حریت رہنما یاسین ملک اور انصاف کا قتل

یاسین ملک کی سزا عالمی انصاف کے اداروں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے

ashfaqkhan@express.com.pk

تحریکِ آزادی کشمیر کے ہیرو، حریت رہنما یاسین ملک کئی برسوں سے دلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قید تنہائی کاٹ رہے ہیں۔ انھیں ایک خصوصی عدالت نے مجاہدین کشمیر (جنہیں بھارتی سرکار دہشت گرد قرار دیتی ہے) کی مالی معاونت کے مقدمے میں دو مرتبہ عمرقید کی سزا سنائی گئی ہے۔

گزشتہ سے پیوستہ بدھ کی صبح یاسین ملک کو دلی کی پٹیالہ کورٹ میں پیش کیا گیا تو استغاثہ نے سزائے موت کے حق میں دلائل پیش کیے، اور یک طرفہ ٹرائل کے بعد عدالت نے انھیں سزا سنا دی۔ یہ فیصلہ بھارت کے مکروہ اور بھیانک چہرے کا عکاس ہے، ایک دہشت گرد ریاست کی کٹ پتلی عدالتوں سے انصاف کی توقع محض خام خیالی ہے۔ یاسین ملک کی سزا کا فیصلہ صرف مقبوضہ کشمیر ہی نہیں، بلکہ آزاد کشمیر اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے گہرے صدمے کا باعث بنا۔ دنیا کے کونے کونے میں بھارتی عدالت کے اس انسانیت سوز فیصلے کے خلاف مظاہرے ہوئے، جن کے شرکاء نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی جو کشمیر کے حوالے سے گزشتہ سات دہائیوں سے مجرمانہ غفلت کی نیند سو رہا ہے۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کا متفقہ پلیٹ فارم او آئی سی ہے لیکن بد قسمتی سے او آئی سی مسلمانوں خاص طور پر کشمیریوں کے لیے ''اوہ۔۔۔۔آئی سی'' ہی ثابت ہوا۔ آج تک ہم اس مردہ گھوڑے میں جان پیدا ہونے کی توقع لیے بیٹھے ہیں جو شاید ہماری خام خیالی ہے۔ یاسین ملک کی سزا کے خلاف او آئی سی نے ایک معذرت خواہانہ سا مذمتی بیان تو جاری کیا ہے لیکن اس سے آگے شاید ان کے ''پر''جلتے ہیں۔ ادھر انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں اور شخصیات کا بھی یہی حال ہے مجال ہے کسی نے اتنی بڑی ناانصافی کی مذمت کی ہو۔ ان کی زبانوں کو تو جیسے لقوہ مار گیا ہو۔ حسب روایت پاکستان کے عوام اور بالخصوص مذہبی حلقوں، دینی جماعتوں اور شخصیات نے بھارتی عدالت کے اس فیصلے کو آڑے ہاتھوں لیا۔

یاسین ملک کون ہیں، کشمیر کی تحریک آزادی میں ان کا کردار کیا رہا؟ آج ہم قارئین کے سامنے اسی حوالے سے حقائق رکھیں گے تاکہ نسل نو جو کشمیر کے مسئلے سے ''لاتعلق'' سی دکھائی دیتی ہے ،اسے اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے۔ یاسین ملک ایک کشمیری رہنما ہیں۔

انھوں نے اپنی سیاست کا آغاز جموں کشمیر میں برسر اقتدار پارٹی نیشنل کانفرنس کے خلاف ایک طلبہ لیڈر کے طور پر کیاتھا۔ انھوں نے 1987 کے انتخابات میں امیرا کدل سے مسلم یونائٹڈ فرنٹ کے امیدوار محمد یوسف شاہ کی حمایت کی تھی۔

کشمیر کے علیحدگی پسند لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر یوسف شاہ کو ہرایا نہ جاتا تو وہ پاکستان جا کر سید صلاح الدین نہ بنتے اور نہ انڈیا میں مسلح جدوجہد آزادی کا دور شروع ہوتا۔ اس میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ یعنی جے کے ایل ایف کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یاسین ملک نے وادی میں اپنی عملی سیاست کے لیے جے کے ایل ایف کا انتخاب کیا اور اسی میں شمولیت اختیار کی۔

ان کا گروپ جسے چار رہنماؤں حامد شیخ، اشفاق وانی، جاوید احمد میر اور یاسین ملک کے نام کے پہلے حروف کو جوڑ کر''حاجی'' کہا گیا، وہ شروع میں بہت مقبول رہا لیکن رفتہ رفتہ اس کا زور ختم ہوتا گیا، یہاں تک کہ اس جماعت کے دو گروپ بن گئے۔


اس گروپ سے کشمیر کی آزادی کے لیے اللہ کریم نے یاسین ملک کو جو عزت اور ہمت و استقامت بخشی وہ کسی اور کا مقدر نہ بن سکی یہی وجہ ہے کہ یاسین ملک نے تحریکِ آزادی کشمیر کے مشن میں بڑے بڑے کوہ گراں عبور کیے۔

قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، بھارتی افواج کے ظلم و ستم سہے۔ یاسین ملک کی کئی بار گرفتاریاں ہوئیں اور ہر بار ان میں کوئی نہ کوئی تبدیلی رونما ہوئی۔ 1994 میں جب انھیں حراست میں لیا گیا تو انھوں نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے تشدد کے بجائے امن کے راستے کی پیروی شروع کر دی اور ایسی بات چیت کی حمایت کرنے لگے، جس میں بھارت اور پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کی بھی شمولیت ہو۔ 1999 اور 2002 میں بھی انھیں گرفتار کیا گیا، جس دوران تقریباً ایک سال تک وہ جیل میں رہے۔

اس کے بعد انھوں نے دنیا بھر کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے اور کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا۔ متعدد بار پاکستان بھی آئے، یہیں ان کی شادی مشال ملک سے ہوئی۔ ان کی پارٹی نے 2007 میں ''سفر آزادی'' کے نام سے لوگوں سے ملنے کا ایک سلسلہ شروع کیا، جس میں بھارت کی حکومت کے مطابق انھوں نے لوگوں میں حکومت کے خلاف تاثرات پیدا کیے۔ یاسین ملک کو 22فروری 2019 میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور سات مارچ کو انھیں جموں کوٹ بلوال جیل منتقل کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ان کو تہاڑ جیل منتقل کردیا گیا۔

جہاں سے ان کی صحت بگڑنے کی خبریں سامنے آتی رہیں۔ قید کے دوران ان پر مظالم ڈھائے گئے، انھیں کھانا اور پانی سے محروم کیا جاتا رہا جس کی وجہ سے ان کی حالت اس قدر بگڑ گئی کہ وہ موت کے منہ تک جا پہنچے لیکن اللہ کو ان سے کشمیر کی آزادی کے لیے مزید کام لینا ہے اسی لیے اللہ نے انھیں صحت دی۔ پانچ اگست کو جب بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تو اس وقت بھی یاسین ملک جیل میں تھے اور اس فیصلے نے انھیں شدید دھچکا پہنچایا، وہ ظالم حکومت کی قید میں تھے کاش وہ آزاد ہوتے اور مودی سرکار کے اس متعصبانہ فیصلے کو پوری دنیا کے سامنے رکھتے، احتجاج کرتے اور اس کے رول بیک میں اپنا حصہ ڈالتے۔ بد قسمتی سے وہ خود جیل میں تھے اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے تھے۔

یاسین ملک کی سزا عالمی انصاف کے اداروں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے کیونکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ حریت رہنما یاسین ملک کو یک طرفہ ٹرائل کے ذریعے نشان عبرت بنانے کی کوشش کی گئی۔ در حقیقت ان کے عدالتی قتل کی بھیانک سازش ہے اوراس مقدمے میں یاسین ملک کو اپنے وکیل تک رسائی نہ دی گئی۔ یہ یک طرفہ ٹرائل کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ اس کا نوٹس لیں اور بھارت کو انسانیت سو ز مظالم اور بربریت سے روکیں۔یاسین ملک 30برس سے کشمیر کی جدوجہد آزادی میں اہم کردار اد اکررہے ہیں۔

یہ ایک قابلِ افسوس امر ہے کہ بھارت کی جیلوں میں قید مظلوم کشمیریوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بد تر سلوک کیا جا رہا ہے، جرم ثابت کیے بغیر ملزم کی طویل حراست انسانی حقوق اور بین الا قوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ عالمی برادری کو بھارت کی جارحیت کے خلاف اقدامات کرنا ہوں گے بصورت دیگر دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری اپنے دہرے معیار بدلے اور کشمیری مسلمانوں کو حقِ خودارادیت دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ جمو ں کشمیر کا معاملہ پاکستان کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

اس اہم معاملے اور دیگر ملکی مسائل حل کرنے پر اتحادی حکومت کو فوری توجہ دینی چاہیے۔ یاسین ملک کی بہیمانہ سزا کے خلاف سفارتی محاذ گرم کرنا چاہیے، دنیا بھر میں وفود بھیجے جائیں، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک، او آئی سی سمیت ہر عالمی فورم پر آواز اٹھائی جائے۔

گو کہ اس وقت ہمیں داخلی طور پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ہمیں یاسین ملک کو ایسے تنہا نہیں چھوڑنا ہے۔ یاسین ملک کا ساتھ در حقیقت کشمیر کا ساتھ ہوگا اور پاکستان ہمیشہ کشمیر کا سب سے تگڑا وکیل رہا ہے، آج ایک بار پھر اس وکیل کو دنیا بھر میں اپنی وکالت کے جوہر دکھانا ہوں گے بھارت کے مکروہ چہرے سے سیکولرازم کا نقاب نوچ ڈالنا ہوگا۔ اس مشن کا ٹاسک مولانا فضل الرحمان کو سونپ دیا جائے وہ کشمیر کمیٹی کے مسلسل دس سال تک سربراہ رہ چکے ہیں، قومی اسمبلی میں خارجہ امور کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں، وہ اس ٹاسک کے لیے موزوں ترین شخصیت ہیں، ان کی خدمات اس معاملے میں فائدہ مند ہوسکتی ہیں۔
Load Next Story