روشن راہیں

عام و خاص دونوں ہی طرح کے انسان خالی پیٹ کو ایندھن مہیا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں

nasim.anjum27@gmail.com

بھوک بھی کیا چیز ہوتی ہے، انسان کو بے چین و پریشان کر دیتی ہے۔ عام و خاص دونوں ہی طرح کے انسان خالی پیٹ کو ایندھن مہیا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں، لیکن اﷲ والوں کو انواع و اقسام کے کھانوں کی طلب ہر گز نہیں ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک انسان کئی روز سے دریا کے کنارے بیٹھا عبادت الٰہی میں اس قدر مشغول ہے کہ اسے اپنے ارد گرد کی ذرہ برابر خبر نہیں، کئی دن اسی حالت میں گزر گئے اور اب بھوکا پیٹ کچھ کھانے کا تقاضا کر رہا تھا۔ لیکن یہاں تو دریا کے پانی کی مدھم آوازیں اور گہرا سناٹا تھا۔ دور دور تک آبادی کے نشانات نہ تھے۔ لیکن اسی پالن ہار پر مکمل توکل تھا۔ اس نے ایک نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی لیکن دوسرے ہی لمحے میں جب وہی نگاہ دریا پر آ کر رکی تو اسے دریا کے شفاف پانی میں ایک سیب تیرتا ہوا نظر آیا۔ اس کی زبان سے بے اختیار نکلا ''واہ! تیری قدرت!،، پھر اس نے سیب کو پانی سے نکال کر کھا لیا اور اﷲ شکر بجا لایا کہ اس رحیم و کریم نے اس ویرانے میں شکم کی آگ کو بجھانے کے لیے کیا انتظام کیا؟ کلمہ تشکر ادا کیے کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ دوسرے خیال نے روح کو مضطرب کر دیا کہ سیب جو میں نے کھایا ہے کسی کی ملکیت تو نہیں؟ اگر ایسا ہوا تو یہ بہت بڑی بھول ہوئی، اسے یہ احساس ہونے لگا کہ جیسے اس نے چوری کی ہو اور کسی نے چوری چھپے دیکھ بھی لیا ہو، ندامت سے وہ نوجوان گڑا جاتا تھا۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا پریشانی میں اضافہ ہو رہا تھا، آخر اس نے سیب کے مالک کو ڈھونڈنے کا ارادہ کر لیا اور اس سمت روانہ ہوا جہاں سے سیب بہتا ہوا آ رہا تھا۔ کاوشیں رنگ لائیں اور سیب کا باغ دور سے نظر آنے لگا، اسے اطمینان حاصل ہوا کہ ہو نہ ہو یہ سیب اسی باغ کا ہے۔ چنانچہ قریب پہنچ کر مالک کی تلاش شروع کر دی۔ تھوڑی ہی دیر بعد باغ میں کام کرنے والوں نے مالک سے ملاقات کرا دی۔ نوجوان نے پوری کتھا سنائی کہ کس طرح وہ بے ایمانی کا مرتکب ہوا ہے اور اب وہ ہر طرح کی سزا کاٹنے یا جرمانہ دینے کے لیے تیار ہے۔

باغ کے مالک نے سر سے پیر تک نوجوان کو دیکھا اور کہا کہ میری دو شرطیں ہیں۔ ان کے پورا کرنے سے سزا ختم ہو سکتی ہے۔ پہلی شرط پوری کرو وہ یہ ہے کہ تم ایک ماہ تک مسلسل میرے باغ کے پودوں و درختوں کو پانی کے ذریعے تر و تازہ رکھو گے۔ جب ایک ماہ ہو جائے تب دوسری شرط بھی بتا دوں گا۔ گو کہ ایک سیب کی قیمت کے اعتبار سے یہ کڑی شرط تھی لیکن نوجوان نے اپنے اوپر لگے اس بد نما داغ کو مٹانے کے لیے حامی بھر لی کہ کم از کم دل و ضمیر تو مطمئن ہو جائے گا۔ ایک ماہ گزر گیا تب نوجوان نے دوسری شرط پوچھی، بزرگ نے کہا دوسری شرط یہ ہے کہ میری بیٹی سے شادی کرنا ہو گی۔ نوجوان بوڑھے کی شرط سن کر حیران رہ گیا اور بولا آپ میرے حسب نسب سے واقف نہیں ہیں، میرا ذریعہ معاش کیا ہے؟ میرا کردار کیسا ہے؟ یہ سوچنا تمہارا کام نہیں۔ بزرگ نے اطمینان سے جواب دیا اور اس بات کی بھی وضاحت کی کہ میری بیٹی پیدائشی بد صورت ہے، اندھی ہونے کے ساتھ اپاہج بھی ہے۔ بزرگ یہ کہہ کر خاموش ہو گئے، نوجوان نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا تو پھر کیا میری تقصیر کو معاف فرما دیں گے؟

بے شک، ورنہ تم مجرم ہی رہو گے، نوجوان نے اس کٹھن آزمائش پر پورا اترنے کے لیے اﷲ تعالیٰ سے دعا کی اور مالک سے اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا۔ شادی والے دن جب وہ شخص اپنی منکوحہ کے پاس گیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ لڑکی جو اب اس کی بیوی بن چکی تھی، نہایت حسین و جمیل ہے۔ وہ فوراً کمرے سے نکلا اور بزرگ کے پاس آ کر پوچھا کہ شاید اہل خانہ سے کچھ غلطی ہو گئی ہے۔ آپ نے اپنی بیٹی کا جو حلیہ بتایا تھا وہ اس کے برعکس ہے؟ لیکن میرے بچے وہ تیری ہی بیوی ہے، بزرگ نے جواب دیا اور اندھے پن و بد صورتی کے بارے میں عرض کیا کہ میں نے اسے اس لیے نا بینا کہا کہ وہ کسی نا محرم کے سامنے نہیں آئی، اپاہج اس لیے کہنا پڑا کہ اس کے قدم کفر و گناہ کے کوچے تک نہیں گئے۔ باغ کے یہ مالک مشہور صوفی بزرگ حضرت عبداﷲ صومعیؒ تھے اور ان سے بہت سی کرامات وابستہ ہیں، جب کہ وہ نوجوان حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ تھے۔ آپؒ کی ولادت 470ھ میں ہوئی۔ آپ کا آبائی وطن ایران کا قدیم قصبہ جیلان تھا۔ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو دنیا میں تشریف لائے اسی رات آپؒ کے والد محترم حضرت ابو صالحؒ نے حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے صحابہ کرامؓ اور اولیاء عظام کے ساتھ تشریف لائے اور آپ کو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کے بلند درجے کی خوش خبری سنائی۔


حضرت عبدالقادر جیلانیؒ سے بہت سی کرامات منسوب ہیں۔ ڈاکوؤں کا واقعہ بھی آپؒ کے ساتھ پیش آیا۔ اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ ڈاکوؤں کے سردار کے پوچھنے پر انھوں نے بتا دیا کہ ہاں میرے پاس چالیس اشرفیاں ہیں جو قبا کے دبیز استر میں چھپا دی گئی ہیں۔ ڈاکوؤں کے سردار نے تلاشی لی تو ان کی سچائی پر عش عش کر اٹھا اور اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر زار و قطار رونے لگا۔

آج بھی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو ماننے اور عقیدت رکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ غوث اعظم کے نام کی نذر و نیاز کرتے ہیں۔ یہ مہینہ بھی ربیع الثانی کا ہے۔ اس ماہ میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی عقیدت کی بنا پر محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جن بزرگان دین، اولیاء اﷲ نے حق کا چراغ روشن کیا اور اس کی روشنی کو دور دور تک پھیلایا اور اپنی ساری عمر تقویٰ و عبادات اور مخلوق خدا کی خدمت میں گزاری، ان بزرگان دین کی محبت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ان کی تعلیمات پر عمل کیا جاتا اور ان کی تعلیم کا دوسرا نام احکامات خداوندی ہی تو ہے۔ جس طرح سے ان اﷲ کے نیک بندوں نے زندگیاں بسر کیں اپنے نفس کو قابو میں رکھا، خواہشات کو سر اٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا اس دنیا اور اس دنیا کی ہر چیز کو حقیر ترین جانا اور مالک حقیقی کی محبت پر سکھ کو قربان کر کے اپنے رب کا قرب حاصل کیا، بے شک یہ اﷲ کے خاص بندے ہیں، جنھیں ہدایت سے معمور کیا گیا ہے۔

ایک عام انسان نفس کشی کا متمنی نہیں ہو سکتا ہے لیکن بے جا خواہشات پر اپنا کنٹرول اور چراغ حق کی روشنی سے اپنا سینہ منور تو کر سکتا ہے، جب من روشن ہو جائے، ضمیر جاگ جائے تو باطل قوتوں کا خاتمہ آسانی کے ساتھ ہو جاتا ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی طرف قلب رجوع کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار لوگ آج بھی ایسے ہیں جو گمراہ ہونے سے محض اس لیے بچ گئے کہ انھوں نے روشن راہوں پر چلنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور دوسروں کے لیے بھی روشنی مہیا کرنے کی سعی مسلسل کی۔ ایسے ہی نیک لوگوں کی وجہ سے اندھیرے کی دبیز چادر سے اجالا چھن چھن کر آ رہا ہے۔

زندگی کو صرف اپنی عبادت تک محدود رکھنا باعث ثواب نہیں، عبادت تو درس دیتی ہیں، عفو و درگزر کا، دل کی نرمی اور لوگوں کی غلطیوں اور خامیوں کو در گزر کرنے اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا، اسلام کے پانچوں ارکان پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم تو صرف زمین پر ٹکریں مارنے کو نماز کا نام دیتے ہیں اس کے معنی مفہوم سے نا آشنا ہیں، برائیوں کی راہ میں دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشیوں کو قتل کر رہے ہیں، ا یک معمولی سی کامیابی حاصل کرنے کے بعد گردن کو اکڑا کر چلنے میں فخر محسوس کرتے اور اپنے ساتھیوں اور ملنے جلنے والوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ یہ درس تو صوفیا کرام اور بزرگان دین کا ہر گز نہیں ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی زندگی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ شادی بیاہ کے معاملے میں لڑکی کے والدین پر جہیز کا بوجھ ڈالنے کی بجائے جہیز نہ لینے کی مہم چلانا چاہیے تا کہ غیر اسلامی رسم کا خاتمہ ہو۔ بد دیانت، جھوٹے، حرص و طمع میں گرفتار لوگ نہ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے امتی ہونے کا حق رکھتے ہیں اور نہ پیری و مریدی کے حقدار، من کے اندھیروں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story