الیکٹیڈ سلکٹیڈ امپورٹڈ
یہ سلسلہ جوالیکٹیڈ سے چلاتھا اورسلیکٹیڈسے ہوتا ہوا امپورٹڈ تک پہنچاہے
DIJKOT:
یہ سلسلہ جوالیکٹیڈ سے چلاتھا اورسلیکٹیڈسے ہوتاہواامپورٹڈتک پہنچاہے، ابھی اوربھی آگے جائے گا ،ریجیکٹیڈ،پروجیکٹیڈ، کنسٹرکٹیڈ اورنہ جانے کیسی کیسی حکومتیں آئیں گی کیوں کہ جب تک اس ملک کے ''یہی''عوام رہیں گے اوریہ ہی خاندانی لیڈررہیں گے ۔
تم شہر میں ہوتے ہوتوکیاغم جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازارسے جاکردل وجاں اور
حکومتوںکوبھی دل وجاں سمجھ لیجیے جو پاکستان کے بازار میں ہروقت بے شماردستیاب ہوتی ہیں اورکئی اقسام کوہم استعمال کرتے رہے ہیں یا ہم ان کو''یوز''کرتے رہتے ہیں لیکن اصل میں یہ صرف نام ہیں اس ملک میں ابتدائے آفرینش سے صرف حکومت کی ایک قسم مروج ہے اوروہ ہے ''سلکٹیڈ'' اوریہ سلیکشن کوئی آج کل کاعارضی معاملہ نہیں بلکہ یہ ملک ابھی پیدا بھی نہیں ہواتھا کہ حکومت کے لیے سلیکشن ہوگیا یاوہ خاندان سلیکٹ ہوگئے جوحکومت کرنے کے لیے ''کوالی فائی '' کرتے ہیں۔
ایک نظرئیے کے مطابق یہ ''سلیکشن'' بہت پرانے زمانے میں کہیں ہوئی تھی جب ڈاکو نے محافظ کاروپ دھارن کرلیا اورقہرخداکوظل الٰہی،دیوتا اوردیوتا زادے کارتبہ ملا تو اس کے گرد نکھٹوؤں کا ایک حلقہ قائم ہوگیا، یہ تعداد کے لحاظ سے ایک چھتے میں پندرہ بیس ہوتے ہیںجوملکہ کے حلقہ ارادت میں آرام سے بیٹھ کرشاہی خوراک کھاتے ہیں، جووہ بدبخت، تیرہ بخت خدامارے کارکن لاتے اورلے جاتے ہیں اورجو آندھی طوفان میں مزے سے دوسرے جانوروں کاکھاجا بنتے ہیں اورہمیشہ اتناہی کھاتے ہیں جتنے کی کام کرتے وقت ضرورت ہوتی ہے ۔
جب سے انسانی چھتے عرف معاشرے یانظام بنے ہیں ان میں بھی تب سے یہ مسئلہ رہا، وہی پندرہ فیصدنکھٹوہی ''سلیکٹڈ''رہتے ہیںچاہے ''چھتے'' کانام بادشاہت ہو،آمریت ہویاجمہوریت ہو۔ ہمارے ہاں جہاںتک ''تاریخ'' کی روشنی کام کرتی ہے کہ یہ نکھٹوؤں یاامرا یابندگان خاص حکومت نام کی چیزکے ساتھ ہی پیداہوناشروع ہوئے ہیں۔
غوریوں کے اپنے نکھٹوتھے، غزنویوں کے اپنے، مغلوں کے اپنے، سکھوں کے اپنے، انگریزوں کے اپنے اوراب ''آزاد'' مملکت کے اپنے ۔ چنانچہ جمہوریت کی تہمت لگنے کے باوجودیہ نکھٹوؤں کاطبقہ جواپنے آپ کو بڑی بے شرمی اورڈھٹائی سے ''اشرافیہ''ایلیٹ کلاس کہتاہے حالاں کہ کرتوتوں کے لحاظ سے اس کانام اس کے قطعی الٹ ہونا چاہے کہ ہراستحصال، برے اعمال اورشیطانی کمال اسی سے شروع ہوتے ہیں اوراسی میں جاری رہتے ہیں۔
اسے ''سلیکٹیڈ'' کہنا سب سے بہترین نام ہے کہ غوریوں سے لے کر موجودہ دورتک یہ سلیکٹڈ باری باری آتے ہیں نام بدل جاتے ہیں، خاندان بدل جاتے ہیں، طریقہ ہائے واردات بدل جاتے ہیں، جھوٹ کے لباس بدل جاتے ہیں، جسم بھی بدل جاتے ہیں، ملک بھی بدل جاتے ہیں،مذہب اورنظریات بھی بدل جاتے ہیں لیکن اندرکا''دیواستبداد'' وہی رہتا ہے۔
بری نہفتہ رخ ودیودرکرشمہ حسن
بسوزعقل زحیرت کہ این چہ بوالعجبی ست
یہی بوالعجبی تواس اشرافیہ یاان سلیکٹڈکا طرہ امتیازہے۔
بلکہ اسے ایک طرح سے وہی لٹیرے کہتے ہیں جو اگلے زمانوں میں ڈاکوبن کرآتے تھے، پھر اس نے سوچاکہ لوٹ کرچلے جانا ہی کیوں، کیوں کہ تب تک پچاسی فیصد خداماروں کادماغ،عدم استعمال کیوجہ سے زنگ کھاکھا کر بے کار ہوچکاتھا،چنانچہ لٹیرے نے ''گائے '' کوذبح کرکے کھانے کے بجائے دوہ کرکھانا شروع کیا اورابھی تک کھا رہا ہے۔
یہ ہرلحاظ سے ''سلیکٹیڈ'' ہوتے ہیں، جمہوریت کاڈھونگ رچایاجاتاہے، اس میں انتظام ہی ایسا رکھاگیاہے کہ ان ہی سلیکٹیڈ ہی میں سے ''سلیکٹیڈ'' ہی حکومت کرتے ہیں وہی سلیکٹیڈ خاندان میں جو سلیکٹیڈ تھے سلیکٹیڈہیں اوررہیں گے کہ سلیکٹ ہونے کی شرائط ہی اتنی کڑی ہیں کہ خدامارے یعنی عوام اس میں حصہ لینے کاسوچ بھی نہیں سکتے۔ سب سے پہلا مرحلہ تو ٹکٹ خریدنے کا ہوتا ہے جوکروڑوں میں ہوتا ہے اور اس کے بعد کے اخراجات اورپھر اس کے بعد یہ سارا خرچہ ڈبل ٹریپل کرکے وصولنا۔اس میں ''الیکشن'' یاجمہوریت کہاں سے آگئی۔
اب کے جوکھیل یا ڈرامہ ہواہے وہی جہاز وہی سواریاں ۔ڈوبتے جہازکے اسی سرے سے چل کردوسرے سرے پر چلی گئی اورجہازکا جھکاؤ اس طرف ہوگیا،اس طرف ہوں توصادق اور امین۔دوسری طرف ہوں توغدار۔
مطلب اس ساری کہانی کا یہ ہے کہ یہ ''الیکٹیڈ'' وغیرہ محض ایک ڈھونگ ہے حکومت اوراس کاحلقہ واردات ہمیشہ سلیکٹیڈ ہوتا ہے پہلے سلیکشن ہواہے اورپھر سلیکشن میں الیکشن کاڈرامہ رچایاجاتا ہے، رہے پچاسی فیصد خدا مارے کارکن مکھیاں ووٹ کا انڈا دینے والے تو ان کا تو نام ہی کالانعام ہے، اپنے زنگ خوردہ دماغوں کے ساتھ کالانعام ہی رہیں گے،آوازسن کر آوازدینے والے ۔اورنعروں سے بہلنے والے ۔
یہ سلسلہ جوالیکٹیڈ سے چلاتھا اورسلیکٹیڈسے ہوتاہواامپورٹڈتک پہنچاہے، ابھی اوربھی آگے جائے گا ،ریجیکٹیڈ،پروجیکٹیڈ، کنسٹرکٹیڈ اورنہ جانے کیسی کیسی حکومتیں آئیں گی کیوں کہ جب تک اس ملک کے ''یہی''عوام رہیں گے اوریہ ہی خاندانی لیڈررہیں گے ۔
تم شہر میں ہوتے ہوتوکیاغم جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازارسے جاکردل وجاں اور
حکومتوںکوبھی دل وجاں سمجھ لیجیے جو پاکستان کے بازار میں ہروقت بے شماردستیاب ہوتی ہیں اورکئی اقسام کوہم استعمال کرتے رہے ہیں یا ہم ان کو''یوز''کرتے رہتے ہیں لیکن اصل میں یہ صرف نام ہیں اس ملک میں ابتدائے آفرینش سے صرف حکومت کی ایک قسم مروج ہے اوروہ ہے ''سلکٹیڈ'' اوریہ سلیکشن کوئی آج کل کاعارضی معاملہ نہیں بلکہ یہ ملک ابھی پیدا بھی نہیں ہواتھا کہ حکومت کے لیے سلیکشن ہوگیا یاوہ خاندان سلیکٹ ہوگئے جوحکومت کرنے کے لیے ''کوالی فائی '' کرتے ہیں۔
ایک نظرئیے کے مطابق یہ ''سلیکشن'' بہت پرانے زمانے میں کہیں ہوئی تھی جب ڈاکو نے محافظ کاروپ دھارن کرلیا اورقہرخداکوظل الٰہی،دیوتا اوردیوتا زادے کارتبہ ملا تو اس کے گرد نکھٹوؤں کا ایک حلقہ قائم ہوگیا، یہ تعداد کے لحاظ سے ایک چھتے میں پندرہ بیس ہوتے ہیںجوملکہ کے حلقہ ارادت میں آرام سے بیٹھ کرشاہی خوراک کھاتے ہیں، جووہ بدبخت، تیرہ بخت خدامارے کارکن لاتے اورلے جاتے ہیں اورجو آندھی طوفان میں مزے سے دوسرے جانوروں کاکھاجا بنتے ہیں اورہمیشہ اتناہی کھاتے ہیں جتنے کی کام کرتے وقت ضرورت ہوتی ہے ۔
جب سے انسانی چھتے عرف معاشرے یانظام بنے ہیں ان میں بھی تب سے یہ مسئلہ رہا، وہی پندرہ فیصدنکھٹوہی ''سلیکٹڈ''رہتے ہیںچاہے ''چھتے'' کانام بادشاہت ہو،آمریت ہویاجمہوریت ہو۔ ہمارے ہاں جہاںتک ''تاریخ'' کی روشنی کام کرتی ہے کہ یہ نکھٹوؤں یاامرا یابندگان خاص حکومت نام کی چیزکے ساتھ ہی پیداہوناشروع ہوئے ہیں۔
غوریوں کے اپنے نکھٹوتھے، غزنویوں کے اپنے، مغلوں کے اپنے، سکھوں کے اپنے، انگریزوں کے اپنے اوراب ''آزاد'' مملکت کے اپنے ۔ چنانچہ جمہوریت کی تہمت لگنے کے باوجودیہ نکھٹوؤں کاطبقہ جواپنے آپ کو بڑی بے شرمی اورڈھٹائی سے ''اشرافیہ''ایلیٹ کلاس کہتاہے حالاں کہ کرتوتوں کے لحاظ سے اس کانام اس کے قطعی الٹ ہونا چاہے کہ ہراستحصال، برے اعمال اورشیطانی کمال اسی سے شروع ہوتے ہیں اوراسی میں جاری رہتے ہیں۔
اسے ''سلیکٹیڈ'' کہنا سب سے بہترین نام ہے کہ غوریوں سے لے کر موجودہ دورتک یہ سلیکٹڈ باری باری آتے ہیں نام بدل جاتے ہیں، خاندان بدل جاتے ہیں، طریقہ ہائے واردات بدل جاتے ہیں، جھوٹ کے لباس بدل جاتے ہیں، جسم بھی بدل جاتے ہیں، ملک بھی بدل جاتے ہیں،مذہب اورنظریات بھی بدل جاتے ہیں لیکن اندرکا''دیواستبداد'' وہی رہتا ہے۔
بری نہفتہ رخ ودیودرکرشمہ حسن
بسوزعقل زحیرت کہ این چہ بوالعجبی ست
یہی بوالعجبی تواس اشرافیہ یاان سلیکٹڈکا طرہ امتیازہے۔
بلکہ اسے ایک طرح سے وہی لٹیرے کہتے ہیں جو اگلے زمانوں میں ڈاکوبن کرآتے تھے، پھر اس نے سوچاکہ لوٹ کرچلے جانا ہی کیوں، کیوں کہ تب تک پچاسی فیصد خداماروں کادماغ،عدم استعمال کیوجہ سے زنگ کھاکھا کر بے کار ہوچکاتھا،چنانچہ لٹیرے نے ''گائے '' کوذبح کرکے کھانے کے بجائے دوہ کرکھانا شروع کیا اورابھی تک کھا رہا ہے۔
یہ ہرلحاظ سے ''سلیکٹیڈ'' ہوتے ہیں، جمہوریت کاڈھونگ رچایاجاتاہے، اس میں انتظام ہی ایسا رکھاگیاہے کہ ان ہی سلیکٹیڈ ہی میں سے ''سلیکٹیڈ'' ہی حکومت کرتے ہیں وہی سلیکٹیڈ خاندان میں جو سلیکٹیڈ تھے سلیکٹیڈہیں اوررہیں گے کہ سلیکٹ ہونے کی شرائط ہی اتنی کڑی ہیں کہ خدامارے یعنی عوام اس میں حصہ لینے کاسوچ بھی نہیں سکتے۔ سب سے پہلا مرحلہ تو ٹکٹ خریدنے کا ہوتا ہے جوکروڑوں میں ہوتا ہے اور اس کے بعد کے اخراجات اورپھر اس کے بعد یہ سارا خرچہ ڈبل ٹریپل کرکے وصولنا۔اس میں ''الیکشن'' یاجمہوریت کہاں سے آگئی۔
اب کے جوکھیل یا ڈرامہ ہواہے وہی جہاز وہی سواریاں ۔ڈوبتے جہازکے اسی سرے سے چل کردوسرے سرے پر چلی گئی اورجہازکا جھکاؤ اس طرف ہوگیا،اس طرف ہوں توصادق اور امین۔دوسری طرف ہوں توغدار۔
مطلب اس ساری کہانی کا یہ ہے کہ یہ ''الیکٹیڈ'' وغیرہ محض ایک ڈھونگ ہے حکومت اوراس کاحلقہ واردات ہمیشہ سلیکٹیڈ ہوتا ہے پہلے سلیکشن ہواہے اورپھر سلیکشن میں الیکشن کاڈرامہ رچایاجاتا ہے، رہے پچاسی فیصد خدا مارے کارکن مکھیاں ووٹ کا انڈا دینے والے تو ان کا تو نام ہی کالانعام ہے، اپنے زنگ خوردہ دماغوں کے ساتھ کالانعام ہی رہیں گے،آوازسن کر آوازدینے والے ۔اورنعروں سے بہلنے والے ۔