آتشزدگی کے ہولناک واقعات
بحرانی صورتحال میں ان کی کارکردگی شرمناک حد تک مایوس کن ہے
ISLAMABAD:
کراچی میں ایک کثیرالمنزلہ رہائشی عمارت کے ایک فلور پر قائم سپر اسٹور میں آگ بھڑکی جو بتدریج بڑھی اور پھر قابو سے باہر ہوگئی، میڈیا کی اطلاع کے مطابق گزرے تیس گھنٹے تک آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا، عمارت کے اطراف کے تمام گھروں کو خالی کرایا جا رہا ہے۔
پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں آتشزدگی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں سے کراچی اور لاہور میں بلند وبالا عمارتوں میں آتش زدگی کے واقعات غیرمعمولی طور پر بڑھ رہے ہیں خصوصاً کراچی میں ایسے واقعات بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔
تجارتی و رہائشی عمارتوں اور بازاروں میں آگ لگنا تو اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے لیکن تشویش کا پہلو یہ ہے کہ ملک کے صوبائی، ضلع انتظامی اداروں کا آتشزدگی پر بروقت قابو نہ پاسکنا ہے۔ کراچی اور لاہور میں ڈسٹرکٹ گورمنٹس، فائر بریگیڈ اور بلدیاتی ادارے موجود ہیں، ان اداروں کے افسروں اور دیگر اسٹاف کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ٹیکس پئیرز کے پیسوں سے ان افسروں اور ملازمین کو تنخواہیں، مراعات دی جارہی ہیں لیکن بحرانی صورتحال میں ان کی کارکردگی شرمناک حد تک مایوس کن ہے۔
کراچی اور لاہور میں کثیرالمنزلہ عمارتیں اور شاپنگ مالز کی بہتات ہے۔ اکثر عمارتوں میں حفاظتی نظام موجود نہیں ہے اور اگر موجود ہے تو وہ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوچکا ہے۔ کئی عمارتوں کی پارکنگ ہی نہیں ہے۔ رہائشی مکانات کو کمرشل بنا دیا گیا ہے، قوانین بنانے اور ان پر عمل کرنے والے کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔
انھی وجوہات کی بنا پر کراچی شہر مسائلستان بن گیا ہے۔ کہیں کسی عمارت میں آگ لگ رہی ہے، کہیں ٹریفک جام ہے، کہیں سیوریج سسٹم بیٹھ گیا اور گندا پانی گلیوں اور سڑکوں پر کھڑا ہے، کہیں کوئی عمارت اپنے ہی بوجھ سے زمین بوس ہوگئی ہے، کہیں بجلی کے تار گر رہیں اور کہیں کرنٹ لگنے سے لوگ مر رہے ہیں۔
کراچی میں آئے روز حادثات میں انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے جب کہ مالی نقصانات کروڑوں، اربوں روپے میں ہیں۔ بلڈنگ لاز کی خلاف ورزی کی اجازت ضلع اور صوبائی محکمے دیتے ہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا بھر میں بلند و بالا عمارتیں بنائی جاتی ہیں لیکن ان کی تعمیر میں تمام حفاظتی اقدامات سمیت ایمرجنسی راستوں کا خیال رکھا جاتا ہے، جب کہ ہمارے یہاں قوانین اور ضوابط موجود ہیں لیکن سرکاری افسر اور عملہ میٹھی نیند سو رہا ہے۔
ہمارے تعمیراتی قوانین کسی بھی عمارت کی تیاری اور مرمت کے دوران آگ بجھانے کے انتظامات کا بنیادی ڈھانچہ بیان کرتے ہیں۔ اس فریم ورک میں اسٹینڈ پائپ، پانی چھڑکنے کا خود کار نظام، آگ بجھانے کے دستی آلات، فائر الارم سسٹم، سگنل اسٹیشنز، پانی کے بالائی ٹینک، آگ سے بچاؤ فراہم کرنے والی تعمیرات، فائر والز، پروٹیکٹڈ شافٹ اور آگ نہ پکڑنے والے دروازے شامل ہیں، تاہم ان کے نفاذ کے بارے میں کسی کو کوئی خبر نہیں۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے شہروں میں بلند وبالا عمارتوں، صنعتی علاقوں میں موجود فیکٹریوں میں آگ لگنا کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہاں موجود اداروں نے آج تک نہ تو ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی اور نہ ہی فیکٹری، شاپنگ مالز اور رہائشی فلیٹس کی انتظامیہ نے حفاظتی نظام کو فعال رکھنے کی کوشش کی۔
کراچی شہر میں آتشزدگی کے واقعات تسلسل سے ہو رہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر کسی پلاننگ اور منصوبے کے بغیر خود رو طریقے سے پھیلنے اور بڑھنے لگا ہے۔ یہ شہر خود رو جھاڑیوں اور پودوں کے طرح پرورش پاتا رہا اور اب کنکریٹ کا ایسا جنگل بن گیا ہے، جس میں کوئی راستہ سیدھا، ہموار اور کھلا نہیں رہا۔
کراچی تجارتی اور کاروباری مرکز اور ملک کا معاشی انجن ہے، اسے جدید ترین شہری نظام اور آلات کی ضرورت ہے۔ کراچی بلڈرز کے رحم و کرم پر ہے، لوگوں کا سرمایہ غیر محفوظ ہے۔ کئی نجی ہاوسنگ سوسائٹیز کے ہزاروں الاٹیز مارے مارے پھر رہے ہیں۔
ان میں کراچی کے ہزاروں افراد کی جمع پونجی لگی ہوئی ہے، آئے روز احتجاج ہوتے ہیں مگر ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ آبادی میں پے درپے اضافے نے اس شہر کو کہیں کا نہ چھوڑا کیونکہ آبادی کی نسبت اس کے انفرا اسٹرکچر میں اس قدر اضافہ نہیں ہو سکا جیسا ہونا چاہیے تھا۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کوئی بھی اس کی ضرورت کے مطابق وسائل مہیا کرنے کی بات نہیں کرتا۔ یہ ہمارے شہری نظام کے نقائص ہیں، جس سے خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
شہر میں سیکڑوں بڑے حادثات کے بعد بھی آج تک حکومتی سطح پر کوئی ریکسیو سروس موجود نہیں ہے۔ فائر بریگیڈ اور اسنارکلز کی تعداد پاکستان کے سب سے بڑا شہر کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ فیکٹریوں کے اندر فائر سیفٹی کے فول پروف انتظامات نہیں ہیں اور جہاں ہیں، وہ بھی صرف رسمی طور پر کیے گئے ہیں۔ فائر فائٹرز کی تربیت اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔
ایس بی سی اے، لیبر ڈیپارٹمنٹ سمیت تمام متعلقہ ادارے سیاست زدہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ سیاسی بھرتیوں اور نااہل افسران کی تعیناتیوں کا خمیازہ کراچی شہر بھگت رہا ہے، پولیس کی تفتیش بھی روایتی انداز سے چلتی ہے اور کچھ عرصے بعد ایک نیا حادثہ پرانے حادثے پر مٹی ڈال دیتا ہے اور پھر سے وہی بیانات، تسلیاں، چند روز میڈیا کی پھرتیاں اور پھر حکومت کی بے حسی شروع ہو جاتی ہے۔
کراچی میں ماضی میں ہونے والے بڑے حادثات اور ان کے نتیجے میں قیمتی جانوں کے خاتمے سے بھی متعلقہ اداروں نے کچھ نہیں سیکھا۔ قیام پاکستان کے ابتدائی وقت تک کراچی ایشیا کا صاف ستھرا ترین اور خوشحال شہر کہلاتا تھا، جس کی سڑکیں روز دھلا کرتی تھیں کیونکہ ادارے فعال تھے، افسر اور ملازمین فرض شناس۔ کراچی کی گمشدہ اربن میراث و متاع کی تلاش اس کے بگڑے ہوئے بلدیاتی، شہری اور بیوروکریسی کے فرسودہ اور غیر انسانی سسٹم میں شروع کی جانی چاہیے، اس شہر کے اون نہ کرنے کے ظالمانہ رویے سے اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔
مسئلہ کراچی کی فزیکل پلاننگ کا ہے، اس کے اربن پھیلاؤ، اقتصادی جہت، کچی آبادیوں کے قیام، جرائم کی لرزہ خیز صورتحال، بنیادی انفرا اسٹرکچر کی ترقی سے عدم تعلقی یہ سارے عناصر ملکر کراچی کی بد صورتی کی اس لیے تعمیر کرتے رہے کہ اسٹیک ہولڈرز کو شہر کو اون کرنے کی کوئی فرصت نہیں ملتی، سب ''باون گزے'' ہیں۔
اگر کراچی کی ترقی کے مسئلہ اور شہری سہولتوں کے فقدان کا معاملہ سامنے رکھا جائے تو ایک مکمل سیاسی پولرائزیشن اور افراتفری نظر آتی ہے جب کہ شہر کی افسوسناک صورتحال اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ سندھ حکومت اپنے ماتحت سویلین اداروں اور مقامی حکومت کی کارگزاری اور احتساب کا میکنزم وضع کر سکتی ہے۔
پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، جماعت اسلامی، جے یو آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں شہر کو تباہی اور بربادی سے بچانے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، لیکن حقیقت تلخ سہی مگر بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ملتے کہ کوئی سیاسی جماعت کراچی کے مسائل کے حل کے لیے ایک دوسرے سے عملی تعاون کے لیے تیار نہیں ہوتی، سیاسی روش کا قومی معیار محاذ آرائی کشیدگی، تناؤ اور بلیم گیم سے آراستہ ہے۔
سیاستدان پوائنٹ اسکورنگ کے لیے تو دستیاب ہوتے ہیں مگر ٹھوس کاموں کی تکمیل کے لیے کوئی معاونت پر آمادہ نہیں، ایک عظیم شہر کی لاچاری اور بربادی میں اہم فیکٹر سیاسی رویوں میں عدم رواداری بھی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے دل لاہور میں بھی بلند بالا عمارتوں میں فائر سیفٹی فائٹنگ کے اقدامات نہیں ہیں، جس کے باعث وہاں بھی بلند بالا عمارتوں میں آتشزدگی واقعات معمول بن چکے ہیں۔ ان بلند بالا عمارتوں میں فائر سیفٹی فائٹنگ کا شعبہ اور اخراجی راستوں سمیت عمارتوں کی چھتوں پر سپرنکلر سسٹم نہیں لگائے گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بلند بالا رہائشی و کمرشل عمارتوں کی تعمیر کے موقعے پر متعلقہ سرکاری ادارے بلڈنگز لاز کی پابندی کیوں نہیں کراتے؟ ان سوالات کا جواب پنجاب کے وزیراعلیٰ اور پنجاب اسمبلی کو متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران سے پوچھنا چاہیے۔ بہرحال اگر آتشزدگی کے واقعات کی بات کی جائے تو ان کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں آگ پکڑنے والے کپڑوں کو غیر محفوظ طریقے سے اسٹورکرنا بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ کمرشل عمارتوں میں بجلی اور پلمبنگ کے نقائص کو شاذ ہی درست کیا جاتا ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید خراب ہوتے جاتے ہیں، چونکہ مالکان اور انتظامیہ کو صرف اور صرف زیادہ منافع کمانے کی فکر ہوتی ہے اس وجہ سے وہ لیکیج، بجلی کی تاروں میں ہونے والے اسپارک اور جن نالیوں سے بجلی کی تاریں گزرتی ہیں ان میں خرابیوں کے باوجود ملازمین کو کام جاری رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اکثر رہائشی اور کمرشل عمارتوں میں تو ضرورت کے مطابق بجلی کے کنکشن لینے کی توفیق بھی نہیں کی جاتی۔
اسی طرح کام کی جگہوں کا مقام اور ان کی بناوٹ بھی محفوظ انخلا کو یقینی نہیں بناتی۔ انخلا کے لیے ضرورت سے کم راستوں کی وجہ سے نہ صرف بھگدڑ مچ سکتی ہے بلکہ لوگ پھنس بھی سکتے ہیں۔ اسی طرح ہوا کا مناسب گزر نہ ہونے کی وجہ سے آگ سے بچ کر نکلنے والوں کا دم بھی گھٹ سکتا ہے۔ بڑے شہروں کے پْرہجوم علاقوں میں موجود گارمنٹ فیکٹریاں اور سلائی کڑھائی کی دکانیں اس حوالے سے خطرات کا شکار ہیں۔
جہاں جہاں بجلی کی تاروں کو گزارنے کے لیے پائپ، گیس کے پائپ یا سلینڈر، آگ پکڑنے والی اشیا یا تیل کے ڈپو موجود ہیں وہاں حفاظتی انتظامات ضرور ہونے چاہئیں۔ سب سے پہلے جو کام کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ پیداوار، فروخت اور اشیا کو اسٹورکرنے کی جگہوں کے بارے میں اعداد و شمار کو مزید بہتر بنایا جائے۔ ادارہ شماریات باقاعدگی سے سروے کرے جو اس اعداد و شمار کی بنیاد بن سکے۔ ان اعداد و شمار میں اضافے اور بہتری کے لیے ایک میونسپل منصوبہ بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ کراچی، لاہور سمیت دیگرشہروں کو میں ایک شفاف شہری بلدیاتی، مقامی اور صوبائی انتظامیہ کا نظام فعال کیا جائے، جمہوری بصیرت، عمل کی طاقت اور امنگ ہی ہمیں تباہی سے بچا سکتی ہے۔
کراچی میں ایک کثیرالمنزلہ رہائشی عمارت کے ایک فلور پر قائم سپر اسٹور میں آگ بھڑکی جو بتدریج بڑھی اور پھر قابو سے باہر ہوگئی، میڈیا کی اطلاع کے مطابق گزرے تیس گھنٹے تک آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا، عمارت کے اطراف کے تمام گھروں کو خالی کرایا جا رہا ہے۔
پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں آتشزدگی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں سے کراچی اور لاہور میں بلند وبالا عمارتوں میں آتش زدگی کے واقعات غیرمعمولی طور پر بڑھ رہے ہیں خصوصاً کراچی میں ایسے واقعات بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔
تجارتی و رہائشی عمارتوں اور بازاروں میں آگ لگنا تو اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے لیکن تشویش کا پہلو یہ ہے کہ ملک کے صوبائی، ضلع انتظامی اداروں کا آتشزدگی پر بروقت قابو نہ پاسکنا ہے۔ کراچی اور لاہور میں ڈسٹرکٹ گورمنٹس، فائر بریگیڈ اور بلدیاتی ادارے موجود ہیں، ان اداروں کے افسروں اور دیگر اسٹاف کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ٹیکس پئیرز کے پیسوں سے ان افسروں اور ملازمین کو تنخواہیں، مراعات دی جارہی ہیں لیکن بحرانی صورتحال میں ان کی کارکردگی شرمناک حد تک مایوس کن ہے۔
کراچی اور لاہور میں کثیرالمنزلہ عمارتیں اور شاپنگ مالز کی بہتات ہے۔ اکثر عمارتوں میں حفاظتی نظام موجود نہیں ہے اور اگر موجود ہے تو وہ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوچکا ہے۔ کئی عمارتوں کی پارکنگ ہی نہیں ہے۔ رہائشی مکانات کو کمرشل بنا دیا گیا ہے، قوانین بنانے اور ان پر عمل کرنے والے کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔
انھی وجوہات کی بنا پر کراچی شہر مسائلستان بن گیا ہے۔ کہیں کسی عمارت میں آگ لگ رہی ہے، کہیں ٹریفک جام ہے، کہیں سیوریج سسٹم بیٹھ گیا اور گندا پانی گلیوں اور سڑکوں پر کھڑا ہے، کہیں کوئی عمارت اپنے ہی بوجھ سے زمین بوس ہوگئی ہے، کہیں بجلی کے تار گر رہیں اور کہیں کرنٹ لگنے سے لوگ مر رہے ہیں۔
کراچی میں آئے روز حادثات میں انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے جب کہ مالی نقصانات کروڑوں، اربوں روپے میں ہیں۔ بلڈنگ لاز کی خلاف ورزی کی اجازت ضلع اور صوبائی محکمے دیتے ہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا بھر میں بلند و بالا عمارتیں بنائی جاتی ہیں لیکن ان کی تعمیر میں تمام حفاظتی اقدامات سمیت ایمرجنسی راستوں کا خیال رکھا جاتا ہے، جب کہ ہمارے یہاں قوانین اور ضوابط موجود ہیں لیکن سرکاری افسر اور عملہ میٹھی نیند سو رہا ہے۔
ہمارے تعمیراتی قوانین کسی بھی عمارت کی تیاری اور مرمت کے دوران آگ بجھانے کے انتظامات کا بنیادی ڈھانچہ بیان کرتے ہیں۔ اس فریم ورک میں اسٹینڈ پائپ، پانی چھڑکنے کا خود کار نظام، آگ بجھانے کے دستی آلات، فائر الارم سسٹم، سگنل اسٹیشنز، پانی کے بالائی ٹینک، آگ سے بچاؤ فراہم کرنے والی تعمیرات، فائر والز، پروٹیکٹڈ شافٹ اور آگ نہ پکڑنے والے دروازے شامل ہیں، تاہم ان کے نفاذ کے بارے میں کسی کو کوئی خبر نہیں۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے شہروں میں بلند وبالا عمارتوں، صنعتی علاقوں میں موجود فیکٹریوں میں آگ لگنا کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہاں موجود اداروں نے آج تک نہ تو ان واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی اور نہ ہی فیکٹری، شاپنگ مالز اور رہائشی فلیٹس کی انتظامیہ نے حفاظتی نظام کو فعال رکھنے کی کوشش کی۔
کراچی شہر میں آتشزدگی کے واقعات تسلسل سے ہو رہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ شہر کسی پلاننگ اور منصوبے کے بغیر خود رو طریقے سے پھیلنے اور بڑھنے لگا ہے۔ یہ شہر خود رو جھاڑیوں اور پودوں کے طرح پرورش پاتا رہا اور اب کنکریٹ کا ایسا جنگل بن گیا ہے، جس میں کوئی راستہ سیدھا، ہموار اور کھلا نہیں رہا۔
کراچی تجارتی اور کاروباری مرکز اور ملک کا معاشی انجن ہے، اسے جدید ترین شہری نظام اور آلات کی ضرورت ہے۔ کراچی بلڈرز کے رحم و کرم پر ہے، لوگوں کا سرمایہ غیر محفوظ ہے۔ کئی نجی ہاوسنگ سوسائٹیز کے ہزاروں الاٹیز مارے مارے پھر رہے ہیں۔
ان میں کراچی کے ہزاروں افراد کی جمع پونجی لگی ہوئی ہے، آئے روز احتجاج ہوتے ہیں مگر ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ آبادی میں پے درپے اضافے نے اس شہر کو کہیں کا نہ چھوڑا کیونکہ آبادی کی نسبت اس کے انفرا اسٹرکچر میں اس قدر اضافہ نہیں ہو سکا جیسا ہونا چاہیے تھا۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کوئی بھی اس کی ضرورت کے مطابق وسائل مہیا کرنے کی بات نہیں کرتا۔ یہ ہمارے شہری نظام کے نقائص ہیں، جس سے خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
شہر میں سیکڑوں بڑے حادثات کے بعد بھی آج تک حکومتی سطح پر کوئی ریکسیو سروس موجود نہیں ہے۔ فائر بریگیڈ اور اسنارکلز کی تعداد پاکستان کے سب سے بڑا شہر کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ فیکٹریوں کے اندر فائر سیفٹی کے فول پروف انتظامات نہیں ہیں اور جہاں ہیں، وہ بھی صرف رسمی طور پر کیے گئے ہیں۔ فائر فائٹرز کی تربیت اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔
ایس بی سی اے، لیبر ڈیپارٹمنٹ سمیت تمام متعلقہ ادارے سیاست زدہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ سیاسی بھرتیوں اور نااہل افسران کی تعیناتیوں کا خمیازہ کراچی شہر بھگت رہا ہے، پولیس کی تفتیش بھی روایتی انداز سے چلتی ہے اور کچھ عرصے بعد ایک نیا حادثہ پرانے حادثے پر مٹی ڈال دیتا ہے اور پھر سے وہی بیانات، تسلیاں، چند روز میڈیا کی پھرتیاں اور پھر حکومت کی بے حسی شروع ہو جاتی ہے۔
کراچی میں ماضی میں ہونے والے بڑے حادثات اور ان کے نتیجے میں قیمتی جانوں کے خاتمے سے بھی متعلقہ اداروں نے کچھ نہیں سیکھا۔ قیام پاکستان کے ابتدائی وقت تک کراچی ایشیا کا صاف ستھرا ترین اور خوشحال شہر کہلاتا تھا، جس کی سڑکیں روز دھلا کرتی تھیں کیونکہ ادارے فعال تھے، افسر اور ملازمین فرض شناس۔ کراچی کی گمشدہ اربن میراث و متاع کی تلاش اس کے بگڑے ہوئے بلدیاتی، شہری اور بیوروکریسی کے فرسودہ اور غیر انسانی سسٹم میں شروع کی جانی چاہیے، اس شہر کے اون نہ کرنے کے ظالمانہ رویے سے اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔
مسئلہ کراچی کی فزیکل پلاننگ کا ہے، اس کے اربن پھیلاؤ، اقتصادی جہت، کچی آبادیوں کے قیام، جرائم کی لرزہ خیز صورتحال، بنیادی انفرا اسٹرکچر کی ترقی سے عدم تعلقی یہ سارے عناصر ملکر کراچی کی بد صورتی کی اس لیے تعمیر کرتے رہے کہ اسٹیک ہولڈرز کو شہر کو اون کرنے کی کوئی فرصت نہیں ملتی، سب ''باون گزے'' ہیں۔
اگر کراچی کی ترقی کے مسئلہ اور شہری سہولتوں کے فقدان کا معاملہ سامنے رکھا جائے تو ایک مکمل سیاسی پولرائزیشن اور افراتفری نظر آتی ہے جب کہ شہر کی افسوسناک صورتحال اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ سندھ حکومت اپنے ماتحت سویلین اداروں اور مقامی حکومت کی کارگزاری اور احتساب کا میکنزم وضع کر سکتی ہے۔
پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، جماعت اسلامی، جے یو آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں شہر کو تباہی اور بربادی سے بچانے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، لیکن حقیقت تلخ سہی مگر بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ملتے کہ کوئی سیاسی جماعت کراچی کے مسائل کے حل کے لیے ایک دوسرے سے عملی تعاون کے لیے تیار نہیں ہوتی، سیاسی روش کا قومی معیار محاذ آرائی کشیدگی، تناؤ اور بلیم گیم سے آراستہ ہے۔
سیاستدان پوائنٹ اسکورنگ کے لیے تو دستیاب ہوتے ہیں مگر ٹھوس کاموں کی تکمیل کے لیے کوئی معاونت پر آمادہ نہیں، ایک عظیم شہر کی لاچاری اور بربادی میں اہم فیکٹر سیاسی رویوں میں عدم رواداری بھی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے دل لاہور میں بھی بلند بالا عمارتوں میں فائر سیفٹی فائٹنگ کے اقدامات نہیں ہیں، جس کے باعث وہاں بھی بلند بالا عمارتوں میں آتشزدگی واقعات معمول بن چکے ہیں۔ ان بلند بالا عمارتوں میں فائر سیفٹی فائٹنگ کا شعبہ اور اخراجی راستوں سمیت عمارتوں کی چھتوں پر سپرنکلر سسٹم نہیں لگائے گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بلند بالا رہائشی و کمرشل عمارتوں کی تعمیر کے موقعے پر متعلقہ سرکاری ادارے بلڈنگز لاز کی پابندی کیوں نہیں کراتے؟ ان سوالات کا جواب پنجاب کے وزیراعلیٰ اور پنجاب اسمبلی کو متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران سے پوچھنا چاہیے۔ بہرحال اگر آتشزدگی کے واقعات کی بات کی جائے تو ان کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں آگ پکڑنے والے کپڑوں کو غیر محفوظ طریقے سے اسٹورکرنا بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ کمرشل عمارتوں میں بجلی اور پلمبنگ کے نقائص کو شاذ ہی درست کیا جاتا ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید خراب ہوتے جاتے ہیں، چونکہ مالکان اور انتظامیہ کو صرف اور صرف زیادہ منافع کمانے کی فکر ہوتی ہے اس وجہ سے وہ لیکیج، بجلی کی تاروں میں ہونے والے اسپارک اور جن نالیوں سے بجلی کی تاریں گزرتی ہیں ان میں خرابیوں کے باوجود ملازمین کو کام جاری رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اکثر رہائشی اور کمرشل عمارتوں میں تو ضرورت کے مطابق بجلی کے کنکشن لینے کی توفیق بھی نہیں کی جاتی۔
اسی طرح کام کی جگہوں کا مقام اور ان کی بناوٹ بھی محفوظ انخلا کو یقینی نہیں بناتی۔ انخلا کے لیے ضرورت سے کم راستوں کی وجہ سے نہ صرف بھگدڑ مچ سکتی ہے بلکہ لوگ پھنس بھی سکتے ہیں۔ اسی طرح ہوا کا مناسب گزر نہ ہونے کی وجہ سے آگ سے بچ کر نکلنے والوں کا دم بھی گھٹ سکتا ہے۔ بڑے شہروں کے پْرہجوم علاقوں میں موجود گارمنٹ فیکٹریاں اور سلائی کڑھائی کی دکانیں اس حوالے سے خطرات کا شکار ہیں۔
جہاں جہاں بجلی کی تاروں کو گزارنے کے لیے پائپ، گیس کے پائپ یا سلینڈر، آگ پکڑنے والی اشیا یا تیل کے ڈپو موجود ہیں وہاں حفاظتی انتظامات ضرور ہونے چاہئیں۔ سب سے پہلے جو کام کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ پیداوار، فروخت اور اشیا کو اسٹورکرنے کی جگہوں کے بارے میں اعداد و شمار کو مزید بہتر بنایا جائے۔ ادارہ شماریات باقاعدگی سے سروے کرے جو اس اعداد و شمار کی بنیاد بن سکے۔ ان اعداد و شمار میں اضافے اور بہتری کے لیے ایک میونسپل منصوبہ بھی تیار کیا جاسکتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ کراچی، لاہور سمیت دیگرشہروں کو میں ایک شفاف شہری بلدیاتی، مقامی اور صوبائی انتظامیہ کا نظام فعال کیا جائے، جمہوری بصیرت، عمل کی طاقت اور امنگ ہی ہمیں تباہی سے بچا سکتی ہے۔