ڈالر کا اُتار چڑھاؤ معیشت پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے
ہم ڈالر کے غلام بن چکے ہیں، عالمی قوتیں کیسے ’’ ٹریپ ‘‘ کرتی ہیں؟
ڈالر کے اُتار چڑ ھاؤ کے ساتھ پا کستانی معیشت بھی ہچکولے کھاتی رہتی ہے ، پوری قوم کی توجہ ڈالر کے اُتار چڑھاؤ پر مرکوز رہتی ہے، خواندہ و نیم خواندہ یا نا خواندہ افراد سب کو علم ہو چکا ہے کہ پا کستان کی معیشت ڈالر کے ساتھ بندھی ہوئی ہے،سب کو یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ ہم حقیقی خود مختاری سے ہا تھ دھو بیٹھے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم دیوالیہ ہو نے کے نزدیک پہنچ چکے ہیں، ٹیکسوں میں اضافہ کی وجہ سے مہنگائی کا گراف دن بدن اوپر جا رہا ہے۔ بظاہر تو اس بحران سے نکلنے کی کو ئی صورتحال دکھا ئی نہیں دے رہی، مستقبل کی ایک خوفناک تصویر منظر پر آ رہی ہے۔ پا کستان کی آبادی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ مسائل زیادہ اور وسائل کم سے کم ہو رہے ہیں۔ ایک آزاد ملک ہونے کے باوجود ہم ڈالر کے غلام بن چکے ہیں۔
قرض لے کر پا کستان کو خوشحال بنانے کا خواب
پا کستان آزادی کے فوراً بعد ہی اپنی حقیقی لیڈر شپ اور بیدار مغز اور زیرک راہنماؤں سے محروم ہو گیا تھا، قائد اعظم ؒ اور لیا قت علی خان کے بعد آ نے والے حکمران اُس بصیرت سے محروم تھے کہ جس کی اُس وقت اس نوزائیدہ ملک کو ضرورت تھی۔
سرمایہ دارانہ نظام نوزائیدہ اور ترقی پذیر ممالک کو اپنے خونی پنجوں میں جکڑنے کیلئے بالکل تیار تھا۔ 1952ء میں پاکستان پر صرف ایک ملین ڈالر قرضہ تھا، اس وقت پاکستان کو مزید قرض کی با لکل ضرورت نہیں تھی کیو نکہ عوام کی زندگی سادہ اور آسان تھی وہ تعیشات زندگی کے عادی نہیں ہوئے تھے۔
ملک میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی بہتات نہ تھی، شہر اس بّری طرح نہیں پھیلے تھے، آمدورفت کیلئے پبلک ٹر انسپورٹ یعنی بسیں وغیرہ استعمال ہوتی تھیں۔ ویگنیں وغیرہ بھی نہیں ہوتی تھیں، ائرکنڈیشنڈ تو در کنار گھروں میں پنکھے بھی کم ہوتے تھے۔
ادھر سر مایہ دار انہ نظام کے سرخیل یہودی اپنے سّودی معاشی اور اقتصادی نظام کے ذریعے پوری دنیا کو اپنے تسلط اور گرفت میں دیکھنا چاہتے تھے، امریکہ ان کا مرکز بن چکا تھا۔ برطانیہ پہلے ہی ان کا اہم پارٹنر بن چکا تھا۔جب کئی دوسرے یورپین ممالک کو بھی سر مایہ دارانہ نظام کے اس کھیل کی سمجھ آ ئی تو وہ بھی اس نظام کا حصہ بن گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی، دنیا کے بڑے حصے کو ڈالر کے ذریعے غلام بنانے کی منصوبہ بندی تیار تھی اور اب اس پر عملدرآ مد شروع ہو چکا تھا۔
دوسرے نوزائیدہ اور ترقی پذیر ممالک کی مانند پا کستان کو بھی اس نظام کے ذریعے غلام بنانے کی تیاری مکمل تھی۔ 1958ء میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ملک کے سر براہ بن گئے۔ امریکہ نے ان کے ساتھ روابط کو مضبوط کرنا شروع کر دیا۔ صدر ایوب خان جب امریکہ گئے تو انکا ایسا پُرتپاک استقبال کیا گیا کہ جس کا آ ج کل تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی صدر بھی جب دورِہ پاکستان پر آ ئے تو انھوں نے پاکستانی عوام کے ساتھ خاص یکجہتی کا ثبوت دیا اور جہاں موقع مِلا عوام میں گھل مل گئے۔ اس دوران تعلقات کی آڑ میں انھوں نے پا کستانی حکومت کو ''اُ کسانا '' شروع کردیا کہ وہ قرض لیکر اپنے ملک اور عوام کی خوشحالی کیلئے کام کریں۔ برطانیہ کی معاونت سے منگلا ڈیم اور عالمی اداروں کی معاونت سے تربیلا ڈیم بنایا گیا، حکمرانوں کو آ سودہ اور پُرتعیش زندگی گزارنے کی ترغیب دی گئی۔
اوپر والی سطح پر زندگی میں تبدیلی آ نا شروع ہو گئی۔ قرض کے ڈالر سے تعیشات زندگی کی امپورٹ شروع ہو گئی۔ اوپر والوں کو دیکھ کر اُن سے نیچے والوں کے دلوں میں بھی آ سودہ زندگی بسر کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ چنانچہ ایک نیا کلچر پیدا ہو گیا ، اُس دور میں کچھ دانشوروں نے اس روش پر تنقید بھی کی اور کہا کہ ملکی معیشت کو غلام بنا نے کی سازش ہو رہی ہے۔ کچھ بیدار مغز صحافیوں نے بھی احتجاج کیا۔
مگر عوام کی اکژیت نے اس قرض کو پاکستان کی خوشحالی قرار دیا، آ ج تک ایوب خان کا دور یاد کیا جاتا ہے، مگر شائد کچھ خاص وجوہات کی بِنا پر یہ اعدادو شمار پیش نہیں کئے جاتے کہ جب صدر ایوب نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان پر کِتنا قرضہ تھا اور جب انھیں اقتدار سے اُ تارا گیا تو اس وقت کِتنا قرضہ تھا؟ کِتنا ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوا؟ کِتنا ضائع ہوا؟ کِتنا 1965ء کی جنگ میں خرچ کیا گیا؟ قرض کی واپسی کی مدت کیا تھی؟۔ اب یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر جس مصلحت کا اب مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اُس دور میں اس مصلحت کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا گیا؟ ۔ کشمیر تو آ ج بھی پاکستان کی شہ رگ ہے۔
حالات میں تیزی سے تبدیلی آتی چلی گئی،سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آ گئی۔ انھوں نے جہاں بہت سارے انقلابی اقدامات کئے وہاں یہ بھی قدم اٹھایا کہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی مزدورں کو خلیجی ممالک اور دوسرے ممالک میں مزدوری کیلئے بھجوا دیا۔خلیجی ممالک نئے نئے تیل کی دولت سے مالامال ہوئے تھے۔ ترقی یا فتہ ممالک اُ ن سے تیل خرید کر جو زرمبادلہ انھیں دیتے، سائنس کی جدید ایجادات اُن ممالک میں فروخت کرکے سر مایہ واپس ہتھیا لیتے۔ چنانچہ تیل پیدا کرنے والے اِن ممالک میں جدید ٹیکنالوجی کی بہتات ہو گئی۔
پاکستانی مزدور بھی جب چھٹیوں میں پاکستان آتے تو انکے سا مان میں وی سی آر، ٹیپ ریکاڈر، اے سی اور الیکٹرونک کا بیشمار سامان ساتھ ہوتا۔ پاکستانی مزدورں نے وطن میں اپنے گھر بھی بنائے، گاڑیاں بھی خریدیں، انکے خاندانوں کا معیار ِ زندگی بھی بلند ہونے لگا، ملک میں ''دبئی کلچر'' پیدا ہو گیا ۔
معا شرہ تقسیم ہونا شروع ہو گیا، طبقاتی تفریق میں اضافہ ہونے لگا، چونکہ دیار غیر میں کا م کرنے والے مزدور عام گلی محلوں سے اٹھ کر باہر کے ممالک میں گئے تھے، اس لئے پورے ملک میں دیارغیر میں کام کرنے والے افراد اور مقا می مزدوروں کے گھروں کے ماحول میں واضح فرق نظر آنے لگا۔ کرپشن میں اضافہ ہو نے لگا، عام لوگ بھی الیکٹرونکس اشیاء اور گاڑیاں خریدنے کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔
زرمبادلہ کے ذخائر امپورٹ پر خرچ ہونے لگے۔ ڈالر کی قیمت چار روپے سے جو بڑھنا شروع ہوئی تو وہ آج تک بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ جسکی وجہ سے امپورٹڈ اشیاء کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، افراط زر میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔
جدید سہولتوں سے استفادہ اور بلند معیار زندگی ؟
ذوالفقار علی بھٹوایک زیرک سیا ستدان تھے، اُ نکا ویژن بہت وسیع تھا، ویسے بھی اُس زمانے میں انتخابی سیاست کی بجائے نظریاتی سیاست کا چلن تھا، مگر بہت سارے معاملات کا انھوں نے اُ س باریک بینی سے جائزہ نہیں لیا کہ جو انتہائی قابل توجہ تھے، اوّل یہ کہ دیارغیر میں کام کرنے والے جب اپنے ملک میں باہر کا کمایا ہوا پیسہ لائیں گے تو اسکے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ کیا معاشرہ تقسیم در تقسیم تو نہیں ہو گاَ؟ مقا می افراد انکے برابر کھڑے ہونے کیلئے اپنی آ مدنی میں کیسے اضافہ کریں گے؟ سر کاری اور نجی ملازمین اپنی محدود تنخواہو ں میں سے اپنا معیار زندگی کیسے بلند کریں گے؟
اُن جدید سہولتوں سے کیسے فائدہ اٹھائیں گے، جن سے دیار غیر میں کام کرنے والے مستفید ہو رہے ہیں؟ اسکا نتیجہ یہ نِکلا کہ روپے پیسے کی دوڑ شروع ہو گئی، اور ہر فرد نے بھی اپنا معیار زندگی بلند کرنے کے جتن شروع کر دئیے۔ اس دوڑ میں باہر کے ممالک کی الیکٹرونک مصنوعات کی امپورٹ میں حد درجہ اضافہ ہوتا گیا ، لوگوں کی زندگی کا مقصد ہی یہ بن گیا کہ اپنا اچھا اور بڑ ا گھر بنایا جائے، اس میں تمام جدید سہولیات موجود ہوں، مہنگی ترین گاڑیاں ر کھی جائیں، اس دور میں جو دوڑ شروع ہوئی اس میں شِدت ہی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔
دراصل بھٹو جیسی کرشماتی شخصیت بھی مستقبل میں ہونے والے اثرات کا اندازہ نہ لگا سکی، انکی معاشی ٹیم بھی قابل افراد پر مشتمل تھی۔ لوگوں کو معیار زندگی بڑ ھانے کے ساتھ اپنے ملک کی آمدنی بڑھانے کی شدید ضرورت تھی جس کو بُری طرح نظرانداز کیا گیا۔
ہر ملک کو اپنا مفاد عزیز ہے
اس وقت ہر ملک کی کوشش ہے کہ وہ اپنی مقامی مصنوعات باہر کے ممالک میں فروخت کر کے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کما سکیں تاکہ اُ نکی اپنی عوام خوشحال اور آ سودہ زندگی بسر کر سکے ، اس مقصد کیلئے وہ اپنا فو کس اُن ممالک میں رکھتے ہیں جو اپنی ضروریات کی چیزیں مقا می ڈ یمانڈ کے مطا بق پیدا کرنے سے قا صر ہیں۔ چنا نچہ یہ ممالک ایسے پسماندہ ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں خصوصاً زیادہ آ بادی والے ممالک کو، پاکستان 22کروڑ کی مارکیٹ ہے اور بھارت ایک ارب سے زائد کی مارکیٹ ہے ۔ اس وقت ترقی یا فتہ ممالک بھارت کو ہی تر جیح دیتے ہیں کیو نکہ وہ انکی مصنو عات کا سب سے بڑا گا ہک ہے ۔ دیار غیر میں کام کر نے والے بھارتی شہری بھی خاصی کم اجّرت وصول کرتے ہیں۔
آ ئی ٹی اور کئی شعبوں میں وہ مہارت بھی رکھتے ہیں ۔ وہ خاصا زر مبادلہ اپنے ملک میں بھیجتے ہیں ۔ انکی کر نسی ڈالر کے مقابلے میں پاکستان کی بہ نسبت زیادہ بہتر ہے ۔ ڈالر کے اتار چڑ ھاؤ سے بھارتی کی معیشت زیادہ دباؤ کا شکار نہیں ہوتی ۔ پا کستان کو دوسرے ممالک سے تعلقات بڑ ھاتے ہوئے سب سے پہلے اپنا مفاد مد نظر رکھنا چاہیے ۔ جن ممالک سے تجارت کی جائے وہاں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ تجارت میں توازن قا ئم رہے ،نہ کہ ہم رہا سہا زر مبادلہ بھی اُن ممالک کی مصنوعات خرید نے پر خرچ کر دیں۔
ڈالر کی غلامی سے کیسے نِکلا جا سکتا ہے ؟
اگر تمام عوامل کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آ تی ہے کہ پورے منظم طر یقے کے ساتھ ڈالر کو بین الاقوامی کرنسی بنا کر ڈالر کی اجارہ داری قا ئم کی گئی ہے، ساری اہمیت ہی ڈالر کی ہے، معیشت کا انحصار بھی ڈالر پر ہے، اس وقت اس امّر کی اشد ضرورت ہے کہ درآمد کم از کم سطح پر لائی جائے، بلکہ اِ تنی کم کی جائے کہ '' امپورٹ '' کا بل خاصا کم بنے، ایسی پالیسیاں متعارف کروا ئی جائیں کہ پٹرول بھی کم از کم درآمد کرنا پڑ ے۔ لگژری گا ڑیوں اور سامان تعیشات پر فوری طور پر پا بندی لگائی جائے۔
ایکسپورٹ میں اضافہ کیا جائے۔ تجارتی توازن قا ئم کرنے کی کوشش کی جائے۔ تارکین وطن سے وصول ہو نے والا زرمبادلہ قرضوں اور سُود کی ادائیگی پر خرچ کیا جائے۔ تجارتی توازن پیدا کر نے کیلئے حکومتی ریاستی اور عوامی سطح پر ہم آہنگی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کو تعمیرات کے شعبے کی سرپرستی کرنے کی بجائے برآمدات کے شعبے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور برآمد کنندگان کو خصو صی مراعات دینی چاہیے!!!
اسلام کے معا شی نظام کو سمجھنا ضروری ہے
دین اسلام سے پہلے عرب معا شرہ بِکھرا ہوا تھا، اجتماعیت کا تصور مقصود ہو چکا تھا، ہر شخص انفرادی زندگی گذار رہا تھا ، معاشرہ ایک دوسرے کا ساتھ جڑا ہوانہیں تھا۔ اُس وقت عربوں کا کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ معاشی نظام قا ئم نہیں تھا۔
اُس وقت ایران اور روم ترقی یافتہ اور مہذب معا شرے سمجھے جاتے تھے، مگر انکا بھی کوئی با قا عدہ معاشی اور اقتصادی نظام موجود نہیں تھا، البتہ حیران کُن بات یہ ہے کہ یہودی تعداد میں اگرچہ بہت ہی کم تھے، مگر انکا ایک باقاعدہ، منظم اور مربوط معاشی نظام موجود تھا، وہ اپنی آ مدنی کا کافی حصہ بچا کر رکھتے، اور اپنی رقومات سوّد پر بطور قرض دیتے تھے۔
بعد میں وہ یہ رقم سوّد در سوّد وصول کرتے، جو لوگ رقم ادا نہ کر پاتے، انھیں یہودیوں کی ہر ناجائز شرط ماننی پڑتی، چنانچہ دوسرے قبیلوں کے مقابلے میں یہودی خاصے امیر تھے اس لئے انکی کافی اہمیت تھی۔ انکے قلعوں میںبھی کا فی مال ودولت محفوظ تھی۔ جب خیبر کا قلعہ فتح کیا گیا تو وہاں سے خاصا مال غنیمت حاصل ہوا۔ یہ مال غنیمت اسلام کی مضبوطی کا باعث بنا۔ اللہ تعالیٰ نے شخصی اجارہ داریوں، ظلم و استحصال اور نا انصافی ختم کرنے کیلئے دنیا کا سب سے اعلیٰ اور ارفع معاشی و اقتصادی نظام دین اسلام کی شکل میں دیا، اس نظام کے ذریعے دولت جمع کرنا غلط قرار دیا گیا۔
اسلامی ریاست کے تمام خزانے اور بیت المال مسلمانوں کی امانت قرار دیا گیا، زکواۃ دین اسلام کا نماز کے بعد سب سے اہم رکن قرار دیا گیا، قرض کی ممانعت تو نہیں کی گئی مگر قرض حسنہ کو احسن قرار دیا گیا، ریاست ِمدینہ کے معا شی واقتصادی نظام پر نظر دوڑ ائی جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے، یہ نظام مسلم ریاستوں کیلئے رول ماڈل ہے کہ بیت المال سے تمام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیت المال کے خزانوں میں اضافہ ہوتا گیا، مسلم معاشرہ اپنے عروج کی جا نب گامزن ہو گیا، مگر موجودہ تمام اسلامی ریاستوں بشمول پاکستان نے مالک کائنات کا آفاقی معاشی واقتصادی پروگرام نظر انداز کرکے یہود و نصاریٰ کا معاشی واقتصادی نظام اپنا لیا ہے۔ دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ پا کستان کی تمام نمایاں یونیورسٹریز اور کالجز میں بھی اس نظام کی جدید اور اعلیٰ تعلیم دی جا رہی ہے، اور اِسی نظام کو مزید پروان چڑ ھا یا جا رہا ہے، اگر پاکستان اور دوسری اسلامی ریاستوں میں مالک کائنات اللہ تعالیٰ کے نظام کو ہی رائج کیا جاتا تو ڈالر کی غلامی سے بچا جا سکتا تھا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم دیوالیہ ہو نے کے نزدیک پہنچ چکے ہیں، ٹیکسوں میں اضافہ کی وجہ سے مہنگائی کا گراف دن بدن اوپر جا رہا ہے۔ بظاہر تو اس بحران سے نکلنے کی کو ئی صورتحال دکھا ئی نہیں دے رہی، مستقبل کی ایک خوفناک تصویر منظر پر آ رہی ہے۔ پا کستان کی آبادی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ مسائل زیادہ اور وسائل کم سے کم ہو رہے ہیں۔ ایک آزاد ملک ہونے کے باوجود ہم ڈالر کے غلام بن چکے ہیں۔
قرض لے کر پا کستان کو خوشحال بنانے کا خواب
پا کستان آزادی کے فوراً بعد ہی اپنی حقیقی لیڈر شپ اور بیدار مغز اور زیرک راہنماؤں سے محروم ہو گیا تھا، قائد اعظم ؒ اور لیا قت علی خان کے بعد آ نے والے حکمران اُس بصیرت سے محروم تھے کہ جس کی اُس وقت اس نوزائیدہ ملک کو ضرورت تھی۔
سرمایہ دارانہ نظام نوزائیدہ اور ترقی پذیر ممالک کو اپنے خونی پنجوں میں جکڑنے کیلئے بالکل تیار تھا۔ 1952ء میں پاکستان پر صرف ایک ملین ڈالر قرضہ تھا، اس وقت پاکستان کو مزید قرض کی با لکل ضرورت نہیں تھی کیو نکہ عوام کی زندگی سادہ اور آسان تھی وہ تعیشات زندگی کے عادی نہیں ہوئے تھے۔
ملک میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی بہتات نہ تھی، شہر اس بّری طرح نہیں پھیلے تھے، آمدورفت کیلئے پبلک ٹر انسپورٹ یعنی بسیں وغیرہ استعمال ہوتی تھیں۔ ویگنیں وغیرہ بھی نہیں ہوتی تھیں، ائرکنڈیشنڈ تو در کنار گھروں میں پنکھے بھی کم ہوتے تھے۔
ادھر سر مایہ دار انہ نظام کے سرخیل یہودی اپنے سّودی معاشی اور اقتصادی نظام کے ذریعے پوری دنیا کو اپنے تسلط اور گرفت میں دیکھنا چاہتے تھے، امریکہ ان کا مرکز بن چکا تھا۔ برطانیہ پہلے ہی ان کا اہم پارٹنر بن چکا تھا۔جب کئی دوسرے یورپین ممالک کو بھی سر مایہ دارانہ نظام کے اس کھیل کی سمجھ آ ئی تو وہ بھی اس نظام کا حصہ بن گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی، دنیا کے بڑے حصے کو ڈالر کے ذریعے غلام بنانے کی منصوبہ بندی تیار تھی اور اب اس پر عملدرآ مد شروع ہو چکا تھا۔
دوسرے نوزائیدہ اور ترقی پذیر ممالک کی مانند پا کستان کو بھی اس نظام کے ذریعے غلام بنانے کی تیاری مکمل تھی۔ 1958ء میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ملک کے سر براہ بن گئے۔ امریکہ نے ان کے ساتھ روابط کو مضبوط کرنا شروع کر دیا۔ صدر ایوب خان جب امریکہ گئے تو انکا ایسا پُرتپاک استقبال کیا گیا کہ جس کا آ ج کل تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی صدر بھی جب دورِہ پاکستان پر آ ئے تو انھوں نے پاکستانی عوام کے ساتھ خاص یکجہتی کا ثبوت دیا اور جہاں موقع مِلا عوام میں گھل مل گئے۔ اس دوران تعلقات کی آڑ میں انھوں نے پا کستانی حکومت کو ''اُ کسانا '' شروع کردیا کہ وہ قرض لیکر اپنے ملک اور عوام کی خوشحالی کیلئے کام کریں۔ برطانیہ کی معاونت سے منگلا ڈیم اور عالمی اداروں کی معاونت سے تربیلا ڈیم بنایا گیا، حکمرانوں کو آ سودہ اور پُرتعیش زندگی گزارنے کی ترغیب دی گئی۔
اوپر والی سطح پر زندگی میں تبدیلی آ نا شروع ہو گئی۔ قرض کے ڈالر سے تعیشات زندگی کی امپورٹ شروع ہو گئی۔ اوپر والوں کو دیکھ کر اُن سے نیچے والوں کے دلوں میں بھی آ سودہ زندگی بسر کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ چنانچہ ایک نیا کلچر پیدا ہو گیا ، اُس دور میں کچھ دانشوروں نے اس روش پر تنقید بھی کی اور کہا کہ ملکی معیشت کو غلام بنا نے کی سازش ہو رہی ہے۔ کچھ بیدار مغز صحافیوں نے بھی احتجاج کیا۔
مگر عوام کی اکژیت نے اس قرض کو پاکستان کی خوشحالی قرار دیا، آ ج تک ایوب خان کا دور یاد کیا جاتا ہے، مگر شائد کچھ خاص وجوہات کی بِنا پر یہ اعدادو شمار پیش نہیں کئے جاتے کہ جب صدر ایوب نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان پر کِتنا قرضہ تھا اور جب انھیں اقتدار سے اُ تارا گیا تو اس وقت کِتنا قرضہ تھا؟ کِتنا ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوا؟ کِتنا ضائع ہوا؟ کِتنا 1965ء کی جنگ میں خرچ کیا گیا؟ قرض کی واپسی کی مدت کیا تھی؟۔ اب یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر جس مصلحت کا اب مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اُس دور میں اس مصلحت کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا گیا؟ ۔ کشمیر تو آ ج بھی پاکستان کی شہ رگ ہے۔
حالات میں تیزی سے تبدیلی آتی چلی گئی،سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آ گئی۔ انھوں نے جہاں بہت سارے انقلابی اقدامات کئے وہاں یہ بھی قدم اٹھایا کہ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی مزدورں کو خلیجی ممالک اور دوسرے ممالک میں مزدوری کیلئے بھجوا دیا۔خلیجی ممالک نئے نئے تیل کی دولت سے مالامال ہوئے تھے۔ ترقی یا فتہ ممالک اُ ن سے تیل خرید کر جو زرمبادلہ انھیں دیتے، سائنس کی جدید ایجادات اُن ممالک میں فروخت کرکے سر مایہ واپس ہتھیا لیتے۔ چنانچہ تیل پیدا کرنے والے اِن ممالک میں جدید ٹیکنالوجی کی بہتات ہو گئی۔
پاکستانی مزدور بھی جب چھٹیوں میں پاکستان آتے تو انکے سا مان میں وی سی آر، ٹیپ ریکاڈر، اے سی اور الیکٹرونک کا بیشمار سامان ساتھ ہوتا۔ پاکستانی مزدورں نے وطن میں اپنے گھر بھی بنائے، گاڑیاں بھی خریدیں، انکے خاندانوں کا معیار ِ زندگی بھی بلند ہونے لگا، ملک میں ''دبئی کلچر'' پیدا ہو گیا ۔
معا شرہ تقسیم ہونا شروع ہو گیا، طبقاتی تفریق میں اضافہ ہونے لگا، چونکہ دیار غیر میں کا م کرنے والے مزدور عام گلی محلوں سے اٹھ کر باہر کے ممالک میں گئے تھے، اس لئے پورے ملک میں دیارغیر میں کام کرنے والے افراد اور مقا می مزدوروں کے گھروں کے ماحول میں واضح فرق نظر آنے لگا۔ کرپشن میں اضافہ ہو نے لگا، عام لوگ بھی الیکٹرونکس اشیاء اور گاڑیاں خریدنے کی دوڑ میں شامل ہو گئے۔
زرمبادلہ کے ذخائر امپورٹ پر خرچ ہونے لگے۔ ڈالر کی قیمت چار روپے سے جو بڑھنا شروع ہوئی تو وہ آج تک بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ جسکی وجہ سے امپورٹڈ اشیاء کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، افراط زر میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔
جدید سہولتوں سے استفادہ اور بلند معیار زندگی ؟
ذوالفقار علی بھٹوایک زیرک سیا ستدان تھے، اُ نکا ویژن بہت وسیع تھا، ویسے بھی اُس زمانے میں انتخابی سیاست کی بجائے نظریاتی سیاست کا چلن تھا، مگر بہت سارے معاملات کا انھوں نے اُ س باریک بینی سے جائزہ نہیں لیا کہ جو انتہائی قابل توجہ تھے، اوّل یہ کہ دیارغیر میں کام کرنے والے جب اپنے ملک میں باہر کا کمایا ہوا پیسہ لائیں گے تو اسکے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ کیا معاشرہ تقسیم در تقسیم تو نہیں ہو گاَ؟ مقا می افراد انکے برابر کھڑے ہونے کیلئے اپنی آ مدنی میں کیسے اضافہ کریں گے؟ سر کاری اور نجی ملازمین اپنی محدود تنخواہو ں میں سے اپنا معیار زندگی کیسے بلند کریں گے؟
اُن جدید سہولتوں سے کیسے فائدہ اٹھائیں گے، جن سے دیار غیر میں کام کرنے والے مستفید ہو رہے ہیں؟ اسکا نتیجہ یہ نِکلا کہ روپے پیسے کی دوڑ شروع ہو گئی، اور ہر فرد نے بھی اپنا معیار زندگی بلند کرنے کے جتن شروع کر دئیے۔ اس دوڑ میں باہر کے ممالک کی الیکٹرونک مصنوعات کی امپورٹ میں حد درجہ اضافہ ہوتا گیا ، لوگوں کی زندگی کا مقصد ہی یہ بن گیا کہ اپنا اچھا اور بڑ ا گھر بنایا جائے، اس میں تمام جدید سہولیات موجود ہوں، مہنگی ترین گاڑیاں ر کھی جائیں، اس دور میں جو دوڑ شروع ہوئی اس میں شِدت ہی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔
دراصل بھٹو جیسی کرشماتی شخصیت بھی مستقبل میں ہونے والے اثرات کا اندازہ نہ لگا سکی، انکی معاشی ٹیم بھی قابل افراد پر مشتمل تھی۔ لوگوں کو معیار زندگی بڑ ھانے کے ساتھ اپنے ملک کی آمدنی بڑھانے کی شدید ضرورت تھی جس کو بُری طرح نظرانداز کیا گیا۔
ہر ملک کو اپنا مفاد عزیز ہے
اس وقت ہر ملک کی کوشش ہے کہ وہ اپنی مقامی مصنوعات باہر کے ممالک میں فروخت کر کے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کما سکیں تاکہ اُ نکی اپنی عوام خوشحال اور آ سودہ زندگی بسر کر سکے ، اس مقصد کیلئے وہ اپنا فو کس اُن ممالک میں رکھتے ہیں جو اپنی ضروریات کی چیزیں مقا می ڈ یمانڈ کے مطا بق پیدا کرنے سے قا صر ہیں۔ چنا نچہ یہ ممالک ایسے پسماندہ ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں خصوصاً زیادہ آ بادی والے ممالک کو، پاکستان 22کروڑ کی مارکیٹ ہے اور بھارت ایک ارب سے زائد کی مارکیٹ ہے ۔ اس وقت ترقی یا فتہ ممالک بھارت کو ہی تر جیح دیتے ہیں کیو نکہ وہ انکی مصنو عات کا سب سے بڑا گا ہک ہے ۔ دیار غیر میں کام کر نے والے بھارتی شہری بھی خاصی کم اجّرت وصول کرتے ہیں۔
آ ئی ٹی اور کئی شعبوں میں وہ مہارت بھی رکھتے ہیں ۔ وہ خاصا زر مبادلہ اپنے ملک میں بھیجتے ہیں ۔ انکی کر نسی ڈالر کے مقابلے میں پاکستان کی بہ نسبت زیادہ بہتر ہے ۔ ڈالر کے اتار چڑ ھاؤ سے بھارتی کی معیشت زیادہ دباؤ کا شکار نہیں ہوتی ۔ پا کستان کو دوسرے ممالک سے تعلقات بڑ ھاتے ہوئے سب سے پہلے اپنا مفاد مد نظر رکھنا چاہیے ۔ جن ممالک سے تجارت کی جائے وہاں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ تجارت میں توازن قا ئم رہے ،نہ کہ ہم رہا سہا زر مبادلہ بھی اُن ممالک کی مصنوعات خرید نے پر خرچ کر دیں۔
ڈالر کی غلامی سے کیسے نِکلا جا سکتا ہے ؟
اگر تمام عوامل کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آ تی ہے کہ پورے منظم طر یقے کے ساتھ ڈالر کو بین الاقوامی کرنسی بنا کر ڈالر کی اجارہ داری قا ئم کی گئی ہے، ساری اہمیت ہی ڈالر کی ہے، معیشت کا انحصار بھی ڈالر پر ہے، اس وقت اس امّر کی اشد ضرورت ہے کہ درآمد کم از کم سطح پر لائی جائے، بلکہ اِ تنی کم کی جائے کہ '' امپورٹ '' کا بل خاصا کم بنے، ایسی پالیسیاں متعارف کروا ئی جائیں کہ پٹرول بھی کم از کم درآمد کرنا پڑ ے۔ لگژری گا ڑیوں اور سامان تعیشات پر فوری طور پر پا بندی لگائی جائے۔
ایکسپورٹ میں اضافہ کیا جائے۔ تجارتی توازن قا ئم کرنے کی کوشش کی جائے۔ تارکین وطن سے وصول ہو نے والا زرمبادلہ قرضوں اور سُود کی ادائیگی پر خرچ کیا جائے۔ تجارتی توازن پیدا کر نے کیلئے حکومتی ریاستی اور عوامی سطح پر ہم آہنگی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کو تعمیرات کے شعبے کی سرپرستی کرنے کی بجائے برآمدات کے شعبے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور برآمد کنندگان کو خصو صی مراعات دینی چاہیے!!!
اسلام کے معا شی نظام کو سمجھنا ضروری ہے
دین اسلام سے پہلے عرب معا شرہ بِکھرا ہوا تھا، اجتماعیت کا تصور مقصود ہو چکا تھا، ہر شخص انفرادی زندگی گذار رہا تھا ، معاشرہ ایک دوسرے کا ساتھ جڑا ہوانہیں تھا۔ اُس وقت عربوں کا کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ معاشی نظام قا ئم نہیں تھا۔
اُس وقت ایران اور روم ترقی یافتہ اور مہذب معا شرے سمجھے جاتے تھے، مگر انکا بھی کوئی با قا عدہ معاشی اور اقتصادی نظام موجود نہیں تھا، البتہ حیران کُن بات یہ ہے کہ یہودی تعداد میں اگرچہ بہت ہی کم تھے، مگر انکا ایک باقاعدہ، منظم اور مربوط معاشی نظام موجود تھا، وہ اپنی آ مدنی کا کافی حصہ بچا کر رکھتے، اور اپنی رقومات سوّد پر بطور قرض دیتے تھے۔
بعد میں وہ یہ رقم سوّد در سوّد وصول کرتے، جو لوگ رقم ادا نہ کر پاتے، انھیں یہودیوں کی ہر ناجائز شرط ماننی پڑتی، چنانچہ دوسرے قبیلوں کے مقابلے میں یہودی خاصے امیر تھے اس لئے انکی کافی اہمیت تھی۔ انکے قلعوں میںبھی کا فی مال ودولت محفوظ تھی۔ جب خیبر کا قلعہ فتح کیا گیا تو وہاں سے خاصا مال غنیمت حاصل ہوا۔ یہ مال غنیمت اسلام کی مضبوطی کا باعث بنا۔ اللہ تعالیٰ نے شخصی اجارہ داریوں، ظلم و استحصال اور نا انصافی ختم کرنے کیلئے دنیا کا سب سے اعلیٰ اور ارفع معاشی و اقتصادی نظام دین اسلام کی شکل میں دیا، اس نظام کے ذریعے دولت جمع کرنا غلط قرار دیا گیا۔
اسلامی ریاست کے تمام خزانے اور بیت المال مسلمانوں کی امانت قرار دیا گیا، زکواۃ دین اسلام کا نماز کے بعد سب سے اہم رکن قرار دیا گیا، قرض کی ممانعت تو نہیں کی گئی مگر قرض حسنہ کو احسن قرار دیا گیا، ریاست ِمدینہ کے معا شی واقتصادی نظام پر نظر دوڑ ائی جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے، یہ نظام مسلم ریاستوں کیلئے رول ماڈل ہے کہ بیت المال سے تمام مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیت المال کے خزانوں میں اضافہ ہوتا گیا، مسلم معاشرہ اپنے عروج کی جا نب گامزن ہو گیا، مگر موجودہ تمام اسلامی ریاستوں بشمول پاکستان نے مالک کائنات کا آفاقی معاشی واقتصادی پروگرام نظر انداز کرکے یہود و نصاریٰ کا معاشی واقتصادی نظام اپنا لیا ہے۔ دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ پا کستان کی تمام نمایاں یونیورسٹریز اور کالجز میں بھی اس نظام کی جدید اور اعلیٰ تعلیم دی جا رہی ہے، اور اِسی نظام کو مزید پروان چڑ ھا یا جا رہا ہے، اگر پاکستان اور دوسری اسلامی ریاستوں میں مالک کائنات اللہ تعالیٰ کے نظام کو ہی رائج کیا جاتا تو ڈالر کی غلامی سے بچا جا سکتا تھا۔