تمام علوم اردو میں منتقل کیے بغیر ترقی کا امکان نہیں ڈاکٹر ظفر اقبال

ہمارے ادب کا بڑا حصہ تاحال غیرمطبوعہ ہے، ہزارہا مخطوطات کا مستقبل فقط دیمک ہے، ڈاکٹر ظفر اقبال

معروف محقق اور وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر، ڈاکٹر ظفر اقبال کے حالات و خیالات

کیاآپ قدیم اوراق سے محبت رکھتے ہیں، اُن کی خوش بو سحر انگیز لگتی ہے، بیتے وقتوں کی روشنائی اپنی جانب کھینچتی ہے؟ تو چلیے، کسی پرانے کتب خانے کا رخ کرتے ہیں، کسی میوزیم کی سمت بڑھتے ہیں، جہاں قطار میں کھڑے شیلف مخطوطات سے سجے ہوں۔ ممکن ہے، وہیں کسی خاموش پُرسکون گوشے میں ظفر اقبال بیٹھے نظر آجائیں۔

آہٹ سن کر سر اٹھائیں۔ اب گفت گو شروع ہو۔ اور بے شک فکری پیرایے میں ہو۔ بے فکر رہیں، مکالمے کے خشک ہونے کا امکان نہیں۔ علمیت کے مانند شایستگی اور شگفتگی بھی اُن کی شخصیت کا حصہ ہے۔تحقیق کا بنیادی موضوع مخطوطات ہیں۔ ایک ایسے کام کا بیڑا اٹھا لیا ہے، جو اداروں کے کرنے کا ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے اردو مخطوطات کی فہرست بنا رہے ہیں وہ۔ ''دائرۂ مخطوطاتِ اردو'' منصوبے کو نام دیا ہے۔ دس جلدوں پر پھیلاہوا ہے۔ تین جلدیں مکمل ہوچکیں۔ معلومات اکٹھی کر لی ہے۔ امید رکھتے ہیں کہ باقی بھی جلد مکمل ہوجائیں گی۔ اِس بات کا قلق ہے کہ ہمارے علم و ادب کا بڑا حصہ تاحال غیرمطبوعہ ہے۔ 75 فی صد حصہ مخطوطوں کی صورت۔ بکھرا ہوا، بہت سے کتب خانوں میں منتشر۔ پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں تین چار ہزار مخطوطات ہیں۔ حیدرآباد دکن کے کتب خانوں میں آٹھ دس ہزار۔ مولانا آزاد لائبریری، علی گڑھ میں چوبیس ہزار کے لگ بھگ۔ خدا بخش لائبریری، پٹنا کا یہی معاملہ ہے۔ کہتے ہیں،''اور اُن ہزارہا مخطوطوں کا مستقبل دیمک ہے۔ ہم علم و ادب کی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔ کتاب کو آہستہ آہستہ کیڑے کھا رہے ہیں۔''

نیشنل میوزیم آف کراچی کے مخطوطات پر خاصا کام ہے۔ 89ء میں پہلی کتاب آئی، تو اِن ہی سے متعلق تھی۔ نام تھا ''فہرست مخطوطات!'' پھر نین سکھ کا دیوان ہاتھ لگا، جو میر تقی میر کے ہم عصر تھے۔ شاعر کے کلام کو اُس عہد کے حالات کا عکاس پایا۔ اس مخطوطے کو ایڈٹ کرکے انجمن ترقی اردو ہند سے شایع کروایا۔ ایک معنوں میںنین سکھ کو دریافت کیا۔ ''سفینۂ بے خبر'' اگلی کتاب۔ فارسی کے شعرا کا، عظمت اﷲ بے خبر بلگرامی کے قلم سے نکلا دوسو برس پرانا تذکرہ۔ اِس تذکرے کے قلمی نسخے پنجاب یونیورسٹی میں موجود تھے، وہیں بیٹھ کر کام کیا۔ ''ناسخ کا غیرمطبوعہ کلام''اگلی کتاب تھی۔ ''ناسخ کا زمانہ غازی الدین حیدر کا زمانہ ہے۔ انگریزوں کا غلبہ ہوچکا تھا۔ ناسخ نے ایک انگریز افسر کو تحفے میں پیش کرنے کے لیے بہت ہی دل کش کتابت کروا کر ایک قلمی نسخہ تیار کیا، جس میں ان کا فارسی اور اردو کلام شامل تھا۔

وہ صاحب برطانیہ گئے۔ وہاں یہ نسخہ کسی نیلامی میں فروخت ہوا، اور ایران چلا گیا۔ ڈاکٹر محمد باقر کی معرفت یہ نیشنل میوزیم پہنچا۔ وہاں یہ مجھے ملا۔ میں نے اِسے ایڈٹ کرکے 92-93 میں شایع کیا۔'' اِس کے بعد ان کے تحقیقی مقالے ''اردو میں تاریخ نویسی'' کی اشاعت عمل میں آئی۔ مولانا عبدالاسلام نقوی کے مضامین مرتب کیے، موضوع جن کا تصوف ہے۔ پیشہ اُن کا تدریس ہے۔ صدر شعبۂ اردو، جامعہ کراچی رہے۔ وہاں ڈین کا منصب سنبھالا۔ ٹوکیو یونیورسٹی، جاپان میں چار برس کا عرصہ گزرا۔ اِس وقت وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں۔

اب ذرا حالاتِ زندگی کھنگال لیں:یوپی کی تحصیل قائم گنج آبائی وطن۔ ہجرت کے بعد لاڑکانہ والدین کا مسکن ٹھہرا۔ یہیں 18 جولائی 1953 کو، احسان غنی کے گھر آنکھ کھولی۔ سنجیدگی بچپن سے ساتھ ہے۔ کہتے ہیں،''ہم بچپن ہی میں بڈھے تھے۔ ہمارے پردادا، دادا، والد، سب سلسلۂ تدریس سے تھے، مگر اِسے پیشہ نہیں بنایا۔ معاش کے لیے والد نے زراعتی سرگرمیاں اختیار کیں۔ ہوش سنبھالنے پر ہم نے اردگرد بوڑھے بوڑھے لوگ دیکھے۔ کوئی شاعر ہے، کوئی ادیب، کوئی مجذوب۔'' گھر میں متنبّی، خاقانی، سعدی اور حافظ کا تذکرہ رہتا۔ بچے کو عام تعلیم سے پہلے عربی اور فارسی سکھائی جاتی۔ اُن کے ابتدائی مطالعے کا محور عربی شاعری رہی۔ پھر فارسی کی جانب متوجہ ہوئے۔ اردو کی سمت آنے کے بعد میر، غالب، مومن، سودا، داغ کو پڑھا۔ جگر تو والد کے دوست تھے۔


دو بہنوں، سات بھائیوں میں اُن کا نمبر چوتھا۔ کرکٹ کے دل دادہ۔ شوق یونیورسٹی تک رہا۔ پھر باکسنگ کی جانب متوجہ ہوئے۔ اُن کے بچپن میں لاڑکانہ ایک چھوٹا سا شہر تھا۔ آبادی فقط ایک لاکھ۔ اردو بولنے والوں کی اکثریت، تاہم کسی نوع کی تقسیم نہیں۔ تعلیم اور ثقافتی سرگرمیوں کا شعور۔ جس لسانی ہم آہنگی کا اوائل عمری میں تجربہ کیا، اِسے بعد میں مٹتے ہوئے دیکھا۔ سبب اُن کے نزدیک یہ رہا کہ پاکستان کی آبادی بڑھی، مگر وسائل میں اضافہ نہیں ہوا۔ کشاکش شروع ہوگئی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے Cross Cultural Marriages پر زور دیتے ہیں۔

68ء میں میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج ، لاڑکانہ سے انٹر کا مرحلہ طے کیا۔ والد کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنیں، مگر بیل منڈھے نہیں چڑھی۔ بی ایس سی کے بعد سندھ یونیورسٹی کا حصہ بن گئے۔ طلبا سیاست میں تشدد کا رنگ داخل ہوگیا تھا۔ تصادم کی فضا، اور رہایش اُن کی یونیورسٹی ہاسٹل میں۔ خوش قسمتی سے دوستوں کے حلقے میں تمام مکتبۂ فکر کے لوگ شامل تھے۔ پھر اُن کے علمی ذوق کا بھی چرچا تھا۔کشیدگی کا وہ زمانہ سکون سے کاٹ لیا۔ ویسے نظریاتی طور پر جھکاؤ ترقی پسندوں کی جانب تھا، مگر طبیعت میں اعتدال تھا۔ 75ء میں ماسٹرز کیا۔ فوراً تحقیق میںجٹ گئے۔ 80ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی۔اِس زمانے میں لکھتے لکھاتے بھی رہے۔ قلم تو میٹرک ہی میں تھام لیا تھا۔ پہلے مضمون کا موضوع''اردو نثر کا ارتقا'' تھا۔ بعد کے برسوں میں ''دریافت''، ''بازیافت''، ''تحقیق'' اور ''اردو ادب'' جیسے پرچوں میں مضامین شایع ہوتے گئے۔

ظفر اقبال نے زمانۂ طالب علمی میں ممتاز اسکالر، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان سے اکتساب فیض کیا۔ ذکر اُن کا بہت احترام سے کرتے ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات کا قصّہ دل چسپ ہے۔ ہوا یوں کہ وہ لاڑکانہ سے ٹرین میں سوار ہو کر جام شورو پہنچے۔ یونیورسٹی کے احاطے میں داخل ہوتے ہی ایک صاحب پر نظر پڑی، جو درخت کے نیچے دھوپ سینک رہے تھے۔ وہ پاس گئے۔ سلام کے بعد دریافت کیا: ''جناب، فارم کہاں سے ملے گا؟'' اُنھوں نے پاس بٹھا لیا۔ چائے منگوائی۔ انٹرویو کیا، جس کے بعد فیصلہ صادر کر دیا کہ وہ ادب کے آدمی ہیں، ایم ایس سی کا خیال ترک کر کے اردو میں ماسٹرز کرلیں۔ خود ہی فارم منگوایا۔ خود ہی بھرا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان ہیں۔ ماسٹرز کے زمانے میں اُن کی بھرپور راہ نمائی حاصل رہی۔ پی ایچ ڈی تھیسس کا موضوع ڈاکٹر صاحب ہی نے چُنا، مگر اس سے قبل شاگرد کا ٹھیک ٹھاک امتحان لیا۔ پہلے ابن خلدون کے مقدمے کی تلخیص کی ذمے داری سونپی، پھر حافظ ابن قیم کی چار جلدوں پر مشتمل کتاب پر تبصرہ لکھنے کا حکم صادر ہوگیا۔ اس سے نمٹے تو اگلی ذمے داری منتظر۔ چار ماہ یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب تحقیق کے لیے خوب تیار ہوگئے، تب موضوع سونپا گیا۔ ڈاکٹر نجم الاسلام اُن کے سپروائزر تھے۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن، سندھ پبلک سروس کمیشن، کیڈٹ کالج پٹارو اور اردو سائنس کالج؛ چاروں اداروں میں بہ یک وقت قسمت آزمائی۔ چاروں ہی سے بلاوا آگیا۔ چناؤ اردو سائنس کالج کا کیا کہ کراچی کے کتب خانے اپنی جانب کھینچتے تھے۔ 79ء میں اُس سے وابستہ ہوئے۔ 83ء میں جامعہ کراچی کا حصہ بن گئے۔ 2000 میں پروفیسر کا منصب سنبھالا۔ اُسی برس شعبۂ اردو کے چیئرمین ہوگئے۔ تین برس بعد پیرزادہ قاسم کی پیش کش پر اردو یونیورسٹی کا رخ کیا۔ وہاں ڈین رہے۔ جامعہ کراچی لوٹنے کے بعد مزید تین برس شعبۂ اردو کے صدر رہے۔ ڈین آف آرٹس کا منصب بھی سنبھالا۔ یکم فروری 2013 کو اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوگئے۔

اردو یونیورسٹی ایک نظریے کے تحت وجود میں آئی، اِسی مناسبت سے سوال کیا کہ عالم گیریت کے دور میں کیا سائنسی مضامین کی اردو میں تدریس ممکن ہے؟ اس ضمن میں کہتے ہیں،''میرے نزدیک تدریس کی زبان بہ ہر صورت اردو ہونی چاہیے، تاکہ طالب علم بات سمجھ لے۔ انگریزی کی اہمیت سے انکار نہیں، مگر سائنس، کامرس، آئی ٹی اور دیگر مضامین آپ اپنی مادری زبان میں پڑھ کر بہ آسانی بین الاقوامی دنیا سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں یہ تجربہ کام یاب رہا ہے۔ چین، جرمنی، فرانس، جاپان کی مثال ہماری ہے۔ میرا یقین ہے کہ تمام علوم اردو میں منتقل کیے بغیر ہماری ترقی کا امکان نہیں۔'' اردو پڑھنا اُن کے نزدیک، کسی طور گھاٹے کا سودا نہیں۔ صحافت کے میدان میں ملازمتوں کے بڑے امکانات ہیں۔ ہاں، اردو کے ماسٹرز پروگرام میں جدت لانے کی ضرورتہے۔دکھ ہے کہ اساتذہ بھی دیگر افراد کی طرح معاشی دوڑ میں لگ گئے، معاشرے کی تشکیل میں بھرپور کردار اد انہیںکرسکے۔ ''میں خود ایک استاد ہوں، اور سمجھتا ہوں کہ اساتذہ کو بھی احتساب کے دائرے میں آنا چاہیے۔''

ڈاکٹر صاحب ہر قسم کا لباس پہنتے ہیں۔ ماش کی دال سے رغبت ہے۔ سردی کا موسم بھاتا ہے۔ میر کے مداح ہیں۔ فکشن میں بیدی کا نام لیتے ہیں۔ ''حجتہ اﷲالبالغہ'' من پسند کتاب ہے۔ ''اس میں شاہ ولی اللہ نے انتہائی غور وفکر کے بعد نظام معیشت اور معاشرت مرتب کیا، جو تمام زمانوں کے لیے یک ساں کارگر ہے۔''کراچی یونیورسٹی میں تقرری زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ تھا۔ جب ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کا انتقال ہوا، گہرے کرب سے گزرے۔ 2005 میں شادی ہوئی۔ ایک بیٹا، تین بیٹیاں ہیں۔ مصروفیات کے باوجود گھر والوں کو بھرپور وقت دیتے ہیں۔ بچوں میں بھی مطالعے کا شوق منتقل ہوا۔
Load Next Story