محبت کی شادی کا انجام
پسند کی شادی کرنے والی 3 سہیلیاں شوہروں سے تنگ آ کر چند ماہ بعد ہی خلع کے لیے عدالت پہنچ جاتی ہیں
پسند کی شادی کرنے والے کی ماں سے اجتماعی زیادتی، شوہر کو اغوا کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لیا، پولیس مدد نہیں کر رہی۔ پسند کی شادی کرنے والی خاتون کو رشتے داروں نے اغوا کر لیا، پولیس بازیابی سے انکاری، بیوی کو کاری قرار دے کر قتل کیے جانے کا خدشہ ہے، پولیس حد بندی کے بہانے تراش کر بازیاب نہیں کر رہی، گل جان کو رشتے داروں نے اغوا کیا، عدالت نے شوہر کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی اجازت دے دی۔ والدین عمر رسیدہ شخص سے شادی کرانا چاہتے تھے، والدین نے فرسودہ رسموں اور ذات کی آڑ میں رشتہ دینے سے انکار کیا تھا۔ جس پر جوڑے نے کورٹ میرج کی اور خود مختاری حاصل کرنے کے لیے اعزازی مجسٹریٹ کے رو برو بیان دیا۔ مجسٹریٹ نے خود مختاری کی تصدیق کر کے پسند کی شادی کی اجازت دی۔ پاک پتن میں پسند کی شادی کرنے والا جوڑا قتل، گھر سے فرار ہو کر کورٹ میرج کرنے والے جوڑے کو لڑکی کے بھائی نے ساتھیوں سے مل کر فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ چارسدہ میں 7 سال بعد لڑکی کے رشتے داروں نے پسند کی شادی کرنے والے جوڑے اور ان کی بیٹی کو قتل کر دیا۔ان جیسے اور بھی واقعات رونما ہوتے ہوں گے جو میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ اس میں کلام نہیں کہ لو میرج نے ہمارے معاشرے میں مسائل پیدا کیے ہیں ۔ محبت کی شادی کا انجام اکثر لڑائی، مار کٹائی اور پھر طلاق پر پہنچنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے نہ تو ہم مشرقی روایات کے پاس دار ہیں اور نہ ہی مغرب کی تقلید کر رہے ہیں۔ معاشرہ کھچڑی بن چکا ہے۔
پسند کی شادیوں کا انجام ملاحظہ کریں! پسند کی شادی کرنے والی 3 سہیلیاں شوہروں سے تنگ آ کر چند ماہ بعد ہی خلع کے لیے عدالت پہنچ جاتی ہیں۔ پہلی درخواست گزار بشریٰ موقف اختیار کرتی ہیں کہ اس کے خاوند پرویز نے اسے بتایا کہ وہ ایک اعلیٰ افسر ہے۔ جب کہ وہ سیلز مین نکلا۔ دوسری خاتون رضیہ نے کہا کہ اس کے شوہر بلال نے کہا کہ وہ اسے شہزادی بنا کر رکھے گا۔ لیکن اس نے نوکرانی بنا دیا۔ جب کہ تیسری خاتون کلثوم بی بی نے کہا کہ میرے شوہر عبدالغفور نے بڑے وعدے اور دعوے کیے تھے جو جھوٹے نکلے اور ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہو سکا۔ جب دو وقت کی روٹی میسر نہیں تو ساتھ رہ کر کیا کرنا ہے۔ ایک اور واقعہ یہ کہ درخواست گزار زاہد نے عدالت کو بتایا کہ اس نے پاک پتن کی رہائشی زوبیہ سے ریلوے اسٹیشن پر خفیہ شادی کی۔ بعد ازاں گھر والوں نے علم ہونے پر انھیں باضابطہ طور پر رخصت کیا۔ شادی کے بعد دونوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑے شروع ہو گئے اور اس کی بیوی نے جہیز کی واپسی اور اپنے ماہانہ اخراجات کی وصولی کے لیے سول عدالت سے رجوع کر لیا۔ عدالت اس کی بیوی کو جہیز کی واپسی روکنے اور ماہانہ اخراجات کے مطالبے میں کمی کرنے کا حکم دے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت ذاتی معاملات میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں رکھتی نہ ہی اس حوالے سے کوئی حکم جاری کر سکتی ہے۔ مذکورہ بالا واقعات میں سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ''محبت اندھی نہیں ہوتی ہے'' در حقیقت مرد نسوانی خوب صورتی کے دیوانے بنتے ہیں اور خواتین کی نظر ہمیشہ اعلیٰ حیثیت کے مردوں پر ہوتی ہے یعنی مرد حضرات کم پرکشش یا واجبی شکل والی خواتین پر کم توجہ دیتے ہیں جب کہ خواتین بھی کم حیثیت والے مردوں کے حوالے سے اس رویے کا اظہار کرتی ہیں اور جب شادی کے بعد ان کی تمنائیں پوری نہیں ہوتیں تو وہ محبت کو بھاڑ میں پھینک کر الگ ہو جاتے ہیں۔ یہی ہے آج کل کی محبت۔
محبت کے ڈنگ سے کوئی بچ نہیں سکتا، ہمارے معاشرے کی طرح بھارتی معاشرہ بھی غیر محفوظ دکھائی دیتا ہے لیکن بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع باغپت میں ایک مسلم آبادی کی اکثریت والے گاؤں ''اساڑا'' میں مقامی برادریوں کی پنچائیت نے محبت کی شادیوں اور عورتوں کے اکیلے گھر سے باہر نکلنے پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پنچائیت نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے سڑکوں پر چلتے موبائل فون استعمال کرنے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ قدم عورتوں کی حفاظت کے لیے اٹھایا گیا ہے جنھیں بازار جاتے وقت چھیڑ چھاڑ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پنچائیت میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ چالیس سال سے کم عمر کی کوئی بھی عورت کسی مرد کو ساتھ لیے بغیر اتوار کو لگنے والے بازار بھی نہیں جائے گی۔
عورتیں سر ڈھک کر ہی گھر سے باہر نکلیںگی۔ محبت کی شادی کرنے والے کسی بھی جوڑے کو گاؤں میں نہیں رہنے دیا جائے گا۔ پنچائیت میں جہیز کے لینے کی بھی مذمت کرتے ہوئے اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا۔ شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے پنچائیت کے فیصلے پر سخت تنقید کی ہے اور اسے ''طالبانی فیصلہ'' قرار دیا جا رہا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا کیا جائے؟ چونکہ ہمارا معاشرہ مشرقی ہے لیکن اس آڑ میں اپنی اولاد کا وہ بنیادی حق غصب کر دینا کسی طور انصاف پر مبنی نہیں ہے جس کا حق اسلام اسے پیدائشی طور پر دے چکا ہے۔ ''یہ حق ہے نکاح میں اولاد کی رضامندی کا'' مشاہدہ ہے کہ جب لڑکے کے والدین شادی کی بات چیت کرتے ہیں تو لڑکے کی پسند و ناپسند کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ کہیں لڑکا ناراض ہو کر شادی کی رات گھر چھوڑ کر چلا نہ جائے۔ اس طرح خاندان کی بدنامی ہو گی۔ دوسری طرف اکثر لڑکی کے والدین یہ سوچ کر یا یہ کہہ کر شادی کے سلسلے میں لڑکی کی رضامندی کو کسی خاطر میں نہیں لاتے کہ شرم و حیا کا تقاضا اور مشرقی تہذیب کا یہی اصول ہے کہ لڑکی کے والدین اس کا رشتہ اس سے پوچھے بغیر کر دیں جو کہ سراسر اولاد کی حق تلفی ہے۔ دین اسلام ہمیں درس دیتا ہے کہ ''بیوہ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت حاصل نہ کر لی جائے اور اسی طرح کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے دریافت نہ کر لیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کنواری سے کیسے اجازت لی جائے؟ جواب یہ ہے کہ اس کی اجازت یہ ہے کہ خاموش رہے (یعنی طلب اذن کے بعد خاموش رہے) لیکن اگر انکار کرے تو اس پر جبر نہ کیا جائے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ دین محمدی۔ میں ''ولی کی اجازت کے بغیر کسی عورت کا نکاح نہیں ہو سکتا۔'' شرعی طور پر ولی اور خود لڑکی دونوں کی رضامندی ضروری قرار دے دی گئی ہے۔ تحفظ عزت کی خاطر یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ لڑکیاں خصوصی طور پر از خود اٹھ اٹھ کر نکاح نہ کرتی پھریں کیوں کہ ان کے لیے ناممکن ہوتا ہے کہ وہ اچھی طرح مرد کے لواحقین کو پرکھ یا دیکھ سکیں۔ اس میں والدین اور خاندان کی عزت کا سوال ہوتا ہے۔ لڑکیوں کے بارے میں سورۃ النساء کی 25 ویں آیت میں ارشاد ربانی ہے:۔ ترجمہ ''ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کر لو،، ۔ بلاشبہ یہی سیدھا راستہ ہے جو روشنی فراہم کرتا ہے۔ باقی راہیں اندھیر کھائی کی طرف لے جانے والی ہیں۔
پسند کی شادیوں کا انجام ملاحظہ کریں! پسند کی شادی کرنے والی 3 سہیلیاں شوہروں سے تنگ آ کر چند ماہ بعد ہی خلع کے لیے عدالت پہنچ جاتی ہیں۔ پہلی درخواست گزار بشریٰ موقف اختیار کرتی ہیں کہ اس کے خاوند پرویز نے اسے بتایا کہ وہ ایک اعلیٰ افسر ہے۔ جب کہ وہ سیلز مین نکلا۔ دوسری خاتون رضیہ نے کہا کہ اس کے شوہر بلال نے کہا کہ وہ اسے شہزادی بنا کر رکھے گا۔ لیکن اس نے نوکرانی بنا دیا۔ جب کہ تیسری خاتون کلثوم بی بی نے کہا کہ میرے شوہر عبدالغفور نے بڑے وعدے اور دعوے کیے تھے جو جھوٹے نکلے اور ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہو سکا۔ جب دو وقت کی روٹی میسر نہیں تو ساتھ رہ کر کیا کرنا ہے۔ ایک اور واقعہ یہ کہ درخواست گزار زاہد نے عدالت کو بتایا کہ اس نے پاک پتن کی رہائشی زوبیہ سے ریلوے اسٹیشن پر خفیہ شادی کی۔ بعد ازاں گھر والوں نے علم ہونے پر انھیں باضابطہ طور پر رخصت کیا۔ شادی کے بعد دونوں میاں بیوی کے درمیان جھگڑے شروع ہو گئے اور اس کی بیوی نے جہیز کی واپسی اور اپنے ماہانہ اخراجات کی وصولی کے لیے سول عدالت سے رجوع کر لیا۔ عدالت اس کی بیوی کو جہیز کی واپسی روکنے اور ماہانہ اخراجات کے مطالبے میں کمی کرنے کا حکم دے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت ذاتی معاملات میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں رکھتی نہ ہی اس حوالے سے کوئی حکم جاری کر سکتی ہے۔ مذکورہ بالا واقعات میں سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ''محبت اندھی نہیں ہوتی ہے'' در حقیقت مرد نسوانی خوب صورتی کے دیوانے بنتے ہیں اور خواتین کی نظر ہمیشہ اعلیٰ حیثیت کے مردوں پر ہوتی ہے یعنی مرد حضرات کم پرکشش یا واجبی شکل والی خواتین پر کم توجہ دیتے ہیں جب کہ خواتین بھی کم حیثیت والے مردوں کے حوالے سے اس رویے کا اظہار کرتی ہیں اور جب شادی کے بعد ان کی تمنائیں پوری نہیں ہوتیں تو وہ محبت کو بھاڑ میں پھینک کر الگ ہو جاتے ہیں۔ یہی ہے آج کل کی محبت۔
محبت کے ڈنگ سے کوئی بچ نہیں سکتا، ہمارے معاشرے کی طرح بھارتی معاشرہ بھی غیر محفوظ دکھائی دیتا ہے لیکن بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع باغپت میں ایک مسلم آبادی کی اکثریت والے گاؤں ''اساڑا'' میں مقامی برادریوں کی پنچائیت نے محبت کی شادیوں اور عورتوں کے اکیلے گھر سے باہر نکلنے پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پنچائیت نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے سڑکوں پر چلتے موبائل فون استعمال کرنے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ قدم عورتوں کی حفاظت کے لیے اٹھایا گیا ہے جنھیں بازار جاتے وقت چھیڑ چھاڑ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پنچائیت میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ چالیس سال سے کم عمر کی کوئی بھی عورت کسی مرد کو ساتھ لیے بغیر اتوار کو لگنے والے بازار بھی نہیں جائے گی۔
عورتیں سر ڈھک کر ہی گھر سے باہر نکلیںگی۔ محبت کی شادی کرنے والے کسی بھی جوڑے کو گاؤں میں نہیں رہنے دیا جائے گا۔ پنچائیت میں جہیز کے لینے کی بھی مذمت کرتے ہوئے اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا۔ شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے پنچائیت کے فیصلے پر سخت تنقید کی ہے اور اسے ''طالبانی فیصلہ'' قرار دیا جا رہا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا کیا جائے؟ چونکہ ہمارا معاشرہ مشرقی ہے لیکن اس آڑ میں اپنی اولاد کا وہ بنیادی حق غصب کر دینا کسی طور انصاف پر مبنی نہیں ہے جس کا حق اسلام اسے پیدائشی طور پر دے چکا ہے۔ ''یہ حق ہے نکاح میں اولاد کی رضامندی کا'' مشاہدہ ہے کہ جب لڑکے کے والدین شادی کی بات چیت کرتے ہیں تو لڑکے کی پسند و ناپسند کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ کہیں لڑکا ناراض ہو کر شادی کی رات گھر چھوڑ کر چلا نہ جائے۔ اس طرح خاندان کی بدنامی ہو گی۔ دوسری طرف اکثر لڑکی کے والدین یہ سوچ کر یا یہ کہہ کر شادی کے سلسلے میں لڑکی کی رضامندی کو کسی خاطر میں نہیں لاتے کہ شرم و حیا کا تقاضا اور مشرقی تہذیب کا یہی اصول ہے کہ لڑکی کے والدین اس کا رشتہ اس سے پوچھے بغیر کر دیں جو کہ سراسر اولاد کی حق تلفی ہے۔ دین اسلام ہمیں درس دیتا ہے کہ ''بیوہ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت حاصل نہ کر لی جائے اور اسی طرح کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے دریافت نہ کر لیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کنواری سے کیسے اجازت لی جائے؟ جواب یہ ہے کہ اس کی اجازت یہ ہے کہ خاموش رہے (یعنی طلب اذن کے بعد خاموش رہے) لیکن اگر انکار کرے تو اس پر جبر نہ کیا جائے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ دین محمدی۔ میں ''ولی کی اجازت کے بغیر کسی عورت کا نکاح نہیں ہو سکتا۔'' شرعی طور پر ولی اور خود لڑکی دونوں کی رضامندی ضروری قرار دے دی گئی ہے۔ تحفظ عزت کی خاطر یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ لڑکیاں خصوصی طور پر از خود اٹھ اٹھ کر نکاح نہ کرتی پھریں کیوں کہ ان کے لیے ناممکن ہوتا ہے کہ وہ اچھی طرح مرد کے لواحقین کو پرکھ یا دیکھ سکیں۔ اس میں والدین اور خاندان کی عزت کا سوال ہوتا ہے۔ لڑکیوں کے بارے میں سورۃ النساء کی 25 ویں آیت میں ارشاد ربانی ہے:۔ ترجمہ ''ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کر لو،، ۔ بلاشبہ یہی سیدھا راستہ ہے جو روشنی فراہم کرتا ہے۔ باقی راہیں اندھیر کھائی کی طرف لے جانے والی ہیں۔