تاریخی پاک ترکی تعلقات تجارتی تعاون پر ایک نظر

دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کی ملاقات ستمبر میں پھر اسلام آباد میں ہوگی

ترکی، ایران اور پاکستان کے درمیان 21جولائی 1964کو علاقائی تعاون برائے ترقی کا ایک معاہدہ ہوا جسے مختصراً آر سی ڈی کہا جاتا ہے۔ تینوں ملکوں نے آپس میں معاشی تعاون کے ذریعے علاقائی تجارت کے فروغ کے لیے ایسے موثر طریقے اختیار کیے تھے جس پر مکمل عمل درآمد ہو جاتا تو ایسی صورت میں تینوں ممالک میں سے پاکستان کو معاشی ترقی کی صورت میں زیادہ فوائد حاصل ہوتے۔

ایران ، پاکستان ، ترکی کے درمیان جن اشیا کی تجارت ممکن تھی ، ان کی مکمل فہرست تیار کر لی گئی تھی۔ برآمدی اشیاء میں اضافے کے لیے تینوں ممالک نے مشترکہ کوششیں تیز کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ آر سی ڈی کا چیمبر آف کامرس تیار کرلیا گیا تھا۔

تینوں ممالک کے درمیان درآمد برآمد کے قواعد و ضوابط بھی تیار کرلیے گئے تھے۔ تینوں ممالک کے معاشی حکام نے بڑی محنت سے اس سلسلے میں اپنا کام مکمل کرلیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک وزارتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ علاقائی منصوبہ بندی کمیٹی قائم ہوچکی تھی۔ مستقل کمیٹی بنا دی گئی تھی۔ 29 اگست 1964 کو تہران میں مرکزی دفتر قائم کر دیا گیا تھا۔

انقرہ تہران اور کراچی کو ملانے کے لیے 5500 کلومیٹر طویل شاہراہ (RCD) کی تعمیر کا آغاز کردیا گیا۔ کراچی، حب سے ہوتے ہوئے آر سی ڈی شاہراہ ایران جاتی ہے۔ پھر ایران کی طویل سرحد ترکی سے ملتی ہے اور کئی راستے ایران اور ترکی کو آپس میں ملاتے ہیں۔

اسی طرح RCD ریلوے تکمیل کے مراحل طے کر رہا تھا۔ پاکستان سے ایران کی سرحد کے قریب زاہدان تک ریل جاتی تھی، لیکن 1979 میں یہ تنظیم ایران نے منسوخ کردی تھی۔ پھر تینوں ملکوں نے آر سی ڈی کی تجدید کرکے نیا نام اقتصادی تعاون تنظیم جسے ECO کہا جاتا ہے قائم کی، اس تنظیم میں وسطی ایشیا کے نو آزاد ممالک کو شامل کیا گیا اس طرح ایکو کے ممبران کی تعداد اب 10ہے۔

اگر افغانستان میں بدامنی کی صورت حال پیدا نہ ہوتی اور دہشت گردی کی فضا پروان نہ چڑھتی تو یہ 10 ممالک جن کی سرحدیں ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔ یعنی پاکستان، ایران ، ترکی ، افغانستان اور پھر اس سے آگے وسطی ایشیا کے ممالک کی سرحدیں افغانستان اور ترکی اس طرح صرف بذریعہ سڑک ہی یورپی یونین کی طرز پر ایک زبردست قسم کا تجارتی بلاک عالمی معیشت میں اپنا بڑا حصہ قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتا تھا۔ جس سے پاکستان بہت زیادہ فوائد سمیٹ سکتا تھا۔ اس تاریخی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے اب ہم پاکستان اور ترکی کے تجارتی تعاون پر نظر ڈالتے ہیں۔ رواں سال دونوں برادر ممالک سفارتی تعلقات کی پچھترویں سالگرہ بھی منا رہے ہیں۔


پاکستان کا کوئی بھی حکمران ہو وہ ترکی ایک بار یا کئی بار ضرور جاتا ہے۔ پاکستان کے نئے وزیر اعظم کو ترکی کے صدر نے دورے کی دعوت دی۔ وزیر اعظم نے ترک صدر وزرا سرمایہ کاروں اور مختلف بڑی کمپنیز کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں اور اس موقع پر یکم جون 2022 پاکستان اور ترکی کے درمیان تعاون کے 7 سمجھوتوں پر دستخط ہوئے۔ اس موقع پر صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

جن ایم او یوز پر دستخط کیے گئے ان میں نالج شیئرنگ، ہائی وے انجینئرنگ، تجارت و تکنیکی معاونت، قرض مینجمنٹ ، ماحولیات، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے علاوہ مشترکہ ٹاسک فورس قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں ممالک نے تعاون اور تعلقات بڑھانے کا عزم و ارادہ کیا۔ اقتصادی تعاون کو ترجیح دی گئی۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ ای کامرس، انفرا اسٹرکچر کے شعبے میں ترک تجربات سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔ عالمی فورمز پر دونوں ممالک مختلف معاملات میں یکساں موقف رکھتے ہیں۔ ترکی نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو بحری جہازوں کی تیاری میں ہر ممکن تعاون فراہم کر رہے ہیں۔

پاکستان کو سیاحت کے شعبے میں ترکی سے بھرپور تعاون حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے لاکھوں سیاح ہر سال ترکی آتے ہیں۔ پاکستان میں بے شمار تاریخی اور سیاحتی مقامات ہیں ، لیکن کچھ مسائل ایسے ہیں جن کا حل ڈھونڈنے کے لیے ترکی کا تعاون حاصل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ سیاحت کے شعبے میں ترکی ایک طویل تجربہ رکھتا ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی سیاح کسی نہ کسی وجہ سے اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔

کچھ آئے دن یہاں پر دہشت گردی کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاحتی مقامات پر پہنچنے کے راستے ابھی تک شدید دشوار گزار ہیں۔ پاکستان نے ہائی وے انجینئرنگ سے متعلق جو ایم او یوز پر دستخط کیے ہیں اس کا رخ سیاحتی مقامات کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے تاکہ ان مقامات تک پہنچنے کے لیے راستہ انتہائی سہل اور آسان بنایا جائے۔ بعض مقامات کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ دور دراز دشوار گزار راستوں کے باعث وہاں تک پہنچنا مشکل ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ایسی کیا مشکل پیش آ رہی ہے؟ بس صرف بات یہ ہے کہ ترجیح نہیں ہے، توجہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔

ترکی عالمی تجارت میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے، اس کی ٹیکسٹائل مصنوعات اور دیگر بہت سی اشیا دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ ترکی کے طالب علم اردو سیکھنے اور پڑھنے میں دلچسپی لیتے ہیں اور وہاں طویل عرصے سے سرکاری سطح پر اردو کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ ترکی نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اس کی مدد کی ہے۔

ترک عوام پاکستانیوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کی ملاقات ستمبر میں پھر اسلام آباد میں ہوگی۔ ترکی کا ایک تجارتی وفد جون میں پاکستان آنے والا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان نے دونوں ملکوں کے درمیان آیندہ تین برسوں میں تجارتی حجم کو 5 ارب ڈالر تک بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔ دو طرفہ باہمی تجارت کو 5 ارب ڈالر تک بڑھانا کوئی مشکل ہدف نہیں ہے۔
Load Next Story