کیا سیاسی بحران ٹل سکے گا
سنجیدہ افراد حالات سے نالاں ہیں اور ان پر مایوسی کا عنصر بھی غالب ہے
ISLAMABAD:
کیا پاکستان کا سیاسی بحران ٹل سکے گا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو سیاسی و سماجی مجالس سمیت اہل دانش کی علمی و فکری نشستوں میں مباحث کا حصہ ہوتا ہے۔ لوگ اپنی اپنی علمی صلاحیتوں کی بنیاد پر تجزیہ و تبصرہ کرتے ہیں اور تجاویز سامنے رکھتے ہیں۔
کچھ تجاویز میں دلائل ہوتے ہیں اور کچھ میں خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سنجیدہ افراد حالات سے نالاں ہیں اور ان پر مایوسی کا عنصر بھی غالب ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ ہمارا سیاسی بحران بہتی کے بجائے اور زیادہ بگاڑ پیدا کر رہا ہے۔
اس وقت ملک میں مختلف طبقات جن میں سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی و فکری افراد شامل ہیں ایک بڑی سیاسی تقسیم کا شکار ہیں۔ یہ تقسیم کا جذباتیت پر مبنی سیاست یا شخصیت پرستی سے جڑی ہے۔
یہ تقسیم افراد کے ساتھ ساتھ اب ہمیں اداروں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے جو معاملہ کی سنگینی کو اور زیادہ اجاگر کرتی ہے۔ جب لوگ ایک خاص ایجنڈے کے اسیر ہوجائیں محاذ آرائی کی سیاست زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ ہی صورتحال اس وقت ملکی سیاست کی ہے جو عملی طور پر ''عمران خان کی مخالفت اور حمایت میں تقسیم '' ہوگئی ہے۔ ماضی میں یہ سیاست ہمیں بھٹو کی مخالفت اور ان کی حمایت میں نظر آتی تھی۔
عمران خان کی سیاست جسے پی ٹی آئی کے حامی مزاحمت کا نام دیتے ہیں، تین مطالبات کے گرد گھوم رہی ہے۔ اسمبلیاں تحلیل کی جائیں، نگران حکومت قائم کی جائے اور فوراً عام انتخابات کا اعلان کردیا جائے ۔جب کہ تیرہ جماعتوں پر مشتمل حکمران اتحاد بھی تین نقاط پر کھڑی ہے۔
اول عام انتخابات اگست 2023 میں کرانے کا فیصلہ، دوئم انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات کی منظوری، سوئم عمران خان کی احتجاجی تحریک کا مقابلہ کرنا۔ عمران خان سیاسی میدان میں ہیں۔ 25مئی کو ہونے والا عمران خان کا لانگ مارچ وہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا جو وہ چاہتے تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انھوں نے دھرنے کو ملتوی کرکے مزید حکومت کو اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے چھ دن دیے تھے جو مکمل ہوگئے ہیں۔
وہ اسلام آباد کی طرف دوبارہ مارچ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن احتجاجی مارچ سے قبل وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ حکومت کو پابند کرے کہ وہ ان کے اجتجاج میں تشدد، مار پیٹ، گرفتاریاں نہ کرے اور اسلام آباد کے داخلی و خارجی راستے بند نہ کرے جب کہ وفاقی وزیر داخلہ اور حکومت طے کرچکے ہیں کہ عمران خان کو کوئی سیاسی ریلیف نہ دیا جائے۔
مسلم لیگ ن اور ان کی اتحادیوں کی حکمت عملی سیاسی سے زیادہ انتظامی اور طاقت سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ ہی حکمت عملی ہمیں 25مئی کو بھی دیکھنے کو ملی تھی اوراب بھی اسی حکمت عملی کے تحت عمران خان سے نمٹا جائے گا۔ دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ دیتی ہے۔ کیا وہ ایسا فیصلہ کرسکتی ہے جو حکومت کے لیے کسی بڑی مشکل کا سبب بن جائے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی عمران خان اپنی مزاحمت کی بنیاد پر فوری انتخابات کے مطالبہ کو منواسکیں گے یا ان کو اگست2023 تک انتخابات کا انتظار کرنا ہوگا لیکن اس وقت مسئلہ فوری یا مقررہ وقت پر انتخابات کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کا ہے۔ یہ مسئلہ ریاستی مسئلہ ہے اور اس بحران کو حل کیے بغیر ہم نہ تو مضبوط ریاست بن سکیں گے اور نہ ہی یہاں کوئی مضبوط حکمرانی کا نظام قائم ہوسکے گا۔
ہماری عملی ضرورت ایک مضبوط حکومت ہے اورایسی حکومت جس کے پاس واضح اور شفاف مینڈیٹ ہو کیونکہ کمزور حکومت سے سیاسی و معاشی معجزے کی توقع رکھنا فضول ہے۔ اس وقت کے سیاسی حالات اور سیاسی تقسیم بتا رہی ہے کہ اگر نئے انتخابات فوری ہوں یا اگلے برس اس کے نتیجے میں کسی ایک جماعت کی مکمل بننے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کمزور بنیاد پر ہی چلے گا اوراس میں کسی بڑے معجزے کی توقع کم ہے۔
پاکستان کی حالیہ ضرورت ایک بڑے سیاسی، سماجی، انتظامی، قانونی اور معاشی روڈ میپ کی ہے۔ ایک ایسے روڈ میپ پر جس پر سب سیاسی فریقین کا اپنی ذاتیات پر مبنی سیاست سے باہر نکل کر ریاستی مفاد پر اعتماد یا اتفاق ہو۔ لیکن حالیہ سیاسی تقسیم اور نفرت، تعصب اور سیاسی دشمنی کی بنیاد پر چلنے والی سیاست میں سے مفاہمت کا عمل کیسے ہوگا اور کون اس ایجنڈے کو بنیاد بنا کر سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرے گا ۔
اس وقت ہمیں اپنی اصلاح کے لیے ایک بڑے پیمانے پر Structural Reforms and frame work درکار ہے اور اس کے لیے روایتی طرز کی حکمرانی اور فرسودہ خیالات پر مبنی حکمرانی کے انداز نہیں درکار۔ ہمیں بہت سے مسائل کا حل Out of Box درکار ہے اور اس کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہوں گے۔
اس وقت اصل مسئلہ حکمرانی اور ریاست سے جڑے نظام کی درستگی کے لیے ایک بڑے مکالمہ کا ہے۔ یہ مکالمہ ناگزیر ہوگیا ہے او راس کو یقینی بنانے کے لیے لیڈ سیاسی فریقین کو لینی ہوگی اور باقی فریقین اس مکالمہ کا حصہ بنیں اور ایک ایسا روڈ میپ سامنے لائیں جو کسی برسوں تک ہماری ضرورتوں کو پورا کرسکے۔
حکومت کسی کی بھی ہو یہ معاملات کسی ایک بڑے فریم ورک میں طے ہونے چاہیے کہ ہم کیسے نظام کو چلائیں گے اور جو فریم ورک ہوگا اس سے کسی بھی صورت انحراف نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کا اہل دانش کا طبقہ یا رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے افراد یا ادارے شخصیات یا جماعتی وابستگی سمیت اپنے ذاتی مفاد سے باہر نکلیں اور ایک ایسی بحث کو جنم دیں جو ملکی سیاست میں ایک متبادل عمل کی سیاست کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو۔
ہمارا موجودہ روایتی نظام اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور اس سے امید لگا کر یہ توقع کرنا یہ نظام واقعی حقیقی تبدیلی کی جانب بڑھ سکے گا۔ ہمارا مجموعی سیاسی نظام جن میں سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت، اسٹیبلیشمنٹ، انتظامیہ اور ادارہ جاتی عمل سے جڑے معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک نئی سیاسی جہت کی ضرورت ہے جہاں سب فریقین اپنے سیاسی، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں رہ کر ایک مضبوط ریاست اور مضبوطی حکمرانی کے ایجنڈے کو یقینی بنائیں۔
کیا پاکستان کا سیاسی بحران ٹل سکے گا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو سیاسی و سماجی مجالس سمیت اہل دانش کی علمی و فکری نشستوں میں مباحث کا حصہ ہوتا ہے۔ لوگ اپنی اپنی علمی صلاحیتوں کی بنیاد پر تجزیہ و تبصرہ کرتے ہیں اور تجاویز سامنے رکھتے ہیں۔
کچھ تجاویز میں دلائل ہوتے ہیں اور کچھ میں خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ سنجیدہ افراد حالات سے نالاں ہیں اور ان پر مایوسی کا عنصر بھی غالب ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ ہمارا سیاسی بحران بہتی کے بجائے اور زیادہ بگاڑ پیدا کر رہا ہے۔
اس وقت ملک میں مختلف طبقات جن میں سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی و فکری افراد شامل ہیں ایک بڑی سیاسی تقسیم کا شکار ہیں۔ یہ تقسیم کا جذباتیت پر مبنی سیاست یا شخصیت پرستی سے جڑی ہے۔
یہ تقسیم افراد کے ساتھ ساتھ اب ہمیں اداروں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے جو معاملہ کی سنگینی کو اور زیادہ اجاگر کرتی ہے۔ جب لوگ ایک خاص ایجنڈے کے اسیر ہوجائیں محاذ آرائی کی سیاست زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ ہی صورتحال اس وقت ملکی سیاست کی ہے جو عملی طور پر ''عمران خان کی مخالفت اور حمایت میں تقسیم '' ہوگئی ہے۔ ماضی میں یہ سیاست ہمیں بھٹو کی مخالفت اور ان کی حمایت میں نظر آتی تھی۔
عمران خان کی سیاست جسے پی ٹی آئی کے حامی مزاحمت کا نام دیتے ہیں، تین مطالبات کے گرد گھوم رہی ہے۔ اسمبلیاں تحلیل کی جائیں، نگران حکومت قائم کی جائے اور فوراً عام انتخابات کا اعلان کردیا جائے ۔جب کہ تیرہ جماعتوں پر مشتمل حکمران اتحاد بھی تین نقاط پر کھڑی ہے۔
اول عام انتخابات اگست 2023 میں کرانے کا فیصلہ، دوئم انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات کی منظوری، سوئم عمران خان کی احتجاجی تحریک کا مقابلہ کرنا۔ عمران خان سیاسی میدان میں ہیں۔ 25مئی کو ہونے والا عمران خان کا لانگ مارچ وہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا جو وہ چاہتے تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انھوں نے دھرنے کو ملتوی کرکے مزید حکومت کو اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے چھ دن دیے تھے جو مکمل ہوگئے ہیں۔
وہ اسلام آباد کی طرف دوبارہ مارچ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن احتجاجی مارچ سے قبل وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ حکومت کو پابند کرے کہ وہ ان کے اجتجاج میں تشدد، مار پیٹ، گرفتاریاں نہ کرے اور اسلام آباد کے داخلی و خارجی راستے بند نہ کرے جب کہ وفاقی وزیر داخلہ اور حکومت طے کرچکے ہیں کہ عمران خان کو کوئی سیاسی ریلیف نہ دیا جائے۔
مسلم لیگ ن اور ان کی اتحادیوں کی حکمت عملی سیاسی سے زیادہ انتظامی اور طاقت سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ ہی حکمت عملی ہمیں 25مئی کو بھی دیکھنے کو ملی تھی اوراب بھی اسی حکمت عملی کے تحت عمران خان سے نمٹا جائے گا۔ دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ دیتی ہے۔ کیا وہ ایسا فیصلہ کرسکتی ہے جو حکومت کے لیے کسی بڑی مشکل کا سبب بن جائے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی عمران خان اپنی مزاحمت کی بنیاد پر فوری انتخابات کے مطالبہ کو منواسکیں گے یا ان کو اگست2023 تک انتخابات کا انتظار کرنا ہوگا لیکن اس وقت مسئلہ فوری یا مقررہ وقت پر انتخابات کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کا ہے۔ یہ مسئلہ ریاستی مسئلہ ہے اور اس بحران کو حل کیے بغیر ہم نہ تو مضبوط ریاست بن سکیں گے اور نہ ہی یہاں کوئی مضبوط حکمرانی کا نظام قائم ہوسکے گا۔
ہماری عملی ضرورت ایک مضبوط حکومت ہے اورایسی حکومت جس کے پاس واضح اور شفاف مینڈیٹ ہو کیونکہ کمزور حکومت سے سیاسی و معاشی معجزے کی توقع رکھنا فضول ہے۔ اس وقت کے سیاسی حالات اور سیاسی تقسیم بتا رہی ہے کہ اگر نئے انتخابات فوری ہوں یا اگلے برس اس کے نتیجے میں کسی ایک جماعت کی مکمل بننے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ ہمارا سیاسی نظام کمزور بنیاد پر ہی چلے گا اوراس میں کسی بڑے معجزے کی توقع کم ہے۔
پاکستان کی حالیہ ضرورت ایک بڑے سیاسی، سماجی، انتظامی، قانونی اور معاشی روڈ میپ کی ہے۔ ایک ایسے روڈ میپ پر جس پر سب سیاسی فریقین کا اپنی ذاتیات پر مبنی سیاست سے باہر نکل کر ریاستی مفاد پر اعتماد یا اتفاق ہو۔ لیکن حالیہ سیاسی تقسیم اور نفرت، تعصب اور سیاسی دشمنی کی بنیاد پر چلنے والی سیاست میں سے مفاہمت کا عمل کیسے ہوگا اور کون اس ایجنڈے کو بنیاد بنا کر سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرے گا ۔
اس وقت ہمیں اپنی اصلاح کے لیے ایک بڑے پیمانے پر Structural Reforms and frame work درکار ہے اور اس کے لیے روایتی طرز کی حکمرانی اور فرسودہ خیالات پر مبنی حکمرانی کے انداز نہیں درکار۔ ہمیں بہت سے مسائل کا حل Out of Box درکار ہے اور اس کے لیے غیر معمولی اقدامات درکار ہوں گے۔
اس وقت اصل مسئلہ حکمرانی اور ریاست سے جڑے نظام کی درستگی کے لیے ایک بڑے مکالمہ کا ہے۔ یہ مکالمہ ناگزیر ہوگیا ہے او راس کو یقینی بنانے کے لیے لیڈ سیاسی فریقین کو لینی ہوگی اور باقی فریقین اس مکالمہ کا حصہ بنیں اور ایک ایسا روڈ میپ سامنے لائیں جو کسی برسوں تک ہماری ضرورتوں کو پورا کرسکے۔
حکومت کسی کی بھی ہو یہ معاملات کسی ایک بڑے فریم ورک میں طے ہونے چاہیے کہ ہم کیسے نظام کو چلائیں گے اور جو فریم ورک ہوگا اس سے کسی بھی صورت انحراف نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کا اہل دانش کا طبقہ یا رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے افراد یا ادارے شخصیات یا جماعتی وابستگی سمیت اپنے ذاتی مفاد سے باہر نکلیں اور ایک ایسی بحث کو جنم دیں جو ملکی سیاست میں ایک متبادل عمل کی سیاست کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو۔
ہمارا موجودہ روایتی نظام اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور اس سے امید لگا کر یہ توقع کرنا یہ نظام واقعی حقیقی تبدیلی کی جانب بڑھ سکے گا۔ ہمارا مجموعی سیاسی نظام جن میں سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت، اسٹیبلیشمنٹ، انتظامیہ اور ادارہ جاتی عمل سے جڑے معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک نئی سیاسی جہت کی ضرورت ہے جہاں سب فریقین اپنے سیاسی، آئینی اور قانونی دائرہ کار میں رہ کر ایک مضبوط ریاست اور مضبوطی حکمرانی کے ایجنڈے کو یقینی بنائیں۔