پاکستان کے شہری علاقوں میں 62 اور دیہاتوں میں 83 فیصد پینے کا پانی آلودہ ہے ماہرین
کراچی میں منعقدہ ایک تقریب میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی ہسپتالوں پر آلودہ پانی کے امراض کا بوجھ سب سے زیادہ ہے
ماہرین نے کہا ہے کہ شہری علاقوں میں 62 اور دیہاتوں میں 83 فیصد فراہم کردہ پینے کی پانی آلودہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہسپتالوں پر متاثرہ پانی پینے سے بیمار افراد کا غیرمعمولی بوجھ بھی ہے۔
پوری دنیا میں آلودہ پانی تشدد اور حادثات سے زیادہ اموات کا باعث بنتا ہے آلودہ پانی سے ہونے والی اموات، پندرہ سال سے کم عمر بچوں میں یہ تناسب تین گنا زیادہ ہے، بدقسمتی سے پاکستان بھی آلودہ پانی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں آلودہ پانی خاص طورپر بچوں کی اموات کا باعث بن رہا ہے۔
دیہی علاقوں سمیت پاکستان کے شہری علاقوں میں بھی پینے کا 62 سے 82 فیصد پانی انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے جس میں بیکٹیریا، آرسینک، نائٹریٹ اور دیگر خطرناک دھاتوں کی بھاری مقدار شامل ہے جبکہ انتظامیہ کی عدم توجہ اور مخدوش نظام کے باعث سیوریج کے پانی کی لائنیز پینے کے پانی کی لائنز میں ملنا معمول کی بات ہے ۔
پاکستان میں پینے کے صاف پانی کی سنگین صورتحال کے پیش نظر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (این آئی سی ایچ )اور ایشین یونین فورم کے تعاون سے ٹیک گرینز ریسرچ اینڈ ڈیلویلپمنٹ سروسز پرائیوٹ لمیٹڈ کے زیر اہتمام این آئی سی ایچ آڈیٹوریم میں آلودہ پانی اور اس سے بچاؤ کے اقدامات کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیاگیا جس کا مقصدآلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں بشمول ڈائریا، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی بیماریوں کی روک تھام کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان عوامل کی نشاندہی اور اس کے سدباب کی کوششیں کرنا ہے جو ان امراض کا باعث بن رہی ہیں ۔
اس موقع پر تقریب کے میں مہمان خصوصی سربراہ سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ پروفیسر ڈاکٹر جمال کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی نل کے پانی کو پینے کے صاف پانی کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے یعنی نلکوں میں آنے والا پانی ہر طرح کی آلودگی سے پاک ہوتا ہے لیکن ہمارے گھروں میں آنے والا پانی پینے کے لئے محفوظ نہیں ہے ، انھوں نے کہا کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں دستیاب پانی کو ہم محفوظ سمجھتے ہیں تاہم پلاسٹک کے استعمال کے اپنے کئی نقصانات ہیں ، انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں نل کے پانی کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے ۔
ٹیک گرینز ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ سروسز پرائیوٹ لمیٹڈ کے سربراہ حسیب اصغر نے اس موقع پر کہا کہ پینے کا صاف پانی بنیادی انسانی حق ہےتاہم بدقسمتی سے پاکستان کی ایک بڑی آبادی پینے کے صاف پانی کے حق سے محرورم ہے ہم نے آج اس سنگین نوعیت کے مسئلے کے ممکناء حل کےلئے ماہرین کو اس سیمینار میں مدعوکیا ہے اور ماہرین سے تجاویز لی ہیں کہ کس طرح اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے ۔
تقریب کے دیگر شرکاء میں این آئی سی ایچ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ، پروفیسر ڈاکٹرناصر سلیم سڈل سرسید اسپتال کے ماہر امراض اطفال ، ایشین پیڈییٹرک ایسوسی ایشن کے صدرپروفیسر ڈاکٹر اقبال میمن ، سینئررجسٹرار ماہر امراض اطفال برائے جگر و معدہ ڈاکٹر عائشہ الطاف مرچنٹ ، ماہر وبائی امراض برائے اطفال ڈاکٹر واجد حسین ، محمد علی جناح نونیورسٹی کے شعبہ لائف سائنسز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر کامران عظیم ، این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبہ برائے آرکی ٹیک پروفیسر ڈاکٹر نعمان ،سندھ انسٹیٹیوٹ آف انفیکشیئس ڈیزیز اینڈ ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر لیبارٹری ڈاکٹر افضال ، ڈپٹی ڈائریکٹر این آئی سی ایچ ڈاکٹر لیاقت علی ہلو،سینئر فارماسسٹ ڈاکٹر سائرہ ارم اعجاز ، سیکٹر کمانڈر عبداللہ شاہ غازی رینجرز، بریگیڈیربلال احمد، سینئر جرنلسٹ نصرت مرزااور سینئر سائنس جرنلسٹ علیم احمد سمیت ، ڈاکٹر، فارماسسٹ ، نرسز ہیلتھ کیئر پروفیشنلز اور ریسرچرز سمیت میڈیا کے نمائندگان شامل تھے ۔
پوری دنیا میں آلودہ پانی تشدد اور حادثات سے زیادہ اموات کا باعث بنتا ہے آلودہ پانی سے ہونے والی اموات، پندرہ سال سے کم عمر بچوں میں یہ تناسب تین گنا زیادہ ہے، بدقسمتی سے پاکستان بھی آلودہ پانی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں آلودہ پانی خاص طورپر بچوں کی اموات کا باعث بن رہا ہے۔
دیہی علاقوں سمیت پاکستان کے شہری علاقوں میں بھی پینے کا 62 سے 82 فیصد پانی انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے جس میں بیکٹیریا، آرسینک، نائٹریٹ اور دیگر خطرناک دھاتوں کی بھاری مقدار شامل ہے جبکہ انتظامیہ کی عدم توجہ اور مخدوش نظام کے باعث سیوریج کے پانی کی لائنیز پینے کے پانی کی لائنز میں ملنا معمول کی بات ہے ۔
پاکستان میں پینے کے صاف پانی کی سنگین صورتحال کے پیش نظر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (این آئی سی ایچ )اور ایشین یونین فورم کے تعاون سے ٹیک گرینز ریسرچ اینڈ ڈیلویلپمنٹ سروسز پرائیوٹ لمیٹڈ کے زیر اہتمام این آئی سی ایچ آڈیٹوریم میں آلودہ پانی اور اس سے بچاؤ کے اقدامات کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیاگیا جس کا مقصدآلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں بشمول ڈائریا، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی بیماریوں کی روک تھام کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان عوامل کی نشاندہی اور اس کے سدباب کی کوششیں کرنا ہے جو ان امراض کا باعث بن رہی ہیں ۔
اس موقع پر تقریب کے میں مہمان خصوصی سربراہ سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ پروفیسر ڈاکٹر جمال کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی نل کے پانی کو پینے کے صاف پانی کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے یعنی نلکوں میں آنے والا پانی ہر طرح کی آلودگی سے پاک ہوتا ہے لیکن ہمارے گھروں میں آنے والا پانی پینے کے لئے محفوظ نہیں ہے ، انھوں نے کہا کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں دستیاب پانی کو ہم محفوظ سمجھتے ہیں تاہم پلاسٹک کے استعمال کے اپنے کئی نقصانات ہیں ، انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں نل کے پانی کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے ۔
ٹیک گرینز ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ سروسز پرائیوٹ لمیٹڈ کے سربراہ حسیب اصغر نے اس موقع پر کہا کہ پینے کا صاف پانی بنیادی انسانی حق ہےتاہم بدقسمتی سے پاکستان کی ایک بڑی آبادی پینے کے صاف پانی کے حق سے محرورم ہے ہم نے آج اس سنگین نوعیت کے مسئلے کے ممکناء حل کےلئے ماہرین کو اس سیمینار میں مدعوکیا ہے اور ماہرین سے تجاویز لی ہیں کہ کس طرح اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے ۔
تقریب کے دیگر شرکاء میں این آئی سی ایچ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ، پروفیسر ڈاکٹرناصر سلیم سڈل سرسید اسپتال کے ماہر امراض اطفال ، ایشین پیڈییٹرک ایسوسی ایشن کے صدرپروفیسر ڈاکٹر اقبال میمن ، سینئررجسٹرار ماہر امراض اطفال برائے جگر و معدہ ڈاکٹر عائشہ الطاف مرچنٹ ، ماہر وبائی امراض برائے اطفال ڈاکٹر واجد حسین ، محمد علی جناح نونیورسٹی کے شعبہ لائف سائنسز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر کامران عظیم ، این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبہ برائے آرکی ٹیک پروفیسر ڈاکٹر نعمان ،سندھ انسٹیٹیوٹ آف انفیکشیئس ڈیزیز اینڈ ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر لیبارٹری ڈاکٹر افضال ، ڈپٹی ڈائریکٹر این آئی سی ایچ ڈاکٹر لیاقت علی ہلو،سینئر فارماسسٹ ڈاکٹر سائرہ ارم اعجاز ، سیکٹر کمانڈر عبداللہ شاہ غازی رینجرز، بریگیڈیربلال احمد، سینئر جرنلسٹ نصرت مرزااور سینئر سائنس جرنلسٹ علیم احمد سمیت ، ڈاکٹر، فارماسسٹ ، نرسز ہیلتھ کیئر پروفیشنلز اور ریسرچرز سمیت میڈیا کے نمائندگان شامل تھے ۔