ماحولیاتی تبدیلی سے جنوبی ایشیا کے 80 کروڑ افراد متاثر ہوسکتے ہیں رپورٹ
ماحولیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لیے بھی بڑے نقصانات کا باعث بن رہیں ہیں،ماہر ماحولیات
INNSBRUCK:
عالمی بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے جنوبی ایشیا میں 2030 تک 80 کروڑ افراد متاثر جبکہ 160 ارب ڈالر معاشی نقصانات بھی ہوسکتے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیابھرمیں 5 جون کو ماحولیات کاعالمی دن منایا جائیگا۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کی جی ڈی پی کے ہریونٹ پراعشاریہ باون فیصد نقصان ہورہا ہے۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق گزشتہ دودہائیوں میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 173 قدرتی آفات رونما ہوئیں ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کوسیلاب، قحط سالی، نقل مکانی، ہیٹ ویو اور ٹراپیکل سائیکلون جیسے خطرات کا سامنا ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور دیگر سرکاری محکموں کے اعداد و شمار کے مطابق 2010 کے سیلاب سے پنجاب کے 80 لاکھ افراد متاثر ہونے کے ساتھ صوبے کو 900 ملین روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ ماہرین کاکہنا ہے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون بارشوں میں شدت آتی جا رہی ہے اور 2010 کے بعد تقریباً ہر سال پاکستان کے کسی نہ کسی علاقے میں سیلاب آتا رہا ہے۔
ماہرماحولیات وجنگلی حیات عاشق احمد خان کہتے ہیں پاکستان میں جہاں سیلاب کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے وہیں کئی سالوں سے سامنے آنیوالی خشک سالی کی وجہ سے قحط سالی بھی ایک بڑامسلہ بنتا جارہا ہے،جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں سالانہ بنیاد پر کم بارشوں کے باعث قحط سالی تواتر سے ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ سیلاب کے باعث کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، بارانی علاقوں میں خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ان علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرہے ہیں، جس سے پاکستان میں موسمیاتی مہاجرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
عالمی تنظیم ایکشن ایڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سطح سمندر میں اضافے، صاف پانی کی قلت، فصلوں کی پیداوار میں کمی، حیاتیاتی تنوع کے نظام میں بگاڑ اور قحط سالی کے باعث 2020 تک چھ لاکھ 82 ہزار لوگ موسمیاتی مہاجریں بن کر نقل مکانی کرچکے ہیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے جہاں پوری دنیامتاثرہورہی ہے وہیں پاکستان کے لئے بھی خطرات بڑھتے جارہے ہیں،ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیا کا ماحولیاتی نظام آلودگی کا شکارہورہا ہے جس سے یہاں رہنے والے 80 کروڑ افراد متاثرہوں گے جبکہ سال 2030 تک خطے میں معاشی نقصانات کا سالانہ تخمینہ 160 ارب ڈالرتک پہنچ جائیگا۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشا میں 2050 تک 4 کروڑ افراد نقل مکانی پرمجبورہوں گے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے لئے ٹراپیکل سائیکلون اورہیٹ ویوکے خطرات بھی بڑھتے جارہے ہیں، ان قدرتی آفات سے سندھ خاص طورپرکراچی کوزیادہ خطرات لاحق رہتے ہیں۔
ماہرین ماحولیات کاکہنا ہے پاکستان میں ہرسال ہیٹ ویوسے سینکڑوں افرادکی موت واقع ہوجاتی ہے۔ماہرین کے مطابق بحرالہند اور بحیرہ عرب میں گزشتہ دو دہائیوں میں ٹراپیکل سائیکلون بننے میں تیزی آگئی ہے۔ ماضی میں کئی سالوں بعد کوئی ٹراپیکل سائیکلون بنتا تھا، مگر اب کلائمٹ چینچ کی وجہ سے ہر سال تین سے چار سائیکلون بننا عام بات ہوگئی ہے۔ پاکستان سے تو سائیکلون بڑی تعداد میں نہیں ٹکراتے مگر پاکستان کے نزدیک سے گزرنے کے باعث کراچی، حیدرآباد اور دیگر ساحلی شہروں میں تیز ہوائیں چلنے سے کافی نقصان کا خدشہ ہوتا ہے۔
عالمی بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے جنوبی ایشیا میں 2030 تک 80 کروڑ افراد متاثر جبکہ 160 ارب ڈالر معاشی نقصانات بھی ہوسکتے ہیں۔
پاکستان سمیت دنیابھرمیں 5 جون کو ماحولیات کاعالمی دن منایا جائیگا۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کی جی ڈی پی کے ہریونٹ پراعشاریہ باون فیصد نقصان ہورہا ہے۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق گزشتہ دودہائیوں میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے 173 قدرتی آفات رونما ہوئیں ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کوسیلاب، قحط سالی، نقل مکانی، ہیٹ ویو اور ٹراپیکل سائیکلون جیسے خطرات کا سامنا ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور دیگر سرکاری محکموں کے اعداد و شمار کے مطابق 2010 کے سیلاب سے پنجاب کے 80 لاکھ افراد متاثر ہونے کے ساتھ صوبے کو 900 ملین روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ ماہرین کاکہنا ہے موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون بارشوں میں شدت آتی جا رہی ہے اور 2010 کے بعد تقریباً ہر سال پاکستان کے کسی نہ کسی علاقے میں سیلاب آتا رہا ہے۔
ماہرماحولیات وجنگلی حیات عاشق احمد خان کہتے ہیں پاکستان میں جہاں سیلاب کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے وہیں کئی سالوں سے سامنے آنیوالی خشک سالی کی وجہ سے قحط سالی بھی ایک بڑامسلہ بنتا جارہا ہے،جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں سالانہ بنیاد پر کم بارشوں کے باعث قحط سالی تواتر سے ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ سیلاب کے باعث کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، بارانی علاقوں میں خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ان علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرہے ہیں، جس سے پاکستان میں موسمیاتی مہاجرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
عالمی تنظیم ایکشن ایڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سطح سمندر میں اضافے، صاف پانی کی قلت، فصلوں کی پیداوار میں کمی، حیاتیاتی تنوع کے نظام میں بگاڑ اور قحط سالی کے باعث 2020 تک چھ لاکھ 82 ہزار لوگ موسمیاتی مہاجریں بن کر نقل مکانی کرچکے ہیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے جہاں پوری دنیامتاثرہورہی ہے وہیں پاکستان کے لئے بھی خطرات بڑھتے جارہے ہیں،ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیا کا ماحولیاتی نظام آلودگی کا شکارہورہا ہے جس سے یہاں رہنے والے 80 کروڑ افراد متاثرہوں گے جبکہ سال 2030 تک خطے میں معاشی نقصانات کا سالانہ تخمینہ 160 ارب ڈالرتک پہنچ جائیگا۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشا میں 2050 تک 4 کروڑ افراد نقل مکانی پرمجبورہوں گے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے لئے ٹراپیکل سائیکلون اورہیٹ ویوکے خطرات بھی بڑھتے جارہے ہیں، ان قدرتی آفات سے سندھ خاص طورپرکراچی کوزیادہ خطرات لاحق رہتے ہیں۔
ماہرین ماحولیات کاکہنا ہے پاکستان میں ہرسال ہیٹ ویوسے سینکڑوں افرادکی موت واقع ہوجاتی ہے۔ماہرین کے مطابق بحرالہند اور بحیرہ عرب میں گزشتہ دو دہائیوں میں ٹراپیکل سائیکلون بننے میں تیزی آگئی ہے۔ ماضی میں کئی سالوں بعد کوئی ٹراپیکل سائیکلون بنتا تھا، مگر اب کلائمٹ چینچ کی وجہ سے ہر سال تین سے چار سائیکلون بننا عام بات ہوگئی ہے۔ پاکستان سے تو سائیکلون بڑی تعداد میں نہیں ٹکراتے مگر پاکستان کے نزدیک سے گزرنے کے باعث کراچی، حیدرآباد اور دیگر ساحلی شہروں میں تیز ہوائیں چلنے سے کافی نقصان کا خدشہ ہوتا ہے۔