مراعاتی کلچر اور معاشی بحران

پاکستان اس وقت اپنی مالیاتی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے

ISLAMABAD:
وزیراعظم میاں شہباز شریف جمعے کو گوادر کے دورہ پر وہاں پہنچے۔انھوں گوادر میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ایک جائزہ اجلاس کی صدارت کی ، بعدازاں گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے منصوبہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کیا۔ وزیراعظم نے ان مواقع پر گوادر اور ملک کے دیگر مسائل پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ ایک اہم بات انھوں نے یہ کی کہ غریب عوام نے 75سال سے قربانی دے رہے ہیں،اب اشرافیہ کو قربانی دینا ہو گی اورشروعات اپنے سے کروں گا۔ گورنرز، وزراء اعلیٰ، وزراء، مشیروں، وفاقی اور صوبائی سیکریٹریوں اور سرکاری افسران، سیاستدانوں سب کو اس کارخیر میں حصہ ڈالنا ہو گا اور سخت اقدامات قبول کرنا پڑیں گے۔ انھوں نے واضح کیا کہ محنت اور لگن سے کام کریں گے، سادگی اختیار کریں گے، قربانی دیں گے،تب ہی یہ ملک قائداعظم کے خواب کی تعبیر بنے گا ۔انھوں عزم ظاہر کیا کہ ہم چیلنجز کو عبور کرکے پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جائیں گے۔

ادھر کفایت شعاری اور سادگی کے حوالے سے اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تمام وزراء اورسندھ حکومت کے افسران کا پٹرول 40 فیصد کم کرنے کے احکامات دے دیے ہیں تاکہ خزانے پر مالی بوجھ کم کیا جاسکے ۔وزیراعلیٰ سندھ کے اعلان کے بعد محکمہ خزانہ سندھ نے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے ۔

ادھر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان نے بھی تمام سرکاری محکموں اور اداروں کے پٹرولیم اخراجات میں 35 فیصد کمی کے احکامات جاری کردیے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ نے اس سلسلے میں چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا کو باقاعدہ مراسلہ ارسال کردیاہے۔اسی راہ پر چلتے ہوئے چیف سیکریٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی نے بھی سرکاری افسران کو پٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں 40 فیصد تک اخراجات میں کمی لانے کی ہدایت جاری کردی ہے ۔اس حوالے سے چیف سیکریٹری گلگت بلتستان آفس سے جاری سرکلر کے مطابق انتظامی سیکریٹریز/ محکموں کے سربراہان پٹرولیم مصنوعات کے اخراجات میں کم از کم 40 فیصد کمی کو یقینی بنائیں۔تاہم ضروری/ریسکیو خدمات پر مامور گاڑیاں ان ہدایات سے مستثنیٰ ہیں۔ چیف سیکریٹری نے تمام متعلقہ افسران کو سرکاری گاڑیوں میں غیر ضروری نقل و حرکت پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی طر ف سے بھی پٹرول کی قیمتوں میں 30 روپے فی لٹر اضافے کے بعد وفاقی کابینہ کے اراکین کوملنے والے فری پٹرول میں 30سے 40 فیصدکٹوتی متوقع ہے۔وزیراعظم نے کفایت شعاری کی پالیسی اختیارکرتے ہوئے کابینہ کی تعداد میں بھی کمی کا فیصلہ کیا ہے۔وفاقی وزیر برائے بحری امور فیصل سبزواری نے وزیراعظم سے وفاقی وزرا کو پٹرول کی مد میں ملنے والی مراعات ختم کرنے کی درخواست کی ہے، اپنے بیان میں انھوں نے وزیراعظم سے پر زور درخواست کی ہے کہ انتہائی مشکل حالات میں ضروری ہے کہ وفاقی حکومت، بشمول کابینہ اور گریڈ 18سے اوپر کے افسران کو دیے جانے والے فیول کو روک دیا جائے یا خاطر خواہ کمی کی جائے۔فیصل سبزواری نے کہا کہ اس فیصلے کی شروعات وفاقی کابینہ سے کی جائے۔

پاکستان اس وقت اپنی مالیاتی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان اس نہج پر کیسے پہنچا ہے، اس کی وجوہات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ پاکستان میں برسراقتدار آنے والی کسی حکومت نے گراس روٹ لیول پر کوئی معاشی اور اقتصادی منصوبہ بندی نہیں کی۔ جو گروپ برسراقتدار آیا، اس نے پاکستانی عوام کے اجتماعی مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے گروہی مفادات کا تحفظ کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ اس پالیسی کے تسلسل کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد شہری اور زرعی جائیدادوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے جو کچھ ہوا، اس سے عام شہری لاعلم رہا حتیٰ کہ آج کا پڑھا لکھا طبقہ بھی ان معاملات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہے۔ سرکاری ملازمتوں اور ترقیوں کا احوال بھی ایسا ہی ہے۔

آج بھی قیام پاکستان کے بعد تشکیل پانے والی سرکاری مشینری کے اصلی تعلیمی و تربیتی ڈاکومنٹس کی پڑتال کی جائے تو بہت کچھ سامنے آ جائے گا۔ اس کے علاوہ ریاست کے اعلیٰ عہدوں کے لیے من مرضی کے قوانین بنائے گئے۔ اعلیٰ ریاستی عہدیداروں کو ایسے صوابدیدی اختیارات دیے گئے جن کو استعمال کر کے یہ عہدیدار، ان کے خاندان، رشتے دار، دوست احباب کو سرکاری خزانے سے مراعات دے کر امیر بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔


یوں پاکستان میں امراء کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو بغیر کوئی محنت کیے یا کوئی کاروبار کیے صرف ریاستی خزانے کو استعمال کر کے بااثر اور طاقتور بن گیا۔ یہی مراعات یافتہ طبقہ پاکستان کے معاشی، انتظامی اور سیاسی بحران کا ذمے دار ہے۔ بہرحال یہ کہانی بڑی طویل ہے اور اس کا اختتام پاکستان میں موجود مراعاتی قوانین کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے۔ وزیراعظم، سندھ اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ اور گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹری نے جو اقدامات کیے ہیں، انھیں مزید آگے بڑھانا چاہیے۔ وفاقی وزیر برائے بحری امور فیصل سبزواری نے جو تجویز دی ہے، اس پر فوری طور پر عمل کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور دیگر ریاستی عہدیداروں کو مالیاتی اور منظور نظر افراد کو نوازنے والے صوابدیدی اختیارات فوری کالعدم قرار دیے جائیں۔

ادھر وزیراعظم شہبازشریف نے گوادر میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے کہا ہے کہ گوادر ایئرپورٹ ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا حالانکہ ہم نے 2017-18 میں اس کا سنگ بنیاد رکھ دیا تھا، چین کے صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم لی کی کیانگ نے اس کے لیے گرانٹ دی تھی، اربوں خرچ کر دیے گئے ہیں لیکن گوادر میں پانی کا مسئلہ بھی حل نہیں ہو سکا، گوادر میں بجلی کی قلت بھی ایک مسئلہ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گوادر پورٹ کی گہرائی کم ہو گئی ہے اور بحری جہاز یہاں لنگر انداز نہیں ہو سکتے،اس کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔

وزیراعظم نے ماہی گیروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماہی گیروں کی ترقی ہماری اوّلین ترجیح ہے، غیر قانونی ٹرالنگ کے خلاف سخت ایکشن لیں گے۔ ماہی گیروں کو مرحلہ وار کشتیوں کے انجن مفت فراہم کیے جائیں گے، پہلے مرحلہ میں 2 ہزار ماہی گیروں کو شفاف طریقہ سے قرعہ اندازی کے ذریعے انجن فراہم کیے جائیں گے، وہ جون کے آخر میں دوبارہ گوادر کا دورہ کریں گے اور ماہی گیروں کے مسائل ان کی زبانی تفصیلی طور پر سنیں گے ۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں ماہی گیروں کو مراعات دینا اور ان کے کاروبار کو تحفظ دینا آئین پاکستان کے تحت حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے۔

گوادر ہو یا کراچی کے ماہی گیر یا پھر ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے، یہاں ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بنیادی اور اولین ذمے داری ہونا چاہیے۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں میں جتنا زیادہ انفرااسٹرکچر بہتر ہو گا، ماہی گیر خوشحال ہو گا تو اس کے اثرات پورے پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ پاکستان بھی اگر گوادر سے لے کر ٹھٹھہ تک کے ساحلی علاقوں پر سرمایہ کاری کرے تو یہ ساحلی پٹی پورے پاکستان کو خوشحال بنا سکتی ہے۔

اس وقت پاکستان میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اب گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونے جا رہا ہے۔ بلاشبہ یہ سب کچھ کرنے پر حکومت مجبور ہے کیونکہ ملک کی معاشی صورت حال ایسی بن گئی ہے کہ بغیر قرضے کے ملک کو چلانا ممکن نہیں رہا۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے بیل آؤٹ پیکیج لینے کے لیے ان کی شرائط ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ اسی لیے عوام مہنگائی کو برداشت کر رہے ہیں لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی وہ اشرافیہ جو اس ریاست پر مالیاتی بوجھ بنی ہوئی ہے، اس سے قربانی مانگی نہ جائے بلکہ قصاص لیا جائے۔

ریاست کے نام پر مراعات اور سہولیات کا جو کلچر پروان چڑھایا گیا ہے، اسے قانون سازی کے ذریعے ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا جائے۔ عوام کے منتخب نمایندے حقیقی معنوں میں ملک اور عوام کی بھلائی کے لیے کام کریں نہ کہ اپنے مفادات اور رعب داب کے لیے۔ توشہ خانے سے ٹوکن منی دے کر غیرملکی تحائف خریدنے پر پابندی عائد کر دی جائے۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو زمین الاٹ کرنے کے اختیارات ختم کر دیے جائیں۔ سرکاری اراضی فلاحی اداروں کو بلامعاوضہ دینے کے قانون کو ختم کیا جائے۔ ذاتی اور خاندانی ناموں پر قائم ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کو ریاستی سطح پر مراعات اور رعایتیں دینے کے اختیارات اور قوانین کا خاتمہ کیا جائے۔ اگر کسی نے اپنے نام پر یا اپنے رشتے دار یا کسی بزرگ کے نام پر کوئی ٹرسٹ، رفاعی یا تعلیمی ادارہ قائم کرنا ہے تو وہ اپنے اور اپنے خاندان کے پیسوں سے کرے۔ ریاست کے ذریعے ایسے ٹرسٹ چلانا درست عمل نہیں ہے۔ اس طریقے سے ماضی کے داغوں کو دھو کر ایک خوشحال پاکستان کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔
Load Next Story