مرزا شاہنواز آغا کا لیکچر اور آزادی مارچ آخری حصہ
کراچی کی وہ خاتون کیسے بھلائی جاسکتی ہے؟
LEVERKUSEN:
موجودہ حالات دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوگیا ہے کہ کسی بھی قسم کی مثبت تبدیلی کی امید رکھنا عبث ہے، آزادی مارچ میں تشدد کے مظاہردیکھنے میں آئے، ڈاکٹر یاسمین راشد اور دوسرے رہنماؤں کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا ،سب کو معلوم ہے وہ کینسر کی مریضہ ہیں لیکن باہمت خاتون ہیں، انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے انھوں نے عمر بسر کی ہے۔ حال ہی میں میڈیکل کے حوالے سے ایک پوسٹ میری نظر سے گزری۔ اسی سے چند سطور۔
'' ڈاکٹر یاسمین راشد کا نام میں نے 1985 میں سنا، بہت بڑی گائناکالوجسٹ ہیں، لیکن انھوں نے ایک اسپیشل کورس لندن اور امریکا سے کیا۔ ان بچوں کے بارے میں جن کے دنیا میں آنے میں وقت ہوتا ہے، ابتدائی ایام میں ایک ٹیکے کے ذریعے اس بچے کا خون ماں کے پیٹ سے لے کر ٹیسٹ کرلیا جاتا تھا کہ بچہ معذور یا تھیلسیمیا کا مریض تو نہیں ہے، ڈاکٹر یاسمین راشد کے پاس پاکستان بھر سے مریض آتے، لہٰذا ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ ان خواتین کا مفت سیمپل لیتیں اور مفت رہائش کے ساتھ کھانا، ریل یا بس کا کرایہ بھی دیتیں۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے علاج و معالجے اور انسانیت کی خدمت کے لیے تنظیم بنائی، پمفلٹ چھپوائے، مفت تقسیم کیے اور تھیلیسیما آگاہی مہم شروع کی۔'' جب کورس مکمل کیا، تو امریکی محکمہ ہیلتھ نے نوکری کی آفر کی، انکار پر ان کی ڈبل تنخواہ کردی گئی، مراعات بڑھا دیں لیکن انھوں نے امریکا سے ملنے والی سہولتیں اور ڈالرز کو محض اپنے ملک کی خدمت کے لیے ٹھوکر ماردی اور اپنے وطن چلی آئیں۔ ایسی قابل فخر مسیحا کے ساتھ یہ سلوک؟ آزادی مارچ میں خواتین کے ساتھ بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا گیا اسلام نے عورت کو عزت و مرتبہ عطا فرمایا ، لیکن یہاں پر عورت کی تذلیل کے کئی رنگ نظر آئے، عورتیں روتی پیٹتی فریاد کر رہی تھیں۔
کراچی کی وہ خاتون کیسے بھلائی جاسکتی ہے؟ جس نے تاریخ رقم کردی وہ اپنے نوزائیدہ بچے کو لے کر آزادی مارچ میں پہنچی تھی ایک بچہ آغوش میں تھا، دوسرا بچہ بھی جس کی عمر مشکل سے دو سال ہوگی وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ چلا آیا تھا۔ اینکر کے سوال پر اس خاتون نے جواب دیا کہ '' اگر اب نہیں نکلیں گے تو پھر کب؟'' اپنی نسلوں کی حفاظت کے لیے ہم باہر آئے ہیں۔ کاش لوگوں کے جوش و جذبے کو دیکھتے ہوئے اسی وقت الیکشن کا اعلان کروا دیا جاتا۔ کاش ایسا ہوتا، اب بھی ایسا ہو جائے پھر بار بار دھرنا دینے اور آزادی مارچ کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
عمران خان کا فیصلہ اچھا ہی نہیں بلکہ بہترین اور دانشورانہ تھا کہ انھوں نے حکومت کی طرف سے ہونے والی جارحیت کو دیکھتے ہوئے واپسی کا اعلان کر دیا۔ مارچ کے شرکا بھی اسی وطن کے تھے لیکن نفرت کے شعلے خوب ہوا دے رہے تھے، گویا یہ لوگ غیر ملکی ایجنٹ اور پاکستان پر چڑھائی کرنا چاہتے ہوں۔ اسلام نے عورتوں کو بے شمار حقوق سے نوازا ہے ، عزت و مرتبہ عطا کیا ورنہ طلوع اسلام سے قبل عورتوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔
رسالت مآب ﷺ کے دور کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ حضور پاکؐ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا تھا کہ قبیلہ (طی) کے بت خانے کو مسمار کردیا جائے تاکہ دین اسلام کا پرچم بلند ہو جائے لہٰذا حضرت علیؓ کی ماتحتی میں 150 سوار اس مقصد کے لیے مطلوبہ مقام پر پہنچے، بت خانے کو منہدم کیا، اونٹوں، بکریوں اور عورتوں کو گرفتار کرکے مدینے لے آئے، ان قیدی عورتوں میں حاتم طائی کی بیٹی بھی شامل تھی۔
حاتم طائی عہد جاہلیت کا شاعر اور بہت بڑا سخی تھا، اس کی سخاوت کی مثالیں زبان زد عام تھیں۔ حاتم طائی کی بیٹی سفانہ نے بارگاہ رسالتؐ میں عرض کیا کہ میں حاتم طائی کی بیٹی ہوں اور اس کی فیاضی کے قصے بیان کیے اور کہا کہ میرے باپ کا انتقال ہو گیا اور میرا بھائی عدی مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ رسول پاکؐ نے جب یہ سنا تو اسے آزاد کردیا اور ایک اونٹ بھی تحفتاً دیا۔ بعد میں دونوں بہن بھائی رسول پاکؐ کے حسن سلوک کو دیکھ کر مسلمان ہوگئے۔ حضرت عدیؓ کے حوالے سے کئی اہم واقعات تاریخ اسلام کا حصہ ہیں۔
آج کے مسلمان جن پیغمبر خدا رسول پاکؐ کے امتی ہیں، ان کا یہ حال ہے کہ اپنی عاقبت اور سیرت پاکؐ بھلا بیٹھے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا مکافات عمل کا نام ہے اور عروج کو زوال ہے، بڑی بڑی سلطنتیں بکھر جاتی ہیں، سلاطین کو چھپنے کے لیے جائے پناہ میسر نہیں آتی۔ انجام موت ہے، انسان خالی ہاتھ آیا ہے اور خالی ہاتھ ہی اسے جانا ہے۔
ایک حدیث پاکؐ کے مفہوم کے مطابق تمہارا مال و اسباب تمہارا نہیں ہے، تمہارے مرنے کے بعد دوسرے لوگ اسے استعمال کریں گے۔ پھر گناہ اپنے سر کیوں؟
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ
لیکن کسی کو واپسی کی پرواہ نہیں، جیسے دنیا سے جانا نہیں اور اقتدار سے ہٹنا نہیں۔
عوام کو حکمرانوں سے دشمنی ہرگز نہیں ہے، وہ اپنا تحفظ اور اپنے ادا کیے گئے ٹیکسوں کے جائز استعمال کے خواہش مند ہیں، وہ لانگ مارچ اور آزادی مارچ میں جوش و خروش سے اس لیے شرکت کرتے ہیں کہ انھیں وہ پاکستان چاہیے جو علامہ اقبال کی تعبیر اور قائد اعظم کی جہد مسلسل کا ثمر تھا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان سے خون کا رشتہ نہیں ہے، وہ جانتے ہیں عمران خان نے پاکستان اور پاکستانیوں کے تحفظ اور سالمیت کے لیے دن رات کام کیا ہے۔ پوری دنیا میں عمران خان کو ان کی سچائی اور اسلامی قوانین کے نفاذ کی کوششوں کے حوالے سے ایک شناخت ملی ہے۔ بے شک نیتوں کا حال اللہ جانتا ہے وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت۔
موجودہ حالات دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوگیا ہے کہ کسی بھی قسم کی مثبت تبدیلی کی امید رکھنا عبث ہے، آزادی مارچ میں تشدد کے مظاہردیکھنے میں آئے، ڈاکٹر یاسمین راشد اور دوسرے رہنماؤں کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا ،سب کو معلوم ہے وہ کینسر کی مریضہ ہیں لیکن باہمت خاتون ہیں، انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے انھوں نے عمر بسر کی ہے۔ حال ہی میں میڈیکل کے حوالے سے ایک پوسٹ میری نظر سے گزری۔ اسی سے چند سطور۔
'' ڈاکٹر یاسمین راشد کا نام میں نے 1985 میں سنا، بہت بڑی گائناکالوجسٹ ہیں، لیکن انھوں نے ایک اسپیشل کورس لندن اور امریکا سے کیا۔ ان بچوں کے بارے میں جن کے دنیا میں آنے میں وقت ہوتا ہے، ابتدائی ایام میں ایک ٹیکے کے ذریعے اس بچے کا خون ماں کے پیٹ سے لے کر ٹیسٹ کرلیا جاتا تھا کہ بچہ معذور یا تھیلسیمیا کا مریض تو نہیں ہے، ڈاکٹر یاسمین راشد کے پاس پاکستان بھر سے مریض آتے، لہٰذا ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ ان خواتین کا مفت سیمپل لیتیں اور مفت رہائش کے ساتھ کھانا، ریل یا بس کا کرایہ بھی دیتیں۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے علاج و معالجے اور انسانیت کی خدمت کے لیے تنظیم بنائی، پمفلٹ چھپوائے، مفت تقسیم کیے اور تھیلیسیما آگاہی مہم شروع کی۔'' جب کورس مکمل کیا، تو امریکی محکمہ ہیلتھ نے نوکری کی آفر کی، انکار پر ان کی ڈبل تنخواہ کردی گئی، مراعات بڑھا دیں لیکن انھوں نے امریکا سے ملنے والی سہولتیں اور ڈالرز کو محض اپنے ملک کی خدمت کے لیے ٹھوکر ماردی اور اپنے وطن چلی آئیں۔ ایسی قابل فخر مسیحا کے ساتھ یہ سلوک؟ آزادی مارچ میں خواتین کے ساتھ بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا گیا اسلام نے عورت کو عزت و مرتبہ عطا فرمایا ، لیکن یہاں پر عورت کی تذلیل کے کئی رنگ نظر آئے، عورتیں روتی پیٹتی فریاد کر رہی تھیں۔
کراچی کی وہ خاتون کیسے بھلائی جاسکتی ہے؟ جس نے تاریخ رقم کردی وہ اپنے نوزائیدہ بچے کو لے کر آزادی مارچ میں پہنچی تھی ایک بچہ آغوش میں تھا، دوسرا بچہ بھی جس کی عمر مشکل سے دو سال ہوگی وہ بھی اپنی ماں کے ساتھ چلا آیا تھا۔ اینکر کے سوال پر اس خاتون نے جواب دیا کہ '' اگر اب نہیں نکلیں گے تو پھر کب؟'' اپنی نسلوں کی حفاظت کے لیے ہم باہر آئے ہیں۔ کاش لوگوں کے جوش و جذبے کو دیکھتے ہوئے اسی وقت الیکشن کا اعلان کروا دیا جاتا۔ کاش ایسا ہوتا، اب بھی ایسا ہو جائے پھر بار بار دھرنا دینے اور آزادی مارچ کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
عمران خان کا فیصلہ اچھا ہی نہیں بلکہ بہترین اور دانشورانہ تھا کہ انھوں نے حکومت کی طرف سے ہونے والی جارحیت کو دیکھتے ہوئے واپسی کا اعلان کر دیا۔ مارچ کے شرکا بھی اسی وطن کے تھے لیکن نفرت کے شعلے خوب ہوا دے رہے تھے، گویا یہ لوگ غیر ملکی ایجنٹ اور پاکستان پر چڑھائی کرنا چاہتے ہوں۔ اسلام نے عورتوں کو بے شمار حقوق سے نوازا ہے ، عزت و مرتبہ عطا کیا ورنہ طلوع اسلام سے قبل عورتوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔
رسالت مآب ﷺ کے دور کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ حضور پاکؐ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا تھا کہ قبیلہ (طی) کے بت خانے کو مسمار کردیا جائے تاکہ دین اسلام کا پرچم بلند ہو جائے لہٰذا حضرت علیؓ کی ماتحتی میں 150 سوار اس مقصد کے لیے مطلوبہ مقام پر پہنچے، بت خانے کو منہدم کیا، اونٹوں، بکریوں اور عورتوں کو گرفتار کرکے مدینے لے آئے، ان قیدی عورتوں میں حاتم طائی کی بیٹی بھی شامل تھی۔
حاتم طائی عہد جاہلیت کا شاعر اور بہت بڑا سخی تھا، اس کی سخاوت کی مثالیں زبان زد عام تھیں۔ حاتم طائی کی بیٹی سفانہ نے بارگاہ رسالتؐ میں عرض کیا کہ میں حاتم طائی کی بیٹی ہوں اور اس کی فیاضی کے قصے بیان کیے اور کہا کہ میرے باپ کا انتقال ہو گیا اور میرا بھائی عدی مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ رسول پاکؐ نے جب یہ سنا تو اسے آزاد کردیا اور ایک اونٹ بھی تحفتاً دیا۔ بعد میں دونوں بہن بھائی رسول پاکؐ کے حسن سلوک کو دیکھ کر مسلمان ہوگئے۔ حضرت عدیؓ کے حوالے سے کئی اہم واقعات تاریخ اسلام کا حصہ ہیں۔
آج کے مسلمان جن پیغمبر خدا رسول پاکؐ کے امتی ہیں، ان کا یہ حال ہے کہ اپنی عاقبت اور سیرت پاکؐ بھلا بیٹھے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا مکافات عمل کا نام ہے اور عروج کو زوال ہے، بڑی بڑی سلطنتیں بکھر جاتی ہیں، سلاطین کو چھپنے کے لیے جائے پناہ میسر نہیں آتی۔ انجام موت ہے، انسان خالی ہاتھ آیا ہے اور خالی ہاتھ ہی اسے جانا ہے۔
ایک حدیث پاکؐ کے مفہوم کے مطابق تمہارا مال و اسباب تمہارا نہیں ہے، تمہارے مرنے کے بعد دوسرے لوگ اسے استعمال کریں گے۔ پھر گناہ اپنے سر کیوں؟
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ
لیکن کسی کو واپسی کی پرواہ نہیں، جیسے دنیا سے جانا نہیں اور اقتدار سے ہٹنا نہیں۔
عوام کو حکمرانوں سے دشمنی ہرگز نہیں ہے، وہ اپنا تحفظ اور اپنے ادا کیے گئے ٹیکسوں کے جائز استعمال کے خواہش مند ہیں، وہ لانگ مارچ اور آزادی مارچ میں جوش و خروش سے اس لیے شرکت کرتے ہیں کہ انھیں وہ پاکستان چاہیے جو علامہ اقبال کی تعبیر اور قائد اعظم کی جہد مسلسل کا ثمر تھا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان سے خون کا رشتہ نہیں ہے، وہ جانتے ہیں عمران خان نے پاکستان اور پاکستانیوں کے تحفظ اور سالمیت کے لیے دن رات کام کیا ہے۔ پوری دنیا میں عمران خان کو ان کی سچائی اور اسلامی قوانین کے نفاذ کی کوششوں کے حوالے سے ایک شناخت ملی ہے۔ بے شک نیتوں کا حال اللہ جانتا ہے وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت۔