں جانیاں کے کچھ نہیں کررہی ہے۔
پاکستان میں یہ صورتحال کب اورکیونکر پیدا ہوئی۔ قیام پاکستان کی پہلی دہائی میں ہی ایک ایسے جنرل جسے قائداعظم نکما سمجھتے تھے ، یعنی مسٹرایوب خان نے پہلے مارشل لاء کی بنیاد رکھ دی، تب سے اب تک ملک میں ایک آزاد سویلین حکومت کا قیام خواب ہی نظر آتا ہے ۔
جب بھی کوئی سویلین اقتدار میں آیا تو غیر سویلین کی پسند شامل حال ضرور رہی اوراس کی مسلسل کڑی نگرانی بھی کی جاتی رہی اور حقیقت یہی ہے کہ آج تک کوئی بھی جمہوری وزیر اعظم اپنے عہدے کی مدت مکمل نہیں کر سکا البتہ کچھ اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت ضرورپوری کی لیکن ایک ہی اسمبلی نے دو سے تین بار نئے وزیر اعظم بھی منتخب کیے ۔لیکن تان وہیں پر آکر ٹوٹتی رہی کہ مدت بھی انھی اسمبلیوں نے پوری کی جن کو ''پیا من چاہے ''والا معاملہ تھا ۔
ملک کے کسی بھی مسئلے کا اگر گہرائی میں جائزہ لیں تو اس کی واحد وجہ غیر منتخب حکومت نظر آئے گی۔ آج کے سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں مختلف نسلوں ،زبانوں اور ثقافتوں والے ملک صرف جمہوریت کی وجہ سے زندہ رہ سکتے ہیں اور ووٹ کی برکت ہی انھیں متحد رکھ سکتی ہے۔ اگر یہ صورت نہ ہوتی تو برصغیر کی تقسیم کے بعد سب سے پہلے بھارت ٹوٹ جاتا جس میں آبادی کی کثرت ، مختلف زبانوں، نسلوں اور ثقافتوں اور جغرافیے کے اختلافات عروج پر دکھائی دیتے تھے لیکن بھارت کے عقل مند لیڈروں نے دو نعرے لگائے اور انھیں اپنے ملک کی اساس بنا لیا۔
ایک سیکولرازم اور دوسرا جمہوریت۔ بھارتی لیڈر اپنے سیکولر ازم پر تو کاربند نہ رہ سکے لیکن جمہوریت پر سختی سے کاربند ہو گئے اور ہر بھارتی کو یہ یقین تھا کہ وہ حکومت بدل سکتا ہے اور اپنی پسند کے لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیج سکتا ہے اور حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید اور ان کے خلاف جدوجہد کر سکتا ہے۔ بھارتی جمہوریت نے اسے معاشی لحاظ سے دنیا کے بڑے ملکوں میں شامل کر دیا اور اس کی معاشی ترقی کے ثمرات نچلے طبقے تک بھی پہنچ رہے ہیں جب کہ ہمارے ہاں نچلے طبقات کے لوگ اپنی محنت کے بل بوتے پر جو کچھ حاصل کرتے ہیں، ہم اسے بھی حیلوں بہانوں سے اوپر کھینچ کر بڑے لوگوں کے سپرد کر کے ان کی جھولیاں بھر رہے ہیں۔
دنیا میں یہ دیکھا گیا ہے کہ عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ طاقت کے زور پر قائم حکومتیں کبھی عوام کی فلاح کاکام نہیں کر سکتیں، ان کے اقتدار کے سر چشمے عوام نہیں بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے مفادات ایک ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ' نہ عوام ان کو اقتدار میں لاتے ہیں اور نہ ان کو اقتدار سے اتارتے ہیں البتہ عوام کے غیض و غضب اورا شتعال سے بچنے کے لیے وہ چہرے بدل دیتے ہیں ۔حضرت اقبال نے اسے حکمران کی ساحری کہا ہے۔
خواب سے بیدار ہوتا ہے کوئی محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
پاکستان بنانے والوں کی جوصحیح باتیں اور خیالات و جذبات سینہ بہ سینہ اور تحریر بہ تحریر ہم تک پہنچے ہیں، آج کا پاکستان ان کی قطعاً ترجمانی نہیں کرتا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان بن تو گیا تھا لیکن اسے آزادی آج تک نہیں مل سکی ۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک تھا اور اس کا جغرافیہ نظریات نے تخلیق کیا تھا مگر آج تو یہ سب ایک خواب دکھائی دیتا ہے جس کی تعبیر کے لیے پھر کسی جناح کی ضرورت ہے اور کسی اقبال کی جو جناح کو تلاش کرے۔
ہم نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی دو ٹکڑوں میں تقسیم کے بعد باقی ماندہ ملک کی بقاء کی خاطر اگرکوئی مخلصانہ کام کیا ہے تو وہ ذوالفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شبانہ روز محنت سے ایٹم بم کو حقیقت کے روپ میں ڈھالا ہے جس کے بعد پاکستان دفاعی طور پر تو انتہائی مضبوط ہو گیا لیکن اس دفاعی حصار کی مضبوطی کے بعد جن کے ذمے معیشت کا استحکام تھا۔
وہ اپنے ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور آج یہ سب ایک خواب دکھائی دیتا ہے اور فی الحال معاشی استحکام کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی لیکن جیسی انہونی قیام پاکستان کے وقت ہوئی تھی اور مسلمانوں کو ایک الگ مملکت نصیب ہو گئی تھی خداایسی ہی انہونی اب بھی کرے گا اور یہ ملک اپنے حاسدوں اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کی خواہشات کے برعکس قائم و دائم رہے گا۔