لانگ مارچ اور دھرنا کیوں نہ ہوسکا
کرکٹ میں تو نیوٹرل امپائر کو متعارف کروانے کادعویٰ تو بہت شدومد کے ساتھ کیاکرتے ہیں
گزشتہ ایک دہائی کی سیاست کو دیکھ کر خان صاحب کے بارے میں یہ تاثر قائم ہوگیاتھاکہ وہ حکومت سے زیادہ اپوزیشن بہت اچھی کرسکتے ہیں۔ اُنکے جلسے جلوسوں میں لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت اس تاثر کو مزید مستحکم بنانے میں بھی بہت اہم رہی ہے۔
شاید یہ وجہ تھی کہ اپنی حکومت کو جاتا دیکھ کر وہ یہ کہہ بھی چکے تھے کہ میں اگر حکومت سے باہر نکل آیا تواور بھی خطرناک بن جاؤں گا۔پی ڈی ایم کی تحریک کے زمانے میں وہ ایک سے زائد مرتبہ یہ دعویٰ بھی کرچکے تھے کہ مجھ سے زیادہ بڑالانگ مارچ اور دھرنا کوئی اورکرہی نہیں سکتا۔اُن کے اندر یہ خود اعتمادی کس وجہ سے پیداہوئی تھی وہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ 1996 سے لے کر 2011 تک کیوں کامیاب نہ ہوسکے۔
ایک جاذب نظر شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت جانے کا اعزاز تو اُن کے پاس اس وقت بھی تھا جب پندرہ سالوں تک وہ ایک کامیاب سیاستداں ہونے کی کوششوں میں تھے مگر وہ ایک دو سیٹوں سے زیادہ پر کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔یہ 2011 میں اچانک اُن کے اندر توانائی کیسے آگئی کہ وہ نہ صرف بڑے بڑے جلسے کرنے لگے بلکہ ایک مضبوط سیاسی پارٹی کے لیڈر کے طور پر پہچانے جانے لگے۔
چار حلقے کھولنے کا ایشو لے کر وہ سڑکوں پر نکل آئے اور ملک کی تاریخ کاطویل ترین دھرنابھی منعقد کربیٹھے۔یہ دھرناجس کی اصل طاقت اورقوت کے بارے میں سبھی کو پتاہے کہ وہ کن لوگوں کی مدد سے ارینج کیاگیاتھا اُسے یہاں دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔منہاج القرآن کے طالب علموں کے اہل خانہ افراد کے بغیر یہ دھرنا دودن سے زیادہ چلنے والا نہیںتھا۔ سب نے دیکھا جب علامہ طاہرالقادری وہاں سے چل دیے تو پھرباقی دنوں تک ڈی چوک پر سرشام صرف ایک میوزیکل کنسرٹ ہی ہوا کرتا تھا۔دن کے وقت تو وہاں صرف الّوبولاکرتے تھے۔
2018 کے انتخابات میں بھی خان صاحب کو جس طرح کامیابی دلائی گئی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اس لیے ہمارے یہاں جو یہ کہتے ہیں کہ خان صاحب کی کرشماتی شخصیت کی بدولت وہ آج ایک کامیاب سیاستداں تصورکیے جاتے ہیں، درست تجزیہ نہیں ہے۔ وہ ایک سیلیبریٹی اورکرشماتی شخصیت تو پہلے بھی تھے مگر پھر کیوںاتنے سالوں تک سیاست میں نام کمانے کے لیے صف اول کے سیاستدانوں میں شامل نہ ہو سکے۔اُن کا بطور ایک کامیاب اپوزیشن لیڈر کا پول بھی اب کھل کرعیاں ہوچکا ہے۔انھیں اب لگ پتاگیاہے کہ امپائر کو ساتھ ملائے بغیر وہ سیاسی میدان میں کچھ بھی نہیںکرسکتے ہیں۔
کرکٹ میں تو نیوٹرل امپائر کو متعارف کروانے کادعویٰ تو بہت شدومد کے ساتھ کیاکرتے ہیں لیکن سیاست میں امپائر کے نیوٹرل ہوجانے پروہ انتہائی برہم اورسیخ پاہوئے جارہے ہیں۔امپائر جب تک اُن کے ساتھ ساتھ کھیل رہاتھاوہ بہت خوش وخرم تھے لیکن وہ جب سے نیوٹرل ہواہے خان صاحب اُس پرطنزو تنقید کے نشتر چلائے جارہے ہیں۔کوئی تقریر اوربیان ایسا نہیں ہوتاجس میںوہ امپائر پر تنقید نہیں کرتے ہیں۔جس دن سے انھیں پتاچل گیاتھاکہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونے والے ہیں اس دن سے وہ کوئی نہ کوئی سازشی عنصر تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔
وہ امریکن سازش کابیانیہ لے کر آگئے ۔جس خط کو لے کروہ غلامی کے خلاف جدوجہد کرنے اورعوام کو ایک پھرپور جہاد کرنے پر اکسارہے ہیں وہ خط ابھی تک عوام کے سامنے بھی نہیںرکھاہے۔ یہ خط اگر ایک سفارتی دستاویز تھی تو پھر اُسے اس طرح سیاسی طور پراستعمال کرنا بھی سفارتی آداب کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔امریکن غلامی کے وہ کس قدر مخالف ہیں وہ اُن کی ساری زندگی سے ظاہر ہے۔تمام عمر انھوں نے کبھی بھی اس غلامی سے چھٹکارے کاسوچا بھی نہیں اورنہ ہی کبھی اپنے عوام کو اس بارے میں کوئی ترغیب دی۔ یہ27مارچ کو اُن کی سوچ میں اچانک یو ں کیسے تبدیلی آگئی جب اقتدار کی ریت کو اپنی مٹھی سے پھسلتے دیکھا۔اس سے پہلے سب کچھ ٹھیک تھا۔
سیاست میں رنگ اورپینترے جتنے انھوں نے بدلے ہیں کسی اورسیاستداں نے نہیں۔صاف ستھرے لوگوں پرمشتمل سیاسی پارٹی بنانے کے دعوے سے لے کر الیکٹبلزکو شامل کیے بغیر الیکشن میں کامیابی ناممکن ہے۔25 مئی کو انھوں نے ایک تاریخی لانگ مارچ کرنے اورڈی چوک پردھرنادینے کا جو پروگرام بنایا تھا وہ کیوں کامیاب نہ ہوسکا۔اس کاجواب تووہ خود ہی بہترانداز میں دے سکتے ہیں۔
لیکن اس ناکامی کے بعد بھی انھوں نے چھ دن کاجو الٹی میٹم دیاتھاوہ بھی پھس ہوچکاہے۔ اب وہ غلامی بھی یاد رہی اورنہ وہ جہاد ۔دس دنوں سے کے پی کے میں پناہ گزیں بننے والے بالاخر لوٹ کر بنی گالہ تشریف لے آئے۔اپنے دور میں پی ڈی ایم کی تحریک کی ناکامی پر تمسخر اُڑانے والوں کو شاید آج اس ناکامی کے پس پردہ عوامل کااندازہ بھی ہوگیاہوگا۔ اوراپنے بارے میں بھی یہ خوش فہمی ہوا ہوچکی ہوگی کہ میں جب چاہوں ساراملک جام کر سکتا ہوں۔ میرے جیسا کوئی مقبول لیڈر نہیں ہے۔
خان صاحب کو معلوم ہوناچاہیے کہ کسی طاقتور طبقہ سے ٹکر نہیں لینا چاہیے۔ 2011 میں جنھوں نے اُن کے اندر ہوابھری تھی انھوں نے ہی وہ ہوااب نکال دی ہے۔خالی خولی دھمکیاں اب کسی کام کی نہیں ہیں۔ آدمی جب آپے سے باہر ہوجائے تو قدرت خود اُس کاانتظام بھی کردیتی ہے۔ خان صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہواہے۔ جس طاقت کے زعم اورغرور میں وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لارہے تھے وہ طاقت اوراختیاربھی اُن کے ہاتھوں سے چلاگیاہے۔
خان صاحب جتنی جلدی یہ حقیقت تسلیم کرلیںگے اُن کے لیے بہتر ہوگا۔اب وہ اکیلے اورتنہا رہ گئے ہیں۔ انھیں شکر بجالانا چاہیے کہ امپائر ابھی صرف نیوٹرل ہی ہواہے۔ وہ اگر اُن کے مخالف کی سپورٹ اورمدد میں اُسی طرح چلاجاتاجس طرح وہ پہلے کبھی اُن کی اپنی حمایت میں رہا تھاپھرتو خان صاحب کے لیے مشکلات مزید پیدا ہو جاتیں۔ملک کواس وقت جس مالی بحران اورمشکلات کاسامنا ہے ایسے میں قوم کسی انتشار اورانارکی کے متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔
یہ حقیقت سارے ادارے اورحلقے بھی جانتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی نہ چاہتے ہوئے بھی اس نازک وقت میںحکومت کرنے کی ذمے داری محض اس لیے قبول کی ہے کہ ملک کودرپیش صورتحال تمام سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچنے کی متقاضی ہے۔ورنہ اس کے لیے صائب مشورہ تو یہی تھاکہ اس نازک صورتحال میں ہرگز یہ ذمے داری اپنے کاندھوں پرنہ لے۔ وہ اگر ایسا نہ کرتی توخدانخواستہ یہ ملک بھی آج ایک دوسراسری لنکا بن چکاہوتا۔مسلم لیگ (ن) پریہ شعر مکمل طور پرآج درست ثابت ہورہاہے۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیںکہ واجب بھی نہ تھے
شاید یہ وجہ تھی کہ اپنی حکومت کو جاتا دیکھ کر وہ یہ کہہ بھی چکے تھے کہ میں اگر حکومت سے باہر نکل آیا تواور بھی خطرناک بن جاؤں گا۔پی ڈی ایم کی تحریک کے زمانے میں وہ ایک سے زائد مرتبہ یہ دعویٰ بھی کرچکے تھے کہ مجھ سے زیادہ بڑالانگ مارچ اور دھرنا کوئی اورکرہی نہیں سکتا۔اُن کے اندر یہ خود اعتمادی کس وجہ سے پیداہوئی تھی وہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ 1996 سے لے کر 2011 تک کیوں کامیاب نہ ہوسکے۔
ایک جاذب نظر شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت جانے کا اعزاز تو اُن کے پاس اس وقت بھی تھا جب پندرہ سالوں تک وہ ایک کامیاب سیاستداں ہونے کی کوششوں میں تھے مگر وہ ایک دو سیٹوں سے زیادہ پر کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔یہ 2011 میں اچانک اُن کے اندر توانائی کیسے آگئی کہ وہ نہ صرف بڑے بڑے جلسے کرنے لگے بلکہ ایک مضبوط سیاسی پارٹی کے لیڈر کے طور پر پہچانے جانے لگے۔
چار حلقے کھولنے کا ایشو لے کر وہ سڑکوں پر نکل آئے اور ملک کی تاریخ کاطویل ترین دھرنابھی منعقد کربیٹھے۔یہ دھرناجس کی اصل طاقت اورقوت کے بارے میں سبھی کو پتاہے کہ وہ کن لوگوں کی مدد سے ارینج کیاگیاتھا اُسے یہاں دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔منہاج القرآن کے طالب علموں کے اہل خانہ افراد کے بغیر یہ دھرنا دودن سے زیادہ چلنے والا نہیںتھا۔ سب نے دیکھا جب علامہ طاہرالقادری وہاں سے چل دیے تو پھرباقی دنوں تک ڈی چوک پر سرشام صرف ایک میوزیکل کنسرٹ ہی ہوا کرتا تھا۔دن کے وقت تو وہاں صرف الّوبولاکرتے تھے۔
2018 کے انتخابات میں بھی خان صاحب کو جس طرح کامیابی دلائی گئی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اس لیے ہمارے یہاں جو یہ کہتے ہیں کہ خان صاحب کی کرشماتی شخصیت کی بدولت وہ آج ایک کامیاب سیاستداں تصورکیے جاتے ہیں، درست تجزیہ نہیں ہے۔ وہ ایک سیلیبریٹی اورکرشماتی شخصیت تو پہلے بھی تھے مگر پھر کیوںاتنے سالوں تک سیاست میں نام کمانے کے لیے صف اول کے سیاستدانوں میں شامل نہ ہو سکے۔اُن کا بطور ایک کامیاب اپوزیشن لیڈر کا پول بھی اب کھل کرعیاں ہوچکا ہے۔انھیں اب لگ پتاگیاہے کہ امپائر کو ساتھ ملائے بغیر وہ سیاسی میدان میں کچھ بھی نہیںکرسکتے ہیں۔
کرکٹ میں تو نیوٹرل امپائر کو متعارف کروانے کادعویٰ تو بہت شدومد کے ساتھ کیاکرتے ہیں لیکن سیاست میں امپائر کے نیوٹرل ہوجانے پروہ انتہائی برہم اورسیخ پاہوئے جارہے ہیں۔امپائر جب تک اُن کے ساتھ ساتھ کھیل رہاتھاوہ بہت خوش وخرم تھے لیکن وہ جب سے نیوٹرل ہواہے خان صاحب اُس پرطنزو تنقید کے نشتر چلائے جارہے ہیں۔کوئی تقریر اوربیان ایسا نہیں ہوتاجس میںوہ امپائر پر تنقید نہیں کرتے ہیں۔جس دن سے انھیں پتاچل گیاتھاکہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونے والے ہیں اس دن سے وہ کوئی نہ کوئی سازشی عنصر تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔
وہ امریکن سازش کابیانیہ لے کر آگئے ۔جس خط کو لے کروہ غلامی کے خلاف جدوجہد کرنے اورعوام کو ایک پھرپور جہاد کرنے پر اکسارہے ہیں وہ خط ابھی تک عوام کے سامنے بھی نہیںرکھاہے۔ یہ خط اگر ایک سفارتی دستاویز تھی تو پھر اُسے اس طرح سیاسی طور پراستعمال کرنا بھی سفارتی آداب کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔امریکن غلامی کے وہ کس قدر مخالف ہیں وہ اُن کی ساری زندگی سے ظاہر ہے۔تمام عمر انھوں نے کبھی بھی اس غلامی سے چھٹکارے کاسوچا بھی نہیں اورنہ ہی کبھی اپنے عوام کو اس بارے میں کوئی ترغیب دی۔ یہ27مارچ کو اُن کی سوچ میں اچانک یو ں کیسے تبدیلی آگئی جب اقتدار کی ریت کو اپنی مٹھی سے پھسلتے دیکھا۔اس سے پہلے سب کچھ ٹھیک تھا۔
سیاست میں رنگ اورپینترے جتنے انھوں نے بدلے ہیں کسی اورسیاستداں نے نہیں۔صاف ستھرے لوگوں پرمشتمل سیاسی پارٹی بنانے کے دعوے سے لے کر الیکٹبلزکو شامل کیے بغیر الیکشن میں کامیابی ناممکن ہے۔25 مئی کو انھوں نے ایک تاریخی لانگ مارچ کرنے اورڈی چوک پردھرنادینے کا جو پروگرام بنایا تھا وہ کیوں کامیاب نہ ہوسکا۔اس کاجواب تووہ خود ہی بہترانداز میں دے سکتے ہیں۔
لیکن اس ناکامی کے بعد بھی انھوں نے چھ دن کاجو الٹی میٹم دیاتھاوہ بھی پھس ہوچکاہے۔ اب وہ غلامی بھی یاد رہی اورنہ وہ جہاد ۔دس دنوں سے کے پی کے میں پناہ گزیں بننے والے بالاخر لوٹ کر بنی گالہ تشریف لے آئے۔اپنے دور میں پی ڈی ایم کی تحریک کی ناکامی پر تمسخر اُڑانے والوں کو شاید آج اس ناکامی کے پس پردہ عوامل کااندازہ بھی ہوگیاہوگا۔ اوراپنے بارے میں بھی یہ خوش فہمی ہوا ہوچکی ہوگی کہ میں جب چاہوں ساراملک جام کر سکتا ہوں۔ میرے جیسا کوئی مقبول لیڈر نہیں ہے۔
خان صاحب کو معلوم ہوناچاہیے کہ کسی طاقتور طبقہ سے ٹکر نہیں لینا چاہیے۔ 2011 میں جنھوں نے اُن کے اندر ہوابھری تھی انھوں نے ہی وہ ہوااب نکال دی ہے۔خالی خولی دھمکیاں اب کسی کام کی نہیں ہیں۔ آدمی جب آپے سے باہر ہوجائے تو قدرت خود اُس کاانتظام بھی کردیتی ہے۔ خان صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہواہے۔ جس طاقت کے زعم اورغرور میں وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لارہے تھے وہ طاقت اوراختیاربھی اُن کے ہاتھوں سے چلاگیاہے۔
خان صاحب جتنی جلدی یہ حقیقت تسلیم کرلیںگے اُن کے لیے بہتر ہوگا۔اب وہ اکیلے اورتنہا رہ گئے ہیں۔ انھیں شکر بجالانا چاہیے کہ امپائر ابھی صرف نیوٹرل ہی ہواہے۔ وہ اگر اُن کے مخالف کی سپورٹ اورمدد میں اُسی طرح چلاجاتاجس طرح وہ پہلے کبھی اُن کی اپنی حمایت میں رہا تھاپھرتو خان صاحب کے لیے مشکلات مزید پیدا ہو جاتیں۔ملک کواس وقت جس مالی بحران اورمشکلات کاسامنا ہے ایسے میں قوم کسی انتشار اورانارکی کے متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔
یہ حقیقت سارے ادارے اورحلقے بھی جانتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی نہ چاہتے ہوئے بھی اس نازک وقت میںحکومت کرنے کی ذمے داری محض اس لیے قبول کی ہے کہ ملک کودرپیش صورتحال تمام سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچنے کی متقاضی ہے۔ورنہ اس کے لیے صائب مشورہ تو یہی تھاکہ اس نازک صورتحال میں ہرگز یہ ذمے داری اپنے کاندھوں پرنہ لے۔ وہ اگر ایسا نہ کرتی توخدانخواستہ یہ ملک بھی آج ایک دوسراسری لنکا بن چکاہوتا۔مسلم لیگ (ن) پریہ شعر مکمل طور پرآج درست ثابت ہورہاہے۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیںکہ واجب بھی نہ تھے