ای او بی آئی اور خواتین کے مسائل
ای او بی آئی میں رجسٹرڈ ملازم یا پنشنر کی وفات کی صورت میں اس کی/کے شریک حیات کو 100فیصد پنشن منتقل ہوجاتی ہے
دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی ممالک میں فلاحی ریاست کے قیام کے لیے کئی انقلابی اقدامات ہوئے۔ برطانیہ میں ریاست نے شہریوں کو تعلیم ، صحت اور رہائش کی سہولتوں کی فراہمی کی اسکیمیں رائج کیں۔ وائٹ کالر اور مزدوروں کو ہفتہ وار تنخواہ کے ساتھ بونس کا حق بھی ملا۔ نجی اداروں اور کارخانوں میں کام کرنے والے کارکنوں کو ریٹائرمنٹ کے وقت گریجویٹی اور پنشن کا حق ملنے لگا۔ برطانیہ میں لیبر حکومت کی پالیسیوں کی بناء پر مزدوروں کو مختلف نوعیت کی پانچ پنشن ملنے لگیں۔
متحدہ ہندوستان میں انگریزوں نے سرکاری ملازمین کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کی اسکیم نافذ کی۔ نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے بھی قانون سازی ہوئی۔ بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح کی کوششوں سے انڈین لیجسلیٹو کونسل میں مزدوروں کے تحفظ کے لیے قانون سازی ہوئی ، جس کے نتیجہ میں ملازمت کے تحفظ کے ساتھ دیگر فوائد بھی ملنے لگے ، اگرچہ پاکستان کے قیام کے بعد نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کارخانوں کے مزدوروں کی گریجویٹی اور بینو ویلنٹ فنڈ کی اسکیمیں نافذ ہوئیں مگر ان میں مزدوروں کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے حق کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت ذوالفقار علی بھٹوکی قیادت میں 1971 میں قائم ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے منشور میں زرعی اور لیبر اصلاحات کا عہد کیا گیا تھا ، یوں 1976 میں وفاقی حکومت نے ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کا ادارہ قائم کیا تھا۔
ای او بی آئی کے قیام کا بنیادی مقصد نجی اداروں میں فرائض انجام دینے والے ملازمین اورکارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن فراہم کرنا تھا۔ ای او بی آئی کے قانون کے تحت رجسٹر شدہ آجر کی جانب سے کم از کم اجرت کے5 فیصد اور ملازم کی جانب سے ایک فیصد کے مساوی ماہانہ کنٹری بیوشن ای او بی آئی کو جمع کرانا لازمی ہے اور اسی طرح وفاقی حکومت بھی ای او بی آئی کو سالانہ مساوی امداد ادا کرنے کی پابند ہے ، لیکن بدقسمتی سے وفاقی حکومت نے غیر ذمے دارانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے1995سے ای او بی آئی کو ادا کی جانے والی مساوی امداد روک دی ہے۔
ای او بی آئی کے قانون کے تحت دس یا زائد ملازمین کے حامل آجر اور اداروں پر ای او بی آئی کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ خواہ یہ ملازمین مستقل ، عارضی ، یومیہ اجرت ، موسمی یا کسی ٹھیکہ دار کے ذریعہ خدمات انجام دے رہے ہوں۔ ایک تخمینہ کے مطابق اس وقت ملک کے منظم اور غیر منظم سیکٹر میں تقریبا 66 ملین کارکن فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے تقریبا 9 ملین کارکن اب تک ای او بی آئی میں رجسٹرکیے جاچکے ہیں۔ ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ ملک کی لیبر فورس کے تقریباً 80 فیصد کارکن اب بھی ای او بی آئی میں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔
ای او بی آئی کے قانون کے تحت ادارہ میں رجسٹرڈ کارکن 60 سال کی عمر اور 15برس کی بیمہ شدہ ملازمت اور اس مدت کے ادا شدہ کنٹری بیوشن کی بنیاد پر تاحیات پنشن کا حقدار ہوتا ہے ، جبکہ خواتین اور کوئلہ کی کانوں میں کام کرنے والے کارکنوں کے لیے پنشن کی اہلیت کی عمر55 برس مقرر ہے۔
ای او بی آئی میں رجسٹرڈ لیکن15برس سے کم مدت ملازمت کے حامل بیمہ شدہ ملازمین کو پنشن کے بجائے ان کی مدت ملازمت کے برسوں کے حساب سے یکمشت بڑھاپا امداد ادا کی جاتی ہے ۔ ای او بی آئی میں رجسٹرڈ ملازم یا پنشنر کی وفات کی صورت میں اس کی/کے شریک حیات کو 100فیصد پنشن منتقل ہوجاتی ہے۔ اس وقت ای او بی آئی کی کم از کم پنشن 8,500 روپے ماہانہ ہے ، جبکہ زیادہ سے زیادہ پنشن کا تعین رجسٹرڈ ملازم کی مدت ملازمت کے لحاظ سے ای او بی آئی پنشن فارمولے کی بنیاد پرکیا جاتا ہے ۔
اس وقت ملک بھر میں ای او بی آئی سے پنشن حاصل کرنے والے پنشنرز کی تعداد4 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ایسے اداروں میں جہاں خواتین کی اکثریت کام کرتی ہے، وہاں کے مالکان اور آجر اپنی ملازم خواتین کی ملازمتوں کا ریکارڈ ظاہر نہیں کرتے۔ خاص طور پر نجی تعلیمی اداروں میں تو یہ عام سی بات ہوتی ہے۔ اول تو بیشتر تعلیمی ادارے اور ان کے اساتذہ ای او بی آئی میں رجسٹر ہی نہیں ہیں اور اگر رجسٹرڈ ہیں تو وہ کنٹری بیوشن کی ادائیگی کے باوجود اپنے ای او بی آئی رجسٹریشن کارڈPI-03 سے محروم ہیں۔
اسی طرح اگر کوئی ٹیچر اپنی ملازمت تبدیل کرکے کسی دوسرے اسکول میں فرائض انجام دینے لگے، تو ان کے پچھلے اسکول کی انتظامیہ ان کا پورا ریکارڈ ہی غائب کردیتی ہے۔ جب یہ خواتین اساتذہ 55 برس میں پنشن کی عمر کو پہنچنے پر ای او بی آئی کے ریجنل آفسوں کے چکر لگاتی ہیں تو ای او بی آئی کے بینی فٹس سیکشن کے افسران ان کے سابقہ اسکولوں کی جانب سے ان کی ملازمت کی تصدیق اور مطلوبہ ریکارڈ فراہم نہ کرنے کا عذر پیش کرتے ہیں ۔
سندھ کے چھوٹے شہر کوٹری سے تعلق رکھنے والے ایک ٹیچر مہر النساء نے 1981سے 2017 تک پانچ مختلف اسکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دیے ، مگر جب مہر النساء کی عمر 55 سال ہوئی تو مہر النساء نے اپنی پنشن کے لیے ای او بی آئی کے ریجنل آفس کوٹری میں درخواست داخل کی۔ ای او بی آئی کے متعلقہ عملہ نے بتایا کہ جن اسکولوں میں مہر النساء تدریس کے فرائض انجام دیتی رہی ہیں ان میں ایک اسکول نے اپنی کنٹری بیوشن جمع نہیں کرائی۔ یوں مہر النساء کو 88,000روپے کی یکمشت امداد دے کر ان کی پنشن کی درخواست مسترد کردی گئی، لیکن حیرت انگیز طور پر اس نادہندہ تعلیمی ادارہ پر قانون مجریہ1976 پر عملدرآمد نہ کرنے پر کوئی جرمانہ عائد نہیں کیا گیا۔
مہر النساء کی داد رسی محتسب کا ادارہ بھی نہ کرسکا۔ اسی طرح کراچی کی ایک ٹیچر انیس فاطمہ نے 26 سال تک مختلف غیر سرکاری اسکولوں میں فرائض انجام دیے ، مگر جب انھوں نے اپنی پنشن کے لیے ای او بی آئی کے آفس سے رجوع کیا تو انھیں بتایا گیا کہ انھوں نے جن اسکولوں میں ملازمت کی ہے ان میں سے ایک اسکول کی انتظامیہ نے ای او بی آئی کو اپنا کنٹری بیوشن جمع نہیں کرایا، اس بناء پر وہ پنشن کی حقدار نہیں ہیں۔ انیس فاطمہ نے فیصلہ ساز اداروں میں اپیل بھی کی مگر ان کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور انیس فاطمہ کو بھی اپنی 26سالہ طویل مدت ملازمت کے صلہ میں محض88 ہزار روپے کی یکمشت امداد دے کر رخصت کر دیا گیا۔ ہمارے دوست اور ای او بی آئی کے سابق افسر تعلقات عامہ اسرار ایوبی نے بتایا کہ ای او بی آئی قانون مجریہ1976 کے تحت او ای بی آئی کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں لیکن اب آجر کی بہبود پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔
آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے بعد جس کی2010 میں منظوری کے بعد لیبرکا شعبہ صوبوں کو منتقل کیا گیا تھا۔ یوں وفاق اور صوبوں میں ای او بی آئی کے مستقبل کے بارے میں کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک معمر ترین رکن اوسط جعفری اور سماجی و فلاحی شخصیت اظفر شمیم جو خود بھی ای او بی آئی کے پنشنر ہیں، نے ای او بی آئی کے پنشنرز کی فلاح وبہبود کے لیے ایک تنظیم (EPWA)قائم کی ہوئی ہے۔ جس کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ ای او بی آئی کے پنشنرز کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ کرکے ان کی پنشن کو بھی موجودہ کم از کم اجرت25,000 روپے ماہانہ کے مساوی کیا جائے اور نمایندہ تنظیم کی حیثیت سے ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں بھی نمایندگی دی جائے۔ موجودہ مخلوط میں ای او بی آئی کی وزارت کا قلمدان پیپلز پارٹی کے ساجد حسین طوری کے پاس ہے ۔ ان کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ ای او بی آئی کو اس سنگین بحران سے نکالیں۔
متحدہ ہندوستان میں انگریزوں نے سرکاری ملازمین کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کی اسکیم نافذ کی۔ نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے بھی قانون سازی ہوئی۔ بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح کی کوششوں سے انڈین لیجسلیٹو کونسل میں مزدوروں کے تحفظ کے لیے قانون سازی ہوئی ، جس کے نتیجہ میں ملازمت کے تحفظ کے ساتھ دیگر فوائد بھی ملنے لگے ، اگرچہ پاکستان کے قیام کے بعد نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کارخانوں کے مزدوروں کی گریجویٹی اور بینو ویلنٹ فنڈ کی اسکیمیں نافذ ہوئیں مگر ان میں مزدوروں کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے حق کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت ذوالفقار علی بھٹوکی قیادت میں 1971 میں قائم ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے منشور میں زرعی اور لیبر اصلاحات کا عہد کیا گیا تھا ، یوں 1976 میں وفاقی حکومت نے ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کا ادارہ قائم کیا تھا۔
ای او بی آئی کے قیام کا بنیادی مقصد نجی اداروں میں فرائض انجام دینے والے ملازمین اورکارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن فراہم کرنا تھا۔ ای او بی آئی کے قانون کے تحت رجسٹر شدہ آجر کی جانب سے کم از کم اجرت کے5 فیصد اور ملازم کی جانب سے ایک فیصد کے مساوی ماہانہ کنٹری بیوشن ای او بی آئی کو جمع کرانا لازمی ہے اور اسی طرح وفاقی حکومت بھی ای او بی آئی کو سالانہ مساوی امداد ادا کرنے کی پابند ہے ، لیکن بدقسمتی سے وفاقی حکومت نے غیر ذمے دارانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے1995سے ای او بی آئی کو ادا کی جانے والی مساوی امداد روک دی ہے۔
ای او بی آئی کے قانون کے تحت دس یا زائد ملازمین کے حامل آجر اور اداروں پر ای او بی آئی کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ خواہ یہ ملازمین مستقل ، عارضی ، یومیہ اجرت ، موسمی یا کسی ٹھیکہ دار کے ذریعہ خدمات انجام دے رہے ہوں۔ ایک تخمینہ کے مطابق اس وقت ملک کے منظم اور غیر منظم سیکٹر میں تقریبا 66 ملین کارکن فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے تقریبا 9 ملین کارکن اب تک ای او بی آئی میں رجسٹرکیے جاچکے ہیں۔ ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ ملک کی لیبر فورس کے تقریباً 80 فیصد کارکن اب بھی ای او بی آئی میں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔
ای او بی آئی کے قانون کے تحت ادارہ میں رجسٹرڈ کارکن 60 سال کی عمر اور 15برس کی بیمہ شدہ ملازمت اور اس مدت کے ادا شدہ کنٹری بیوشن کی بنیاد پر تاحیات پنشن کا حقدار ہوتا ہے ، جبکہ خواتین اور کوئلہ کی کانوں میں کام کرنے والے کارکنوں کے لیے پنشن کی اہلیت کی عمر55 برس مقرر ہے۔
ای او بی آئی میں رجسٹرڈ لیکن15برس سے کم مدت ملازمت کے حامل بیمہ شدہ ملازمین کو پنشن کے بجائے ان کی مدت ملازمت کے برسوں کے حساب سے یکمشت بڑھاپا امداد ادا کی جاتی ہے ۔ ای او بی آئی میں رجسٹرڈ ملازم یا پنشنر کی وفات کی صورت میں اس کی/کے شریک حیات کو 100فیصد پنشن منتقل ہوجاتی ہے۔ اس وقت ای او بی آئی کی کم از کم پنشن 8,500 روپے ماہانہ ہے ، جبکہ زیادہ سے زیادہ پنشن کا تعین رجسٹرڈ ملازم کی مدت ملازمت کے لحاظ سے ای او بی آئی پنشن فارمولے کی بنیاد پرکیا جاتا ہے ۔
اس وقت ملک بھر میں ای او بی آئی سے پنشن حاصل کرنے والے پنشنرز کی تعداد4 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ایسے اداروں میں جہاں خواتین کی اکثریت کام کرتی ہے، وہاں کے مالکان اور آجر اپنی ملازم خواتین کی ملازمتوں کا ریکارڈ ظاہر نہیں کرتے۔ خاص طور پر نجی تعلیمی اداروں میں تو یہ عام سی بات ہوتی ہے۔ اول تو بیشتر تعلیمی ادارے اور ان کے اساتذہ ای او بی آئی میں رجسٹر ہی نہیں ہیں اور اگر رجسٹرڈ ہیں تو وہ کنٹری بیوشن کی ادائیگی کے باوجود اپنے ای او بی آئی رجسٹریشن کارڈPI-03 سے محروم ہیں۔
اسی طرح اگر کوئی ٹیچر اپنی ملازمت تبدیل کرکے کسی دوسرے اسکول میں فرائض انجام دینے لگے، تو ان کے پچھلے اسکول کی انتظامیہ ان کا پورا ریکارڈ ہی غائب کردیتی ہے۔ جب یہ خواتین اساتذہ 55 برس میں پنشن کی عمر کو پہنچنے پر ای او بی آئی کے ریجنل آفسوں کے چکر لگاتی ہیں تو ای او بی آئی کے بینی فٹس سیکشن کے افسران ان کے سابقہ اسکولوں کی جانب سے ان کی ملازمت کی تصدیق اور مطلوبہ ریکارڈ فراہم نہ کرنے کا عذر پیش کرتے ہیں ۔
سندھ کے چھوٹے شہر کوٹری سے تعلق رکھنے والے ایک ٹیچر مہر النساء نے 1981سے 2017 تک پانچ مختلف اسکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دیے ، مگر جب مہر النساء کی عمر 55 سال ہوئی تو مہر النساء نے اپنی پنشن کے لیے ای او بی آئی کے ریجنل آفس کوٹری میں درخواست داخل کی۔ ای او بی آئی کے متعلقہ عملہ نے بتایا کہ جن اسکولوں میں مہر النساء تدریس کے فرائض انجام دیتی رہی ہیں ان میں ایک اسکول نے اپنی کنٹری بیوشن جمع نہیں کرائی۔ یوں مہر النساء کو 88,000روپے کی یکمشت امداد دے کر ان کی پنشن کی درخواست مسترد کردی گئی، لیکن حیرت انگیز طور پر اس نادہندہ تعلیمی ادارہ پر قانون مجریہ1976 پر عملدرآمد نہ کرنے پر کوئی جرمانہ عائد نہیں کیا گیا۔
مہر النساء کی داد رسی محتسب کا ادارہ بھی نہ کرسکا۔ اسی طرح کراچی کی ایک ٹیچر انیس فاطمہ نے 26 سال تک مختلف غیر سرکاری اسکولوں میں فرائض انجام دیے ، مگر جب انھوں نے اپنی پنشن کے لیے ای او بی آئی کے آفس سے رجوع کیا تو انھیں بتایا گیا کہ انھوں نے جن اسکولوں میں ملازمت کی ہے ان میں سے ایک اسکول کی انتظامیہ نے ای او بی آئی کو اپنا کنٹری بیوشن جمع نہیں کرایا، اس بناء پر وہ پنشن کی حقدار نہیں ہیں۔ انیس فاطمہ نے فیصلہ ساز اداروں میں اپیل بھی کی مگر ان کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور انیس فاطمہ کو بھی اپنی 26سالہ طویل مدت ملازمت کے صلہ میں محض88 ہزار روپے کی یکمشت امداد دے کر رخصت کر دیا گیا۔ ہمارے دوست اور ای او بی آئی کے سابق افسر تعلقات عامہ اسرار ایوبی نے بتایا کہ ای او بی آئی قانون مجریہ1976 کے تحت او ای بی آئی کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں لیکن اب آجر کی بہبود پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔
آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے بعد جس کی2010 میں منظوری کے بعد لیبرکا شعبہ صوبوں کو منتقل کیا گیا تھا۔ یوں وفاق اور صوبوں میں ای او بی آئی کے مستقبل کے بارے میں کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک معمر ترین رکن اوسط جعفری اور سماجی و فلاحی شخصیت اظفر شمیم جو خود بھی ای او بی آئی کے پنشنر ہیں، نے ای او بی آئی کے پنشنرز کی فلاح وبہبود کے لیے ایک تنظیم (EPWA)قائم کی ہوئی ہے۔ جس کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ ای او بی آئی کے پنشنرز کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ کرکے ان کی پنشن کو بھی موجودہ کم از کم اجرت25,000 روپے ماہانہ کے مساوی کیا جائے اور نمایندہ تنظیم کی حیثیت سے ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں بھی نمایندگی دی جائے۔ موجودہ مخلوط میں ای او بی آئی کی وزارت کا قلمدان پیپلز پارٹی کے ساجد حسین طوری کے پاس ہے ۔ ان کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ ای او بی آئی کو اس سنگین بحران سے نکالیں۔