یہ تماشا بے سبب نہیں ہے
اس اضافے پر وزیراعظم ہاؤس میں آہوں اور سسکیوں کی آوازیں سنی گئیں
BUENOS AIRES:
بڑوں کو اکثر کہتے سنا کہ سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے، جانے کونسا لمحہ قبولیت کا ہو۔ یہ بھی سنا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں مفادات دھڑکتے ہیں۔ سری لنکا نے دو ماہ قبل بیرونی قرضوں پر ڈیفالٹ کیا ۔ سری لنکا کی مثال کو یار لوگوں نے اپنے اپنے سیاسی اسکور کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔ الزامات کی سادہ زبان میں اعدادوشمار کی جو کمی تھی وہ بے شمار ماہرین معیشت نے پوری کردی۔
قبولیت کا لمحہ قریب آ گیا یا شاید ہونی نے ایک قدم اور اٹھایا، معروف عالمی ریٹنگ کمپنی موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مستحکم سے منفی کر دی کہ ملک کو بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اور یہ بھی کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔ اس سے قبل بلوم برگ اپنے مالیاتی چارٹس کی مدد سے بار بار بتا رہا تھا کہ پاکستان کے قرضوں پر انشورنس کا ڈیفالٹ رسک پریمئیم بہت بڑھ گیا ہے، سرمایہ کار بابو ذرا سوچ کر سرمائے کی گاڑی چلائیں۔
ہماری خود انکاری کی شان ملاحظہ ہو کہ معیشت کی کوئی بھی کَل پچھلے تیس پینتیس سال سے سیدھی نہ ہونے کے باوجود معصومیت سے پوچھتے ہیں، بیرونی ادائیگیوں کا بحران کیوں ہے؟ آئی ایم ایف کو ہم سے اللہ واسطے کا بیر کیوں ہے؟ یہ کیوں ہمیں باربار تیل اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر مجبور کر رہا ہے؟
دور کیا جانا، کل کے اخبار کی دُہائی ہے کہ پاکستان کا تجارتی خسارہ پچھلے گیارہ ماہ کے دوران تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا یعنی 43.33 ارب ڈالرز۔ اور یہ بلند ترین خسارہ اس کے باوجود ہے کہ تاریخ میں بلند ترین ایکسپورٹس ہوئیں یعنی گیارہ ماہ میں 28.84 ارب ڈالرز ۔ یہ تجارتی خسارہ ن لیگ کے 2018 میں سال بھر کے تاریخی خسارے یعنی 37 ارب ڈالرز کا ریکارڈ توڑ گیا۔
ان گیارہ مہینوں میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور اب پچھلے دو ماہ سے ن لیگ مع اپنے اتحادیوں کے تمام تر تجربے اور مشکل فیصلوں کی جرات سے لیس، حکومت میں ہے۔دو ماہ تک پی ٹی آئی کی جانب سے بارودی سرنگ لگا کر جانے کا الزام لگانے اور آئی ایم ایف سے ایبسولیوٹلی ناٹ سننے کے بعد حکومت نے اپنے تئیں بارودی سرنگیں ہٹانے کا کام شروع کر دیا ہے ۔
اس ہفتے کے آغاز میں تیل کی قیمتوں میں تیس روپے فی لٹر کے لگ بھگ اضافہ کیا گیا۔ عوامی ردِ عمل کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے یہ کہانیاں بھی میڈیا کی زینت بنیں کہ اس اضافے پر وزیراعظم ہاؤس میں آہوں اور سسکیوں کی آوازیں سنی گئیں۔ اسی ہفتے دوسری بار پھر تیس روپے فی لٹر اضافے کا پروانہ جاری ہوا تو آہوں اور سسکیوں کا ذکر غائب تھا بلکہ مفتاح اسماعیل اپنا بہی کھاتہ کھول کر عوام سے شکوہ کناں ہوئے کہ حکومت کو تیل کی قیمتیں نہ بڑھانے سے کتنا نقصان ہو رہا ہے۔
دو روز قبل نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں بھی آٹھ روپے کا اضافہ اسی مجبوری میں کرنے کا فیصلہ سنایا۔ ہمارے دوست عبدل حیران ہیں کہ جنھیں ہم بااختیار سمجھتے تھے یہ تو ہم سے بھی زیادہ مجبور نکلے۔عبدل کے بقول قرضوں کی لت سے چھٹکارا آسان نہیں۔ یہ ایک نشہ ہے جو اندر ہی اندر انسان کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔
قرض کا سیدھا سا اصول ہے اگر تو پیداواری مقصد کے لیے لیا گیا ہے تو پیداواری منافع سے اسی کی واپسی ہو جاتی ہے اور پیدواری اثاثے مستقل آمدن کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ تاہم اگر قرض اللے تللے اخراجات اور خساروں کی خاطر لیے جائیں اور سالہا سال لیتے ہی چلے جائیں تو قرضوں کا پہاڑ کھڑا ہوتا جائے گا جب کہ ان کی ادائیگی کے اسباب کی صورت ندارد ہی رہے گی۔
پاکستان کے بیلنس آف پیمنٹ کا بحران نیا نہیں، نوّے کی دِہائی سے لے کر ہر حکومت اس بحران کا سامنا کرتی آئی ، علاج بالقرض کے سوا ہمارے مالیاتی حکیموں کو کبھی کچھ سوجھا ہی نہیں۔ سیاسی معجون اور کشتے ایک سے بڑھ کر ایک تیار ہوتے رہے لیکن مجال ہے کسی نے ادھر بھی توجہ دی ہو۔ پبلک سیکٹر اداروں کا سالانہ نقصان سات سو ارب سے ایک ہزار روپے تک بتایا جاتا ہے۔
بجلی کا سرکلر ڈیٹ اڑھائی ہزار ارب روپے ہو چکا ہے۔ گیس کمپنیوں کا سرکلر ڈیٹ ساڑھے پانچ سو ارب روپے ہو چکا۔ اس دوران زراعت کی پیداوار میں جمود طاری ہوتا رہا ۔ نتیجہ یہ کہ اب گندم چینی سمیت کھانے پینے کی اشیاء پر اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ ملک میں ڈی انڈسٹریلائیزیشن کا عمل کئی سالوں سے جاری ہے ۔ یہ سب ہمارے سیاسی حاذق حکیموں کا کیا دھرا ہے۔ ان حکیموں پر اور کتنا اعتبار کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد کے ایک معروف تحقیقی ادارے IPSOS نے تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر رائے عامہ معلوم کی جس کے نتائج غور طلب ہیں۔ سیاسی رومانویت سے ماوراء اس سروے کے نمایاں نتائج کچھ یوں ہیں؛ اول؛ 62% حکومت کی اس مجبوری سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس وقت تیل کی قیمتیں بڑھانا مجبوری ہے۔ دوم؛ 59 % کو یقین ہے کہ اس اضافے سے ان کی مشکلات میں شدید اضافہ ہو گا ۔ سوم؛ 64% کا خیال ہے کہ حکومت کو مدت پوری کرنے کے بجائے مڈٹرم الیکشن کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
حکمران اشرافیہ کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، انھیں ہم ایسوں کے نیک و بد سمجھانے کا کوئی اثر لینے کی کیا مجبوری ہے۔ مگر زمینی حالات کا جبر اب پریشر ککر کی طرح پھٹنے کو تیار ہے۔
کراچی میں کل رکشہ ڈرائیورز کا احتجاج اور جگہ جگہ پٹرول پمپس پر لڑائی جھگڑے اشارے ہیں کہ مشکل فیصلوں کا مطلب صرف عوام کی جیب ہلکی کرنے کا رویہ نہیں چلے گا۔ حکمران اشرافیہ کو اپنے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، پروٹوکول، نوکر شاہی اور دیگر اداروں کے اعلیٰ حکام کی مہنگی مراعات سے بھی کچھ قربان کرنا پڑے گا ورنہ آج نہیں تو کل معاملات خوفناک ہو سکتے ہیں۔ عوام اب مشکل فیصلوں جیسے تماشوں سے تنگ ہیں۔ وہ اب اتنے بے شعور بھی نہیں کہ بقول صغیر احمد صغیر یہ نہ جان سکیں کہ ؛
اگرچہ طے ہے کہ یہ روز و شب تماشا ہے
کسی سبب سے ہی یہ بے سبب تماشا ہے!
بڑوں کو اکثر کہتے سنا کہ سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے، جانے کونسا لمحہ قبولیت کا ہو۔ یہ بھی سنا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں مفادات دھڑکتے ہیں۔ سری لنکا نے دو ماہ قبل بیرونی قرضوں پر ڈیفالٹ کیا ۔ سری لنکا کی مثال کو یار لوگوں نے اپنے اپنے سیاسی اسکور کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔ الزامات کی سادہ زبان میں اعدادوشمار کی جو کمی تھی وہ بے شمار ماہرین معیشت نے پوری کردی۔
قبولیت کا لمحہ قریب آ گیا یا شاید ہونی نے ایک قدم اور اٹھایا، معروف عالمی ریٹنگ کمپنی موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مستحکم سے منفی کر دی کہ ملک کو بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اور یہ بھی کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔ اس سے قبل بلوم برگ اپنے مالیاتی چارٹس کی مدد سے بار بار بتا رہا تھا کہ پاکستان کے قرضوں پر انشورنس کا ڈیفالٹ رسک پریمئیم بہت بڑھ گیا ہے، سرمایہ کار بابو ذرا سوچ کر سرمائے کی گاڑی چلائیں۔
ہماری خود انکاری کی شان ملاحظہ ہو کہ معیشت کی کوئی بھی کَل پچھلے تیس پینتیس سال سے سیدھی نہ ہونے کے باوجود معصومیت سے پوچھتے ہیں، بیرونی ادائیگیوں کا بحران کیوں ہے؟ آئی ایم ایف کو ہم سے اللہ واسطے کا بیر کیوں ہے؟ یہ کیوں ہمیں باربار تیل اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر مجبور کر رہا ہے؟
دور کیا جانا، کل کے اخبار کی دُہائی ہے کہ پاکستان کا تجارتی خسارہ پچھلے گیارہ ماہ کے دوران تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا یعنی 43.33 ارب ڈالرز۔ اور یہ بلند ترین خسارہ اس کے باوجود ہے کہ تاریخ میں بلند ترین ایکسپورٹس ہوئیں یعنی گیارہ ماہ میں 28.84 ارب ڈالرز ۔ یہ تجارتی خسارہ ن لیگ کے 2018 میں سال بھر کے تاریخی خسارے یعنی 37 ارب ڈالرز کا ریکارڈ توڑ گیا۔
ان گیارہ مہینوں میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور اب پچھلے دو ماہ سے ن لیگ مع اپنے اتحادیوں کے تمام تر تجربے اور مشکل فیصلوں کی جرات سے لیس، حکومت میں ہے۔دو ماہ تک پی ٹی آئی کی جانب سے بارودی سرنگ لگا کر جانے کا الزام لگانے اور آئی ایم ایف سے ایبسولیوٹلی ناٹ سننے کے بعد حکومت نے اپنے تئیں بارودی سرنگیں ہٹانے کا کام شروع کر دیا ہے ۔
اس ہفتے کے آغاز میں تیل کی قیمتوں میں تیس روپے فی لٹر کے لگ بھگ اضافہ کیا گیا۔ عوامی ردِ عمل کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے یہ کہانیاں بھی میڈیا کی زینت بنیں کہ اس اضافے پر وزیراعظم ہاؤس میں آہوں اور سسکیوں کی آوازیں سنی گئیں۔ اسی ہفتے دوسری بار پھر تیس روپے فی لٹر اضافے کا پروانہ جاری ہوا تو آہوں اور سسکیوں کا ذکر غائب تھا بلکہ مفتاح اسماعیل اپنا بہی کھاتہ کھول کر عوام سے شکوہ کناں ہوئے کہ حکومت کو تیل کی قیمتیں نہ بڑھانے سے کتنا نقصان ہو رہا ہے۔
دو روز قبل نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں بھی آٹھ روپے کا اضافہ اسی مجبوری میں کرنے کا فیصلہ سنایا۔ ہمارے دوست عبدل حیران ہیں کہ جنھیں ہم بااختیار سمجھتے تھے یہ تو ہم سے بھی زیادہ مجبور نکلے۔عبدل کے بقول قرضوں کی لت سے چھٹکارا آسان نہیں۔ یہ ایک نشہ ہے جو اندر ہی اندر انسان کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔
قرض کا سیدھا سا اصول ہے اگر تو پیداواری مقصد کے لیے لیا گیا ہے تو پیداواری منافع سے اسی کی واپسی ہو جاتی ہے اور پیدواری اثاثے مستقل آمدن کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ تاہم اگر قرض اللے تللے اخراجات اور خساروں کی خاطر لیے جائیں اور سالہا سال لیتے ہی چلے جائیں تو قرضوں کا پہاڑ کھڑا ہوتا جائے گا جب کہ ان کی ادائیگی کے اسباب کی صورت ندارد ہی رہے گی۔
پاکستان کے بیلنس آف پیمنٹ کا بحران نیا نہیں، نوّے کی دِہائی سے لے کر ہر حکومت اس بحران کا سامنا کرتی آئی ، علاج بالقرض کے سوا ہمارے مالیاتی حکیموں کو کبھی کچھ سوجھا ہی نہیں۔ سیاسی معجون اور کشتے ایک سے بڑھ کر ایک تیار ہوتے رہے لیکن مجال ہے کسی نے ادھر بھی توجہ دی ہو۔ پبلک سیکٹر اداروں کا سالانہ نقصان سات سو ارب سے ایک ہزار روپے تک بتایا جاتا ہے۔
بجلی کا سرکلر ڈیٹ اڑھائی ہزار ارب روپے ہو چکا ہے۔ گیس کمپنیوں کا سرکلر ڈیٹ ساڑھے پانچ سو ارب روپے ہو چکا۔ اس دوران زراعت کی پیداوار میں جمود طاری ہوتا رہا ۔ نتیجہ یہ کہ اب گندم چینی سمیت کھانے پینے کی اشیاء پر اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ ملک میں ڈی انڈسٹریلائیزیشن کا عمل کئی سالوں سے جاری ہے ۔ یہ سب ہمارے سیاسی حاذق حکیموں کا کیا دھرا ہے۔ ان حکیموں پر اور کتنا اعتبار کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد کے ایک معروف تحقیقی ادارے IPSOS نے تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر رائے عامہ معلوم کی جس کے نتائج غور طلب ہیں۔ سیاسی رومانویت سے ماوراء اس سروے کے نمایاں نتائج کچھ یوں ہیں؛ اول؛ 62% حکومت کی اس مجبوری سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس وقت تیل کی قیمتیں بڑھانا مجبوری ہے۔ دوم؛ 59 % کو یقین ہے کہ اس اضافے سے ان کی مشکلات میں شدید اضافہ ہو گا ۔ سوم؛ 64% کا خیال ہے کہ حکومت کو مدت پوری کرنے کے بجائے مڈٹرم الیکشن کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
حکمران اشرافیہ کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، انھیں ہم ایسوں کے نیک و بد سمجھانے کا کوئی اثر لینے کی کیا مجبوری ہے۔ مگر زمینی حالات کا جبر اب پریشر ککر کی طرح پھٹنے کو تیار ہے۔
کراچی میں کل رکشہ ڈرائیورز کا احتجاج اور جگہ جگہ پٹرول پمپس پر لڑائی جھگڑے اشارے ہیں کہ مشکل فیصلوں کا مطلب صرف عوام کی جیب ہلکی کرنے کا رویہ نہیں چلے گا۔ حکمران اشرافیہ کو اپنے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، پروٹوکول، نوکر شاہی اور دیگر اداروں کے اعلیٰ حکام کی مہنگی مراعات سے بھی کچھ قربان کرنا پڑے گا ورنہ آج نہیں تو کل معاملات خوفناک ہو سکتے ہیں۔ عوام اب مشکل فیصلوں جیسے تماشوں سے تنگ ہیں۔ وہ اب اتنے بے شعور بھی نہیں کہ بقول صغیر احمد صغیر یہ نہ جان سکیں کہ ؛
اگرچہ طے ہے کہ یہ روز و شب تماشا ہے
کسی سبب سے ہی یہ بے سبب تماشا ہے!