صرف ڈیڑھ گھنٹے میں ہمارا انسان بن جانا معجزہ یا کچھ اور
ہم پاکستانیوں کے بھی کیا کہنے مملکت خداد پاکستان میں رہتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہمارے باپ دادا کا ملک ہے جو...
ہم پاکستانیوں کے بھی کیا کہنے مملکت خداد پاکستان میں رہتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہمارے باپ دادا کا ملک ہے جو دل چاہیں کریں ہمیں کون روکنے والا جہاں دل چاہا کچرا پھینک دیا جہاں دل چاہا پان گٹکے تھو ک دیئے اگر کراچی کی سڑکوں کے سگنل پررکیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس روڈ پر ابھی کوئی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے یا کوئی جانورمرگیا ہو جس کا خون روڈ پرپڑا ہے لیکن غورسے دیکھنے پر پتہ لگتا ہے کہ یہ تو کسی پنواڑی کے منہ سے تھوکی ہوئی پان کی پچکاری یا گٹکا کھانے والے کسی مرد آہن کے منہ کا مواد ہے اورتو اور بس سے منہ نکال کر ایسے پچکاری مارتے ہیں کہ فضا میں لہراتی ہوئی کسی موٹرسائیکل چلانے والے کے منہ یا کپڑے پر ایسے آکر گرتی ہے کہ بے چارہ تو صرف مغلظات بکتا رہ جاتا ہے۔
آئیے اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لوگوں کی دوسری خصوصیات کی جانب جو شہروں کی اہم شاہراہوں کو کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پراحتجاج کے نام ایسے بلاک کرتے ہیں کہ لگتا ہے انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے حکم دیا گیا ہو کہ اس روڈ کو بلاک کردو۔
دنیا میں کہیں بھی مسلمان یا اسلام مخالف کوئی بھی واقعہ پیش آجائے تو مظاہروں کے نام پر کچھ اس طرح کرتے ہیں ہیں کہ اس شاہراہ پر واقع نہ تو کوئی دکان بجتی ہے اورنہ کوئی بینک، ان دکانوں اوربینکوں کو اس بری طرح جلاتے یا لوٹتے ہیں کہ کہ اس وقت پاکستانی کیا اپنے انسان ہونے پر بھی شرم آنے لگتی ہے۔
آئیے ایک اورہماری خصوصیت کی طرف جس کا مظاہرہ ہمیں اپنے محلے اوراطراف میں اکثردیکھنے کو ملتا ہے، اپنے گھروں کا کچرا باہر تو ایسے پھینکتے ہیں کہ جیسے شہری اداروں کی جانب سے حکم دیا گیا ہو کہ اپنا کچرا اسی روڈ پر پھینکے۔
اوربھی ہمارے اندر ایسی تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن کیا کہنے ہم پاکستانیوں کے صرف ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ہی ہم ایسے مہذب شہری بن جاتے ہیں کہ جیسے ہمارا ان عظیم حرکتوں سے دوردور کا واسطہ نہیں، ذرا سوچیں کہ ہم ڈیڑھ گھنٹے بعد انسان کیوں بن جاتے ہیں تو بات بہت معمولی سی ہے اگر ہمارے یہی پاکستانی بھائی ملازمت یا کسی بھی اورسلسلے سے دبئی پہنچ جاتے ہیں توپھر اخلاقی اورمعاشرتی تقاضے اس طرح پورا کرتے ہیں کہ یقین ہی نہیں آتا کہ یہ ہم ہی ہیں۔
تو میرا سوال ادھر صرف یہ ہے کہ دبئی پہنچ کر ہمارا انسان بن جانا ایک معجزہ ہے یا کچھ اورتو بھائی بات سیدھی ہے قانون۔
قانون تو اس مملکت خداد پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن ان پر نہ تو کوئی عمل کرانے والا ہے اورنہ ہم خود کرنے والے ہیں خیر ہماری عادتیں تو اتنی بگڑگئی ہیں کہ ہم وہاں پر بھی اس کی پاسداری نہ کریں تو ہمیں اس کی پاسداری کرانے پر جو چیز مجبور کرتی ہے وہ صرف قانون ہے۔ اورکسی بھی معاشرے یا ملک میں قانون پر عملدرآمد نہ ہو تو اس کا حال ہمارے جیسا ہی ہوتا ہے۔
آئیے اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لوگوں کی دوسری خصوصیات کی جانب جو شہروں کی اہم شاہراہوں کو کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پراحتجاج کے نام ایسے بلاک کرتے ہیں کہ لگتا ہے انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے حکم دیا گیا ہو کہ اس روڈ کو بلاک کردو۔
دنیا میں کہیں بھی مسلمان یا اسلام مخالف کوئی بھی واقعہ پیش آجائے تو مظاہروں کے نام پر کچھ اس طرح کرتے ہیں ہیں کہ اس شاہراہ پر واقع نہ تو کوئی دکان بجتی ہے اورنہ کوئی بینک، ان دکانوں اوربینکوں کو اس بری طرح جلاتے یا لوٹتے ہیں کہ کہ اس وقت پاکستانی کیا اپنے انسان ہونے پر بھی شرم آنے لگتی ہے۔
آئیے ایک اورہماری خصوصیت کی طرف جس کا مظاہرہ ہمیں اپنے محلے اوراطراف میں اکثردیکھنے کو ملتا ہے، اپنے گھروں کا کچرا باہر تو ایسے پھینکتے ہیں کہ جیسے شہری اداروں کی جانب سے حکم دیا گیا ہو کہ اپنا کچرا اسی روڈ پر پھینکے۔
اوربھی ہمارے اندر ایسی تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن کیا کہنے ہم پاکستانیوں کے صرف ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ہی ہم ایسے مہذب شہری بن جاتے ہیں کہ جیسے ہمارا ان عظیم حرکتوں سے دوردور کا واسطہ نہیں، ذرا سوچیں کہ ہم ڈیڑھ گھنٹے بعد انسان کیوں بن جاتے ہیں تو بات بہت معمولی سی ہے اگر ہمارے یہی پاکستانی بھائی ملازمت یا کسی بھی اورسلسلے سے دبئی پہنچ جاتے ہیں توپھر اخلاقی اورمعاشرتی تقاضے اس طرح پورا کرتے ہیں کہ یقین ہی نہیں آتا کہ یہ ہم ہی ہیں۔
تو میرا سوال ادھر صرف یہ ہے کہ دبئی پہنچ کر ہمارا انسان بن جانا ایک معجزہ ہے یا کچھ اورتو بھائی بات سیدھی ہے قانون۔
قانون تو اس مملکت خداد پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن ان پر نہ تو کوئی عمل کرانے والا ہے اورنہ ہم خود کرنے والے ہیں خیر ہماری عادتیں تو اتنی بگڑگئی ہیں کہ ہم وہاں پر بھی اس کی پاسداری نہ کریں تو ہمیں اس کی پاسداری کرانے پر جو چیز مجبور کرتی ہے وہ صرف قانون ہے۔ اورکسی بھی معاشرے یا ملک میں قانون پر عملدرآمد نہ ہو تو اس کا حال ہمارے جیسا ہی ہوتا ہے۔