سچ کا قتل کیونکر ممکن ہوتا ہے
دوست دوبارہ آجاتے ہیں ، وہ طعن و تشیع کے ساتھ انھیں بھگا دیتا ہے
جب سماج سے سچ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کا قتل عام کر دیا جائے اور ہر سچ کی ننگی اور ادھڑی لاش کے چاروں طرف جھوٹ کھڑے قہقہے لگا رہے ہوں اور سما ج میں زندہ بچے باقی سچ چھپتے پھررہے ہوں تو اس سے مختلف نتیجہ جو آج ہمارے سماج کا نکلا ہے ، مختلف کیسے ہوسکتا تھا۔
ہمارے سماج کے سار ے دکھوں نے ان ہی سچوں کی لاشوں کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور پھر ہم نے ہی 75سالوں میں ان ہی دکھوں کے بچوں کو جوان کیا ہے اب جب کہ ان دکھوں نے ہم پر اور ہمارے گھروں پر قبضہ کر لیا ہے تو پھر رونا کیسا ، دہائیاں کس بات پر ، گریہ کس لیے اور آہ و زاریاں کیوں۔ کیا آپ نے کبھی اس بات پر غورکیا ہے کہ سچ کا آزادانہ قتل کیوں کر ممکن ہوتا ہے ؟ آئیں ! آزادانہ سچ کے قتل کے محرکات اور پس منظر کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
روجر شیم نے ملکہ ایلزبتھ کے دربار میں جو لوگوں کا چلن تھا ان باتوں کو اس طرح نظم کیا ہے ''مکاری ، جھوٹ ، خوشامد، دیدہ دلیری یہ چار طریقے ہیں جن سے لوگ با توقیر ہوسکتے ہیں اگر تجھے ان میں سے کوئی نہیں آتا تو چل دے اورگھر بیٹھ۔'' جب ان چال چلن کا کسی دربار یا ایوان یا سماج یا پھر ملک میں غلبہ ہو جاتا ہے تو پھر آپ کو سچ کوکسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ آزادانہ قتل کرنے کی اجازت حاصل ہوجاتی ہے۔
شیکسپیئرکے ڈرامے اوتھیلو (1604) میں ایا گو برائی ، جھوٹ اور سازش کا نمایندہ ہے اور فتح مند رہتا ہے جب کہ ڈیسڈ یمونا نیکی ، ایمانداری اور وفا ہے اور وہ قتل ہوجاتی ہے۔ شیکسپیئر کے دوسرے ڈرامے '' میکبتھ '' میں قاتل زندگی پر بے رحم فیصلہ دیتا ہے کہ '' ناتواں شمع بجھ گئی ، زندگی محض ایک گریزاں سایہ ہے ۔ ایک لاچار سازندہ ، جو منڈپ پر اپنا مقررہ وقت پورا کرتا ہے اور پھر کبھی بھی اس کی آواز نہیں آتی ۔
یہ ایک کہانی ہے جو کسی احمق نے سنائی آواز اور غیض و غضب سے بھرپور ، جس کا کوئی بھی مطلب نہیں '' کیا زندگی کے متعلق کوئی اس سے زیادہ ترش رائے دی جاسکتی ہے؟ ہاں آیے ! ایتھنز کے ٹیموں کو یاد کرتے ہیں جو کبھی ایک بڑا لکھ پتی ہوا کرتا تھا اور ہر وقت خوشامدی دوستوں میں گھرا رہتا۔ دولت کھو جانے پر اس نے دیکھا کہ دوست رات بھر میں غائب ہوگئے ، وہ تہذیب کی گرد اپنے پاؤں سے چھٹک کر ایک جنگل کی کج تنہائی میں چلا جاتا اور وہاں امید کرتا ہے کہ '' نا مہربان ترین درندے بنی نوع انسان کی نسبت زیادہ مہربان ہونگے '' وہ خواہش کرتا ہے کہ کاش السی بیاد لیس ایک کتا ہوتا تاکہ میں کچھ پیار کر سکتا۔ وہ جڑیں کھا کرگزارہ کرتا ہے وہ مٹی کھودتا ہے اور سونا پاتا ہے۔
دوست دوبارہ آجاتے ہیں ، وہ طعن و تشیع کے ساتھ انھیں بھگا دیتا ہے ، لیکن جب فاحشائیں آتی ہیں تو اس شرط پر انھیں سار ا سونا دے دیتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مردوں کو جنسی بیماریاں لگائیں گی۔ نفرت کے سرور میں فطرت کو حکم دیتا ہے کہ انسانوں کی نسل کشی روک دے اور امید کرتا ہے کہ وحشی درندے تیزی سے تعداد میں بڑھ کر انسانی نسل کا صفایا کردیں گے۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے سماج میں ہر '' ایا گو '' ہمیشہ فتح مند رہتا ہے اور ہر '' ڈیسڈ یمونا روز قتل ہوجاتی ہے کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر اور اپنے ساتھ بد ترین سلوک پر ہزاروں نہیں کروڑوں انسان ایتھنزکے '' ٹیمون '' بن گئے ہیں۔ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کروڑوں انسان بوائلر بن گئے ہیں۔ کھولتے ، ابلتے بوائلر جو سب کچھ جلانے پرتلے بیٹھے ہیں۔ پہلے چینی فلسفی لاوزے جو روسو اور تھامس جیفرسن سے کوئی2300 سال پہلے گذرا ہے کہتا ہے '' فطرت میں تمام چیزیں خاموشی سے کام کرتی ہیں وہ بہت ہوتی اورکچھ بھی حاصل نہیں کرتیں۔
وہ کوئی بھی دعویٰ کیے بغیر اپنا فریضہ سر انجام دیتی ہیں ، تمام چیزیں ایک ہی انداز میں کام کرتی ہیں اور پھر ہم انھیں منتشر ہوتے دیکھتے ہیں ، ہر چیز اپنے عروج پر پہنچنے کے بعد ماخذ میں لوٹ جاتی ہے ، اپنے ماخذ کی طرف واپسی کا مطلب قسمت کا لکھا پورا کرنا ہے۔ یہ الٹا بہاؤ ایک ابدی قانون ہے جان لوکہ دانش ہی قانون ہے'' اس لیے جھوٹ کے محافظوں ، رکھوا لوں ، یاد رکھو الٹابہاؤ ایک ابدی قانون ہے ۔ تم جتنا چاہو جھوٹ کی حفاظت کرلو ایک نہ ایک دن تمہارے سارے پہرے جھوٹے ثابت ہو ہی جائیں گے اور سچ جی اٹھیں گے پھر تم دیکھو گے کہ کسی طرح سے ہزاروں سچ اپنی اپنی قبریں پھاڑ کر باہر زندہ نکل رہے ہوں گے اور پھر تم آگے آگے ہوگے اور سچ تمہارے پیچھے پیچھے ہوں گے ۔
تمہاری ساری محفوظ پناہ گاہیں جھوٹی ثابت ہوجائیں گی۔ پھر تمہیں چھپنے اور بچنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملے گی۔ یاد رکھنا سچ ہمیشہ سب سے بڑا انتقام لیتا ہے ، جو انسان اپنے رہنے والی زمین میں زہر بھرنا شروع کردیتے ہیں پھر کچھ ہی عرصے کے بعد زمین سے گندم ، سبزیاں نہیں بلکہ زہر کی فصلیں اگتی ہیں پھر زمین اور انسان دونوں ہی زہریلے ہوجاتے ہیں۔
یاد رہے زہر کسی کا دوست نہیں ہوتا نہ ہی اس کی آنکھیں ہوتی ہیں اور نہ ہی دل اور نہ ہی ذہن۔ وہ وہ ہی کام کرتا ہے جو وہ کر تا ہے۔ محلوں، ایوانوں اور قلعوں میں بند اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زہر سے محفوظ رہیں گے تو وہ اول درجے کے احمق اور بے وقوف ہیں۔
زہر اور زہریلے ان ان جگہوں سے ان کے محلوں ، ایوانوں اور قلعوں میں چپ چاپ داخل ہو جائیںگے جہاں سے ان کو کبھی کوئی امید نہیں ہوتی ۔ پھر وہ وہ ہی کام کریں گے جو وہ کرتے ہیں وہ ہر چیز بشمول انسانوں کو جلا کر راکھ کردیں گے ، اگر تم موجودہ حالات کو اپنی کامیابی وکامرانی سمجھتے ہو تو ذرا تاریخ میں محفوظ بادشاہ اشوک کا گریہ ضرور پڑھ لینا ، جب بادشاہ اشوک اپنے عظیم لشکر کے ساتھ ریاست کالنگا پر حملہ آور ہوا اور اسے تہس نہس کر دیا اور پھر طاقت کے نشے میں دھت اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے نکلا تو اس نے دیکھا کہ میدان میں دور دور تک ایک لاکھ سے زائد سپاہیوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں مردار خور گدھ ان پر اتر آئے ہیں بہت سے نیم مردہ ہیں کراہتے اور پانی مانگتے ہوئے۔
پڑوس کی بستیوں کی عورتیں آن پہنچی ہیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے پیاروں کو تلاش کررہی ہیں اور آہ و بکاکر رہی ہیں۔ کالنگا کے میدان میں اشوک نے دیکھا کہ فتح کا چہر ہ کتنا بھیانک ہے ، اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا وہ اپنے گھوڑے سے اترگیا اور اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا '' یہ میں نے کیا کردیا اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں ؟ یہ فتح ہے یا شکست یہ انصاف ہے یا ناانصافی ؟ یہ شجاعت ہے یا بزدلی ؟ کیا بچوں اور عورتوں کا قتل بہادری ہے؟
کیا میں نے یہ سب کچھ اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور دولت مند کرنے کے لیے کیا یا دوسری بادشاہت کی شان و شوکت کو غارت کرنے کے لیے ؟ کسی نے اپنا شوہرکھو دیا کسی نے اپنا باپ اور کسی نے اپنا بچہ اور کوئی بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی قتل ہوا۔ لاشوں کے یہ انبارکیا ہیں یہ فتح کے نشان ہیں یا شکست کے۔''
انسانوں کی بربادی کسی کی فتح نہیں ہوسکتی بلکہ یہ تمام حریفوں کی شکست ہوتی ہے، یہ تاریخ کا ابدی سبق ہے۔
ہمارے سماج کے سار ے دکھوں نے ان ہی سچوں کی لاشوں کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور پھر ہم نے ہی 75سالوں میں ان ہی دکھوں کے بچوں کو جوان کیا ہے اب جب کہ ان دکھوں نے ہم پر اور ہمارے گھروں پر قبضہ کر لیا ہے تو پھر رونا کیسا ، دہائیاں کس بات پر ، گریہ کس لیے اور آہ و زاریاں کیوں۔ کیا آپ نے کبھی اس بات پر غورکیا ہے کہ سچ کا آزادانہ قتل کیوں کر ممکن ہوتا ہے ؟ آئیں ! آزادانہ سچ کے قتل کے محرکات اور پس منظر کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
روجر شیم نے ملکہ ایلزبتھ کے دربار میں جو لوگوں کا چلن تھا ان باتوں کو اس طرح نظم کیا ہے ''مکاری ، جھوٹ ، خوشامد، دیدہ دلیری یہ چار طریقے ہیں جن سے لوگ با توقیر ہوسکتے ہیں اگر تجھے ان میں سے کوئی نہیں آتا تو چل دے اورگھر بیٹھ۔'' جب ان چال چلن کا کسی دربار یا ایوان یا سماج یا پھر ملک میں غلبہ ہو جاتا ہے تو پھر آپ کو سچ کوکسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ آزادانہ قتل کرنے کی اجازت حاصل ہوجاتی ہے۔
شیکسپیئرکے ڈرامے اوتھیلو (1604) میں ایا گو برائی ، جھوٹ اور سازش کا نمایندہ ہے اور فتح مند رہتا ہے جب کہ ڈیسڈ یمونا نیکی ، ایمانداری اور وفا ہے اور وہ قتل ہوجاتی ہے۔ شیکسپیئر کے دوسرے ڈرامے '' میکبتھ '' میں قاتل زندگی پر بے رحم فیصلہ دیتا ہے کہ '' ناتواں شمع بجھ گئی ، زندگی محض ایک گریزاں سایہ ہے ۔ ایک لاچار سازندہ ، جو منڈپ پر اپنا مقررہ وقت پورا کرتا ہے اور پھر کبھی بھی اس کی آواز نہیں آتی ۔
یہ ایک کہانی ہے جو کسی احمق نے سنائی آواز اور غیض و غضب سے بھرپور ، جس کا کوئی بھی مطلب نہیں '' کیا زندگی کے متعلق کوئی اس سے زیادہ ترش رائے دی جاسکتی ہے؟ ہاں آیے ! ایتھنز کے ٹیموں کو یاد کرتے ہیں جو کبھی ایک بڑا لکھ پتی ہوا کرتا تھا اور ہر وقت خوشامدی دوستوں میں گھرا رہتا۔ دولت کھو جانے پر اس نے دیکھا کہ دوست رات بھر میں غائب ہوگئے ، وہ تہذیب کی گرد اپنے پاؤں سے چھٹک کر ایک جنگل کی کج تنہائی میں چلا جاتا اور وہاں امید کرتا ہے کہ '' نا مہربان ترین درندے بنی نوع انسان کی نسبت زیادہ مہربان ہونگے '' وہ خواہش کرتا ہے کہ کاش السی بیاد لیس ایک کتا ہوتا تاکہ میں کچھ پیار کر سکتا۔ وہ جڑیں کھا کرگزارہ کرتا ہے وہ مٹی کھودتا ہے اور سونا پاتا ہے۔
دوست دوبارہ آجاتے ہیں ، وہ طعن و تشیع کے ساتھ انھیں بھگا دیتا ہے ، لیکن جب فاحشائیں آتی ہیں تو اس شرط پر انھیں سار ا سونا دے دیتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مردوں کو جنسی بیماریاں لگائیں گی۔ نفرت کے سرور میں فطرت کو حکم دیتا ہے کہ انسانوں کی نسل کشی روک دے اور امید کرتا ہے کہ وحشی درندے تیزی سے تعداد میں بڑھ کر انسانی نسل کا صفایا کردیں گے۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے سماج میں ہر '' ایا گو '' ہمیشہ فتح مند رہتا ہے اور ہر '' ڈیسڈ یمونا روز قتل ہوجاتی ہے کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر اور اپنے ساتھ بد ترین سلوک پر ہزاروں نہیں کروڑوں انسان ایتھنزکے '' ٹیمون '' بن گئے ہیں۔ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کروڑوں انسان بوائلر بن گئے ہیں۔ کھولتے ، ابلتے بوائلر جو سب کچھ جلانے پرتلے بیٹھے ہیں۔ پہلے چینی فلسفی لاوزے جو روسو اور تھامس جیفرسن سے کوئی2300 سال پہلے گذرا ہے کہتا ہے '' فطرت میں تمام چیزیں خاموشی سے کام کرتی ہیں وہ بہت ہوتی اورکچھ بھی حاصل نہیں کرتیں۔
وہ کوئی بھی دعویٰ کیے بغیر اپنا فریضہ سر انجام دیتی ہیں ، تمام چیزیں ایک ہی انداز میں کام کرتی ہیں اور پھر ہم انھیں منتشر ہوتے دیکھتے ہیں ، ہر چیز اپنے عروج پر پہنچنے کے بعد ماخذ میں لوٹ جاتی ہے ، اپنے ماخذ کی طرف واپسی کا مطلب قسمت کا لکھا پورا کرنا ہے۔ یہ الٹا بہاؤ ایک ابدی قانون ہے جان لوکہ دانش ہی قانون ہے'' اس لیے جھوٹ کے محافظوں ، رکھوا لوں ، یاد رکھو الٹابہاؤ ایک ابدی قانون ہے ۔ تم جتنا چاہو جھوٹ کی حفاظت کرلو ایک نہ ایک دن تمہارے سارے پہرے جھوٹے ثابت ہو ہی جائیں گے اور سچ جی اٹھیں گے پھر تم دیکھو گے کہ کسی طرح سے ہزاروں سچ اپنی اپنی قبریں پھاڑ کر باہر زندہ نکل رہے ہوں گے اور پھر تم آگے آگے ہوگے اور سچ تمہارے پیچھے پیچھے ہوں گے ۔
تمہاری ساری محفوظ پناہ گاہیں جھوٹی ثابت ہوجائیں گی۔ پھر تمہیں چھپنے اور بچنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملے گی۔ یاد رکھنا سچ ہمیشہ سب سے بڑا انتقام لیتا ہے ، جو انسان اپنے رہنے والی زمین میں زہر بھرنا شروع کردیتے ہیں پھر کچھ ہی عرصے کے بعد زمین سے گندم ، سبزیاں نہیں بلکہ زہر کی فصلیں اگتی ہیں پھر زمین اور انسان دونوں ہی زہریلے ہوجاتے ہیں۔
یاد رہے زہر کسی کا دوست نہیں ہوتا نہ ہی اس کی آنکھیں ہوتی ہیں اور نہ ہی دل اور نہ ہی ذہن۔ وہ وہ ہی کام کرتا ہے جو وہ کر تا ہے۔ محلوں، ایوانوں اور قلعوں میں بند اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زہر سے محفوظ رہیں گے تو وہ اول درجے کے احمق اور بے وقوف ہیں۔
زہر اور زہریلے ان ان جگہوں سے ان کے محلوں ، ایوانوں اور قلعوں میں چپ چاپ داخل ہو جائیںگے جہاں سے ان کو کبھی کوئی امید نہیں ہوتی ۔ پھر وہ وہ ہی کام کریں گے جو وہ کرتے ہیں وہ ہر چیز بشمول انسانوں کو جلا کر راکھ کردیں گے ، اگر تم موجودہ حالات کو اپنی کامیابی وکامرانی سمجھتے ہو تو ذرا تاریخ میں محفوظ بادشاہ اشوک کا گریہ ضرور پڑھ لینا ، جب بادشاہ اشوک اپنے عظیم لشکر کے ساتھ ریاست کالنگا پر حملہ آور ہوا اور اسے تہس نہس کر دیا اور پھر طاقت کے نشے میں دھت اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے نکلا تو اس نے دیکھا کہ میدان میں دور دور تک ایک لاکھ سے زائد سپاہیوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں مردار خور گدھ ان پر اتر آئے ہیں بہت سے نیم مردہ ہیں کراہتے اور پانی مانگتے ہوئے۔
پڑوس کی بستیوں کی عورتیں آن پہنچی ہیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے پیاروں کو تلاش کررہی ہیں اور آہ و بکاکر رہی ہیں۔ کالنگا کے میدان میں اشوک نے دیکھا کہ فتح کا چہر ہ کتنا بھیانک ہے ، اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا وہ اپنے گھوڑے سے اترگیا اور اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا '' یہ میں نے کیا کردیا اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں ؟ یہ فتح ہے یا شکست یہ انصاف ہے یا ناانصافی ؟ یہ شجاعت ہے یا بزدلی ؟ کیا بچوں اور عورتوں کا قتل بہادری ہے؟
کیا میں نے یہ سب کچھ اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور دولت مند کرنے کے لیے کیا یا دوسری بادشاہت کی شان و شوکت کو غارت کرنے کے لیے ؟ کسی نے اپنا شوہرکھو دیا کسی نے اپنا باپ اور کسی نے اپنا بچہ اور کوئی بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی قتل ہوا۔ لاشوں کے یہ انبارکیا ہیں یہ فتح کے نشان ہیں یا شکست کے۔''
انسانوں کی بربادی کسی کی فتح نہیں ہوسکتی بلکہ یہ تمام حریفوں کی شکست ہوتی ہے، یہ تاریخ کا ابدی سبق ہے۔