عوام کی خوشیاں
وگھوڑا ایک ایسا جانور ہے جس کا ذکر انسانی تاریخ کے تمام معلوم ادوار میں نہ صرف بہت باقاعدگی اور وضاحت سے ملتا ہے
وگھوڑا ایک ایسا جانور ہے جس کا ذکر انسانی تاریخ کے تمام معلوم ادوار میں نہ صرف بہت باقاعدگی اور وضاحت سے ملتا ہے بلکہ اس کو انسان کا سب سے قدیم اور قابل اعتماد دوست بھی کہا جاتا ہے۔ مہا بھارت کی کہانیاں ہوں یا فراعین مصر کا ذکر سکندر اعظم کا گھوڑا ہو ٹیپو سلطان اور نپولین کا، بحر ظلمات ہو یا افریقہ کا صحرا گھوڑے کا ذکر ہر جگہ نظر آئے گا یہاں تک کہ قدیم ترین تصویروں میں بھی سب سے زیادہ گھوڑے کو ہی موضوع بنایا گیا ہے۔ میں نے ایک بار مشہور مصور اقبال مہدی مرحوم سے اس کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے بتایا کہ گھوڑے کا جسمانی تناسب اور اس کی مختلف حرکات میں حسن' بہادری' تمکنت' اعتماد اور جوش کا انداز کچھ ایسا ہے کہ مصور کا مٔو قلم ان کے جادو میں کھو سا جاتا ہے۔ اس کی چال میں ایک ایسا وقار' دلکشی اور تنوع ہے جو صرف غیر معمولی حسین عورتوں میں پایا جاتا ہے۔
یہ تشبیہہ ایسی تھی کہ میں نے مجبوراً بات کا رخ بدل دیا مگر گزشتہ دنوں جشن خوشاب کی ایک تقریب کے دوران مجھے بے شمار گھوڑے اور ان کے چلنے اور دوڑنے کے مختلف انداز دیکھنے کا موقع ملا تو مجھ پر اس تشبیہہ کی حقیقت کھلی اور اس حوالے سے طرح طرح کے شعر یاد آئے
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کہ جا کرے کوئی
...............
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
...............
وہ جب بھی کالج کی سیڑھیوں سے
سہیلیوں کو لیے اترتی
تو ایسے لگتا تھا جیسے دل میں اتر رہی ہو
...............
یا پھر... لرزے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر
گھوڑے کے ذکر پر ان اشعار کے یاد آنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ یہ شعر بھی اسی جشن خوشاب کے ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے کہا گیا تھا۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ کوئی ایک ماہ قبل خوش نوا شاعر ڈاکٹر بدر منیر اور اے سی خوشاب دانش افضال کے فون آئے کہ یکم مارچ کو وہ لوگ جشن خوشاب کے حوالے سے ایک عدد مشاعرہ بھی پروگرام میں شامل کر رہے ہیں جس میں مجھے اور انور مسعود کو ضرور بالضرور شریک ہونا ہے۔ اب یہ DCO خوشاب عامر اعجاز صاحب کی فرمائش تھی کہ ہم اگلے روز واپسی سے قبل کچھ دیر نیزہ بازی کا مقابلہ بھی دیکھیں کہ اس وقت ارد گرد کے علاقوں سے تقریباً 450 اعلیٰ نسل کے گھوڑے اور ان سے بھی تعداد میں کچھ زیادہ ماہر گھڑ سوار اور نیزہ باز وہاں موجود ہیں اور ان کی فن کاری اور ہنر مندی کا مظاہرہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
دوران گفتگو انتظامیہ کے حضرات دانش افضال اور سعادت صاحب نے یہ بتایا تھا کہ جوہر آباد (جو تاریخی قصبے خوشاب سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر پچاس کی دہائی میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ آباد کیا گیا) کی کل آبادی اسی ہزار کے لگ بھگ ہے سو ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال موجود تھا کہ یہ عوامی میلہ اپنے حجم اور پھیلاؤ کے اعتبار سے کچھ زیادہ بڑا نہیں ہو گا مگر جونہی ہم میلے کے نواح میں پہنچے ہمارے تمام اندازے غلط ثابت ہونا شروع ہو گئے۔ دانشور افضال نے بتایا کہ وسعت کے اعتبار سے نیزہ بازی کا یہ Track پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا ٹریک ہے اور اس میلے میں جتنے گھوڑے اور نیزہ باز شرکت کر رہے ہیں وہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ سب قیمتی اور شاندار گھوڑے ٹرکوں'ٹرالروں اور کنٹینرز میں لائے گئے ہیں اور ان کے مالکان اور خدمت گاروں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ان کے ساتھ آئی ہے۔
اگرچہ اس میلے میں جانوروں کی نمائش' سرکس، میوزک، کھیل تماشے اور بازار وغیرہ سب شامل ہیں مگر اصل رونق نیزہ بازی کے میدان میں ہی ہے کہ اس مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھانے اور جیتنے والے گھوڑوں کی قیمتیں سچ مچ آسمان پر پہنچ جاتی ہیں اور چاروں طرف تماشائیوں کا ہجوم تھا جن میں سے کچھ اپنے ٹرالروں اور کنٹینرز پر عارضی پڑاؤ جمائے بیٹھے تھے، مرکزی پنڈال میں دور تک کرسیاں رکھی گئی تھیں جن میں سے کوئی بھی خالی نظر نہیں آ رہی تھی۔
تھوڑی دیر میں کمشنر سرگودھا طارق محمود بھی پہنچ گئے منتظمین کی طرف سے ہم تینوں کو روایتی پگڑیاں پہنائی گئیں اور مقابلے کے اصول و قواعد اور روایات سے آگاہ کیا گیا، معلوم ہوا کہ لکڑی کی تقریباً ایک فٹ لمبی اور ڈھائی انچ چوڑی مخصوص انداز کی تختیاں کرکٹ کی وکٹوں کی طرح زمین میں ایک ڈیڑھ انچ تک دبا دی جاتی ہیں نیزہ باز اپنے گھوڑوں کو انتہائی تیز رفتار سے دوڑاتے ہوئے آتے ہیں اور بغیر رکے یا رفتار کو سست کیے ان نشانوں کو اپنے نیزے کی تیز انی کے ساتھ اکھاڑتے ہیں اگر وہ انھیں نیزے کی نوک پر اٹھاتے ہوئے تقریباً 40 فٹ کا نشان زدہ علاقہ پار کر جائیں تو انھیں پورے یعنی چار نمبر ملتے ہیں اور اگر وہ صرف ان کو اپنی جگہ سے اکھاڑنے کی حد تک کامیاب ہوں تو دو نمبروں کے حق دار ٹھہرتے ہیں صحیح نشانہ نہ لگا سکنے پر کوئی نمبر نہیں ملتا۔ پنڈال میں ہر طرف ڈھول بج رہے تھے اور بہت سے گھڑ سوار اپنے اپنے گھوڑوں کی خوب صورتی کو مختلف انداز میں نمایاں کر رہے تھے جب کہ مقابلہ میں حصہ لینے والے اپنی اپنی باری پر (جس کا اعلان ایک ایسے صاحب کر رہے تھے جن کی آواز مسلسل اعلانات کی وجہ سے اب تقریباً بیٹھ بلکہ لیٹ چکی تھی) تقریباً دو سو گز دور سے گھوڑے کو دوڑاتے ہوئے آتے اور اپنی نشانہ بازی کی مہارت کا مظاہرہ کرتے چونکہ مقابلے میں حصہ لینے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اس لیے زیادہ تر دو دو یا چار چار کی ٹولیوں میں آتے اور اپنے اپنے ٹریک پر موجود ہدف کو نشانہ بناتے تھے جس وقت ہم لوگ وہاں پہنچے وہ مقابلے کا تیسرا اور سب سے مشکل راؤنڈ تھا کہ اس وقت ہدف کی چوڑائی ڈھائی انچ سے کم ہو کر صرف ایک انچ رہ گئی تھی اب آپ اندازہ کیجیے کہ تقریباً طوفانی رفتار سے بھاگتے ہوئے گھوڑے پر اپنے اور نیزہ بردار ہاتھ کے توازن کو قائم رکھتے ہوئے ایک چشم زدن سے بھی کم عرصے میں ایک انچ کے ہدف پر ٹھیک ٹھیک نشانہ لگانا اور پھر اسے نیزے کی انی میں پرو لینا کس قدر مشکل اورغیر معمولی مہارت کا کام ہو سکتا ہے۔
وہاں ہماری ملاقات اس مقابلے کے ایک ایسے منصف سے بھی کرائی گئی جس نے اپنی جوانی کے دنوں میں ایک ہی دن میں گیارہ بار یہ کارنامہ کرنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا وہ جس انداز میں گھڑ سواروں کی طرز نشست' چستی' خوب صورتی اور مہارت کی تفصیل بیان کر رہے تھے اس کا ایک اپنا ہی لطف تھا۔ تماشائیوں میں ایسے بزرگ افراد بھی تھے جن کے لیے دو قدم چلنا بھی دشوار تھا مگر میلے کا شوق انھیں کشاں کشاں لے آیا تھا۔ ایک ایسے زمانے میں جب چاروں طرف سے مایوسی' دہشت اور پریشانی کی خبریں آ رہی ہوں عوام کا یہ عزم اور دلچسپی ایک ایسا نظارا تھا جو ہر اعتبار سے بے حد حوصلہ افزا تھا تمام تر غربت اور مسائل زدگی کے باوجود لوگوں کے چہروں کی خوشی اور دلچسپی دیدنی تھی جب کوئی نیزہ باز کلی (ہدف) اکھاڑنے میں کامیاب ہو جاتا تو پورا پنڈال تحسین و آفرین کے نعروں سے گونج اٹھتا اور کافی دیر تک کامیاب گھڑ سوار کے لیے انعامات کا اعلان جاری رہتا۔ واپسی کے سارے سفر میں انور مسعود اور میں اس بات پر حیرت اور افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ ہمارے حاکم اپنی تفریح طبع کے لیے تو طرح طرح کے بھاری اخراجات والے پروگرام سارا سال جاری رکھتے ہیں مگر عوام کی حقیقی خوشی کے حامل تہوار اور اس قسم کے روایتی میلے ٹھیلے اب آہستہ آہستہ ختم ہوتے جا رہے ہیں جن میں شامل ہو کر کچھ دیر کے لیے ہی سہی ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر جاتی ہیں کہ ہمارے یہی عام لوگ ہماری پہچان بھی ہیں اور قومی سرمایہ بھی اور یہی وہ خوبصورت' سادہ اور مخلص لوگ ہیں جن کے بارے میں میر تقی میر جیسا خود نگر انسان بھی بے ساختہ کہہ اٹھا تھا کہ
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
یہ تشبیہہ ایسی تھی کہ میں نے مجبوراً بات کا رخ بدل دیا مگر گزشتہ دنوں جشن خوشاب کی ایک تقریب کے دوران مجھے بے شمار گھوڑے اور ان کے چلنے اور دوڑنے کے مختلف انداز دیکھنے کا موقع ملا تو مجھ پر اس تشبیہہ کی حقیقت کھلی اور اس حوالے سے طرح طرح کے شعر یاد آئے
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کہ جا کرے کوئی
...............
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
...............
وہ جب بھی کالج کی سیڑھیوں سے
سہیلیوں کو لیے اترتی
تو ایسے لگتا تھا جیسے دل میں اتر رہی ہو
...............
یا پھر... لرزے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر
گھوڑے کے ذکر پر ان اشعار کے یاد آنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ یہ شعر بھی اسی جشن خوشاب کے ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے کہا گیا تھا۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ کوئی ایک ماہ قبل خوش نوا شاعر ڈاکٹر بدر منیر اور اے سی خوشاب دانش افضال کے فون آئے کہ یکم مارچ کو وہ لوگ جشن خوشاب کے حوالے سے ایک عدد مشاعرہ بھی پروگرام میں شامل کر رہے ہیں جس میں مجھے اور انور مسعود کو ضرور بالضرور شریک ہونا ہے۔ اب یہ DCO خوشاب عامر اعجاز صاحب کی فرمائش تھی کہ ہم اگلے روز واپسی سے قبل کچھ دیر نیزہ بازی کا مقابلہ بھی دیکھیں کہ اس وقت ارد گرد کے علاقوں سے تقریباً 450 اعلیٰ نسل کے گھوڑے اور ان سے بھی تعداد میں کچھ زیادہ ماہر گھڑ سوار اور نیزہ باز وہاں موجود ہیں اور ان کی فن کاری اور ہنر مندی کا مظاہرہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
دوران گفتگو انتظامیہ کے حضرات دانش افضال اور سعادت صاحب نے یہ بتایا تھا کہ جوہر آباد (جو تاریخی قصبے خوشاب سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر پچاس کی دہائی میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ آباد کیا گیا) کی کل آبادی اسی ہزار کے لگ بھگ ہے سو ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال موجود تھا کہ یہ عوامی میلہ اپنے حجم اور پھیلاؤ کے اعتبار سے کچھ زیادہ بڑا نہیں ہو گا مگر جونہی ہم میلے کے نواح میں پہنچے ہمارے تمام اندازے غلط ثابت ہونا شروع ہو گئے۔ دانشور افضال نے بتایا کہ وسعت کے اعتبار سے نیزہ بازی کا یہ Track پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا ٹریک ہے اور اس میلے میں جتنے گھوڑے اور نیزہ باز شرکت کر رہے ہیں وہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ سب قیمتی اور شاندار گھوڑے ٹرکوں'ٹرالروں اور کنٹینرز میں لائے گئے ہیں اور ان کے مالکان اور خدمت گاروں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ان کے ساتھ آئی ہے۔
اگرچہ اس میلے میں جانوروں کی نمائش' سرکس، میوزک، کھیل تماشے اور بازار وغیرہ سب شامل ہیں مگر اصل رونق نیزہ بازی کے میدان میں ہی ہے کہ اس مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھانے اور جیتنے والے گھوڑوں کی قیمتیں سچ مچ آسمان پر پہنچ جاتی ہیں اور چاروں طرف تماشائیوں کا ہجوم تھا جن میں سے کچھ اپنے ٹرالروں اور کنٹینرز پر عارضی پڑاؤ جمائے بیٹھے تھے، مرکزی پنڈال میں دور تک کرسیاں رکھی گئی تھیں جن میں سے کوئی بھی خالی نظر نہیں آ رہی تھی۔
تھوڑی دیر میں کمشنر سرگودھا طارق محمود بھی پہنچ گئے منتظمین کی طرف سے ہم تینوں کو روایتی پگڑیاں پہنائی گئیں اور مقابلے کے اصول و قواعد اور روایات سے آگاہ کیا گیا، معلوم ہوا کہ لکڑی کی تقریباً ایک فٹ لمبی اور ڈھائی انچ چوڑی مخصوص انداز کی تختیاں کرکٹ کی وکٹوں کی طرح زمین میں ایک ڈیڑھ انچ تک دبا دی جاتی ہیں نیزہ باز اپنے گھوڑوں کو انتہائی تیز رفتار سے دوڑاتے ہوئے آتے ہیں اور بغیر رکے یا رفتار کو سست کیے ان نشانوں کو اپنے نیزے کی تیز انی کے ساتھ اکھاڑتے ہیں اگر وہ انھیں نیزے کی نوک پر اٹھاتے ہوئے تقریباً 40 فٹ کا نشان زدہ علاقہ پار کر جائیں تو انھیں پورے یعنی چار نمبر ملتے ہیں اور اگر وہ صرف ان کو اپنی جگہ سے اکھاڑنے کی حد تک کامیاب ہوں تو دو نمبروں کے حق دار ٹھہرتے ہیں صحیح نشانہ نہ لگا سکنے پر کوئی نمبر نہیں ملتا۔ پنڈال میں ہر طرف ڈھول بج رہے تھے اور بہت سے گھڑ سوار اپنے اپنے گھوڑوں کی خوب صورتی کو مختلف انداز میں نمایاں کر رہے تھے جب کہ مقابلہ میں حصہ لینے والے اپنی اپنی باری پر (جس کا اعلان ایک ایسے صاحب کر رہے تھے جن کی آواز مسلسل اعلانات کی وجہ سے اب تقریباً بیٹھ بلکہ لیٹ چکی تھی) تقریباً دو سو گز دور سے گھوڑے کو دوڑاتے ہوئے آتے اور اپنی نشانہ بازی کی مہارت کا مظاہرہ کرتے چونکہ مقابلے میں حصہ لینے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اس لیے زیادہ تر دو دو یا چار چار کی ٹولیوں میں آتے اور اپنے اپنے ٹریک پر موجود ہدف کو نشانہ بناتے تھے جس وقت ہم لوگ وہاں پہنچے وہ مقابلے کا تیسرا اور سب سے مشکل راؤنڈ تھا کہ اس وقت ہدف کی چوڑائی ڈھائی انچ سے کم ہو کر صرف ایک انچ رہ گئی تھی اب آپ اندازہ کیجیے کہ تقریباً طوفانی رفتار سے بھاگتے ہوئے گھوڑے پر اپنے اور نیزہ بردار ہاتھ کے توازن کو قائم رکھتے ہوئے ایک چشم زدن سے بھی کم عرصے میں ایک انچ کے ہدف پر ٹھیک ٹھیک نشانہ لگانا اور پھر اسے نیزے کی انی میں پرو لینا کس قدر مشکل اورغیر معمولی مہارت کا کام ہو سکتا ہے۔
وہاں ہماری ملاقات اس مقابلے کے ایک ایسے منصف سے بھی کرائی گئی جس نے اپنی جوانی کے دنوں میں ایک ہی دن میں گیارہ بار یہ کارنامہ کرنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا وہ جس انداز میں گھڑ سواروں کی طرز نشست' چستی' خوب صورتی اور مہارت کی تفصیل بیان کر رہے تھے اس کا ایک اپنا ہی لطف تھا۔ تماشائیوں میں ایسے بزرگ افراد بھی تھے جن کے لیے دو قدم چلنا بھی دشوار تھا مگر میلے کا شوق انھیں کشاں کشاں لے آیا تھا۔ ایک ایسے زمانے میں جب چاروں طرف سے مایوسی' دہشت اور پریشانی کی خبریں آ رہی ہوں عوام کا یہ عزم اور دلچسپی ایک ایسا نظارا تھا جو ہر اعتبار سے بے حد حوصلہ افزا تھا تمام تر غربت اور مسائل زدگی کے باوجود لوگوں کے چہروں کی خوشی اور دلچسپی دیدنی تھی جب کوئی نیزہ باز کلی (ہدف) اکھاڑنے میں کامیاب ہو جاتا تو پورا پنڈال تحسین و آفرین کے نعروں سے گونج اٹھتا اور کافی دیر تک کامیاب گھڑ سوار کے لیے انعامات کا اعلان جاری رہتا۔ واپسی کے سارے سفر میں انور مسعود اور میں اس بات پر حیرت اور افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ ہمارے حاکم اپنی تفریح طبع کے لیے تو طرح طرح کے بھاری اخراجات والے پروگرام سارا سال جاری رکھتے ہیں مگر عوام کی حقیقی خوشی کے حامل تہوار اور اس قسم کے روایتی میلے ٹھیلے اب آہستہ آہستہ ختم ہوتے جا رہے ہیں جن میں شامل ہو کر کچھ دیر کے لیے ہی سہی ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر جاتی ہیں کہ ہمارے یہی عام لوگ ہماری پہچان بھی ہیں اور قومی سرمایہ بھی اور یہی وہ خوبصورت' سادہ اور مخلص لوگ ہیں جن کے بارے میں میر تقی میر جیسا خود نگر انسان بھی بے ساختہ کہہ اٹھا تھا کہ
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے