کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے…

کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے…

آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا، سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنے اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بیانیے میں امریکی سازش کے بعد تواتر سے تبدیلی آتی رہی اور اقتدار سے علیحدگی جو ایک آئینی عمل کے ذریعے وقوع پذیر ہوئی اس کے ڈانڈے ایک امریکی عہدیدار کی پاکستانی سفیر سے ہونے والی الوداعی ملاقات کے دوران تبادلہ خیال سے منسلک کردیے گئے تھے وہ ایک سفارتی معمول کی گفتگو تھی۔

جسے سفارتی ذمے داریوں کو محسوس کرتے ہوئے پاکستانی سفیر نے معمول کے مطابق بھیجے جانے والے مراسلوں کی طرح اپنی وزارت کو رپورٹ کیا تھا لیکن کمال ہوشیاری سے اسے سابق وزیر اعظم عمران کو ایک نیا زاویہ نگاہ دے کر سازشی بیانیے کے طور پر استعمال کرنے کا مشورہ دیا گیا اور 27 مارچ کے جلسے میں یہ سابق وزیر اعظم نے ایک ویسٹ کوٹ کی جیب سے ایک سفید کاغذ نکال کر جلسہ عام میں لہرایا کہ امریکی حکومت کی جانب سے انھیں دھمکی دی گئی ہے اور موجودہ حکومت اور ان کے دور کی حزب اختلاف امریکی ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے ان کی حکومت گرانے کی سازش کر رہی ہے اور اس موقع پر اداروں کو ان کا ساتھ دینا چاہیے۔

دوران حکومت عمران خان نے اپنی گڈ گورننس پر توجہ دینے کے بجائے اپنے مخالفین کو دھول چٹانے کے لیے ہر ممکنہ حد تک اقدامات کیے جس کے نتیجے میں دہائیوں کے سیاسی مخالفین نے خود کو ایک دوسرے کا دوست بنانے کا فیصلہ کرلیا اور اس طرح عمران خان کے دور حکومت میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک بڑا سیاسی اتحاد پی ڈی ایم کی شکل میں وجود پذیر ہوا ، جس کا صرف ایک نکاتی ایجنڈا تھا کہ عمران خان کو کس طرح گھر بھیجا جائے۔

اس ایک ایجنڈے کو غیر محسوس طریقے سے ان حکومتی غلطیوں نے تقویت بخشی کہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے یا عوامی معاملات کو بہتر بنانے کے بجائے ساری حکومتی مشینری اور وسائل مخالفین کو دیوار سے لگانے اور سیاسی مخالفین کو کچلنے کی کوششوں میں جھونک دیے، ایک طرف حکومتی بزرجمہر اقتدار کے نشے میں مدہوش ہوکر ذرایع ابلاغ کو اپنی لونڈی اور غلام سمجھتے ہوئے ''مستند ہے میرا فرمایا ہوا'' پر عمل پیرا تھے۔

دوسری جانب سابق صدر آصف زرداری حکومت مخالف قوتوں کے ساتھ ساتھ حکومت میں موجود اتحادی سیاسی جماعتوں سے جوڑ توڑ کے لیے کوشاں تھے اور سیاست میں ان کا مفاہمتی کردار اور وسیع القلبی کو سیاسی مخالفین بھی توقیر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آصف زرداری سے شدید ترین اختلاف رکھنے والے سیاستدان بھی اس بات کے ہمیشہ معترف رہتے ہیں کہ زرداری ایک وضع دار مخالف اور کھلے دوست ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر جب سندھ میں ریاست سے نفرت کا کھلا اظہار کیا جا رہا تھا تو زرداری کے ایک نعرے کے سبب ریاست اور پاکستان دونوں کی نظر میں ان کی وطن دوستی معتبر قرار پائی تھی وہ نعرہ تھا ''پاکستان کھپے'' یعنی ہمیں پاکستان چاہیے۔

یہی وہ نعرہ اور سیاسی حکمت عملی تھی جس نے زرداری کو ایک معتبر اور زیرک سیاستدان کا اعتبار بخشا اور اداروں سمیت اقتدار کی سمت جانے اور لے جانے والی تمام راہداریوں میں ان کی آواز کو اہمیت ملنے لگی اور آج بھی ملتی ہے۔ آصف زرداری کی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف سیاسی حکمت عملی وقت کے ساتھ مضبوط ہوتی چلی گئی جب کہ حکومت کے وزرا اور مشیروں نے عمران خان کو فقط خوش فہمیوں میں مبتلا رکھا کہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، چند وزرا اور مشیروں کے نرغے میں گھرے عمران خان اس بات سے بھی بے خبر ہی رہے کہ ان کی اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ارکان کی ایک معقول تعداد ان سے مختلف رائے رکھتی ہے۔

آصف زرداری کا چوہدری شجاعت اور ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی سمیت دیگر حکومتی اتحادیوں سے رابطہ اور سیاسی یقین دہانیاں جب مربوط شکل اختیار کرگئیں تو حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں جمع کرا دی گئی لیکن عمران خان کے مشیر انھیں پھر بھی مختلف مشور ہی دیتے رہے اور سابق وزیر اعظم اپنے بیانات میں اس بات پر زور دیتے رہے کہ وہ خوش ہیں کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے اور اسے ناکام بنادیں گے مگر چند دنوں میں یہ صورت حال واضح ہوگئی کہ اب پلوں کے نیچے سے پانی گزر چکا ہے اور صرف ریت باقی رہ گئی ہے۔ اس احساس نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو نئی حکمت عملی بنانے پر مجبور کیا کہ وہ عوام میں جائیں اور اپنے مخالفین اور پارٹی سے اختلاف رکھنے والے ارکان کو ہدف تنقید بنا کر لوگوں میں ان کے خلاف نفرت، غصہ اور اشتعال کے جذبات کو ابھاریں اور انھیں اس حکمت عملی میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی جس کے مناظر ہمیں ملک کے مختلف حصوں میں مختلف مقامات پر دیکھنے کو بھی ملے۔

عوامی اجتماعات اور جلسوں سے عوام کو تسلی نہیں ملتی کیونکہ جلسوں میں ایک صحافی یا کارکن شریک ہوتا ہے لیکن اصل عوام وہ ہیں جنھیں روز آٹے، دال، چاول، گھی، پٹرول سمیت اشیائے ضروریہ سے سابقہ رہتا ہے اور اس جانب گزشتہ ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی تھی۔

اس لیے عام آدمی اپنے معاشی مسائل سے ہی دوچار رہا، لہٰذا جلسوں کے باوجود حکومت اندر سے اپنی کمزوری کی طرف دیکھتی رہی لیکن ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق عمران خان نے بحیثیت وزیر اعظم اپنے اختیارات استعمال کرکے حکومت بچانے کے ہر ممکن اقدامات کیے جن میں اسپیکر اور قومی اسمبلی کے اختیارات بھی شامل ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے پیش ہو جانے کے باوجود غیر آئینی طور پر اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھی صدر مملکت کو بھیجی اور اس پر عمل بھی کردیا گیا لیکن اس غیر آئینی اقدام کو عدالت نے کالعدم کردیا اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے ایک واضح فیصلہ دے کر پاکستان میں آئین کی پامالی کا راستہ ہمیشہ کے لیے روک دیا اور کئی دہائیوں پاکستان میں جاری نظریہ ضرورت کو بھی دفن کردیا یوں ایک آئینی عمل کے ذریعے عمران خان کو 9 اپریل کی نصف اور 10 اپریل کے اوائل شب اقتدار سے محروم ہونا پڑگیا۔ اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے اجتماعی استعفوں کا اعلان کیا لیکن آئین اور قانون کے مطابق استعفے نہیں دیے جس کی وجہ سے آج بھی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو ان کے پارلیمنٹیرین ہونے کا استحقاق فراہم کیا جا رہا ہے۔


اقتدار سے علیحدگی کے بعد خان صاحب کا اگلا سفر الیکشن فوری کرانے کے مطالبے کے ساتھ عوام میں جانا تھا جس پر وہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے ملک کے طول و عرض میں جلسے کر رہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ الیکشن کی تاریخ کے اعلان تک اسلام آباد میں دھرنا دیں گے اور نگران سیٹ اپ کے قیام اور انتخابات کے اعلان تک دارالحکومت اسلام آباد میں ہی اپنے ساتھیوں کے ساتھ دھرنے پر بیٹھے رہیں گے۔ ملتان کے آخری جلسہ عام میں انھیں دھرنے کی تاریخ کا اعلان کرنا تھا جو بعد ازاں انھوں نے پشاور میں کور کمیٹی کے اجلاس سے مشروط کیا اور یوں 22مئی کو انھوں نے پشاور دھرنے کی کال دی کہ 25 مئی کو وہ اسلام آباد سری نگر ہائی وے پر پہنچیں گے۔ کارکن وہاں ان کا انتظار کریں۔ 25 مئی کو ان کا قافلہ پشاور سے نکلا اور وہ 26 مئی کی علی الصبح اسلام آباد میں داخل ہوئے تو ان کی منزل سری نگر ہائی وے کے بجائے اسلام آباد کا ڈی چوک تھا جہاں پہلے ان کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد پہنچ چکی تھی اور امن عامہ کی صورت حال پیدا ہو چکی تھی۔

عمران خان اسلام آباد پہنچے تو لوگوں کا خیال تھا کہ وہ دھرنا کریں گے اور ملک بھر سے ان کے کارکن دھرنے کے انتظامات کرکے آئے تھے لیکن 26 مئی کی صبح انھوں نے اپنے کنٹینر سے ہی ڈی چوک سے کچھ فاصلے پر وہاں موجود اپنے کارکنوں سے خطاب کیا اور کہا کہ وہ دھرنا نہیں دے رہے ہیں، بلکہ حکومت کو متنبہ کر رہے ہیں کہ وہ آنے والے 6دنوں میں نئے انتخابات کا اعلان کرے اور موجودہ اسمبلی تحلیل کرکے نئے نگران سیٹ اپ کے حوالے امور مملکت کردے۔ اگر حکومت نے ایسا نہ کیا تو وہ 6 دن بعد دوبارہ اسلام آباد آئیں گے اور دھرنا دیں گے اور نئے انتخابات کی تاریخ لے کر جائیں گے، لیکن الٹی میٹم والے چھ دن بھی گزرچکے ہیں۔ اس ساری صورت حال پر صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو دیکھا تو قطرۂ خون تک نہ نکلا

یا پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ

آئے بھی وہ گئے بھی وہ

ختم فسانہ ہو گیا

یا

''کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے۔''
Load Next Story