پٹرول بم عوام ہی نشانہ کیوں حکمراں بھی تو قربانی دیں
حکمراں قوم کا خون مزید نچوڑنے کے بجائے کچھ نہ کچھ تو اپنا بھی حق ادا کریں، اپنی مراعات کی قربانی دیں
کراچی:
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہلکا پھلکا اضافہ ہونے پر جب کسی چینل یا اخبار میں لفظ ''بم'' استعمال ہوتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے ایڈیٹر مبالغہ آرائی سے کام لے رہا۔ مگراب جبکہ پٹرول نے ڈبل سنچری بھی عبور کرکے عوام کے چھکے چھڑا دیے ہیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ''حکومت نے واقعی پٹرول بم گرادیا ہے''۔
اس بم میں غریب کی امیدوں کا قتل ہوا ہے اور درمیانے طبقے کے عوام بھی چیخ اٹھے ہیں۔ گاڑی والا موٹر سائیکل پر، موٹرسائیکل سوار، سائیکل لینے لگا اور پیدل گھر بیٹھنے کا سوچ رہا ہے۔ بہرحال جب تک جسم و جاں کا تعلق قائم ہے، پیٹ کی آگ بجھانے کےلیے، مہنگائی کی آگ پر خون پسینے کے چھڑکاؤ کےلیے کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں تو مارنا پڑتے ہیں اور جہاں تک ہمت ہوئی عوام مارتے رہیں گے۔ مگر چند سوال اقتدار کے مزے لوٹنے والے سابق حکمرانوں اور برسراقتدار پارٹیوں کے امیر رہنماؤں سے ضرور کرنا پڑیں گے۔
مانا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت یہ چھری عوام کی گردن پر چلانا ضروری تھی۔ بقول آپ کے آپ عوام کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں اور یہ مشکل فیصلے ان ہی کےلیے کررہے ہیں۔ عوامی خدمت آپ کی پالیسی اور جینا مرنا پاکستان میں ہے۔ اتنا ہی درد لے کر اگر آپ کرسی اقتدار پر جلوہ فگن ہوچکے ہیں تو پھر اس ہجوم کا ہی مزید خون نچوڑنے کے بجائے کچھ نہ کچھ تو اپنا بھی حق ادا کیجئے۔ اگر آپ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو آئیے بسم اللہ کیجیے، عوام سے نہیں بلکہ اپنی ذات سے۔ یہ شروعات آپ خود کریں گے تو بڑے صنعتکار، فیکٹری مالکان، امیر طبقہ بھی آپ کی تقلید ضرور کرے گا۔ لیکن چونکہ نعرے اور دعوے آپ کے ہیں، آپ لیڈر بنتے ہیں تو پھر حق بھی آپ ہی کو پہلے ادا کرنا ہوگا۔
سب سے پہلے تمام ارکان اسمبلی حکومتی خزانے سے ملنے والی تنخواہ رضاکارانہ طور پر لینے سے انکار کردیں۔ بطور ارکان اسمبلی حکومتی خزانے سے ملنے والی تمام قسم کی مراعات سے معذرت کرلیں۔ سیکیورٹی کے نام پر پروٹوکول نہ لیں اور سیکیورٹی اداروں کو اہلکار واپس کرکے ذاتی سیکیورٹی کا بندوبست کریں۔ قومی وصوبائی اسمبلیوں، سینیٹ کے اجلاس اور دیگر اجلاسوں میں شرکت ضرور کریں مگر حکومت سے ایک روپیہ بھی خرچ نہ کرائیں۔ غیرضروری بیرونی دورے، جنہیں حکومتی خزانے سے کرنا پڑے، بالکل ترک کردیں اور جہاں جانا ضروری ہو مختصر وفد تشکیل دے کر فرض پورا کریں۔ سرکاری دفاتر میں اے سی کا استعمال بند کردیں اور ذاتی تشہیر کےلیے اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر پیسے کا ضیاع بند کردیں۔
پٹرول بم گرانے کے بعد جو مفتاح اسماعیل فرما رہے تھے کہ وہ ابھی بھی 8 روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ یہ سبسڈی بھی رہنے دیجئے اور پٹرول مزید مہنگا کرلیجئے، مگر خدارا اگر عوام کا واقعی درد ہے تو ذاتی خرچے حکومتی خزانے سے فوری بند کردیں۔
تحریک انصاف، مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام، ق لیگ سمیت تمام جماعتوں کے رہنما اپنے اپنے علاقوں میں مفت دسترخوان لگائیں۔ گھروں میں راشن پہنچائیں۔ پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز مالکان اپنی اپنی سوسائٹیز میں کم آمدن افراد کے اخراجات اٹھائیں۔ پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان بچوں کی فیسیں آدھی کردیں اور پرائیویٹ اسپتال علاج کے اخراجات میں پچاس فیصد رعایت دینا شروع کردیں۔ مزید یہ بھی کرسکتے ہیں اعلیٰ سرکاری افسران اپنی تنخواہ کو رضاکارانہ طور پر مہنگائی کم ہونے تک کٹ لگوائیں۔
نعروں کو حقیقت میں بدلیے اور حقیقی تبدیلی کےلیے تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے کیجئے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے جو کہ ایک خواب ہی ہے تو پھر ہمیں بھی یقین آجائے گا کہ آپ واقعی عوام کی تکلیف کو سمجھتے ہیں اور ان کےلیے عملی طور پر کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ ورنہ تو پھر وسعت اللہ خان سے منسوب ایک ٹویٹ ہی سب منظر کو واضح کررہی ہے کہ
''عام آدمی اشرافیہ کی گدھا سواری ہے، جس کے ماتھے پر سنہری مستقبل کی گاجر ایسے لٹکائی گئی ہے کہ گدھا یہی سمجھتا رہے کہ بس اب دانتوں کی گرفت میں آئی کہ تب آئی۔ یہ گدھا صدیوں سے اسی گاجر کی توقع پر بھاگے چلا جارہا ہے اور سوار بھی نسل در نسل وہی ہے۔''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہلکا پھلکا اضافہ ہونے پر جب کسی چینل یا اخبار میں لفظ ''بم'' استعمال ہوتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے ایڈیٹر مبالغہ آرائی سے کام لے رہا۔ مگراب جبکہ پٹرول نے ڈبل سنچری بھی عبور کرکے عوام کے چھکے چھڑا دیے ہیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ''حکومت نے واقعی پٹرول بم گرادیا ہے''۔
اس بم میں غریب کی امیدوں کا قتل ہوا ہے اور درمیانے طبقے کے عوام بھی چیخ اٹھے ہیں۔ گاڑی والا موٹر سائیکل پر، موٹرسائیکل سوار، سائیکل لینے لگا اور پیدل گھر بیٹھنے کا سوچ رہا ہے۔ بہرحال جب تک جسم و جاں کا تعلق قائم ہے، پیٹ کی آگ بجھانے کےلیے، مہنگائی کی آگ پر خون پسینے کے چھڑکاؤ کےلیے کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں تو مارنا پڑتے ہیں اور جہاں تک ہمت ہوئی عوام مارتے رہیں گے۔ مگر چند سوال اقتدار کے مزے لوٹنے والے سابق حکمرانوں اور برسراقتدار پارٹیوں کے امیر رہنماؤں سے ضرور کرنا پڑیں گے۔
مانا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت یہ چھری عوام کی گردن پر چلانا ضروری تھی۔ بقول آپ کے آپ عوام کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں اور یہ مشکل فیصلے ان ہی کےلیے کررہے ہیں۔ عوامی خدمت آپ کی پالیسی اور جینا مرنا پاکستان میں ہے۔ اتنا ہی درد لے کر اگر آپ کرسی اقتدار پر جلوہ فگن ہوچکے ہیں تو پھر اس ہجوم کا ہی مزید خون نچوڑنے کے بجائے کچھ نہ کچھ تو اپنا بھی حق ادا کیجئے۔ اگر آپ واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو آئیے بسم اللہ کیجیے، عوام سے نہیں بلکہ اپنی ذات سے۔ یہ شروعات آپ خود کریں گے تو بڑے صنعتکار، فیکٹری مالکان، امیر طبقہ بھی آپ کی تقلید ضرور کرے گا۔ لیکن چونکہ نعرے اور دعوے آپ کے ہیں، آپ لیڈر بنتے ہیں تو پھر حق بھی آپ ہی کو پہلے ادا کرنا ہوگا۔
سب سے پہلے تمام ارکان اسمبلی حکومتی خزانے سے ملنے والی تنخواہ رضاکارانہ طور پر لینے سے انکار کردیں۔ بطور ارکان اسمبلی حکومتی خزانے سے ملنے والی تمام قسم کی مراعات سے معذرت کرلیں۔ سیکیورٹی کے نام پر پروٹوکول نہ لیں اور سیکیورٹی اداروں کو اہلکار واپس کرکے ذاتی سیکیورٹی کا بندوبست کریں۔ قومی وصوبائی اسمبلیوں، سینیٹ کے اجلاس اور دیگر اجلاسوں میں شرکت ضرور کریں مگر حکومت سے ایک روپیہ بھی خرچ نہ کرائیں۔ غیرضروری بیرونی دورے، جنہیں حکومتی خزانے سے کرنا پڑے، بالکل ترک کردیں اور جہاں جانا ضروری ہو مختصر وفد تشکیل دے کر فرض پورا کریں۔ سرکاری دفاتر میں اے سی کا استعمال بند کردیں اور ذاتی تشہیر کےلیے اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر پیسے کا ضیاع بند کردیں۔
پٹرول بم گرانے کے بعد جو مفتاح اسماعیل فرما رہے تھے کہ وہ ابھی بھی 8 روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ یہ سبسڈی بھی رہنے دیجئے اور پٹرول مزید مہنگا کرلیجئے، مگر خدارا اگر عوام کا واقعی درد ہے تو ذاتی خرچے حکومتی خزانے سے فوری بند کردیں۔
تحریک انصاف، مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام، ق لیگ سمیت تمام جماعتوں کے رہنما اپنے اپنے علاقوں میں مفت دسترخوان لگائیں۔ گھروں میں راشن پہنچائیں۔ پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز مالکان اپنی اپنی سوسائٹیز میں کم آمدن افراد کے اخراجات اٹھائیں۔ پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان بچوں کی فیسیں آدھی کردیں اور پرائیویٹ اسپتال علاج کے اخراجات میں پچاس فیصد رعایت دینا شروع کردیں۔ مزید یہ بھی کرسکتے ہیں اعلیٰ سرکاری افسران اپنی تنخواہ کو رضاکارانہ طور پر مہنگائی کم ہونے تک کٹ لگوائیں۔
نعروں کو حقیقت میں بدلیے اور حقیقی تبدیلی کےلیے تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے کیجئے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے جو کہ ایک خواب ہی ہے تو پھر ہمیں بھی یقین آجائے گا کہ آپ واقعی عوام کی تکلیف کو سمجھتے ہیں اور ان کےلیے عملی طور پر کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ ورنہ تو پھر وسعت اللہ خان سے منسوب ایک ٹویٹ ہی سب منظر کو واضح کررہی ہے کہ
''عام آدمی اشرافیہ کی گدھا سواری ہے، جس کے ماتھے پر سنہری مستقبل کی گاجر ایسے لٹکائی گئی ہے کہ گدھا یہی سمجھتا رہے کہ بس اب دانتوں کی گرفت میں آئی کہ تب آئی۔ یہ گدھا صدیوں سے اسی گاجر کی توقع پر بھاگے چلا جارہا ہے اور سوار بھی نسل در نسل وہی ہے۔''
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔