منچھر کی لہریں اداس ہیں

منچھر جھیل پاکستان کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے۔ یہ سیہون سے اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے

shabnumg@yahoo.com

منچھر جھیل پاکستان کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے۔ یہ سیہون سے اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کھیرتھر کے برساتی نالوں کا پانی اس جھیل میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس جھیل کے خوبصورت منظر سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ جس کی لہروں میں کنول کے پھول تیرتے ہیں اور دیکھنے والوں کے دل اس کے سادہ اور با وقار حسن پر فریفتہ ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پہلی بار میں نے منچھر کا رخ کیا تو اس کے خاموش حسن کی کرنیں روح میں اترتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ جب ہمارا قافلہ منچھر کے قریب پہنچا تو پانی کی لہروں پر سورج کی کرنوں کے لاتعداد ستارے جھلملا رہے تھے۔ منچھر جو کبھی سندھ کی معیشت کا مضبوط ستون تھی، آج اس کا پانی زہر آلود ہو چکا ہے۔ دنیا بھر میں ماحول تبدیل ہو رہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اور ڈیمز کے تعمیراتی منصوبوں کی وجہ سے اس کے پانی کی افادیت متاثر ہوئی ہے۔ منچھر کی تباہی کا ذمے دار Right bank out fall drain آر۔بی۔او۔ڈی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ سیم و تھور کی روک تھام کی خاطر جو منصوبے شروع کیے گئے ان کے منفی اثرات نے اس جھیل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

کسی زمانے میں منچھر جھیل کے پانیوں میں اور کناروں پر متنوع قسم کی گھاس اور پودے لہلہاتے تھے۔ لیکن ماحولیاتی آلودگی نے منچھر سے اس کی تمام تر تازگی چھین لی۔ منچھر آج بیمار اور عمر رسیدہ عورت کی طرح خود سے بے زار دکھائی دیتی ہے۔ کوئی زمانہ تھا جب منچھر کے کنارے پر کشتیاں کنول کے پھولوں کی مانند جھومتی تھیں مگر آج کم کشتیاں دکھائی دیں۔ ان ہی کشتیوں میں مچھیروں کے گھر ہیں۔ جنھیں ''گالیو'' کہا جاتا ہے۔ ہم لوگ ان کشتیوں کی طرف جا رہے تھے۔ ایک گالیے کے مکینوں نے خوش آمدید کہا۔ وہاں موجود عورتوں کے ساتھ باتیں کرنے لگی۔ عورتوں اور بچوں کے چہرے کمھلائے ہوئے تھے۔ ان کے جسم کمزور اور توانائی سے محروم دکھائی دیے۔ اکثر بچوں کے جسموں پر سیاہ دھبے نظر آئے۔ جیسے وہ چمڑی کی بیماری میں مبتلا ہوں۔ ''یہ بچوں کو کیا ہوا ہے؟'' میں نے پوچھا تو نصیباں کہنے لگی پہلے دانے ہوتے ہیں جو بعد میں سیاہ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ گالیو میں بیٹھ کر اچھا لگا۔ ایک طرف باورچی خانہ تھا تو دوسری طرف بیڈروم۔ ایک جگہ ایسی تھی جہاں سب مل کر بیٹھتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں۔ غربت کی وجہ سے یہاں تپ دق، جگر اور گردوں کی بیماریاں عام ہیں۔

ٹھنڈی ہوا کے جھونکے منچھر کے تن کو چھو کر ہماری طرف آتے تو منچھر کی مخصوص سی مہک ہر طرف پھیل جاتی۔ منچھر کے خالی پن میں بھی ایک وقار تھا۔ کوئی زمانہ تھا جب پانی کی گہرائی میں مختلف قسم کی مچھلیاں تیرتی تھیں۔ جن میں موراکھو، جرکو، کرڑو، گزدٹ اور سینہ گاری وغیرہ شامل ہیں۔ اب محض چند اقسام باقی رہ گئی ہیں۔ ایک معمر عورت نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بتایا۔ ہر اچھے دور کے تعاقب میں ایک برا دور ہوتا ہے۔ مگر برے دنوں میں اچھے دنوں کے پلٹ آنے کی امید ہی انسان کو زندہ اور متحرک رکھتی ہے۔''تم لوگ کہیں اور جا کے آباد ہونے کا نہیں سوچتے؟'' میں نے سوال کیا تو نصیباں نے کہا ''بہت سے لوگ منگلا اور تربیلا جا کے آباد ہو گئے ہیں۔ سمندر پر بھی ہمارے ہاں کے بہت سے لوگ جا چکے ہیں۔ مگر ہمارا دل نہیں مانتا۔ یہ جو منچھر ہے ناں یہ ماں جیسی ہے۔ ماں بیمار ہو جائے تو کیا اسے کوئی چھوڑ کے چلا جائے گا؟'' نصیبا۵ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ یہ سیدھے سادے لوگ ہیں۔ لیکن دکھوں نے انھیں گہری باتیں سکھا دی ہیں۔ میں نے دریاؤں کے کنارے بسنے والے لوگوں کے اندر پانی کی سی گہرائی دیکھی ہے۔ یہ مچھیرے پانی کے قریب رہ کر بھی پیاسے تھے۔ان کی زندگیاں پیاس کا صحرا بنا دی گئی ہیں۔ لیکن پھر بھی منچھر انھیں ماں کی گود جیسی شفیق لگتی ہے۔ ماں ناراض بھی تو ہو جاتی ہے۔ منچھر کی ناراض لہروں کو دن بھر یہ مچھیرے مناتے ہیں۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ماں دکھی اور بیمار ہے۔ کالے یرقان میں گھری ہوئی۔


''جس میں رب کی رضا'' نصیباں ایک گہری ٹھنڈی آہ بھرتی ہے۔حالات کے ستائے ہوئے گھائل لوگ ٹھنڈی آہوں سے دکھ کو پرسا دیتے ہیں۔ صبر بھی تو ناپسندیدہ سمجھوتے کی اہم کڑی ہے۔ سمجھوتہ جس کے پنجرے میں کئی نسلوں کے خواب قید ہیں۔ بچے منچھر کے میلے پانی میں کھیل رہے تھے۔ ہوا کے دوش پر کشتی ڈولتی تھی تو سر بھی گھومنے لگتا۔ پانی میں سکوت کی بو تیر رہی تھی۔ ٹھہرے پانیوں جیسی۔ میلے کچیلے بچے اداس تھے۔ جن کے ہاتھ بسکٹ، ٹافیوں اور کھلونوں سے خالی تھے۔ لیکن ان کی آنکھوں میں آس کے کھلونے مچلتے تھے۔ ان کے چہروں پر محرومی کا عکس دیکھا نہیں جا رہا تھا۔کشتی ان کا گھر تھا اور کھلا آسمان ان کی چھت تیز ہواؤں، طوفانوں اور بارشوں کی گود میں ہلنے والے یہ مچھیرے بہت بہادر لگے۔ اس وقت پانی میں ڈولتی ہوئی کشتی میں بیٹھ کر مچھیروں کا رہن سہن اور مسائل دیکھ کر احساس ہوا کہ ڈر بھی ایک آسائش ہے، جو فقط بند اور آرام دے گھروں میں لگتا ہے۔ ورنہ کھلے آسمان کی چھت تلے انسان ہر طرح کے حالات سے نبٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے۔ جتنے سکھ ملتے ہیں، برداشت اتنی ہی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔''پھر تم لوگوں کا گزر سفر ان حالات میں کیسے ہوتا ہے؟'' جواب میں نصیباں نے بتایا کہ اس کے دیور سمندر پر کام کی خاطر گئے ہیں۔ وہ پیسے بھیجتے ہیں تو کچھ دن اچھے گزر جاتے ہیں۔ ایک طرف ٹین کے ڈبوں میں کھانے پینے کی اشیا رکھی تھیں۔ صاف پینے کا پانی بھی برتنوں میں رکھا تھا۔ یہاں زندگی محدود تھی۔ قطرہ قطرہ برستی ہوئی۔ پھر بھی یہ لوگ بے ساختہ ہنسی میں لوٹ پوٹ ہو جاتے۔''یہ قمیض پر کڑھائی کس نے کی ہے؟'' میں نے پوچھا تو کہنے لگی ''یہ قمیض میں نے بنائی ہیں''

''یہ تو بہت خوبصورت کام ہیں'' تعریف سن کر اس کے چہرے پر خوشی کے شگوفے کھل اٹھے۔ ایک صندوق سے کڑھائی کے کپڑے اور ریلیں نکال کر لائی۔ بہت خوبصورت رلیاں تھیں۔ نفاست سے بنی ہوئیں۔ دلکش رنگوں سے مزین۔منچھر پر کئی نجی تنظیمیں آ کر کام کرتی رہی ہیں۔ ایسے مفلوک الحال علاقوں کے دکھوں کو کیش کرا کے سمجھ دار لوگ خوب پیسہ بناتے ہیں۔ شاید کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ہاتھ کے ہنر کی گھریلو صنعت کو فروغ دے کر ان لوگوں کو روزگار کا ذریعہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔ ''یہ لمبی گاڑیاں آتی ہیں منچھر پر آئے دن'' وہ اداسی سے کہنے لگی۔ جدت اور خوشبوؤں میں لپٹی بیگمات تسلی کے چند جملے انھیں سنا کر دوبارہ اپنی آرام دہ زندگی کی طرف لوٹ جاتی ہوں گی۔شام ہو چلی تھی۔ سرمئی دھند کے قریب نارنجی رنگ کا سورج چمک رہا تھا۔ جیسے بتاشوں بھرا بڑا سا گول تھال ہو۔ ڈوبتے سورج کی شعاعوں کے عکس کے ساتھ ایک پراسرار سی خاموشی لہروں پر ہلکورے لے رہی تھی۔ ہلکے اندھیرے میں کشتیوں میں لالٹینیں جل اٹھیں۔ جن کی مدھم روشنیوں میں کشتیاں خوابناک دکھائی دے رہی تھیں۔

''معلوم نہیں منچھر کے دن کب بدلیں گے؟'' نصیباں نے اداسی سے کہا۔منچھر جھیل سندھ کی رنگا رنگ ثقافت، خوشحالی اور مچھیروں کے خوابوں کا اہم محور تھی بھی۔ آج ماحولیاتی آلودگی کے زہر میں ڈوب چکی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آربی او ڈی ٹو کا کام مکمل ہونے کے بعد منچھر کو اس آلودگی سے نجات مل سکے گی۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ منچھر کی طرف آنے والا زہریلا پانی بند کر دینے سے کافی بہتری آ سکتی ہے۔ یہ زہریلا پانی جب سمندر کی طرف راستہ بنانے لگے گا تو خوشی اور خوشحالی کے روٹھے ہوئے دن واپس پلٹ سکتے ہیں۔
Load Next Story