جس تھالی میں کھایا اُسی میں چھید
سیاست کی آڑ میں قوم کو تقسیم کرنے والی سیاسی قیادت اور سیاستدانوں کا عوامی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے
گزشتہ 24 گھنٹوں سے سابق وزیراعظم عمران خان کے انٹرویو کی بازگشت قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پر سنائی دے رہی ہے۔ سوالات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ وضاحتیں ہیں کہ مزید تنازعات کو جنم دے رہی ہیں۔ پولرائزیشن کی شکار سوسائٹی میں ایک سے بڑھ کر ایک بیانیہ سامنے آرہا ہے۔ مخالفین کہہ رہے ہیں کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کیا۔ عمران خان نے اپنی سیاست بچانے کےلیے ریاست کا وقار مجروح کردیا ہے۔ جوابی بیانیے میں دیگر سیاستدانوں کے بیانات کو جواز بنا کر کپتان کے بیان کو جائز قرار دیا جارہا ہے۔
عام انتخابات 2018 میں 53 فیصد پاکستانیوں کے ووٹوں کا 31 فیصد حاصل کرکے ادھار کے لوگوں کے سہارے پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی۔ چیئرمین تحریک انصاف نے 100 دنوں میں تبدیلی لانے کا وعدہ کیا۔ 100 دن گزرے تو کہا کہ ہمیں ایک سال تو دیں۔ وہ سال بیتا تو دو یا تین سال کا مطالبہ سامنا آیا۔ وقت گزرتا گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ پانچ برس تو تبدیلی لانے کےلیے ناکافی ہیں۔ دس سے پندرہ سال ملنے چاہئیں۔
ان دعووں اور اعلانات کے بعد ملک کا قرضہ 24 ہزار ارب سے 43 ہزار ارب تک جاپہنچا، لوڈشیڈنگ فری ملک میں لوڈشیڈنگ کا بھوت دوبارہ سے سر اٹھانے لگا۔ بیروزگاروں کی شرح میں اضافہ ہوا۔ تعلیم اور صحت کے شعبے بھی وینٹی لیٹر تک پہنچ گئے۔ پھر سیاسی جماعتوں نے ایک ساتھ مل کر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی۔ تحریک کامیاب ہوئی، حکومت کو جانا پڑا مگر اس عرصے کے دوران اس وقت کے وزیراعظم عمران خان ہر وقت تک وزیراعظم کی کرسی سے چمٹے رہے۔ مفاہمت کے پیغامات بھجوائے، آئینی اور غیر آئینی اقدامات کرکے اپنی حکومت کو بچانے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو رات بارہ بجے عدالتیں کھولنا پڑیں۔
نئی حکومت قائم ہوگئی۔ فیصلہ ہوا کہ اسمبلیاں مدت پوری کریں گی مگر چیئرمین تحریک انصاف ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے کنٹینر پر سوار ہوگئے۔ انہوں نے سازشی خط لہرایا، چوروں کے الائنس کا منجن بیچا، نیوٹرلز پر سوالات اٹھائے۔ پہلے عدلیہ پر الزامات عائد کیے اور پھر عدلیہ سے مدد طلب کی۔ اداروں کے کردار پر زہر فشانی کی اور پھر اداروں کو کہا کہ فوجیوں کی فیملیز بھی تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ یوٹیوبرز اور صحافیوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرکے قومی وقار مجروح کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک سب ٹھیک تھا، کسی حد تک توقع تھی کہ کپتان کا یہ بیانیہ سیاسی ہوسکتا ہے۔ یہ کپتان کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔
جمعرات کی شب نجی ٹی وی چینل پر پی ٹی آئی سربراہ کے بیان نے میرے رونگٹے کھڑے کردیے۔ میری اور پاکستانی قوم کی امیدوں کے مرکز عمران خان نے نجی ٹی وی سے انٹرویو کے دوران کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلے نہ کیے تو فوج تباہ ہوجائے گی، ایٹمی اثاثے چھن جائیں گے، ملک دیوالیہ ہوجائے گا اور پاکستان کے تین ٹکڑے ہوں گے۔
یہ الفاظ اگر کالعدم تنظیموں کی جانب سے آتے تو شاید دکھ اور تکلیف نہ ہوتی، شاید ان الفاظ کی چبھن اتنی محسوس نہ ہوتی، شاید یہ الفاظ کے نشتر یوں دل میں پیوست نہ ہوتے، شاید آنکھوں سے لہو نہ ٹپکتا، شاید ہی دھڑکنیں یوں بے ترتیب نہ ہوتیں۔ لیکن یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جو 16 فیصد پاکستانیوں کے ووٹ لے کر منتخب ہوا، جو نوجوانوں کی امید ہے، جس میں بزرگ اپنے خوابوں کی تکمیل دیکھ رہے تھے۔ جس شخص کو بچے رول ماڈل سمجھ رہے تھے، جو شخص تین سال پاکستان کا وزیراعظم رہا۔
محترم خان صاحب! جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار سے آپ کو علیحدہ کیا گیا تو آپ نے ایسا بیان دے دیا۔ حضور والا! یہاں بلوچستان میں ایمبولینس میں محبوس قائداعظم نے بھی آخری سانس میں اللہ، اللہ پاکستان کہا، یہاں لیاقت علی خان کو دن دیہاڑے قتل کردیا گیا، یہاں بھٹو جیسے عظیم لیڈر کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، یہاں ولی خان کو دہائیوں بیڑیوں میں جکڑ کر رکھا گیا، یہاں حاملہ خاتون پر الیکشن مسلط کیا گیا تاکہ وہ کامیابی حاصل نہ کرسکے، یہاں فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا، یہاں تین بار کے منتخب وزیراعظم کو مکھن سے بال کی طرح نکال دیا گیا مگر کسی نے ملک خداداد کی سالمیت پر کوئی لفظ نہیں اٹھایا۔
زیادہ دور نہیں جاتے ابھی چند برس قبل بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت جب ملک بھر میں چاروں جانب آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے، آصف علی زرداری نے ''پاکستان کھپے'' کا نعرہ بلند کرکے انتشار پر قابو پایا۔ 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو بااختیار بنایا۔ ہجوم کو ایک قوم بنانے کا فریضہ انجام دیا۔ مگر آپ نے صرف کرسی چھن جانے پر ایسی بات کرکے قوم کو مزید تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔
محترم عمران خان! اللہ نے آپ کو جوڑنے کا اختیار دیا، اللہ نے آپ کو طاقت عطا کی ہے، آپ کے ہزاروں چاہنے والے آپ کے ایک اشارے پر سر کٹوانے کو تیار ہوتے ہیں۔ آپ کے اس بیان نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کو مایوس کیا ہے۔ محترم چیئرمین تحریک انصاف! یہ مملکت خداداد اللہ کی امانت ہے، اس کے 24 کروڑ شہری اس کے محافظ ہیں۔
چیئرمین تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے ٹکڑے ٹکڑے ہوسکتا ہے، تو میں اور ہر پاکستانی یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ محترم عزت مآب! اقتدار کے آخری دنوں میں آپ نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ توڑ کر بغیر رقم سبسڈی دے کر ملک کو ڈیفالٹ کی طرف کیوں دھکیلا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ ڈیفالٹ ملک تقسیم ہونے کی وجہ بن سکتا ہے تو موجودہ حکومت نے پٹرول مہنگا کرکے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کی کوشش کی ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ حکومت آپ سے زیادہ محب وطن ہے۔ محترم عمران خان! آپ اس دیس کو توڑنے کی بات کررہے ہیں، جس کی بنیادوں میں ہزاروں انسانوں کا لہو ہے، جس کی مٹی میں پیار ہے، جو جوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آپ کے اس بیان سے قبل بانی متحدہ نے بھی ایسا ہی ایک بیان دیا تھا، جس کے بعد ایم کیو ایم کے اندر شکست و ریخت آپ نے خود بھی ملاحظہ کی، تقاریر پر پابندیوں کے آپ بھی شاہد ہیں۔ تو کیا آپ کی بھی یہی خواہش ہے؟
میری تحریک انصاف کے ورکرز سے بھی گزارش ہے کہ اپنے رہنما کو رہنما کی حد تک ہی رکھیں، انہیں ولی اور پیغمبر کا درجہ نہ دیں۔ ہر بات کا دفاع کرکے آپ کا قد چھوٹا ہوتا ہے، کیونکہ کئی باتیں قابل دفاع نہیں ہوتیں۔ اندھی نفرت اور عقیدت کو ایک طرف رکھتے ہوئے سوچیے کہ رہنما تو جوڑا کرتے ہیں، کپتان نے توڑنے کی بات کیوں کی؟ قائد تو زخموں پر مرہم رکھتے ہیں، نمک پاشی نہیں کیا کرتے۔ سیاسی قیادت کے بیانات عوام الناس کےلیے قابل تقلید ہوتے ہیں۔ سیاست دان اندھیروں میں بھٹکتی قوم کےلیے مشعل کا کام کرتے ہیں۔ سیاست دانوں کو ایک ایک قدم پھونک کر رکھنا پڑتا ہے۔ انہیں اپنی زبان کھولنے سے قبل متعدد بار سوچنا پڑتا ہے۔ غیر ذمے داری سیاست دانوں کا شیوہ نہیں ہوتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست کی آڑ میں قوم کو تقسیم کرنے والی سیاسی قیادت اور سیاستدانوں کا عوامی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے۔ محبت کے پھولوں کو نفرت کے کانٹوں سے نقصان پہنچانے والوں کا راستہ روکا جائے۔ اور سب سے اہم بات چیئرمین تحریک انصاف کے ایک اور یوٹرن کا انتظار کیا جائے تاکہ ان کے پیروکاروں کو دفاع کےلیے کانٹینٹ دستیاب ہوسکے۔ ان کے کی بورڈ واریئرز کو دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے کا موقع مل سکے۔ لیکن محض بیانات اور سیاق و سباق سے ہٹ کر گفتگو کو بنیاد بنا کر سیاسی قیادت کی کردارکشی کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
وطن کی تعمیر کےلیے اس وقت قوم کو جوڑںے کی کوشش کرنی چاہیے، تخریب کے نشیمن سے تعمیر کے پنچھی اڑانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ وطن عزیز مزید کسی تخریب کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
عام انتخابات 2018 میں 53 فیصد پاکستانیوں کے ووٹوں کا 31 فیصد حاصل کرکے ادھار کے لوگوں کے سہارے پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی۔ چیئرمین تحریک انصاف نے 100 دنوں میں تبدیلی لانے کا وعدہ کیا۔ 100 دن گزرے تو کہا کہ ہمیں ایک سال تو دیں۔ وہ سال بیتا تو دو یا تین سال کا مطالبہ سامنا آیا۔ وقت گزرتا گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ پانچ برس تو تبدیلی لانے کےلیے ناکافی ہیں۔ دس سے پندرہ سال ملنے چاہئیں۔
ان دعووں اور اعلانات کے بعد ملک کا قرضہ 24 ہزار ارب سے 43 ہزار ارب تک جاپہنچا، لوڈشیڈنگ فری ملک میں لوڈشیڈنگ کا بھوت دوبارہ سے سر اٹھانے لگا۔ بیروزگاروں کی شرح میں اضافہ ہوا۔ تعلیم اور صحت کے شعبے بھی وینٹی لیٹر تک پہنچ گئے۔ پھر سیاسی جماعتوں نے ایک ساتھ مل کر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی۔ تحریک کامیاب ہوئی، حکومت کو جانا پڑا مگر اس عرصے کے دوران اس وقت کے وزیراعظم عمران خان ہر وقت تک وزیراعظم کی کرسی سے چمٹے رہے۔ مفاہمت کے پیغامات بھجوائے، آئینی اور غیر آئینی اقدامات کرکے اپنی حکومت کو بچانے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو رات بارہ بجے عدالتیں کھولنا پڑیں۔
نئی حکومت قائم ہوگئی۔ فیصلہ ہوا کہ اسمبلیاں مدت پوری کریں گی مگر چیئرمین تحریک انصاف ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے کنٹینر پر سوار ہوگئے۔ انہوں نے سازشی خط لہرایا، چوروں کے الائنس کا منجن بیچا، نیوٹرلز پر سوالات اٹھائے۔ پہلے عدلیہ پر الزامات عائد کیے اور پھر عدلیہ سے مدد طلب کی۔ اداروں کے کردار پر زہر فشانی کی اور پھر اداروں کو کہا کہ فوجیوں کی فیملیز بھی تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ یوٹیوبرز اور صحافیوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرکے قومی وقار مجروح کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک سب ٹھیک تھا، کسی حد تک توقع تھی کہ کپتان کا یہ بیانیہ سیاسی ہوسکتا ہے۔ یہ کپتان کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔
جمعرات کی شب نجی ٹی وی چینل پر پی ٹی آئی سربراہ کے بیان نے میرے رونگٹے کھڑے کردیے۔ میری اور پاکستانی قوم کی امیدوں کے مرکز عمران خان نے نجی ٹی وی سے انٹرویو کے دوران کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلے نہ کیے تو فوج تباہ ہوجائے گی، ایٹمی اثاثے چھن جائیں گے، ملک دیوالیہ ہوجائے گا اور پاکستان کے تین ٹکڑے ہوں گے۔
یہ الفاظ اگر کالعدم تنظیموں کی جانب سے آتے تو شاید دکھ اور تکلیف نہ ہوتی، شاید ان الفاظ کی چبھن اتنی محسوس نہ ہوتی، شاید یہ الفاظ کے نشتر یوں دل میں پیوست نہ ہوتے، شاید آنکھوں سے لہو نہ ٹپکتا، شاید ہی دھڑکنیں یوں بے ترتیب نہ ہوتیں۔ لیکن یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جو 16 فیصد پاکستانیوں کے ووٹ لے کر منتخب ہوا، جو نوجوانوں کی امید ہے، جس میں بزرگ اپنے خوابوں کی تکمیل دیکھ رہے تھے۔ جس شخص کو بچے رول ماڈل سمجھ رہے تھے، جو شخص تین سال پاکستان کا وزیراعظم رہا۔
محترم خان صاحب! جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار سے آپ کو علیحدہ کیا گیا تو آپ نے ایسا بیان دے دیا۔ حضور والا! یہاں بلوچستان میں ایمبولینس میں محبوس قائداعظم نے بھی آخری سانس میں اللہ، اللہ پاکستان کہا، یہاں لیاقت علی خان کو دن دیہاڑے قتل کردیا گیا، یہاں بھٹو جیسے عظیم لیڈر کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، یہاں ولی خان کو دہائیوں بیڑیوں میں جکڑ کر رکھا گیا، یہاں حاملہ خاتون پر الیکشن مسلط کیا گیا تاکہ وہ کامیابی حاصل نہ کرسکے، یہاں فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا، یہاں تین بار کے منتخب وزیراعظم کو مکھن سے بال کی طرح نکال دیا گیا مگر کسی نے ملک خداداد کی سالمیت پر کوئی لفظ نہیں اٹھایا۔
زیادہ دور نہیں جاتے ابھی چند برس قبل بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت جب ملک بھر میں چاروں جانب آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے، آصف علی زرداری نے ''پاکستان کھپے'' کا نعرہ بلند کرکے انتشار پر قابو پایا۔ 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو بااختیار بنایا۔ ہجوم کو ایک قوم بنانے کا فریضہ انجام دیا۔ مگر آپ نے صرف کرسی چھن جانے پر ایسی بات کرکے قوم کو مزید تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔
محترم عمران خان! اللہ نے آپ کو جوڑنے کا اختیار دیا، اللہ نے آپ کو طاقت عطا کی ہے، آپ کے ہزاروں چاہنے والے آپ کے ایک اشارے پر سر کٹوانے کو تیار ہوتے ہیں۔ آپ کے اس بیان نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کو مایوس کیا ہے۔ محترم چیئرمین تحریک انصاف! یہ مملکت خداداد اللہ کی امانت ہے، اس کے 24 کروڑ شہری اس کے محافظ ہیں۔
چیئرمین تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے ٹکڑے ٹکڑے ہوسکتا ہے، تو میں اور ہر پاکستانی یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ محترم عزت مآب! اقتدار کے آخری دنوں میں آپ نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ توڑ کر بغیر رقم سبسڈی دے کر ملک کو ڈیفالٹ کی طرف کیوں دھکیلا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ ڈیفالٹ ملک تقسیم ہونے کی وجہ بن سکتا ہے تو موجودہ حکومت نے پٹرول مہنگا کرکے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کی کوشش کی ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ حکومت آپ سے زیادہ محب وطن ہے۔ محترم عمران خان! آپ اس دیس کو توڑنے کی بات کررہے ہیں، جس کی بنیادوں میں ہزاروں انسانوں کا لہو ہے، جس کی مٹی میں پیار ہے، جو جوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آپ کے اس بیان سے قبل بانی متحدہ نے بھی ایسا ہی ایک بیان دیا تھا، جس کے بعد ایم کیو ایم کے اندر شکست و ریخت آپ نے خود بھی ملاحظہ کی، تقاریر پر پابندیوں کے آپ بھی شاہد ہیں۔ تو کیا آپ کی بھی یہی خواہش ہے؟
میری تحریک انصاف کے ورکرز سے بھی گزارش ہے کہ اپنے رہنما کو رہنما کی حد تک ہی رکھیں، انہیں ولی اور پیغمبر کا درجہ نہ دیں۔ ہر بات کا دفاع کرکے آپ کا قد چھوٹا ہوتا ہے، کیونکہ کئی باتیں قابل دفاع نہیں ہوتیں۔ اندھی نفرت اور عقیدت کو ایک طرف رکھتے ہوئے سوچیے کہ رہنما تو جوڑا کرتے ہیں، کپتان نے توڑنے کی بات کیوں کی؟ قائد تو زخموں پر مرہم رکھتے ہیں، نمک پاشی نہیں کیا کرتے۔ سیاسی قیادت کے بیانات عوام الناس کےلیے قابل تقلید ہوتے ہیں۔ سیاست دان اندھیروں میں بھٹکتی قوم کےلیے مشعل کا کام کرتے ہیں۔ سیاست دانوں کو ایک ایک قدم پھونک کر رکھنا پڑتا ہے۔ انہیں اپنی زبان کھولنے سے قبل متعدد بار سوچنا پڑتا ہے۔ غیر ذمے داری سیاست دانوں کا شیوہ نہیں ہوتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست کی آڑ میں قوم کو تقسیم کرنے والی سیاسی قیادت اور سیاستدانوں کا عوامی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے۔ محبت کے پھولوں کو نفرت کے کانٹوں سے نقصان پہنچانے والوں کا راستہ روکا جائے۔ اور سب سے اہم بات چیئرمین تحریک انصاف کے ایک اور یوٹرن کا انتظار کیا جائے تاکہ ان کے پیروکاروں کو دفاع کےلیے کانٹینٹ دستیاب ہوسکے۔ ان کے کی بورڈ واریئرز کو دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے کا موقع مل سکے۔ لیکن محض بیانات اور سیاق و سباق سے ہٹ کر گفتگو کو بنیاد بنا کر سیاسی قیادت کی کردارکشی کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
وطن کی تعمیر کےلیے اس وقت قوم کو جوڑںے کی کوشش کرنی چاہیے، تخریب کے نشیمن سے تعمیر کے پنچھی اڑانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ وطن عزیز مزید کسی تخریب کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔