امن مذاکرات کو بامقصد بنایا جائے

آج بھی سب کی امیدوں میں قدر مشترک یہی آرزو ہے کہ سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے۔

آج بھی سب کی امیدوں میں قدر مشترک یہی آرزو ہے کہ سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پائیدار اور مستقل امن کا قیام حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس منگل کو ہوا، اجلاس نے تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے فائر بندی کے اعلان نیز خیبر ایجنسی اور اسلام آبادکے حالیہ افسوسناک واقعات کا جائزہ لیا۔ وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق کمیٹی نے قرار دیا کہ فائر بندی کے اعلان کے بعد اس طرح کے واقعات کا جاری رہنا قیام امن کے لیے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچائے گا۔

وزیراعظم نواز شریف تحریک طالبان پاکستان سے بات چیت اور ملک میں قیام امن کو اولین ترجیح پہلے بھی قرار دے چکے ہیں، جب طالبان نے مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی تھی اور بات چیت امید و خدشات کے سائے میں شروع بھی ہوئی اور اب بھی حکومت درحقیقت مذاکراتی عمل کو آیندہ سبوتاژ نہ کیے جانے کی یقین دہانی حاصل کرنے کی خواہش نہیں بلکہ ٹھوس ضمانت سے منسلک کرانا چاہتی ہے تو مذاکرات کو حتمی نتائج کی منزل تک لے جانا اشد ضروری ہے۔ تاحال مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے یا مثبت مقاصد کے حصول کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہو سکیں۔ اس بار مذاکراتی عمل کا میکنزم مضبوط اور شفاف ہو تو تب بات بنے گی۔ تین دن گزرنے کے باوجود اسلام آباد کی کچہری پر حملہ کرنے والوں کی صحیح تعداد معمہ بنی ہوئی ہے۔ ادھر پاکستان بار کونسل سمیت دیگر وکلاء تنظیموں کی کال پر سانحہ اسلام آباد کے خلاف ملک بھر میں یوم سوگ منایا گیا اور وکلاء نے عدالتی کارروائی کا مکمل بائیکاٹ کیا، بارز پر سیاہ پرچم لہرائے گئے اور احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ وفاقی وزیر برائے سرحدی امور جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ خطرے کی گھنٹیاں بج چکی ہیں، اسلام آباد کو محفوظ بنانے کے تمام اقدامات کرنے ہوں گے، کچہری پر حملہ انتہائی سنگین واقعہ ہے، تفتیش میں جس کی غفلت ثابت ہو اس کا احتساب ہونا چاہیے۔


کچہری دہشتگردی واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کے پہلے دن انکوائری آفیسر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد مجاہد شیردل نے ایس ایچ او تھانہ مارگلہ انسپکٹر خالد اعوان سمیت بائیس اہلکاروں کے بیانات ریکارڈ کرلیے ہیں۔ وہ حتمی تحقیقاتی رپورٹ جمعہ کو چیف کمشنر اسلام آباد جواد پال کو بھجوائیں گے جو وزیرداخلہ کو پیش کی جائے گی۔ اسلام آباد کچہری میں حملہ کرنے والے دو دہشت گردوں کے خاکے جاری کر دیے گئے۔ برطانوی جریدہ نے حملہ آوروں کی تعداد 12 بتائی ہے جس کی تفصیل میں جانے کے بجائے بنیادی اہمیت اس دو طرفہ عزم اور نیک نیتی کی ہے کہ طالبان اور حکومتی کمیٹیوں کے مابین بات چیت کا جلد کوئی نتیجہ نکلے اور ملک میں امن و امان کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔ 6 فروری 2014ء کو کمیٹیوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تو پوری قوم اس بات کے انتظار میں رہی کہ مذاکرات کا دیرپا حل نکل آئے گا، ملک میں جاری ہلاکتوں، الم ناک وارداتوں اور صوبوں میں بدامنی کا خاتمہ ہوگا۔ اگرچہ سیاسی، دفاعی مبصرین سمیت تجزیہ کاروں اور عوامی حلقوں نے بات چیت کے حوالے سے خدشات اور اندیشوں کا اظہار بھی کیا ہے مگر آج بھی سب کی امیدوں میں قدر مشترک یہی آرزو ہے کہ سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے۔

چنانچہ یہ خوش آیند پیش رفت ہے کہ طالبان نے حکومتی کمیٹی کو دورہ وزیرستان کی دعوت دی اور کہا کہ اہم کمانڈر اسلام آباد اور لنڈی کوتل سانحے کی تحقیقات کریں گے۔ بہرحال حکومت کا یہ عزم کہ آپریشن کے آپشن سے پہلے پھر سے بات چیت ہونی چاہیے تو اس میں ایک بنیادی حقیقت کی طرف ضرور توجہ مبذول کرنی چاہیے کہ آئین شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، ریاست اور منتخب جمہوری حکومت کا اولین فریضہ ہے کہ وہ امن قائم کرے، بیگناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے اندوہ ناک واقعات پر قابو پائے، پاک افغان سرحد کی مانیٹرنگ کا موثر نظام قائم ہو۔ شنید ہے کہ امریکا نے پاکستان کو شمالی وزیرستان میں آپریشن کی صورت میں اس کے قبائلی علاقے سے ملحقہ افغان سرحد سیل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یاد رہے کہ خطے میں مجموعی اور حقیقی امن افغانستان کی مخدوش صورتحال کی بہتری سے مشروط ہے۔ مذاکراتی عمل سے لپٹے ہوئے کنفیوژن کو دور کیا جائے، اب تک جو کچھ نظر آیا ہے وہ ابہام، تضاد، بے یقینی اور خدشات کے بادل ہیں جو مذاکرات کے افق پر منڈلاتے رہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ طالبان اور حکومتی کمیٹیوں کے اراکین میں اختلاف کی بازگشت تھم جائے۔ بعض اطلاعات کے مطابق حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان عرفان صدیقی اور رستم شاہ مہمند مذاکرات کے بدستور حق میں ہیں جب کہ میجر عامر مذاکرات کے عمل سے خود کو الگ کرتے ہوئے معاملات فوج کے حوالے کرنے پر اصرار کر رہے ہیں جب کہ عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لیے کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔

حکومتی کمیٹی کے رکن رحیم اﷲ یوسفزئی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت یہ بھی چاہے گی کہ طالبان پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کریں اور ان کے ذمے دار گروہوں کا پتہ لگانے میں حکومت کی مدد بھی کریں۔ دونوں فریق مل کر ان کا راستہ روکیں۔ حکومت اور طالبان ساتھی بن گئے ہیں، وہ 'پارٹنر ان پیس' ہیں۔ مزید برآں مولانا سمیع الحق، مولانا محمد یوسف اور پروفیسر ابراہیم پر بھی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امن کی تلاش میں نکلی مذاکراتی کمیٹیوں کو ناکامی کی ان دیکھی بارودی سرنگوں سے ہر قیمت پر بچائیں۔ ملک و قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ کمیٹیاں پرامن طریقے سے کسی نتیجہ پر پہنچیں۔ بلاشبہ امن کی جاری کوششوں میں حکومت کو اپوزیشن رہنماؤں سمیت تمام سیاسی، جمہوری اور مذہبی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے، ان کے تحفظات کو دور کرنے کی کوئی سبیل نکالنی چاہیے، سب امن کے قیام کی ایک ہی کشتی میں سوار ہیں اور ساحل مراد زیادہ دور نہیں۔ سب کو مل کر بات چیت کے عمل کو بامقصد اور اس نصب العین کے قریب لے جانا چاہیے جو قومی امنگوں سے مشروط ہے۔
Load Next Story